بندہ مزدور
اوور ٹائم کی دگنی اجرت ادائیگی کو یقینی بنایا جائے
ایکسپورٹ سے متعلق ٹیکسٹائل اورگارمنٹس فیکٹریاں ملکی لیبر قوانین کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں۔ ان فیکٹریوں میں مزدور 21 ویں صدی میں بھی غلامی کی سی حالت میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ان فیکٹریوں میں مزدوروں سے قانون کے برخلاف جبری 200 گھنٹے ماہانہ سے زیادہ اوور ٹائم کرایا جاتا ہے اور اجرت بھی ادا نہیں کی جاتی۔ ملبوسات کے بڑے بین الاقوامی برانڈز اس عمل میں برابر کے شریک ہیں اور اپنے طرز عمل سے پاکستان کے یورپی یونین سے کیے گئے جی ایس پی پلس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
وہ بین الاقوامی مزدور تنظیموں سے کیے گئے گلوبل فریم ورک ایگریمنٹس کے تحت جن فیکٹریوں میں ان برانڈز کے لیے مصنوعات تیارکی جاتی ہیں، مزدوروں کو حقوق دینے سے انکاری ہیں۔ ان برانڈز کے لیے مال تیار کرنے والی فیکٹریوں میں خواتین مزدور بدستور ہر قسم مسائل کا شکار ہیں۔ ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو بلاجواز ملازمتوں سے برخاست کرنا معمول بن گیا ہے اور آواز اٹھانے پر فیکٹریوں کے پالے پوسے غنڈے تشدد کرتے ہیں۔ مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے ورکروں کو تحریری تقررنامہ جاری کیے جائیں۔
ورکرز کو سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی سے رجسٹرڈ کیا جائے اور انھیں ان اداروں کے کارڈ دیے جائیں۔ فیکٹریوں میں جاری غیر قانونی ٹھیکیداری نظام ختم کیا جائے، ٹھیکیداری نظام کو جاری رکھنے والی فیکٹریوں کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جائے۔ غیر ہنرمند اور ہنر مند مزدوروں کے لیے سرکاری طور پر اعلان کردہ اجرتوں کے موقف پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ مزدور عورتوں کو جبراً رات دیر تک روکنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ قانون کے مطابق 48 گھنٹے ماہانہ سے زیادہ اوور ٹائم کرنے پر مزدوروں کو مجبور نہ کیا جائے۔
اوور ٹائم کی دگنی اجرت ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ غیرقانونی برطرف مزدوروں کو بحال کیا جائے۔ قانونی چھٹیوں کے حق کو تسلیم کیا جائے اور چھٹی پر اجرتوں کی غیر قانونی کٹوتی ختم کی جائے۔ بونس کا اجرا یقینی بنایا جائے۔ محنت کشوں کا ہر قدم پر استحصال ہوتا آ رہا ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں رکشہ والے محنت کشوں کا برملا استحصال ہوتا ہے۔
کراچی میں 100 سے زیادہ مقامات سے رکشہ والے محنت کشوں سے نامعلوم افراد 120 روپے سے 400 روپے یومیہ بھتہ وصول کرتے ہیں۔ وہ انھیں ایک سادہ کاغذ پر نام نہاد مہر لگی ہوئی پرچی جس پر تاریخ اور نام نہاد دستخط ہوتے ہیں لیاقت آباد، قیوم آباد، ناگن چورنگی، یوپی موڑ، کورنگی کراسنگ، سرجانی ٹاؤن، کیماڑی، شیرشاہ، ناظم آباد، ماڑی پور اور بلدیہ ٹاؤن سمیت بے شمار مقامات پر یہ کام ہو رہا ہے روزانہ کروڑوں روپے کی کھلم کھلا رکشہ والوں سے بھتہ خوری کی جاتی ہے۔ یہ کام ہر علاقے کے تھانے والے سادہ لباس میں مخصوص لوگوں کے ذریعے رقم وصول کرتے ہیں۔ رکشہ والوں سے پوچھنے سے وہ کہتے ہیں کہ یہ جگہ انھوں نے خریدی ہے اس کی رقم لیتے ہیں۔
جب رکشے والوں کی نشان دہی پر کارندوں سے پتا کیا جاتا ہے تو وہ انکار کردیتے ہیں جب کہ پرچی دینے والے کہتے ہیں کہ وہ دور کھڑا شخص یہ سب کچھ کرواتا ہے۔ ان خطیر رقم کے حصے دار ٹریفک پولیس، علاقے کے تھانے دار اور ان کے لے پالک بدمعاش اور سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس والے وصول کرتے ہیں۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے مگر حکومت اور انتظامیہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ اس عمل سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ بھی اس بھتہ خوری میں شریک ہے۔
