عاصمہ جہانگیر یادکا جشن
سچ پوچھیے توآج تک اس بات پر شک ہوتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ہیں۔
یقین نہیں آتا کہ عاصمہ جہانگیرکو اس جہان سے گزرے تین برس گزرگئے۔ 11 فروری 2018 کی تاریخ تھی،جب مجھے دبئی میں یہ خبر ملی تھی اور یقین نہیں آیا تھا۔
سچ پوچھیے توآج تک اس بات پر شک ہوتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ وہ اپنے پیچھے مزاحمت اور سربلندی کی ایک ایسی شاندار روایت چھوڑگئی ہے جو اس کے بعد سیکڑوں عورتوں اور مردوں کو آمریت، سماجی ناانصافی اورظلم وبربریت کے خلاف آواز بلند کرنے اور جم کر لڑنے کا حوصلہ بخشتی ہے۔
60 کی دہائی کا تصورکیجیے، جنرل ایوب خان کا مارشل لا ہے۔ ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک چل رہی ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح اس کی قیادت کررہی ہیں۔ عوامی لیگ کو غدار قرار دیا جاچکا ہے، ایسے میں ایک شخص ہے جو طبقہ اعلیٰ سے تعلق رکھتا ہے لیکن جس کے دل میں غریبوں کا درد ہے، اس کا نام ملک غلام جیلانی ہے۔ وہ لاہور میں رہتا ہے اور بنگالی اسے اتنے ہی محبوب ہیں جتنے پنجابی یا پشتون۔ وہ بنگالیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر آوازۂ حق بلند کرتا ہے اور بنگالیوں کے جمہوری اور شہری حقوق کے لیے پلے کارڈ اٹھا کر تنہا لاہور شہر کے ایک چوک میں جا کھڑا ہوتا ہے۔
لوگ اس تنہا آدمی پر آوازے کستے ہیں، اسے غدارکہتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس نے 1958 کی فوجی آمریت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے اعلیٰ عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور عوامی لیگ کے شیخ مجیب کی گرفتاری اور اس وقت کے مشرقی پاکستان میں ہونے والی خونیں داستانِ ستم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، جیل جاتا ہے۔ اس کی باشعور اور نوعمر بیٹی یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ باپ نے اسے شہری آزادی کا اور جمہوری جدوجہد کا سبق گھر پر پڑھایا ہے۔ بیٹی دیکھ رہی ہے کہ کس طرح اس کے گھر پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے۔ ہدف اس کا باپ ہے لیکن اس حملے میں ایک صحافی جان سے گزر جاتا ہے جو ملک غلام جیلانی سے ملاقات کے لیے آیا تھا۔
بیٹی باپ کو جیل جاتے اور جیل سے آتے دیکھتی ہے اور اس کا دل پارہ پارہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے باپ کی رہائی چاہتی ہے۔ ایک وکیل ملک غلام جیلانی کی رہائی کے لیے کاغذات تیارکرتا ہے تو عاصمہ اسے بتاتی ہے کہ اس کی ماں کاغذات پر دستخط کے لیے موجود نہیں، وہ اس لڑکی کو دیکھتا ہے۔ اس کی عمر پوچھتا ہے اور جب وہ اسے بتاتی ہے کہ میری عمر 18 برس ہے تو وہ اسے کہتا ہے کہ اماں کے پاس ان کاغذات کو لے جانے کی ضرورت نہیں، تم بھی اس پر دستخط کرسکتی ہو۔ وہ وکالت نامے پر دستخط کردیتی ہے اور یہیں سے وہ لڑکی پاکستانی آسمان پر طلوع ہوتی ہے جو باپ کی آزادی کا مقدمہ لڑنے گئی تھی اور پاکستانی عوام اور دنیا کے مظلوموں کے حقوق کی وکیل بن گئی۔
