میں نے انھیں دیکھ لیا
کمال نبوت نے جمال نبوت کی ضیا فشانی سے انھیں ہمیشہ ’’صدیق‘‘ہی فرمایا جو سچا بھی ہوتا ہے اور اہل عرب کے ہاں دوست بھی۔
ہمیشہ سوچتا تھا وہ کیسے ہوں گے جنھوں نے ایک سوال اور وحی کے اسرار و رموز جانے بنا، ''دوست''کو لمحے بھر میں آقا تسلیم کرلیا لیکن کمال نبوت نے جمال نبوت کی ضیا فشانی سے انھیں ہمیشہ ''صدیق''ہی فرمایا جو سچا بھی ہوتا ہے اور اہل عرب کے ہاں دوست بھی، معراج کی تصدیق کے بعد تو وہ ''صدیق اکبر''بنے، صدیق تو پہلے ہی سے تھے اور قرآن جب بیت المامورپر نازل ہوا تب سے ان کا ذکر انبیا کرام علیہم السلام کے بعد ''صدیقین''کی تعریف میں آیات کا جھومر تھا۔
میں سوچتا تھا وہ کیسے ہوں گے جنھوں نے اپنا مال و اسباب، اپنا گھر اپنی اولاد، اپنے والدین یہاں تک کہ اپنی جان بھی آقا پر قربان کر دی،بدرکے قریب مسجد عریش گواہ ہے کہ جب میرے آقا و مولی اپنے رب کو شدت سے پکار رہے تھے اس وقت سننے والا پروردگار ہی تھا مگر گواہ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے جنھیں نبوت کو ختم کرنے والے دشمنان ختم نبوت کوکچلنے کے لیے چن لیا گیا تھا اور وہ جان گئے تھے کہ میرے سیدی جب اپنے رب کے بلاوے پر ان کے پاس واپس چلے جائیں گے تب ان کے بعد کوئی نہیں آئے گا اور اگر کسی نے ایسی جرات بھی کی تو اللہ نے اپنے ایک بندے کو اس ختم نبوت کا شاہد بنا دیا ہے۔
اب حفاظت بھی ہوگی اور نبی کریمؐ کے پیغام ختم نبوت کا پرچار بھی ہوگا اور چشم فلک نے وہ مناظر دیکھے جب سرکار تشریف لے گئے بار خلافت یارکے کاندھوں پر آگیا ، مہاجرین و انصار کی دیوار اخوت کوگرانے والے منافقین سرگرم ہوگئے۔
منکرین زکوۃ نے سر اٹھا لیا اور مسیلمہ کذاب میرے آقا کی ختم نبوت پر ڈاکا ڈالنے کے لیے فوج تیار کرکے حفاظ اور محافظین کے سرکاٹنے کی گستاخی پر تل گیا ،جید صاحبان جو چاہتے تھے کہ مسیلمہ کو انجام تک پہنچایا جائے مگر کچھ عرصے بعد جب سیدنا ابوبکر کی خلافت مزید مضبوط ہو جائے اور شورش بپا کرنے والے بے نقاب ہوں تب دعائے مصطفی کے گواہ کی آواز گونجی ''میں جانتا ہوں ہم عسکری طور پر کمزور ہیں۔
علم رکھتا ہوں کہ افرادی قوت بھی زیادہ نہیں لیکن یہ ایمان کے تحفظ کا مرحلہ ہے اور ایمان پر حملہ کرنے والے کو ایمان والے ہی شکست دے سکتے ہیں۔ میں مسیلمہ کو قتل ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں'' اور پھر جنگ یمامہ نے فتح ختم نبوت کا اعلان کیا اور حنفیہ قبیلے کے سورما غلامان مجتبی کے ہاتھوں جہنم کے گڑھے میں جاگرے، بو بکر نے اپنے نبی کی نبوت کی حفاظت کچھ ایسے کی کہ قیامت تک محافظین ختم نبوت کے سردار وہی کہلائے جائیں گے گویا پوری امت کے سردار عبداللہ یعنی ابوبکر ہوگئے کیونکہ امتی وہی ہے جو ختم نبوت پر بھٹکتا ہے نہ سمٹتا ہے بلکہ ایسے تمام برج الٹتا ہے جو اس کے آقا کی مہر پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
