حافظ سلمان بٹ کی یاد میں
چند منٹوں میں سوشل میڈیا کی اسکرینیں صدمے کے اظہار سے بھرگئیں۔
چند روز قبل جب سوشل میڈیا پر عزیزم نجم ولی نے خبر دی کہ حافظ سلمان بٹ کو دل کا دورہ پڑنے پر اسپتال کے آئی سی یو میں داخل کرادیا گیا ہے تو راقم نے فوراً ہاتھ اٹھا دیے اور مالک کون و مکاںسے ان کی زندگی اور صحت کے لیے بہت دعائیں مانگیں۔ اڑتالیس گھنٹے ہی گزرے ہونگے کہ حافظ صاحب اپنے خالق و مالک کی رحمتوں کی آغوش میں چلے گئے۔
چند منٹوں میں سوشل میڈیا کی اسکرینیں صدمے کے اظہار سے بھرگئیں۔ وہ لاہور کے ہر طبقے میں بے حد مقبول تھے۔ فوری طور پر دلی دکھ کا اظہار کرنے والے درجنوں افراد میں سے کسی کا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں تھا مگر سب اس بیمثال شخص کی جر أت وبہادری اور پاکیزہ کردار کی دل کھول کر تعریف و تحسین کررہے تھے۔ خواجہ سعد رفیق زمانہ طالبِ علمی میں حافظ سلمان کے حریف رہے تھے مگر انھوں نے جانے والے کو اقبالؒ کے ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤںکے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
برسوں پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک استاد نے اس کے بارے میں ایسی ہی بات کہی تھی۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے سَلمان
وہ واقعی دوستوں کے حلقے میں شبنم تھا۔سادہ، عاجز، مخلص، درویش منش، ریشم کی طرح نرم مگر باطل کے پیروکاروں، اﷲ اور رسولؐ کے دشمنوں او ر تعلیمی اداروں کا پرامن ماحول برباد کرنے والے غنڈوں اور بدمعاشوں کے خلاف وہ واقعی طوفان تھا۔ اس کے فولادی ہاتھوں سے بڑے بڑے نامی گرامی بدمعاشوں کی پٹائی ہوتے اور انھیں دم دبا کر بھاگتے ہوئے دیکھنے کا کئی بار اتفاق ہوا۔ پندرہ بیس غنڈوں کے چھکے چھڑانا اکیلے سلمان بٹ کے لیے معمولی بات تھی۔ انڈین فلموں میں جعلی سپرمین اور نقلی دبنگ سے جو کارنامے کروائے جاتے ہیں، ایسے کارنامے زمانہ طالبِ علمی میں حافظ سلمان بٹ کے ہاتھوں ہوتے ہزاروں طلباء نے خود دیکھے ہیں۔
آج سے پینتالیس سال قبل ذہنوں میں آج ہی کی طرح پولیس کا بڑا منفی تاثر تھا۔ پھر سنا کہ لاہور میں خواجہ طفیل نام کا ایک دیانتدار اور دلیر ایس ایس پی رہتا ہے تو اسے ملنے (یا دیکھنے)کے لیے ہم اس کے گھر (غالباً موہنی روڈ پر) پہنچ گئے۔ خواجہ طفیل صاحب بڑے بارعب مگر نرم دمِ گفتگو انسان تھے، ان سے ملکر بڑا دل خوش ہوا۔ وہیں ایک اونچا لمبا ، سرخ و سفید، ورزشی جسم والا نوجوان آپہنچا تو خواجہ صاحب نے بتایا ،یہ میرا بیٹا سلمان ہے۔ ہم نے پوچھا، سلمان کیا کرتا ہے؟ تو کہنے لگے، ''بس رج کے کھاتا ہے اور ورزش کرتا ہے''۔ ہم میں سے کسی نے کہا، وہ تو ماشااللہ نظر آرہا ہے ۔
