بلوچستان میں پی ڈی ایم سینٹ اور ضمنی الیکشن کے لئے متحد ہو گئی

سیاسی مبصرین کے مطابق سینٹ الیکشن کے حوالے سے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی پر کافی نظریں مرکوز ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق سینٹ الیکشن کے حوالے سے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی پر کافی نظریں مرکوز ہیں۔

بلوچستان میں پی ڈی ایم متحد ہوگئی، سینٹ اور صوبائی اسمبلی کا ضمنی الیکشن مل کر لڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا۔

بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 20پشین کے ضمنی انتخاب میں پی ڈی ایم کی اہم جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے جمعیت علماء اسلام کے امیدوار کی حمایت کرکے سیاسی حلقوں میں نئی ہلچل پیدا کردی ہے ۔ بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 20 پشین کی نشست جے یو آئی کے سید فضل آغا کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی ۔ جس پر 18فروری کو ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے ۔

2018 میں اس پر جے یو آئی پہلے ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی دوسرے اور عوامی نیشنل پارٹی تیسرے نمبر پر رہی تھی ۔ ضمنی انتخاب کے اعلان پر پی ڈی ایم کی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے اظہار یکجہتی کے طور پر اپنا امیدوار نہ کھڑا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جے یو آئی کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا تھا ۔

جبکہ بلوچستان میں بی اے پی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے اس ضمنی انتخاب کے لئے اپنا امیدوار کھڑا کیا ۔ اور سیاسی حلقوں میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا رہی تھی کہ اے این پی شاید صوبے میں اتحادی جماعت بی اے پی کے امیدوار کی حمایت کرے گی۔ لیکن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر متحد رہتے ہوئے اے این پی نے جمعیت علماء اسلام کے نامزد امیدوار کی حمایت کر کے سیاسی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ اے این پی کی قیادت نے یہ فیصلہ گزشتہ دنوں جے یو آئی کے صوبائی امیر مولانا واسع اور امیر حیدر ہوتی کی طویل ملاقات کے بعد کیا۔

اس ملاقات میں مارچ میں سینٹ کے ہونے والے انتخابات بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے متحد ہوکر لڑنے پر اتفاق کیا گیا ۔ جو کہ صوبے کی سیاست میں ایک بڑا بریک تھرو تصور کیا جا رہا ہے ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اے این پی جوکہ جام حکومت کی اتحادی جماعت بھی ہے اور سینیٹ الیکشن کے حوالے سے حکمران جماعت بی اے پی سے سینٹ الیکشن میں وعدے کے مطابق سپورٹ بھی مانگ رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال نے سینٹ کے ضمنی انتخاب میں اپنی جماعت کے سیکرٹری جنرل منظور کاکڑ کو کامیاب کرانے کیلئے اے این پی کے امیدوار ڈاکٹر عنایت اللہ کو دستبردار کر کے ووٹ لیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ مارچ 2021 کے انتخابات میں اے این پی کے امیدوار کو کامیاب بنانے کے لئے بھرپور مدد کریں گے۔

یہی وجہ ہے کہ اے این پی نے اس کے بعد ہونے والے دیگر سینٹ کے ضمنی انتخابات میں بی اے پی کے امیدواروں کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے چار ووٹ بھی دیئے ۔ اب اے این پی وزیراعلیٰ جام کمال کی جانب سے وعدہ وفا ہونے کی منتظر ہے ۔ ساتھ ساتھ اے این پی نے سینٹ کے انتخابات میں اپنے یہ چار ووٹ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جہاں جے یو آئی بی این پی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سینٹ کے لئے متفقہ امیدوار لانے کیلئے سرجوڑے بیٹھی ہیں ۔


اے این پی کے اس فیصلے سے نہ صرف بلوچستان اسمبلی کی متحدہ اپوزیشن کو تقویت اور مضبوطی ملی ہے بلکہ عددی اعتبار سے اپوزیشن کو اس کا فائدہ بھی ملے گا ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق متحدہ اپوزیشن پہلے ہی یہ دعویٰ کر چکی ہے کہ بلوچستان سے سینٹ کی 12نشستوں میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعتیں 6-6 کی برابری پر کامیابی حاصل کر سکتی ہیں ۔ جس کے لئے متحدہ اپوزیشن حکمت عملی بنا رہی ہے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اے این پی کے سیاسی فیصلوں نے جہاں پی ڈی ایم کے اتحاد کو برقرار رکھنے میں مدد دی ہے۔

وہاں بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں کو بھی سیاسی طور پر مضبوط بنایا ہے ۔ خصوصاً بلوچستان اسمبلی میں جے یو آئی کے رکن اسمبلی کے انتقال سے خالی ہونے والی نشست پر ضمنی الیکشن میں حمایت کرکے پانسہ پلٹ دیا ہے اور جے یو آئی کو اس نشست پر مزید مضبوط کردیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ جے یو آئی یہ نشست دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔

سیاسی مبصرین کے مطابق سینٹ الیکشن کے حوالے سے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی پر کافی نظریں مرکوز ہیں۔ اتحادی جماعتوں سمیت بی اے پی کے ٹکٹ کے حصول کیلئے 70سے زائد نے درخواستیں جمع کرا ئی ہیں اور ٹکٹ کے لئے لابنگ بھی کی جا رہی ہے ۔ جبکہ بعض آزاد امیدوار بھی سیاسی میدان میں سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔

ایک اطلاع کے مطابق موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکمران جماعت بی اے پی نے اپنے تمام ارکان اسمبلی کو سختی سے یہ ہدایت جاری کی ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کے سینٹ کاغذات کی تائید و تجویز نہ کریں اس حوالے سے پارٹی کے مرکزی صدر کی رضا مندی سے قائم کمیٹی کے ذریعے جسے پارٹی ٹکٹ جاری کیا جا رہا ہے اس کے لئے باقاعدہ تائید کنندہ اور تجویز کنندہ کے پارٹی ارکان اسمبلی کے ناموں کی ترتیب دی جائے گی ۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پارٹی کے اندر اس قسم کی ہدایات سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی گڑ بڑ ہے یا پھر بعض آزاد امیدواروں کے سرگرم ہونے کے باعث پارٹی کے ارکان اسمبلی کو کسی کی بھی تائید یا تجویز سے روکنے کے لئے پہلے سے محتاط کر دیا گیا ہے کیونکہ ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ ارکان اسمبلی اپنی مرضی سے جماعت کے یا جماعت سے باہر کے امیدواروں کی تائید و تجویز کرتے رہے ہیں ۔

اس مرتبہ اس پریکٹس کو روکنے اور پارٹی کے ڈسپلن کو برقرار رکھنے کے لئے پہلے سے اندرونی طور پر ہدایات جاری کی گئی ہیں ۔ جوکہ اس حوالے سے بھی ایک اچھا اور مثبت قدم تصور کیا جا رہا ہے کہ ماضی میں سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے تائید و تجویز اور ووٹ کی خریدو فروخت سے متعلق جو داستانیں نکلتی رہی ہیں ۔ ان کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس عمل کو صاف و شفاف بنا کر بلوچستان کو اس بد نامی سے بچایا جائے۔
Load Next Story