ملک میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول سپریم کورٹ میں جمع
خیبر پختونخوا اور کنٹونمنٹ علاقوں میں 8 اپریل جبکہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات 20 جولائی کو ہوں گے، الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول سپریم کورٹ میں جمع کروادیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ملک میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس پر سماعت کی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جمع کروادیا گیا۔ جس کے تحت پنجاب میں بلدیاتی انتخابات 20 جولائی، خیبر پختونخوا اور کنٹونمنٹ علاقوں میں 8 اپریل کو انتخابات ہوں گے جب کہ سندھ اور بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن کا فیصلہ 11 فروری کو ہوگا۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ اگر چہ وفاقی حکومت بلدیاتی انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ڈال رہی ہے پھر بھی اٹارنی جنرل سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتے ہیں، بلدیاتی انتخابات کے حوالے جوابات میں مختلف صوبوں نے مختلف وجوہات بتائی ہیں، حد بندیوں، مردم شماری ، کورونا اور عدالتی احکامات کا کہا گیا ہے، پنجاب نے مقامی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمہ کا حوالہ دیا ہے، عدالت جاننا چاہتی ہے کہ ان وجوہات کی قانونی حیثیت کیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مردم شماری 2017 میں ہوئی لیکن ابھی تک حتمی نوٹی فیکشن جاری نہ ہوسکا، مردم شماری پر سندھ اور دیگر کے اعتراضات ہیں، جن پر وفاقی حکومت نے کمیٹی بنادی ہے،سندھ میں 5 فیصد بلاکس پر دوبارہ مردم شماری کرائی جائے گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا سندھ کا اعتراض آبادی کم ہونے کا تھا،2017 سے 2021 تک مردم شماری پر فیصلہ نہ ہوسکا، کیا پاکستان کو اس طرح سے چلایا جارہا ہے، مردم شماری کا ایشو ہے تو دوبارہ کروالیں، کیا وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے تحلیل کرکے جمہوریت کا قتل کردیا، بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضا ہیں، بلدیاتی انتخابات کی بات ہو تو صوبے اپنے مسائل گنوانا شروع کردیتے ہیں، کیا ملک میں پہلی مرتبہ انتخابات ہو رہے ہیں جو اتنے مسائل بتا رہے ہیں۔ ڈیفنس میں رہنے والوں کو نہیں بلکہ کچی آبادی والوں کو مسائل ہوتے ہیں،الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے اخراجات سے ڈراتا ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے الیکشن پر 18 ارب خرچہ آئے گا، یہ تو 36 اراکان اسمبلی کو دیے جانے والے ترقیاتی فنڈز کے برابرہے، یہ عوام کا پیسہ ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے کیوں تحلیل کئے گئے، کوئی وجہ تو ہوگی، اداروں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے، کیا پنجاب حکومت نے لوکل گورنمنٹ ختم کرکے بیک ڈور مارشل لا لگایا، مارشل لاء کے دور میں تو ایسا ہوتا تھا لیکن جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں سنا، کیا پنجاب لوکل گورنمنٹ ختم کرنے کا موڈ بن گیا تھا؟ عدالت کے ساتھ گیم مت کھیلیں، الیکشن کمیشن نے تو پنجاب میں بلدیاتی حکومت کو ختم کرنا غیر قانونی قرار دیا، ایڈوکیٹ جنرل آفس بتائے کیا پنجاب میں بلدیاتی حکومت ختم کرنا قانون کے مطابق ہے۔
عدالتی سوالات پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ عدالت کے اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ملک حالت جنگ میں ہے، جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں واقعی ایک جنگ جاری ہے اور وہ عوام کے خلاف ہے۔ لوگ بد دعائیں دے رہے ہیں،ہم نے خود کو نہ سدھارا تو وقت نکل جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ملک میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس پر سماعت کی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جمع کروادیا گیا۔ جس کے تحت پنجاب میں بلدیاتی انتخابات 20 جولائی، خیبر پختونخوا اور کنٹونمنٹ علاقوں میں 8 اپریل کو انتخابات ہوں گے جب کہ سندھ اور بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن کا فیصلہ 11 فروری کو ہوگا۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ اگر چہ وفاقی حکومت بلدیاتی انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ڈال رہی ہے پھر بھی اٹارنی جنرل سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتے ہیں، بلدیاتی انتخابات کے حوالے جوابات میں مختلف صوبوں نے مختلف وجوہات بتائی ہیں، حد بندیوں، مردم شماری ، کورونا اور عدالتی احکامات کا کہا گیا ہے، پنجاب نے مقامی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمہ کا حوالہ دیا ہے، عدالت جاننا چاہتی ہے کہ ان وجوہات کی قانونی حیثیت کیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مردم شماری 2017 میں ہوئی لیکن ابھی تک حتمی نوٹی فیکشن جاری نہ ہوسکا، مردم شماری پر سندھ اور دیگر کے اعتراضات ہیں، جن پر وفاقی حکومت نے کمیٹی بنادی ہے،سندھ میں 5 فیصد بلاکس پر دوبارہ مردم شماری کرائی جائے گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا سندھ کا اعتراض آبادی کم ہونے کا تھا،2017 سے 2021 تک مردم شماری پر فیصلہ نہ ہوسکا، کیا پاکستان کو اس طرح سے چلایا جارہا ہے، مردم شماری کا ایشو ہے تو دوبارہ کروالیں، کیا وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے تحلیل کرکے جمہوریت کا قتل کردیا، بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضا ہیں، بلدیاتی انتخابات کی بات ہو تو صوبے اپنے مسائل گنوانا شروع کردیتے ہیں، کیا ملک میں پہلی مرتبہ انتخابات ہو رہے ہیں جو اتنے مسائل بتا رہے ہیں۔ ڈیفنس میں رہنے والوں کو نہیں بلکہ کچی آبادی والوں کو مسائل ہوتے ہیں،الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے اخراجات سے ڈراتا ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے الیکشن پر 18 ارب خرچہ آئے گا، یہ تو 36 اراکان اسمبلی کو دیے جانے والے ترقیاتی فنڈز کے برابرہے، یہ عوام کا پیسہ ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے کیوں تحلیل کئے گئے، کوئی وجہ تو ہوگی، اداروں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے، کیا پنجاب حکومت نے لوکل گورنمنٹ ختم کرکے بیک ڈور مارشل لا لگایا، مارشل لاء کے دور میں تو ایسا ہوتا تھا لیکن جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں سنا، کیا پنجاب لوکل گورنمنٹ ختم کرنے کا موڈ بن گیا تھا؟ عدالت کے ساتھ گیم مت کھیلیں، الیکشن کمیشن نے تو پنجاب میں بلدیاتی حکومت کو ختم کرنا غیر قانونی قرار دیا، ایڈوکیٹ جنرل آفس بتائے کیا پنجاب میں بلدیاتی حکومت ختم کرنا قانون کے مطابق ہے۔
عدالتی سوالات پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ عدالت کے اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ملک حالت جنگ میں ہے، جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں واقعی ایک جنگ جاری ہے اور وہ عوام کے خلاف ہے۔ لوگ بد دعائیں دے رہے ہیں،ہم نے خود کو نہ سدھارا تو وقت نکل جائے گا۔