گزشتہ دنوں گارمنٹس اور ٹیکسٹائل کے مزدوروں نے بلال چورنگی، کورنگی انڈسٹریل ایریا میں اپنے مطالبات کے لیے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے زیر اہتمام دھرنا دیا۔ دھرنے میں مزدوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دیگر لوگوں کے علاوہ مزدور رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ مزدور رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صنعت کاروں نے فیکٹریوں اور کارخانوں کو مذبح خانوں میں تبدیل کردیا ہے جہاں مزدوروں کا معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے۔ فیکٹریوں میں لیبر قوانین کے تحت لازم ہے کہ مزدوروں کو تحریری تقرر نامے دیے جائیں لیکن 95 فیصد مزدور اس قانونی حق سے محروم ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اپنے تمام دیگر قانونی مراعات اور آئینی حقوق کا حصول بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
مزدور رہنماؤں نے مزید کہا کہ فیکٹریوں میں یونین سازی کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ ایک فیصد سے بھی کم اداروں میں مزدور اس حق سے مستفید ہو رہے ہیں۔ بڑے بڑے صنعتی اداروں میں سرکاری طور پر اعلان کردہ کم ازکم اجرت 17500 روپے ماہانہ جوکہ غیر ہنرمند ورکرز کو ادا نہیں کی جاتی جب کہ ہنرمند مزدوروں کے لیے اعلان کردہ اجرتوں کا حصول خواب ہی ہے۔ 95 فیصد ورکرز سوشل سیکیورٹی اور پنشن کے اداروں سے رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ قانونی طور پر مستقل نوعیت کے کام کے لیے مستقل ملازمت ضروری ہے لیکن ملکی و بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹھیکیداری کو مسلط کردیا گیا ہے۔ ٹھیکیداری نظام کو غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔
اسی طرح ٹیکس ہو، مہنگائی ہو یا بجلی محنت کشوں پر ہی گرتی ہے بجلی کے نرخوں میں آئے روز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔اس پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کہتے ہیں کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہ کریں تو قرضوں کا بوجھ بڑھتا جائے گا۔ کیا کھربوں روپے غیر پیداواری اخراجات میں استعمال ہونے کو روک کر قرضے کا بوجھ ختم نہیں کیا جاسکتا؟ ملک کے بیشتر شہروں سے وصول کیے جانے والے کالے دھن کو روک کر بھی عوام کی پریشانیوں میں کمی کی جا سکتی ہے۔ ہوا اور شمسی توانائی کو بجلی کی توانائی میں بدلا جاسکتا ہے۔
آج کل محنت کشوں کے مسائل پر حکمران (حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے) کوئی توجہ نہیں۔ وہ صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی میں لگے رہتے ہیں۔ اگر یہ الزام درست ہوئے تو اس دور میں عوام کے سامنے دونوں بے نقاب ہو رہے ہیں کہ انھوں نے کس طرح عوام کو لوٹا اور لوٹ رہے ہیں۔ (ن) لیگ کے دور میں بجلی کے (لاسز) گھاٹے 18 فیصد اور اب 19 فیصد ہو گئے ہیں۔ اس طرح سے 200 ارب ڈالر کا ٹیکا عوام کو لگایا گیا۔ دنیا کے ہر گوشے پر مزدوروں کے ساتھ ہی سب سے زیادہ زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ چین میں زیر زمین پھنسے 11 کان کنان جنھیں نکال تو لیا گیا لیکن ان کی حالت تشویش ناک ہے اور اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ جب کہ اب بھی 10 کان کنان کان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
