شام سے 27 ہزار بچوں کی محفوظ مقام پر منتقلی کے اقدامات کیئے جائیں اقوام متحدہ
ان بچوں میں زیادہ تر داعش اور دیگر انتہا پسند جماعتوں کے جنگوؤں کے بچے شامل ہیں
OTTAWA:
اقوام متحدہ کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ ولاديمير ورونکوف نے مطالبہ کیا ہے کہ شام سے 27 ہزار بچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ ميں محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ ولاديمير ورونکوف نے خبردار کیا ہے کہ جنگ زدہ شام میں معصوم بچوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بچوں کو ذہنی و نفسیاتی مسائل سے بچانے کی بھی ضرورت ہے۔
ولاديمير ورونکوف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ايک غير رسمی اجلاس سے خطاب میں مزید بتایا کہ شمال مشرقی شام ميں ملک کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ الحول میں اس وقت 62 ہزار سے زائد افراد پناہ ليے ہوئے ہيں جن ميں 27 ہزار نابالغ بچے ہيں۔
اقوام متحدہ کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ نے کہا کہ ان بچوں میں زيادہ تر داعش اور ديگر عسکریت پسند گروہوں کے جنگجوؤں کے بچے ہيں۔ اگر انہیں بہتر ماحول میسر نہیں ہوا تو يہ جنگجو گروپوں کے چنگل ميں پھنس سکتے ہيں۔
ولاديمير ورونکوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان بچوں کو دہشت گردوں کے بچوں کے بجائے متاثرين کے طور پر ديکھا جائے ورنہ ان بچوں کے بھی انتہا پسندی کی طرف جانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
اقوام متحدہ کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ ولاديمير ورونکوف نے مطالبہ کیا ہے کہ شام سے 27 ہزار بچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ ميں محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ ولاديمير ورونکوف نے خبردار کیا ہے کہ جنگ زدہ شام میں معصوم بچوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بچوں کو ذہنی و نفسیاتی مسائل سے بچانے کی بھی ضرورت ہے۔
ولاديمير ورونکوف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ايک غير رسمی اجلاس سے خطاب میں مزید بتایا کہ شمال مشرقی شام ميں ملک کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ الحول میں اس وقت 62 ہزار سے زائد افراد پناہ ليے ہوئے ہيں جن ميں 27 ہزار نابالغ بچے ہيں۔
اقوام متحدہ کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ نے کہا کہ ان بچوں میں زيادہ تر داعش اور ديگر عسکریت پسند گروہوں کے جنگجوؤں کے بچے ہيں۔ اگر انہیں بہتر ماحول میسر نہیں ہوا تو يہ جنگجو گروپوں کے چنگل ميں پھنس سکتے ہيں۔
ولاديمير ورونکوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان بچوں کو دہشت گردوں کے بچوں کے بجائے متاثرين کے طور پر ديکھا جائے ورنہ ان بچوں کے بھی انتہا پسندی کی طرف جانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