اور پھر ہوا یوں کہ جن کے بارے میں سوچتا تھا، پڑھتا تھا، محبت کرتا تھا ان کی زیارت ہوگئی کیونکہ
جب چہروں میں چھپے چہرے سامنے آتے ہیں
تب یارکے ہمراہ سیدی ہمیں تھامنے آتے ہیں
میں سوچتا تھا وہ کیسے ہوں گے جنھوں نے اپنا مال و اسباب، اپنا گھر اپنی اولاد، اپنے والدین یہاں تک کہ اپنی جان بھی آقا پر قربان کر دی،بدرکے قریب مسجد عریش گواہ ہے کہ جب میرے آقا و مولی اپنے رب کو شدت سے پکار رہے تھے اس وقت سننے والا پروردگار ہی تھا مگر گواہ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے جنھیں نبوت کو ختم کرنے والے دشمنان ختم نبوت کوکچلنے کے لیے چن لیا گیا تھا اور وہ جان گئے تھے کہ میرے سیدی جب اپنے رب کے بلاوے پر ان کے پاس واپس چلے جائیں گے تب ان کے بعد کوئی نہیں آئے گا اور اگر کسی نے ایسی جرات بھی کی تو اللہ نے اپنے ایک بندے کو اس ختم نبوت کا شاہد بنا دیا ہے۔
اب حفاظت بھی ہوگی اور نبی کریمؐ کے پیغام ختم نبوت کا پرچار بھی ہوگا اور چشم فلک نے وہ مناظر دیکھے جب سرکار تشریف لے گئے بار خلافت یارکے کاندھوں پر آگیا ، مہاجرین و انصار کی دیوار اخوت کوگرانے والے منافقین سرگرم ہوگئے۔
منکرین زکوۃ نے سر اٹھا لیا اور مسیلمہ کذاب میرے آقا کی ختم نبوت پر ڈاکا ڈالنے کے لیے فوج تیار کرکے حفاظ اور محافظین کے سرکاٹنے کی گستاخی پر تل گیا ،جید صاحبان جو چاہتے تھے کہ مسیلمہ کو انجام تک پہنچایا جائے مگر کچھ عرصے بعد جب سیدنا ابوبکر کی خلافت مزید مضبوط ہو جائے اور شورش بپا کرنے والے بے نقاب ہوں تب دعائے مصطفی کے گواہ کی آواز گونجی ''میں جانتا ہوں ہم عسکری طور پر کمزور ہیں۔
علم رکھتا ہوں کہ افرادی قوت بھی زیادہ نہیں لیکن یہ ایمان کے تحفظ کا مرحلہ ہے اور ایمان پر حملہ کرنے والے کو ایمان والے ہی شکست دے سکتے ہیں۔ میں مسیلمہ کو قتل ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں'' اور پھر جنگ یمامہ نے فتح ختم نبوت کا اعلان کیا اور حنفیہ قبیلے کے سورما غلامان مجتبی کے ہاتھوں جہنم کے گڑھے میں جاگرے، بو بکر نے اپنے نبی کی نبوت کی حفاظت کچھ ایسے کی کہ قیامت تک محافظین ختم نبوت کے سردار وہی کہلائے جائیں گے گویا پوری امت کے سردار عبداللہ یعنی ابوبکر ہوگئے کیونکہ امتی وہی ہے جو ختم نبوت پر بھٹکتا ہے نہ سمٹتا ہے بلکہ ایسے تمام برج الٹتا ہے جو اس کے آقا کی مہر پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
اور پھر ہوا یوں کہ جن کے بارے میں سوچتا تھا، پڑھتا تھا، محبت کرتا تھا ان کی زیارت ہوگئی کیونکہ
جب چہروں میں چھپے چہرے سامنے آتے ہیں
تب یارکے ہمراہ سیدی ہمیں تھامنے آتے ہیں