5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر کے 30 برس
علامہ اقبال نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی: ’’توڑ اُس دستِ جفاکیش کو یا رب جس نے/روحِ آزادی کشمیر کو پامال کیا‘‘۔
یوں تو ہم سب پاکستانی جی جان سے پچھلے سات عشروں سے کشمیریوں کی اُمنگوں اور تمناؤں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اہلِ کشمیر کے ساتھ ہیں لیکن گزشتہ تین عشروں سے پاکستان کا ہر فرد پانچ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر فراواں جذبوں سے مناتا چلا آ رہا ہے۔
کشمیریوں سے محبت و اُلفت ہماری گھٹی میں پڑی ہے۔ تشکیلِ پاکستان سے قبل شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ نے پوری تندہی اور توانائی کے ساتھ مظلوم ومہجور کشمیریوں کا ساتھ دیا۔ کشمیر جنت نظیر اور ذہین و جفاکش کشمیریوں کے حق میں نظمیں لکھیں۔
علامہ اقبال نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی: ''توڑ اُس دستِ جفاکیش کو یا رب جس نے/روحِ آزادی کشمیر کو پامال کیا''۔ اقبال نے اسلامیانِ ہند کو کشمیریوں کا ہمنوا بنانے کی عملی ترغیبات بھی دیں۔ حضرت علامہؒ کے معتمد دوست، محمد دین فوق، نے علامہ اقبال کی کشمیر اور کشمیریوں سے لگاؤ کے ضمن میں کئی حوالے مرتب کیے ہیں ۔
بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی بھی کشمیر اورکشمیریوں سے محبت و قربت اٹوٹ تھی۔ قائد اعظم کی وہ دلکش تصاویر تاریخ ِ پاکستان کا انمول حصہ ہیں جن میں بانی پاکستان اپنی ہمشیرہ محترمہ اور اپنی صاحبزادی کے ساتھ تعطیلات منانے کے لیے سری نگر کی تاریخی جھیل، ڈَل، کے بوٹ ہاؤس میں مقیم نظر آتے ہیں۔ حضرت قائد اعظم کی زندگی کے آخری الفاظ میں کشمیر کا ذکر بھی واضح طور پر ملتا ہے ۔
کشمیر یوں کو غاصب اور قابض بھارت کے پنجہ استبداد سے نجات دلانے کے لیے پاکستان ایک سے زائد بار اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے جنگیں بھی کر چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر کشمیریوں کا مقدمہ لڑنے اور مظلوم کشمیریوں کی آواز کو دُنیا کے سامنے رکھنے میں بھی پاکستان کے کسی حکمران نے کبھی بخل اور غفلت سے کام نہیں لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمِ اسلام کے کئی ممالک نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھاری اکثریت سے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان اپنی شہ رگ سے دستکش ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ''یومِ یکجہتی کشمیر'' کا آغاز پاکستان بننے سے 15برس قبل (1932) ہی میں پنجاب سے ہو گیا تھا جب کشمیریوں پر ڈوگرہ راجہ کے مظالم حد سے تجاوز کر گئے تھے ۔ اُس وقت شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی حیات تھے۔ انھوں نے بھی کھل کر کشمیریوں کا ساتھ دیا۔ اس پر کشمیری ہندو راجہ اُن سے نالاں اور ناراض بھی ہُوا لیکن علامہ اقبال نے کشمیریوں کی محبت میں اس ناراضی کی قطعی کوئی پروا نہ کی ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دَورِ اقتدار میں بھی ہم کشمیریوں کے لیے 28فروری کو اپنی محبت اور یکجہتی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ امیر جماعتِ اسلامی محترم قاضی حسین احمد صاحب مرحوم و مغفور تھے جنھوں نے سب سے پہلے 5فروری کا دن ''یومِ یکجہتی کشمیر'' کے لیے مختص کرنے کی تجویز دی تھی۔ یہ 30سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اُس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کا پرچم لہرا رہا تھااور میاں محمد نواز شریف اُن کے سب سے بڑے سیاسی حریف کے طور پر میدان میں ڈٹے ہُوئے تھے۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان کشیدگی بھی عروج پر تھی لیکن جب قبلہ قاضی حسین احمد نے5فروری کو ''یومِ یکجہتی کشمیر'' منانے کی تجویز نواز شریف کے سامنے پیش کی تو میاں صاحب کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اس پر صاد کہا۔ یوں سب سے پہلے 5 فروری1990 کو ''یومِ یکجہتی کشمیر'' نہایت جوش و خروش سے منایا گیا۔ پورے پاکستان نے اس میں حصہ لیا لیکن جماعتِ اسلامی اور اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی ) کا کردار سب سے سوا تھا۔ سرکاری سطح پر مگر پانچ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا آغاز 21سال پہلے ہُوا جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز اور مخلص سیاستدان میر ظفر اللہ خان جمالی (مرحوم) پاکستان کے وزیر اعظم تھے ۔
قاضی حسین احمد بھی جنت آشیاں ہو چکے ہیں اور میر ظفراللہ جمالی بھی لیکن پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر پورے ولولے ، کمٹمنٹ اور جوش کے ساتھ بدستور منایا جا رہا ہے ۔ اس روز ملک بھر میں قومی تعطیل بھی ہوتی ہے اور پورے ملک کا ہر فرد کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر کو یک جہت اور یکمشت ہو کر یاد کرتا ہے ۔ یہ اتحاد مثالی اور غیرمعمولی ہے ۔ آج پھر پانچ فروری 2021ہے اور آج پھر ہم سب پاکستانی یومِ یکجہتی کشمیر کا اظہار کررہے ہیں۔ یہ یکجہتی اس امر کی واضح مظہر ہے کہ اگرچہ بھارت بزورِ شمشیر کشمیر پر قابض ہے لیکن پاکستان سمیت دُنیا اس غضب اور غصب کو نہیں مانتی، نہیں تسلیم کرتی۔ مقبوضہ کشمیر اور مظلوم کشمیری دُنیا کے لیے فلیش پوائنٹ ہے۔
مسئلہ کشمیر کو استصوابِ رائے کے توسط سے حل کرنے کی قرار دادیں یو این او کے رجسٹروں اور دستاویزوں سے مٹائی اور محو نہیں کی جا سکتیں۔پانچ فروری کو ہم یک زبان اور یک جہت ہو کر مقبوضہ کشمیر کے سبھی ساکنین کو یہ مضبوط اور متحدہ پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگرچہ حالات سازگار نہیں ، عالمِ اسلام کے کئی ممالک مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے ہمنوا نہیں، اکلوتی گلوبل سپر پاور کا جھکاؤ بوجوہ غاصب بھارت کی طرف ہے لیکن ان تمام غیر موافق ہواؤں اور فضاؤں کے باوجود پاکستان کے حکمران اور پاکستان کے 22کروڑ عوام کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ دُنیا چاہے ہماری (ابھی ) ہمنوا اور ہم زباں نہیں لیکن ہم جی جان سے کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے اورہم کشمیریوں کے ہیں۔ طاقتور عالمی فورموں میں ہماری آواز بوجوہ کمزور اور نحیف سہی لیکن کشمیر اور اہلِ کشمیر کے لیے ہمارے جذبے سچے اور ہمہ وقت جواں ہیں ۔
مقبوضہ کشمیر کے اُفق پر آزادی اور حریت کا آفتاب ضرور طلوع ہوگا۔ یہ ہمارے ایقان اور وجدان کا حصہ ہے۔ یہ بات ہمارے ایمان کا جزوِ ناگزیر ہے کہ خالقِ کائنات ہزاروں مجاہد کشمیریوں کا لہو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔
اصول شکن بھارت نے اگرچہ اپنے ہی دستور کی حرمت پامال کرتے ہُوئے پچھلے 17مہینوں سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر کے کشمیر پر اپنا قبضہ اور گرفت مزید مضبوط کرنے کی مصنوعی کوشش کر رکھی ہے لیکن دُنیا اس چال اور فریب کو نہیں مانتی۔ انڈین اسٹیبلشمنٹ اور برہمن ذہنیت کے گٹھ جوڑ سے مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں بھارتی ہندوؤں کو بسانے اور انھیں کشمیر کے ڈومیسائل دینے کی کوششیں بروئے کار ہیں لیکن ان حربوں اور ہتھکنڈوں سے مقبوضہ کشمیر میں اصل کشمیریوںکو معدوم نہیں کیا جا سکتا ۔
مقبوضہ کشمیر میں اگرچہ ''افسپا'' (Armed Forces Special Powers Act) کے سیاہ قانون کے تحت نوجوان کشمیریوں کو بلا دریغ شہید کرنے اور لاتعداد فرضی انکاؤنٹرز کا خونی کھیل جاری ہے لیکن ظلم و استحصال کی یہ کالی رات ضرور آزادی کے روشن دن میں ڈھل کر رہے گی۔ انشاء اللہ۔ مقبوضہ کشمیر کے سبھی سابق کٹھ پتلی حکمران ( ڈاکٹر فاروق عبداللہ ، عمر فاروق عبداللہ ،محبوبہ مفتی) آج بیک زبان پکار اُٹھے ہیں کہ وہ فریب کا شکار تھے ، شیخ عبداللہ نے قائد اعظم ؒ کی بات نہ مان کر گناہِ کبیرہ کیا اور آج اس گناہ کا عذاب سارا کشمیر بھگت رہا ہے۔
آج بھارتی سکھ بھی قائد اعظم کی پیشکش قبول نہ کرنے پر کفِ افسوس ملتے ہُوئے ماسٹر تارا سنگھ کو بے نقط سنا رہے ہیں۔ ابھی کئی حقیقتیں مزید روشن ہوں گی۔ ان حقیقتوں کے عقب ہی سے کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو اسلام آباد کی شاہراہِ کشمیر کا نام''سری نگر ہائی وے'' میں تبدیل کرنے سے آگے بھی کوئی قدم اُٹھا لینا چاہیے ۔
کشمیریوں سے محبت و اُلفت ہماری گھٹی میں پڑی ہے۔ تشکیلِ پاکستان سے قبل شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ نے پوری تندہی اور توانائی کے ساتھ مظلوم ومہجور کشمیریوں کا ساتھ دیا۔ کشمیر جنت نظیر اور ذہین و جفاکش کشمیریوں کے حق میں نظمیں لکھیں۔
علامہ اقبال نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی: ''توڑ اُس دستِ جفاکیش کو یا رب جس نے/روحِ آزادی کشمیر کو پامال کیا''۔ اقبال نے اسلامیانِ ہند کو کشمیریوں کا ہمنوا بنانے کی عملی ترغیبات بھی دیں۔ حضرت علامہؒ کے معتمد دوست، محمد دین فوق، نے علامہ اقبال کی کشمیر اور کشمیریوں سے لگاؤ کے ضمن میں کئی حوالے مرتب کیے ہیں ۔
بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی بھی کشمیر اورکشمیریوں سے محبت و قربت اٹوٹ تھی۔ قائد اعظم کی وہ دلکش تصاویر تاریخ ِ پاکستان کا انمول حصہ ہیں جن میں بانی پاکستان اپنی ہمشیرہ محترمہ اور اپنی صاحبزادی کے ساتھ تعطیلات منانے کے لیے سری نگر کی تاریخی جھیل، ڈَل، کے بوٹ ہاؤس میں مقیم نظر آتے ہیں۔ حضرت قائد اعظم کی زندگی کے آخری الفاظ میں کشمیر کا ذکر بھی واضح طور پر ملتا ہے ۔