پھر کہنے لگے، ''سلمان حافظ قرآن ہے، اب یہ گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے گا تو آپ لوگوں نے اس کی صحیح تربیت کرنی ہے''۔ تربیتّ تو نیک والدین نے کردی تھی اور جادہ ومنزل سے اُسے بیسویں صدی کے عظیم اسکالر سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی کتابوں نے روشناس کرادیا ۔ وہ جی سی میں آیا تو چند ہفتوں میں ہی ہر طرف حافظ سلمان بٹ کا نام گونجنے لگا۔ لڑکیاں اور لڑکے اُسکی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے، مگر وہ ہر ایک کی نظروں سے بے نیازتھا، حتی کہ اپنے لباس سے بھی۔اپنی لگن میں مگن رہتا اور اس کی لگن تھی فٹبال کھیلنا اور اذان سنتے ہی اپنے خالق و مالک کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا، اس کی جوانی شبنم کے قطروں کیطرح پاکیزہ اور بے داغ تھی۔ لگتا ہے اقبال کا یہ شعر اسی کے بارے میںہے۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کاتارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
جی سی میں ایک سال کے بعد اس کے ایک استاد نے اس کے بارے میں لکھا تھا "Salman is recklessly brave, but pious like an angel"(وہ بے پناہ بہادر ہے مگر کردار میں فرشتوں کی طرح پاکیزہ ہے) اُس وقت تعلیمی اداروں میں نظریاتی کشمکش عروج پر تھی۔ اسلامی نظریہ حیات کو پسند کرنے والوں کی وابستگی اسلامی جمعیت کے ساتھ ہوتی تھی جب کہ سوشل ازم یا غیراسلامی نظریات کے پیروکار جو اسوقت لیفٹسٹ کہلاتے تھے (اب لبرل کہلاتے ہیں) این ایس ایف یا پی ایس ایف کے جھنڈے تلے جمع ہوتے تھے۔
جی سی میں اسلامی جمعیت کے حامی زیادہ تر شریف اور پڑھاکو قسم کے ہوتے تھے اس لیے لیفٹسٹ اُن سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے اور کبھی کبھار پٹائی بھی کردیا کرتے تھے۔ ایسے موقعوں پر حافظ سلمان بٹ کی آمد ، واقعی ایک فلمی اسٹائل کی دبنگ انٹری ہوتی تھی ۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب سلمان بٹ کا صرف نام ہی کافی ہوتا تھا۔ مگر نوجوانی میں ہی اس شہرت اور مقبولیت نے حافظ سلمان کو کبھی متکبر نہیں بنایا۔ اس کی عادات درویشانہ ہی رہیں۔ جی سی میں اُس نے جمعیت کی طرف سے وائی ایس یو کی جنرل سیکریٹری شپ کا الیکشن لڑا، تب اسے تقریر کی پریکٹس کرانے کے لیے رات کو نیو ہوسٹل کے سامنے گول باغ میں لے جایا جاتا تھا (ابھی چند روز پہلے ہمارے دوست راؤ سعادت صاحب اور شہباز شیخ اُن دنوں کی یادیں تازہ کررہے تھے) اس الیکشن میں حافظ سلمان جنرل سیکریٹری اور شہباز شیخ صدر منتخب ہوگئے۔
اس کے بعد حافظ سلمان نے بڑے بڑے الیکشن جیتے۔1981 میں راقم نے قانون کی ڈگری لی اور 1983 میں سی ایس ایس کرکے سروس جائن کرلی تو جمعیت اور سیاست سے رابطہ منقطع ہوگیامگر حافظ سلمان سے دوستی کا تعلق قائم رہا۔ اسّی کی دہائی میں وہ اعلیٰ پائے کا مقرربن چکا تھا۔1985 کا غیر جماعتی الیکشن آیا تو پورے لاہور کا سب سے مقبول امیدوار حافظ سلمان بٹ تھا ۔ وہ تنگ نظر نہیں بڑا فراخ دل تھا اس لیے ہر پارٹی اور ہر فرقے کے لوگ اس کا دل سے احترام کرتے تھے۔