عاصمہ جیلانی کیس پاکستان کی تاریخ میں ایک مثال بن گیا۔ عاصمہ نے کنیرڈ کالج سے بی اے کیا اور پھر وکالت پڑھنے میں جُٹ گئی۔ اس کا پہلا معرکہ 1969 میں پنجاب میں گورنر ہائوس کے دروازے پر ہوا جہاں وہ ایک احتجاجی جلوس لے کر گئی تھی۔ 1983 میں جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں اس نے ان 4 قوانین کے خلاف آواز بلند کی جو اسلام کے نام پر عوتوں کے حقوق غصب کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ وہ کبھی گھر میں نظر بند کی گئی،کبھی جیل بھیجی گئی۔ اس نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس میں آئی اے رحمان اور اس کی بہن حنا جیلانی اور کئی دوسرے دست راست تھے۔
سرہتھیلی پر رکھ کر عاصمہ، حنا، رحمان صاحب، شاہد عزیز صدیقی اور دوسروں نے پاکستان میں انسانی حقوق ، عورتوں، بچوں اور ہماری کچلی ہوئی اقلیتوں کے حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ سرہتھیلی پر رکھنا عاصمہ اور حنا کے لیے محاورہ نہیں حقیقت تھی۔ ایک نوجوان لڑکی سمیعہ سرور جو ان کے ادارے میں پناہ لیے ہوئے تھی، وہ حنا کی موجودگی میں اپنی ماں کے ہاتھوں قتل ہوئی اور اس کا گرم نوجوان لہو حنا اور عاصمہ کے دفتر میں بہا۔
عاصمہ نے جمہوری جدوجہد کا سبق 1972 میں اپنے والدکے مقدمے کے دوران لیا۔ بیرسٹر منظور قادر، ملک غلام جیلانی کا مقدمہ لڑرہے تھے۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا ہمارے گھر میں ہر وقت بنیادی حقوق اور بالغ حق رائے دہی کے بارے میں باتیں ہوتی تھیں،اس وقت ہم بچے تھے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ بالغ حق رائے دہی کس چڑیا کا نام ہے ۔ میںتو صرف یہ جانتی تھی کہ میرے والد اس کے لیے لڑ رہے ہیں۔
امی کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ابا جب گرفتار ہوتے اور جیل جاتے تو وہ کار بیچ دیتیں اور ہم لوگ تانگے میں سفر شروع کردیتے ۔ ہمارا گھرکرائے پر چڑھا دیا جاتا اور ہم نانا (مولانا صلاح الدین) کے گھر چلے جاتے جہاں ہم ڈریسنگ روم میں رہتے۔ انھوں نے اس نوجوان سے دھواں دھار عشق کیا جس کے گھرکی دیوار ان کے گھر سے ملی ہوئی تھی۔ عشق کامیاب ہوا اور وہ سسرال اور میکے کا لطف اکھٹے اٹھاتی رہیں ۔ تین بچوں کی ماں بنیں لیکن عوام سے اور غریب طبقات سے ان کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹا ۔ 1983میں ضیاء الحق کے دور میں انھیں جیل ہوئی۔2007 میں وہ گھر میں نظر بند بھی کی گئیں۔
پاکستانی اقلیتوں ، غریب اور بے آسرا عورتوں، بھٹہ مزدوروں اور غلام کسانوں کے حقوق کا مقدمہ انھوں نے ہمہ وقت لڑا ۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف ہمارے یہاں ایک نادرونایاب شے ہے ۔ انھوںنے ججوں کی بحالی کی تحریک میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ موت سے چند دن پہلے سپریم کورٹ میں ان کے دلائل کی گونج ہر طرف سنائی دی۔1983میں ویمن ایکشن فورم کی تشکیل میں ان کا بنیادی کردار تھا۔ شہلا ضیاء ، نگار احمد ، روبینہ سہگل ، نیلم حسین، فریدہ شہید، لالہ رخ، نگہت خان اور دوسری خواتین کے ساتھ مل کر انھوں نے جنرل ضیاء کے بنائے ہوئے سیاہ قوانین کے خلاف جم تم لڑائی لڑی ۔
عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی سے میرا گہرا تعلق تھا ۔ عاصمہ اور حنا کے ساتھ ہندوستان میں ہم نے 15دن ساتھ گزارے ۔ اس وقت مجھے وہ لمحے یاد آرہے ہیں جب ہم فتح پور سیکری میں حضرت سلیم چشتی کی درگاہ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ عاصمہ کے سر پر تنکوں کی ایک بڑی ٹوکری میں پھولوں کی ایک بڑی چادر تھی جوہم سب نے ملکر مزار پر چڑھائی تھی میں نے دونوں ملکوں کے بیچ امن قائم ہونے کی دعا کرائی تھی ۔ عاصمہ چلی گئیں، ان کے اور ہم سب کے بہت سے خواب ابھی تک ادھورے ہیں، ایک دن یہ خواب ضرور پورے ہوں گے۔ اس کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں۔ ''آپ کی گولیاں ختم ہوجائیں گی، میرا سفر ختم نہیں ہوگا۔''
عاصمہ کا سفر تمام ہوا، سیکڑوں اورہزاروں عورتوں اور مردوں نے اسے زمین کے سپرد کیا لیکن اس کا خواب ہماری فضائوں اور ہوائوں میں سانس لیتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے کہ ''ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا''
ہم عاصمہ کے چلے جانے کا غم نہیں مناتے، اس کی یاد کا جشن پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں منایا جاتا ہے۔ میں نے کملا حسین کو دیکھا جو دلی میں ہونے والی ایک محفل میں اسے یاد کررہی تھیں۔ اور ان کے وہ ساتھ جس جوش اور ولولے سے ان کے نام کو پکاررہے تھے، وہ واقعہ عاصمہ کا حق ہے۔
اس کے جانے کے بعد ہمارے یہاں جو حال ہوا ہے، اس کا نقشہ سکندر عقیل انصاری نے کچھ یوں کھینچا ہے:
زخم اب بھی لگائے جاتے ہیں
لوگ گھر سے اٹھائے جاتے ہیں
صنف نازک تو تھی ہی مشکل میں
ظلم کم سن پہ ڈھائے جاتے ہیں
راگ چھیڑے جو امن کا کوئی
حربیہ دف بجائے جاتے ہیں
اب کہاں کے حقوقِ انسانی
وہ تو انساں مٹائے جاتے ہیں
فکر ودانش کے سب دیے گھر کے
اہلِ ایماں بجھائے جاتے ہیں
ڈھونڈتے تھے قرار جو گھر میں
اب وہ صحرا میں پائے جاتے ہیں
سچ پوچھیے توآج تک اس بات پر شک ہوتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ وہ اپنے پیچھے مزاحمت اور سربلندی کی ایک ایسی شاندار روایت چھوڑگئی ہے جو اس کے بعد سیکڑوں عورتوں اور مردوں کو آمریت، سماجی ناانصافی اورظلم وبربریت کے خلاف آواز بلند کرنے اور جم کر لڑنے کا حوصلہ بخشتی ہے۔
60 کی دہائی کا تصورکیجیے، جنرل ایوب خان کا مارشل لا ہے۔ ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک چل رہی ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح اس کی قیادت کررہی ہیں۔ عوامی لیگ کو غدار قرار دیا جاچکا ہے، ایسے میں ایک شخص ہے جو طبقہ اعلیٰ سے تعلق رکھتا ہے لیکن جس کے دل میں غریبوں کا درد ہے، اس کا نام ملک غلام جیلانی ہے۔ وہ لاہور میں رہتا ہے اور بنگالی اسے اتنے ہی محبوب ہیں جتنے پنجابی یا پشتون۔ وہ بنگالیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر آوازۂ حق بلند کرتا ہے اور بنگالیوں کے جمہوری اور شہری حقوق کے لیے پلے کارڈ اٹھا کر تنہا لاہور شہر کے ایک چوک میں جا کھڑا ہوتا ہے۔
