اسٹیل ملز کی حالت کی ذمہ دار انتظامیہ ہے ملازمین سے پہلے انہیں نکالاجائے سپریم کورٹ
بند اسٹیل مل کو کسی ایم ڈی یا چیف ایگزیکٹو کی ضرورت نہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے پاکستان اسٹیل ملز کی حالت زار کا ذمہ دار انتظامیہ کو قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملازمین سے پہلے تمام افسران کو نکالیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فاضل بینچ نے پاکستان اسٹیل ملز ملازمین کی ترقیوں سے متعلق کیس پر سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اسٹیل ملز کی حالت زار کا ذمہ دار انتظامیہ کو قرار دے دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا، کیا حکومت نے اسٹیل مل انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی؟ اسٹیل ملز انتظامیہ اور افسران قومی خزانے پر بوجھ ہیں، مل بند پڑی ہے تو انتظامیہ کیوں رکھی ہوئی ہے؟ بند اسٹیل مل کو کسی ایم ڈی یا چیف ایگزیکٹو کی ضرورت نہیں۔ ملازمین سے پہلے تمام افسران کو اسٹیل مل سے نکالیں۔
پاکستان اسٹیل ملز کے وکیل شاہد باجوہ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ تمام انتظامیہ تبدیل کی جا چکی ہے، اسٹیل ملز میں 1800 سے زائد افسران تھے جن میں سے اب 439 رہ گئے ہیں، اسٹیل ملز کا یومیہ خرچ 2 کروڑ روپے تھا جو اب ایک کروڑ رہ گیا ہے، اب تک 49 فیصد ملازمین نکال چکے مزید کیلئے عدالتی اجازت درکار ہے، لیبر کورٹ کی اجازت کے بفیر مزید ملازمین نہیں نکال سکتے۔
جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ انتظامیہ تبدیل کرنے سے کیا مل فعال ہوجائے گی؟ مل ہی بند پڑی ہے تو 439 افسران کر کیا رہے ہیں؟ پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کی اسٹیل ملز منافع میں ہیں، اسٹیل ملز میں اب بھی ضرورت سے زیادہ عملہ موجود رہے گا۔ اسٹیل ملز ملازمین میں اسپتال اور اسکولوں کا عملہ بھی شامل ہے۔ اجازت براہ راست سپریم کورٹ دے گی لیکن پہلے افسران کو نکالیں۔
پاکستان اسٹیل ملز کے وکیل نے کہا کہ اسٹیل مل ملازمین نے سی ای او کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا ہے، ان کے گھر کے دروازے پر خواتین کو بٹھا دیا گیا ہے، ملازمین نے سی ای او کے گھر کے باہر ان کی قبر بھی کھودی ہوئی ہے، جس پر ملازمین کی یونین کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ قبر علاماتی طور پر کھودی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک کے ہر ادارے کا حال اسٹیل ملز جیسا ہے، ریلوے اور پی آئی اے سمیت ہر ادارے میں حالات ایسے ہی ہیں، افسران اپنی نوکری کررہے ہیں ملک کی کسی کو فکر نہیں، پی آئی ڈی سی کی تمام فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں، پی آئی ڈی سی ملازمین بھی دس سال بند فیکٹری سے تنخواہ لیتے رہے، بند اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں دے کر ہی ملک دیوالیہ ہوا۔
اسٹیل ملز کے وکیل نیئر رضوی نے کہا کہ اسٹیل ملز کے 302 مقدمات میں سندھ ہائی کورٹ نے سٹے آرڈر دیا ہوا ہے، چیف جسٹس نے اسٹیل ملز کے وکلاء سے مکالمے کے دوران کہا کہ آپ کس بات کی فیس لیتے ہیں، مقدمات سے کیسے نمٹنا ہے اسٹیل مل کو بتائیں۔
اسٹیل ملز ملازمین کے وکیل نے کہا کہ ادارہ تباہ کرنے والوں کو سزا دیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسٹیل مل تباہ کرنے والوں میں ملازمین بھی شامل ہیں، جو بھی اسٹیلز مل لے گا اسے کھوکھلا کرکے بند ہی کرے گا۔اسٹیل مل کو ریسکیو کرنا عدالت کا کام نہیں، کیا ملازمین اسٹیل مل کا قرض اتار سکتے ہیں؟ ۔