بڑی تعداد میں عوام دوسرے حلقوں سے حافظ سلمان کو دیکھنے اور اس کی تقریریں سننے کے لیے آیا کرتے تھے۔ حافظ صاحب کا حریف لاہور کا ایک رئیس اور بااثر شخص تھا جس کا ہر چیلنج حافظ سلمان نے قبول کیا اور اسے بڑی لیڈ سے ہرا کر ایم این اے منتخب ہوگیا۔ میرا ایک قریبی عزیز بھی اُس اسمبلی کا رکن تھا۔ وہ بتاتا تھا کہ ''دوسرے صوبوں کے ممبران بڑے اشتیاق سے ہم پوچھتے ہیںکہ حافظ سلمان بٹ کہاں ہیں، وہ اسے دیکھنے اور ہاتھ ملانے کے لیے بیتاب رہتے''۔
اسٹوڈنٹ لیڈرز میں سب سے زیادہ مقبولیت جاوید ہاشمی کو ملی، اُس وقت لیفٹ کے مقابلے میں اسلام پسندوں کو صرف تعلیمی اداروں میں کامیابی حاصل ہوئی ، اس لیے دائیںبازو کے پریس نے اسے بہت پروجیکٹ کیا۔پنجاب یونیورسٹی کا الیکشن جیتنے پر ایک اخبار نے سرخی لگائی تھی ''اور تلوار ٹوٹ گئی''۔ عمران خان عالمی سطح کے اسپورٹس ہیرو ہونے کے باعث بہت مقبول تھے۔ مگر غیر جانبدا ر لوگ مانتے ہیں کہ حافظ سلمان کی شخصیت ان دونوں سے زیادہ کرشماتی تھی۔ جاوید ہاشمی بلاشبہ عمران خان صاحب سے زیادہ دلیر تھے، مگر حافظ سلمان ان دونوں سے کہیں زیادہ بہادر، زیادہ دیانتدار اور زیادہ بلند کردار تھے۔
جی سی کے پرانے دوست (جو بیورو کریسی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے)ملتے تو وہ بھی میری طرح افسوس کا اظہار کرتے کہ حافظ سلمان میں جتنا Potential ہے وہ صحیح طور پر exploit نہیں کیا جاسکا۔ مشرف دور میں حافظ صاحب نے کراچی جاکر ایم کیو ایم اور اس کے سرپرست جنرل مشرف کو اسطرح للکارا کہ جماعت ہی نہیں عام آدمی کا خوف بھی کم ہوا۔ بیشمار لوگوںکی یہ خواہش تھی کہ ُاس کی للکار کبھی خیبر کبھی مہران اور کبھی بلوچستان میں بھی گونجے، اگر جماعت کی پالیسیاں اس کے پاؤں کی زنجیر نہ بنتیں یا اس کی اپنی بے نیازی آڑے نہ آتی تو اسے پورے ملک میںبے پناہ عوامی مقبولیت حاصل ہوسکتی تھی۔
سروس کے دوران ان سے بہت کم رابطہ رہا مگرجب بھی ملاقات ہوتی تو میں حافظ صاحب کو''سمجھانے''کی کوشش کرتا کہ 'آپ کی منزل پریم یونین یا فٹبال فیڈریشن نہیں، اس سے کہیں بلند اور ارفع ہے۔ سچی بات ہے مجھے اُن میں برصغیر کا طیب اردوان بننے کاPotential نظر آتا تھا۔ حافظ سلمان میری باتیں سنکر مسکرا دیتا کہ وہ تو ایک ایسا درویش تھا، جو بوئے اسداللّٰہی سے سرشار اور دنیاوی جاہ و حشمت سے بے نیاز تھا۔
دار و سکندر سے وہ مردِ فقیر اُولیٰ
ہو جسکی فقیری میں بوئے اسداللّٰہی
اسے نہ حب جاہ تھی، نہ دولت کی چاہ تھی، نہ ستائش کی تمنا اور نہ صلے کی پرواہ تھی، وہ تو صرف اپنے خالق اور مالک کی خوشنودی کا متمنی تھا، اسی لیے کئی مرتبہ اسمبلیوںکا رکن رہنے والا، علامہ اقبال ٹاؤن کے پانچ مرلہ کرائے کے مکان سے اپنے مالک کے حضور پیش ہونے کے لیے روانہ ہوگیا۔ بلاشبہ لاہور اور پنجاب ۔سب سے بہادر اور سب سے ایماندار لیڈر سے محروم ہوگیا ہے، خدائے ذوالجلال اپنے اس سچے اور وفادارر غلام کو یقیناً اپنی رحمتوں کے سائے میں اور اپنے محبوب حضرت محمدﷺکے قُرب میں بہت اعلیٰ جگہ عطا فرمائیں گے۔