لوگ اس تنہا آدمی پر آوازے کستے ہیں، اسے غدارکہتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس نے 1958 کی فوجی آمریت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے اعلیٰ عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور عوامی لیگ کے شیخ مجیب کی گرفتاری اور اس وقت کے مشرقی پاکستان میں ہونے والی خونیں داستانِ ستم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، جیل جاتا ہے۔ اس کی باشعور اور نوعمر بیٹی یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ باپ نے اسے شہری آزادی کا اور جمہوری جدوجہد کا سبق گھر پر پڑھایا ہے۔ بیٹی دیکھ رہی ہے کہ کس طرح اس کے گھر پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے۔ ہدف اس کا باپ ہے لیکن اس حملے میں ایک صحافی جان سے گزر جاتا ہے جو ملک غلام جیلانی سے ملاقات کے لیے آیا تھا۔
بیٹی باپ کو جیل جاتے اور جیل سے آتے دیکھتی ہے اور اس کا دل پارہ پارہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے باپ کی رہائی چاہتی ہے۔ ایک وکیل ملک غلام جیلانی کی رہائی کے لیے کاغذات تیارکرتا ہے تو عاصمہ اسے بتاتی ہے کہ اس کی ماں کاغذات پر دستخط کے لیے موجود نہیں، وہ اس لڑکی کو دیکھتا ہے۔ اس کی عمر پوچھتا ہے اور جب وہ اسے بتاتی ہے کہ میری عمر 18 برس ہے تو وہ اسے کہتا ہے کہ اماں کے پاس ان کاغذات کو لے جانے کی ضرورت نہیں، تم بھی اس پر دستخط کرسکتی ہو۔ وہ وکالت نامے پر دستخط کردیتی ہے اور یہیں سے وہ لڑکی پاکستانی آسمان پر طلوع ہوتی ہے جو باپ کی آزادی کا مقدمہ لڑنے گئی تھی اور پاکستانی عوام اور دنیا کے مظلوموں کے حقوق کی وکیل بن گئی۔
عاصمہ جیلانی کیس پاکستان کی تاریخ میں ایک مثال بن گیا۔ عاصمہ نے کنیرڈ کالج سے بی اے کیا اور پھر وکالت پڑھنے میں جُٹ گئی۔ اس کا پہلا معرکہ 1969 میں پنجاب میں گورنر ہائوس کے دروازے پر ہوا جہاں وہ ایک احتجاجی جلوس لے کر گئی تھی۔ 1983 میں جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں اس نے ان 4 قوانین کے خلاف آواز بلند کی جو اسلام کے نام پر عوتوں کے حقوق غصب کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ وہ کبھی گھر میں نظر بند کی گئی،کبھی جیل بھیجی گئی۔ اس نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس میں آئی اے رحمان اور اس کی بہن حنا جیلانی اور کئی دوسرے دست راست تھے۔
سرہتھیلی پر رکھ کر عاصمہ، حنا، رحمان صاحب، شاہد عزیز صدیقی اور دوسروں نے پاکستان میں انسانی حقوق ، عورتوں، بچوں اور ہماری کچلی ہوئی اقلیتوں کے حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ سرہتھیلی پر رکھنا عاصمہ اور حنا کے لیے محاورہ نہیں حقیقت تھی۔ ایک نوجوان لڑکی سمیعہ سرور جو ان کے ادارے میں پناہ لیے ہوئے تھی، وہ حنا کی موجودگی میں اپنی ماں کے ہاتھوں قتل ہوئی اور اس کا گرم نوجوان لہو حنا اور عاصمہ کے دفتر میں بہا۔
عاصمہ نے جمہوری جدوجہد کا سبق 1972 میں اپنے والدکے مقدمے کے دوران لیا۔ بیرسٹر منظور قادر، ملک غلام جیلانی کا مقدمہ لڑرہے تھے۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا ہمارے گھر میں ہر وقت بنیادی حقوق اور بالغ حق رائے دہی کے بارے میں باتیں ہوتی تھیں،اس وقت ہم بچے تھے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ بالغ حق رائے دہی کس چڑیا کا نام ہے ۔ میںتو صرف یہ جانتی تھی کہ میرے والد اس کے لیے لڑ رہے ہیں۔