بے روزگاری سے تنگ آکر پاکستان میں سالانہ 40 ہزار نوجوان مزدور اور طلبا نشے کے عادی بنتے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 350 ملین افراد کو اس دنیا میں خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ کورونا کے باعث 140 ملین افرد غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے ہیں۔ متاثرین کی تعداد سب سے زیادہ جنوبی ایشیا میں ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے دنیا بھر کے محنت کشوں کو متحدہ لڑائی کی ضرورت ہے۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ممکن ہے۔
وہ بین الاقوامی مزدور تنظیموں سے کیے گئے گلوبل فریم ورک ایگریمنٹس کے تحت جن فیکٹریوں میں ان برانڈز کے لیے مصنوعات تیارکی جاتی ہیں، مزدوروں کو حقوق دینے سے انکاری ہیں۔ ان برانڈز کے لیے مال تیار کرنے والی فیکٹریوں میں خواتین مزدور بدستور ہر قسم مسائل کا شکار ہیں۔ ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو بلاجواز ملازمتوں سے برخاست کرنا معمول بن گیا ہے اور آواز اٹھانے پر فیکٹریوں کے پالے پوسے غنڈے تشدد کرتے ہیں۔ مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے ورکروں کو تحریری تقررنامہ جاری کیے جائیں۔
ورکرز کو سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی سے رجسٹرڈ کیا جائے اور انھیں ان اداروں کے کارڈ دیے جائیں۔ فیکٹریوں میں جاری غیر قانونی ٹھیکیداری نظام ختم کیا جائے، ٹھیکیداری نظام کو جاری رکھنے والی فیکٹریوں کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جائے۔ غیر ہنرمند اور ہنر مند مزدوروں کے لیے سرکاری طور پر اعلان کردہ اجرتوں کے موقف پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ مزدور عورتوں کو جبراً رات دیر تک روکنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ قانون کے مطابق 48 گھنٹے ماہانہ سے زیادہ اوور ٹائم کرنے پر مزدوروں کو مجبور نہ کیا جائے۔
اوور ٹائم کی دگنی اجرت ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ غیرقانونی برطرف مزدوروں کو بحال کیا جائے۔ قانونی چھٹیوں کے حق کو تسلیم کیا جائے اور چھٹی پر اجرتوں کی غیر قانونی کٹوتی ختم کی جائے۔ بونس کا اجرا یقینی بنایا جائے۔ محنت کشوں کا ہر قدم پر استحصال ہوتا آ رہا ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں رکشہ والے محنت کشوں کا برملا استحصال ہوتا ہے۔
کراچی میں 100 سے زیادہ مقامات سے رکشہ والے محنت کشوں سے نامعلوم افراد 120 روپے سے 400 روپے یومیہ بھتہ وصول کرتے ہیں۔ وہ انھیں ایک سادہ کاغذ پر نام نہاد مہر لگی ہوئی پرچی جس پر تاریخ اور نام نہاد دستخط ہوتے ہیں لیاقت آباد، قیوم آباد، ناگن چورنگی، یوپی موڑ، کورنگی کراسنگ، سرجانی ٹاؤن، کیماڑی، شیرشاہ، ناظم آباد، ماڑی پور اور بلدیہ ٹاؤن سمیت بے شمار مقامات پر یہ کام ہو رہا ہے روزانہ کروڑوں روپے کی کھلم کھلا رکشہ والوں سے بھتہ خوری کی جاتی ہے۔ یہ کام ہر علاقے کے تھانے والے سادہ لباس میں مخصوص لوگوں کے ذریعے رقم وصول کرتے ہیں۔ رکشہ والوں سے پوچھنے سے وہ کہتے ہیں کہ یہ جگہ انھوں نے خریدی ہے اس کی رقم لیتے ہیں۔
جب رکشے والوں کی نشان دہی پر کارندوں سے پتا کیا جاتا ہے تو وہ انکار کردیتے ہیں جب کہ پرچی دینے والے کہتے ہیں کہ وہ دور کھڑا شخص یہ سب کچھ کرواتا ہے۔ ان خطیر رقم کے حصے دار ٹریفک پولیس، علاقے کے تھانے دار اور ان کے لے پالک بدمعاش اور سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس والے وصول کرتے ہیں۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے مگر حکومت اور انتظامیہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ اس عمل سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ بھی اس بھتہ خوری میں شریک ہے۔