چند منٹوں میں سوشل میڈیا کی اسکرینیں صدمے کے اظہار سے بھرگئیں۔ وہ لاہور کے ہر طبقے میں بے حد مقبول تھے۔ فوری طور پر دلی دکھ کا اظہار کرنے والے درجنوں افراد میں سے کسی کا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں تھا مگر سب اس بیمثال شخص کی جر أت وبہادری اور پاکیزہ کردار کی دل کھول کر تعریف و تحسین کررہے تھے۔ خواجہ سعد رفیق زمانہ طالبِ علمی میں حافظ سلمان کے حریف رہے تھے مگر انھوں نے جانے والے کو اقبالؒ کے ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤںکے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
برسوں پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک استاد نے اس کے بارے میں ایسی ہی بات کہی تھی۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے سَلمان
وہ واقعی دوستوں کے حلقے میں شبنم تھا۔سادہ، عاجز، مخلص، درویش منش، ریشم کی طرح نرم مگر باطل کے پیروکاروں، اﷲ اور رسولؐ کے دشمنوں او ر تعلیمی اداروں کا پرامن ماحول برباد کرنے والے غنڈوں اور بدمعاشوں کے خلاف وہ واقعی طوفان تھا۔ اس کے فولادی ہاتھوں سے بڑے بڑے نامی گرامی بدمعاشوں کی پٹائی ہوتے اور انھیں دم دبا کر بھاگتے ہوئے دیکھنے کا کئی بار اتفاق ہوا۔ پندرہ بیس غنڈوں کے چھکے چھڑانا اکیلے سلمان بٹ کے لیے معمولی بات تھی۔ انڈین فلموں میں جعلی سپرمین اور نقلی دبنگ سے جو کارنامے کروائے جاتے ہیں، ایسے کارنامے زمانہ طالبِ علمی میں حافظ سلمان بٹ کے ہاتھوں ہوتے ہزاروں طلباء نے خود دیکھے ہیں۔
آج سے پینتالیس سال قبل ذہنوں میں آج ہی کی طرح پولیس کا بڑا منفی تاثر تھا۔ پھر سنا کہ لاہور میں خواجہ طفیل نام کا ایک دیانتدار اور دلیر ایس ایس پی رہتا ہے تو اسے ملنے (یا دیکھنے)کے لیے ہم اس کے گھر (غالباً موہنی روڈ پر) پہنچ گئے۔ خواجہ طفیل صاحب بڑے بارعب مگر نرم دمِ گفتگو انسان تھے، ان سے ملکر بڑا دل خوش ہوا۔ وہیں ایک اونچا لمبا ، سرخ و سفید، ورزشی جسم والا نوجوان آپہنچا تو خواجہ صاحب نے بتایا ،یہ میرا بیٹا سلمان ہے۔ ہم نے پوچھا، سلمان کیا کرتا ہے؟ تو کہنے لگے، ''بس رج کے کھاتا ہے اور ورزش کرتا ہے''۔ ہم میں سے کسی نے کہا، وہ تو ماشااللہ نظر آرہا ہے ۔