امی کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ابا جب گرفتار ہوتے اور جیل جاتے تو وہ کار بیچ دیتیں اور ہم لوگ تانگے میں سفر شروع کردیتے ۔ ہمارا گھرکرائے پر چڑھا دیا جاتا اور ہم نانا (مولانا صلاح الدین) کے گھر چلے جاتے جہاں ہم ڈریسنگ روم میں رہتے۔ انھوں نے اس نوجوان سے دھواں دھار عشق کیا جس کے گھرکی دیوار ان کے گھر سے ملی ہوئی تھی۔ عشق کامیاب ہوا اور وہ سسرال اور میکے کا لطف اکھٹے اٹھاتی رہیں ۔ تین بچوں کی ماں بنیں لیکن عوام سے اور غریب طبقات سے ان کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹا ۔ 1983میں ضیاء الحق کے دور میں انھیں جیل ہوئی۔2007 میں وہ گھر میں نظر بند بھی کی گئیں۔
پاکستانی اقلیتوں ، غریب اور بے آسرا عورتوں، بھٹہ مزدوروں اور غلام کسانوں کے حقوق کا مقدمہ انھوں نے ہمہ وقت لڑا ۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف ہمارے یہاں ایک نادرونایاب شے ہے ۔ انھوںنے ججوں کی بحالی کی تحریک میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ موت سے چند دن پہلے سپریم کورٹ میں ان کے دلائل کی گونج ہر طرف سنائی دی۔1983میں ویمن ایکشن فورم کی تشکیل میں ان کا بنیادی کردار تھا۔ شہلا ضیاء ، نگار احمد ، روبینہ سہگل ، نیلم حسین، فریدہ شہید، لالہ رخ، نگہت خان اور دوسری خواتین کے ساتھ مل کر انھوں نے جنرل ضیاء کے بنائے ہوئے سیاہ قوانین کے خلاف جم تم لڑائی لڑی ۔
عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی سے میرا گہرا تعلق تھا ۔ عاصمہ اور حنا کے ساتھ ہندوستان میں ہم نے 15دن ساتھ گزارے ۔ اس وقت مجھے وہ لمحے یاد آرہے ہیں جب ہم فتح پور سیکری میں حضرت سلیم چشتی کی درگاہ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ عاصمہ کے سر پر تنکوں کی ایک بڑی ٹوکری میں پھولوں کی ایک بڑی چادر تھی جوہم سب نے ملکر مزار پر چڑھائی تھی میں نے دونوں ملکوں کے بیچ امن قائم ہونے کی دعا کرائی تھی ۔ عاصمہ چلی گئیں، ان کے اور ہم سب کے بہت سے خواب ابھی تک ادھورے ہیں، ایک دن یہ خواب ضرور پورے ہوں گے۔ اس کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں۔ ''آپ کی گولیاں ختم ہوجائیں گی، میرا سفر ختم نہیں ہوگا۔''
عاصمہ کا سفر تمام ہوا، سیکڑوں اورہزاروں عورتوں اور مردوں نے اسے زمین کے سپرد کیا لیکن اس کا خواب ہماری فضائوں اور ہوائوں میں سانس لیتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے کہ ''ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا''
ہم عاصمہ کے چلے جانے کا غم نہیں مناتے، اس کی یاد کا جشن پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں منایا جاتا ہے۔ میں نے کملا حسین کو دیکھا جو دلی میں ہونے والی ایک محفل میں اسے یاد کررہی تھیں۔ اور ان کے وہ ساتھ جس جوش اور ولولے سے ان کے نام کو پکاررہے تھے، وہ واقعہ عاصمہ کا حق ہے۔
اس کے جانے کے بعد ہمارے یہاں جو حال ہوا ہے، اس کا نقشہ سکندر عقیل انصاری نے کچھ یوں کھینچا ہے:
زخم اب بھی لگائے جاتے ہیں
لوگ گھر سے اٹھائے جاتے ہیں
صنف نازک تو تھی ہی مشکل میں
ظلم کم سن پہ ڈھائے جاتے ہیں
راگ چھیڑے جو امن کا کوئی
حربیہ دف بجائے جاتے ہیں
اب کہاں کے حقوقِ انسانی
وہ تو انساں مٹائے جاتے ہیں
فکر ودانش کے سب دیے گھر کے
اہلِ ایماں بجھائے جاتے ہیں
ڈھونڈتے تھے قرار جو گھر میں
اب وہ صحرا میں پائے جاتے ہیں