ایچ آئی وی کی عام دوا نابینا پن روکنے میں بھی مددگار
این آرٹی آئی اقسام کے دوائیں ایڈز میں دی جاتی ہیں جو آنکھوں میں ڈی ایم ڈی سے نابینا پن روک سکتی ہیں
لاہور:
ایچ آئی وی اور ایڈز میں دی جانے والی ایک عام دوا انسانوں میں اندھے پن کی بہت عام کیفیت روکنے میں بھی مددگار ثابت ہوئی ہے۔
لیکن اس دریافت کا ایک اور زبردست پہلو یہ ہے کہ اس نے ڈی این اے کے متعلق ہماری بنیادی معلومات کو بھی چیلنج کردیا ہے۔
یہ دوا نیوکلیوسائڈ ریورس ٹرانسکرپٹیز انہبیٹرز یا مختصراً این آر ٹی آئی کہلاتی ہے جنہیں ایچ آئی وی کے علاج میں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ یہی دوا آنکھ کی ایک بیماری، ڈرائی میکیولر ڈی جنریشن (ڈی ایم ڈی) کو روک سکتی ہے جو خطرناک نابیناپن کی وجہ بن رہی ہے۔
اس ضمن میں صحت کی انشورنش کا ڈیٹا بیس دیکھا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے جن لوگوں نے این آر ٹی آئی استعمال کی تھی ان میں آنکھ کی اس بیماری کا خطرہ بہت کم دیکھا گیا تھا۔ اس وقت بھی ڈرائی میکیولر ڈی جنریشن پاکستان سمیت دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کی بصارت ہر سال سلب کررہی ہے۔
یونیورسٹی آف ورجینیا اسکول آف میڈیسن میں آنکھوں کے امراض کے ماہر جیاکرشنا امباتی کہتےہیں کہ ہم نے دسیوں لاکھوں مریضوں کا ڈیٹا بیس دیکھا ہے۔ اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ بہت مشکل سے قابو پانے والی نابینا پن کی ایک قسم کو اب ایڈز کی دوا سے ٹھیک کرنا یا روکنا ممکن ہوسکے گا۔
ڈاکٹر جیاکرشنا کے ساتھ سالک انسٹی ٹیوٹ اور دیگر عالمی ماہرین نے بھی اس تحقیق میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس دریافت سے ڈی این اے کے روایتی تصور تبدیل ہوسکتے ہیں کیونکہ پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے کہ ڈی این اے انسانی خلیے کے مرکزے سے باہر بھی تشکیل پاسکتے ہیں یعنی وہ مرکزے کے باہر کی جھلی سائٹوپلازم میں تشکیل پارہے ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ ایسے بہت سے سائٹوپلازمی ڈی این اے میں سے ایکAlu بھی ہے جو آنکھ کے ریٹینا کی سب سے اہم بصری پرت کو تباہ کردیتا ہے۔ اس کے بعد سائنسدانوں نے اس ڈی این اے کو روکنے والی دواؤں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ایڈز کی عام دوا اسے روکتی ہیں اور یوں این آر ٹی آئی نامی دوا کھانے سے آنکھوں کی ڈی ایم ڈی بیماری کا خطرہ 40 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے بھی ایڈز کی یہی دوا ذیابیطس کے حملے کو کم کرنے میں بھی اہم ثابت ہوئی ہے جس کا تفصیلی علم اب تک معلوم نہیں کیا جاسکا۔
ایچ آئی وی اور ایڈز میں دی جانے والی ایک عام دوا انسانوں میں اندھے پن کی بہت عام کیفیت روکنے میں بھی مددگار ثابت ہوئی ہے۔
لیکن اس دریافت کا ایک اور زبردست پہلو یہ ہے کہ اس نے ڈی این اے کے متعلق ہماری بنیادی معلومات کو بھی چیلنج کردیا ہے۔
یہ دوا نیوکلیوسائڈ ریورس ٹرانسکرپٹیز انہبیٹرز یا مختصراً این آر ٹی آئی کہلاتی ہے جنہیں ایچ آئی وی کے علاج میں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ یہی دوا آنکھ کی ایک بیماری، ڈرائی میکیولر ڈی جنریشن (ڈی ایم ڈی) کو روک سکتی ہے جو خطرناک نابیناپن کی وجہ بن رہی ہے۔
اس ضمن میں صحت کی انشورنش کا ڈیٹا بیس دیکھا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے جن لوگوں نے این آر ٹی آئی استعمال کی تھی ان میں آنکھ کی اس بیماری کا خطرہ بہت کم دیکھا گیا تھا۔ اس وقت بھی ڈرائی میکیولر ڈی جنریشن پاکستان سمیت دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کی بصارت ہر سال سلب کررہی ہے۔
یونیورسٹی آف ورجینیا اسکول آف میڈیسن میں آنکھوں کے امراض کے ماہر جیاکرشنا امباتی کہتےہیں کہ ہم نے دسیوں لاکھوں مریضوں کا ڈیٹا بیس دیکھا ہے۔ اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ بہت مشکل سے قابو پانے والی نابینا پن کی ایک قسم کو اب ایڈز کی دوا سے ٹھیک کرنا یا روکنا ممکن ہوسکے گا۔
ڈاکٹر جیاکرشنا کے ساتھ سالک انسٹی ٹیوٹ اور دیگر عالمی ماہرین نے بھی اس تحقیق میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس دریافت سے ڈی این اے کے روایتی تصور تبدیل ہوسکتے ہیں کیونکہ پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے کہ ڈی این اے انسانی خلیے کے مرکزے سے باہر بھی تشکیل پاسکتے ہیں یعنی وہ مرکزے کے باہر کی جھلی سائٹوپلازم میں تشکیل پارہے ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ ایسے بہت سے سائٹوپلازمی ڈی این اے میں سے ایکAlu بھی ہے جو آنکھ کے ریٹینا کی سب سے اہم بصری پرت کو تباہ کردیتا ہے۔ اس کے بعد سائنسدانوں نے اس ڈی این اے کو روکنے والی دواؤں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ایڈز کی عام دوا اسے روکتی ہیں اور یوں این آر ٹی آئی نامی دوا کھانے سے آنکھوں کی ڈی ایم ڈی بیماری کا خطرہ 40 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے بھی ایڈز کی یہی دوا ذیابیطس کے حملے کو کم کرنے میں بھی اہم ثابت ہوئی ہے جس کا تفصیلی علم اب تک معلوم نہیں کیا جاسکا۔