پھر کہنے لگے، ''سلمان حافظ قرآن ہے، اب یہ گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے گا تو آپ لوگوں نے اس کی صحیح تربیت کرنی ہے''۔ تربیتّ تو نیک والدین نے کردی تھی اور جادہ ومنزل سے اُسے بیسویں صدی کے عظیم اسکالر سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی کتابوں نے روشناس کرادیا ۔ وہ جی سی میں آیا تو چند ہفتوں میں ہی ہر طرف حافظ سلمان بٹ کا نام گونجنے لگا۔ لڑکیاں اور لڑکے اُسکی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے، مگر وہ ہر ایک کی نظروں سے بے نیازتھا، حتی کہ اپنے لباس سے بھی۔اپنی لگن میں مگن رہتا اور اس کی لگن تھی فٹبال کھیلنا اور اذان سنتے ہی اپنے خالق و مالک کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا، اس کی جوانی شبنم کے قطروں کیطرح پاکیزہ اور بے داغ تھی۔ لگتا ہے اقبال کا یہ شعر اسی کے بارے میںہے۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کاتارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
جی سی میں ایک سال کے بعد اس کے ایک استاد نے اس کے بارے میں لکھا تھا "Salman is recklessly brave, but pious like an angel"(وہ بے پناہ بہادر ہے مگر کردار میں فرشتوں کی طرح پاکیزہ ہے) اُس وقت تعلیمی اداروں میں نظریاتی کشمکش عروج پر تھی۔ اسلامی نظریہ حیات کو پسند کرنے والوں کی وابستگی اسلامی جمعیت کے ساتھ ہوتی تھی جب کہ سوشل ازم یا غیراسلامی نظریات کے پیروکار جو اسوقت لیفٹسٹ کہلاتے تھے (اب لبرل کہلاتے ہیں) این ایس ایف یا پی ایس ایف کے جھنڈے تلے جمع ہوتے تھے۔
جی سی میں اسلامی جمعیت کے حامی زیادہ تر شریف اور پڑھاکو قسم کے ہوتے تھے اس لیے لیفٹسٹ اُن سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے اور کبھی کبھار پٹائی بھی کردیا کرتے تھے۔ ایسے موقعوں پر حافظ سلمان بٹ کی آمد ، واقعی ایک فلمی اسٹائل کی دبنگ انٹری ہوتی تھی ۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب سلمان بٹ کا صرف نام ہی کافی ہوتا تھا۔ مگر نوجوانی میں ہی اس شہرت اور مقبولیت نے حافظ سلمان کو کبھی متکبر نہیں بنایا۔ اس کی عادات درویشانہ ہی رہیں۔ جی سی میں اُس نے جمعیت کی طرف سے وائی ایس یو کی جنرل سیکریٹری شپ کا الیکشن لڑا، تب اسے تقریر کی پریکٹس کرانے کے لیے رات کو نیو ہوسٹل کے سامنے گول باغ میں لے جایا جاتا تھا (ابھی چند روز پہلے ہمارے دوست راؤ سعادت صاحب اور شہباز شیخ اُن دنوں کی یادیں تازہ کررہے تھے) اس الیکشن میں حافظ سلمان جنرل سیکریٹری اور شہباز شیخ صدر منتخب ہوگئے۔
اس کے بعد حافظ سلمان نے بڑے بڑے الیکشن جیتے۔1981 میں راقم نے قانون کی ڈگری لی اور 1983 میں سی ایس ایس کرکے سروس جائن کرلی تو جمعیت اور سیاست سے رابطہ منقطع ہوگیامگر حافظ سلمان سے دوستی کا تعلق قائم رہا۔ اسّی کی دہائی میں وہ اعلیٰ پائے کا مقرربن چکا تھا۔1985 کا غیر جماعتی الیکشن آیا تو پورے لاہور کا سب سے مقبول امیدوار حافظ سلمان بٹ تھا ۔ وہ تنگ نظر نہیں بڑا فراخ دل تھا اس لیے ہر پارٹی اور ہر فرقے کے لوگ اس کا دل سے احترام کرتے تھے۔