گزشتہ دنوں گارمنٹس اور ٹیکسٹائل کے مزدوروں نے بلال چورنگی، کورنگی انڈسٹریل ایریا میں اپنے مطالبات کے لیے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے زیر اہتمام دھرنا دیا۔ دھرنے میں مزدوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دیگر لوگوں کے علاوہ مزدور رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ مزدور رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صنعت کاروں نے فیکٹریوں اور کارخانوں کو مذبح خانوں میں تبدیل کردیا ہے جہاں مزدوروں کا معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے۔ فیکٹریوں میں لیبر قوانین کے تحت لازم ہے کہ مزدوروں کو تحریری تقرر نامے دیے جائیں لیکن 95 فیصد مزدور اس قانونی حق سے محروم ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اپنے تمام دیگر قانونی مراعات اور آئینی حقوق کا حصول بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
مزدور رہنماؤں نے مزید کہا کہ فیکٹریوں میں یونین سازی کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ ایک فیصد سے بھی کم اداروں میں مزدور اس حق سے مستفید ہو رہے ہیں۔ بڑے بڑے صنعتی اداروں میں سرکاری طور پر اعلان کردہ کم ازکم اجرت 17500 روپے ماہانہ جوکہ غیر ہنرمند ورکرز کو ادا نہیں کی جاتی جب کہ ہنرمند مزدوروں کے لیے اعلان کردہ اجرتوں کا حصول خواب ہی ہے۔ 95 فیصد ورکرز سوشل سیکیورٹی اور پنشن کے اداروں سے رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ قانونی طور پر مستقل نوعیت کے کام کے لیے مستقل ملازمت ضروری ہے لیکن ملکی و بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹھیکیداری کو مسلط کردیا گیا ہے۔ ٹھیکیداری نظام کو غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔
اسی طرح ٹیکس ہو، مہنگائی ہو یا بجلی محنت کشوں پر ہی گرتی ہے بجلی کے نرخوں میں آئے روز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔اس پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کہتے ہیں کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہ کریں تو قرضوں کا بوجھ بڑھتا جائے گا۔ کیا کھربوں روپے غیر پیداواری اخراجات میں استعمال ہونے کو روک کر قرضے کا بوجھ ختم نہیں کیا جاسکتا؟ ملک کے بیشتر شہروں سے وصول کیے جانے والے کالے دھن کو روک کر بھی عوام کی پریشانیوں میں کمی کی جا سکتی ہے۔ ہوا اور شمسی توانائی کو بجلی کی توانائی میں بدلا جاسکتا ہے۔
آج کل محنت کشوں کے مسائل پر حکمران (حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے) کوئی توجہ نہیں۔ وہ صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی میں لگے رہتے ہیں۔ اگر یہ الزام درست ہوئے تو اس دور میں عوام کے سامنے دونوں بے نقاب ہو رہے ہیں کہ انھوں نے کس طرح عوام کو لوٹا اور لوٹ رہے ہیں۔ (ن) لیگ کے دور میں بجلی کے (لاسز) گھاٹے 18 فیصد اور اب 19 فیصد ہو گئے ہیں۔ اس طرح سے 200 ارب ڈالر کا ٹیکا عوام کو لگایا گیا۔ دنیا کے ہر گوشے پر مزدوروں کے ساتھ ہی سب سے زیادہ زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ چین میں زیر زمین پھنسے 11 کان کنان جنھیں نکال تو لیا گیا لیکن ان کی حالت تشویش ناک ہے اور اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ جب کہ اب بھی 10 کان کنان کان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
بے روزگاری سے تنگ آکر پاکستان میں سالانہ 40 ہزار نوجوان مزدور اور طلبا نشے کے عادی بنتے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 350 ملین افراد کو اس دنیا میں خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ کورونا کے باعث 140 ملین افرد غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے ہیں۔ متاثرین کی تعداد سب سے زیادہ جنوبی ایشیا میں ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے دنیا بھر کے محنت کشوں کو متحدہ لڑائی کی ضرورت ہے۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ممکن ہے۔