عدالتی حکم پر پیش ہونے والے سیکرٹری صنعت و پیداوار نے فاضل بینچ کے روبرو کہا کہ اسٹیل ملز کی نجکاری اگست تک مکمل ہوجائے گی۔ سپریم کورٹ نے وزیر نجکاری اور وزیر منصوبہ بندی کو 9 فروری کو طلب کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 9 فروری کو وفاقی وزراء کو سن کر فیصلہ کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فاضل بینچ نے پاکستان اسٹیل ملز ملازمین کی ترقیوں سے متعلق کیس پر سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اسٹیل ملز کی حالت زار کا ذمہ دار انتظامیہ کو قرار دے دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا، کیا حکومت نے اسٹیل مل انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی؟ اسٹیل ملز انتظامیہ اور افسران قومی خزانے پر بوجھ ہیں، مل بند پڑی ہے تو انتظامیہ کیوں رکھی ہوئی ہے؟ بند اسٹیل مل کو کسی ایم ڈی یا چیف ایگزیکٹو کی ضرورت نہیں۔ ملازمین سے پہلے تمام افسران کو اسٹیل مل سے نکالیں۔
پاکستان اسٹیل ملز کے وکیل شاہد باجوہ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ تمام انتظامیہ تبدیل کی جا چکی ہے، اسٹیل ملز میں 1800 سے زائد افسران تھے جن میں سے اب 439 رہ گئے ہیں، اسٹیل ملز کا یومیہ خرچ 2 کروڑ روپے تھا جو اب ایک کروڑ رہ گیا ہے، اب تک 49 فیصد ملازمین نکال چکے مزید کیلئے عدالتی اجازت درکار ہے، لیبر کورٹ کی اجازت کے بفیر مزید ملازمین نہیں نکال سکتے۔
جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ انتظامیہ تبدیل کرنے سے کیا مل فعال ہوجائے گی؟ مل ہی بند پڑی ہے تو 439 افسران کر کیا رہے ہیں؟ پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کی اسٹیل ملز منافع میں ہیں، اسٹیل ملز میں اب بھی ضرورت سے زیادہ عملہ موجود رہے گا۔ اسٹیل ملز ملازمین میں اسپتال اور اسکولوں کا عملہ بھی شامل ہے۔ اجازت براہ راست سپریم کورٹ دے گی لیکن پہلے افسران کو نکالیں۔
پاکستان اسٹیل ملز کے وکیل نے کہا کہ اسٹیل مل ملازمین نے سی ای او کے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا ہے، ان کے گھر کے دروازے پر خواتین کو بٹھا دیا گیا ہے، ملازمین نے سی ای او کے گھر کے باہر ان کی قبر بھی کھودی ہوئی ہے، جس پر ملازمین کی یونین کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ قبر علاماتی طور پر کھودی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک کے ہر ادارے کا حال اسٹیل ملز جیسا ہے، ریلوے اور پی آئی اے سمیت ہر ادارے میں حالات ایسے ہی ہیں، افسران اپنی نوکری کررہے ہیں ملک کی کسی کو فکر نہیں، پی آئی ڈی سی کی تمام فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں، پی آئی ڈی سی ملازمین بھی دس سال بند فیکٹری سے تنخواہ لیتے رہے، بند اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں دے کر ہی ملک دیوالیہ ہوا۔
اسٹیل ملز کے وکیل نیئر رضوی نے کہا کہ اسٹیل ملز کے 302 مقدمات میں سندھ ہائی کورٹ نے سٹے آرڈر دیا ہوا ہے، چیف جسٹس نے اسٹیل ملز کے وکلاء سے مکالمے کے دوران کہا کہ آپ کس بات کی فیس لیتے ہیں، مقدمات سے کیسے نمٹنا ہے اسٹیل مل کو بتائیں۔
اسٹیل ملز ملازمین کے وکیل نے کہا کہ ادارہ تباہ کرنے والوں کو سزا دیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسٹیل مل تباہ کرنے والوں میں ملازمین بھی شامل ہیں، جو بھی اسٹیلز مل لے گا اسے کھوکھلا کرکے بند ہی کرے گا۔اسٹیل مل کو ریسکیو کرنا عدالت کا کام نہیں، کیا ملازمین اسٹیل مل کا قرض اتار سکتے ہیں؟ ۔
عدالتی حکم پر پیش ہونے والے سیکرٹری صنعت و پیداوار نے فاضل بینچ کے روبرو کہا کہ اسٹیل ملز کی نجکاری اگست تک مکمل ہوجائے گی۔ سپریم کورٹ نے وزیر نجکاری اور وزیر منصوبہ بندی کو 9 فروری کو طلب کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 9 فروری کو وفاقی وزراء کو سن کر فیصلہ کریں گے۔