بڑی تعداد میں عوام دوسرے حلقوں سے حافظ سلمان کو دیکھنے اور اس کی تقریریں سننے کے لیے آیا کرتے تھے۔ حافظ صاحب کا حریف لاہور کا ایک رئیس اور بااثر شخص تھا جس کا ہر چیلنج حافظ سلمان نے قبول کیا اور اسے بڑی لیڈ سے ہرا کر ایم این اے منتخب ہوگیا۔ میرا ایک قریبی عزیز بھی اُس اسمبلی کا رکن تھا۔ وہ بتاتا تھا کہ ''دوسرے صوبوں کے ممبران بڑے اشتیاق سے ہم پوچھتے ہیںکہ حافظ سلمان بٹ کہاں ہیں، وہ اسے دیکھنے اور ہاتھ ملانے کے لیے بیتاب رہتے''۔
اسٹوڈنٹ لیڈرز میں سب سے زیادہ مقبولیت جاوید ہاشمی کو ملی، اُس وقت لیفٹ کے مقابلے میں اسلام پسندوں کو صرف تعلیمی اداروں میں کامیابی حاصل ہوئی ، اس لیے دائیںبازو کے پریس نے اسے بہت پروجیکٹ کیا۔پنجاب یونیورسٹی کا الیکشن جیتنے پر ایک اخبار نے سرخی لگائی تھی ''اور تلوار ٹوٹ گئی''۔ عمران خان عالمی سطح کے اسپورٹس ہیرو ہونے کے باعث بہت مقبول تھے۔ مگر غیر جانبدا ر لوگ مانتے ہیں کہ حافظ سلمان کی شخصیت ان دونوں سے زیادہ کرشماتی تھی۔ جاوید ہاشمی بلاشبہ عمران خان صاحب سے زیادہ دلیر تھے، مگر حافظ سلمان ان دونوں سے کہیں زیادہ بہادر، زیادہ دیانتدار اور زیادہ بلند کردار تھے۔
جی سی کے پرانے دوست (جو بیورو کریسی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے)ملتے تو وہ بھی میری طرح افسوس کا اظہار کرتے کہ حافظ سلمان میں جتنا Potential ہے وہ صحیح طور پر exploit نہیں کیا جاسکا۔ مشرف دور میں حافظ صاحب نے کراچی جاکر ایم کیو ایم اور اس کے سرپرست جنرل مشرف کو اسطرح للکارا کہ جماعت ہی نہیں عام آدمی کا خوف بھی کم ہوا۔ بیشمار لوگوںکی یہ خواہش تھی کہ ُاس کی للکار کبھی خیبر کبھی مہران اور کبھی بلوچستان میں بھی گونجے، اگر جماعت کی پالیسیاں اس کے پاؤں کی زنجیر نہ بنتیں یا اس کی اپنی بے نیازی آڑے نہ آتی تو اسے پورے ملک میںبے پناہ عوامی مقبولیت حاصل ہوسکتی تھی۔
سروس کے دوران ان سے بہت کم رابطہ رہا مگرجب بھی ملاقات ہوتی تو میں حافظ صاحب کو''سمجھانے''کی کوشش کرتا کہ 'آپ کی منزل پریم یونین یا فٹبال فیڈریشن نہیں، اس سے کہیں بلند اور ارفع ہے۔ سچی بات ہے مجھے اُن میں برصغیر کا طیب اردوان بننے کاPotential نظر آتا تھا۔ حافظ سلمان میری باتیں سنکر مسکرا دیتا کہ وہ تو ایک ایسا درویش تھا، جو بوئے اسداللّٰہی سے سرشار اور دنیاوی جاہ و حشمت سے بے نیاز تھا۔
دار و سکندر سے وہ مردِ فقیر اُولیٰ
ہو جسکی فقیری میں بوئے اسداللّٰہی
اسے نہ حب جاہ تھی، نہ دولت کی چاہ تھی، نہ ستائش کی تمنا اور نہ صلے کی پرواہ تھی، وہ تو صرف اپنے خالق اور مالک کی خوشنودی کا متمنی تھا، اسی لیے کئی مرتبہ اسمبلیوںکا رکن رہنے والا، علامہ اقبال ٹاؤن کے پانچ مرلہ کرائے کے مکان سے اپنے مالک کے حضور پیش ہونے کے لیے روانہ ہوگیا۔ بلاشبہ لاہور اور پنجاب ۔سب سے بہادر اور سب سے ایماندار لیڈر سے محروم ہوگیا ہے، خدائے ذوالجلال اپنے اس سچے اور وفادارر غلام کو یقیناً اپنی رحمتوں کے سائے میں اور اپنے محبوب حضرت محمدﷺکے قُرب میں بہت اعلیٰ جگہ عطا فرمائیں گے۔