کشمیر یوں کو غاصب اور قابض بھارت کے پنجہ استبداد سے نجات دلانے کے لیے پاکستان ایک سے زائد بار اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے جنگیں بھی کر چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر کشمیریوں کا مقدمہ لڑنے اور مظلوم کشمیریوں کی آواز کو دُنیا کے سامنے رکھنے میں بھی پاکستان کے کسی حکمران نے کبھی بخل اور غفلت سے کام نہیں لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمِ اسلام کے کئی ممالک نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھاری اکثریت سے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان اپنی شہ رگ سے دستکش ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ''یومِ یکجہتی کشمیر'' کا آغاز پاکستان بننے سے 15برس قبل (1932) ہی میں پنجاب سے ہو گیا تھا جب کشمیریوں پر ڈوگرہ راجہ کے مظالم حد سے تجاوز کر گئے تھے ۔ اُس وقت شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی حیات تھے۔ انھوں نے بھی کھل کر کشمیریوں کا ساتھ دیا۔ اس پر کشمیری ہندو راجہ اُن سے نالاں اور ناراض بھی ہُوا لیکن علامہ اقبال نے کشمیریوں کی محبت میں اس ناراضی کی قطعی کوئی پروا نہ کی ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دَورِ اقتدار میں بھی ہم کشمیریوں کے لیے 28فروری کو اپنی محبت اور یکجہتی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ امیر جماعتِ اسلامی محترم قاضی حسین احمد صاحب مرحوم و مغفور تھے جنھوں نے سب سے پہلے 5فروری کا دن ''یومِ یکجہتی کشمیر'' کے لیے مختص کرنے کی تجویز دی تھی۔ یہ 30سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اُس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کا پرچم لہرا رہا تھااور میاں محمد نواز شریف اُن کے سب سے بڑے سیاسی حریف کے طور پر میدان میں ڈٹے ہُوئے تھے۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان کشیدگی بھی عروج پر تھی لیکن جب قبلہ قاضی حسین احمد نے5فروری کو ''یومِ یکجہتی کشمیر'' منانے کی تجویز نواز شریف کے سامنے پیش کی تو میاں صاحب کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اس پر صاد کہا۔ یوں سب سے پہلے 5 فروری1990 کو ''یومِ یکجہتی کشمیر'' نہایت جوش و خروش سے منایا گیا۔ پورے پاکستان نے اس میں حصہ لیا لیکن جماعتِ اسلامی اور اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی ) کا کردار سب سے سوا تھا۔ سرکاری سطح پر مگر پانچ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا آغاز 21سال پہلے ہُوا جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز اور مخلص سیاستدان میر ظفر اللہ خان جمالی (مرحوم) پاکستان کے وزیر اعظم تھے ۔
قاضی حسین احمد بھی جنت آشیاں ہو چکے ہیں اور میر ظفراللہ جمالی بھی لیکن پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر پورے ولولے ، کمٹمنٹ اور جوش کے ساتھ بدستور منایا جا رہا ہے ۔ اس روز ملک بھر میں قومی تعطیل بھی ہوتی ہے اور پورے ملک کا ہر فرد کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر کو یک جہت اور یکمشت ہو کر یاد کرتا ہے ۔ یہ اتحاد مثالی اور غیرمعمولی ہے ۔ آج پھر پانچ فروری 2021ہے اور آج پھر ہم سب پاکستانی یومِ یکجہتی کشمیر کا اظہار کررہے ہیں۔ یہ یکجہتی اس امر کی واضح مظہر ہے کہ اگرچہ بھارت بزورِ شمشیر کشمیر پر قابض ہے لیکن پاکستان سمیت دُنیا اس غضب اور غصب کو نہیں مانتی، نہیں تسلیم کرتی۔ مقبوضہ کشمیر اور مظلوم کشمیری دُنیا کے لیے فلیش پوائنٹ ہے۔
مسئلہ کشمیر کو استصوابِ رائے کے توسط سے حل کرنے کی قرار دادیں یو این او کے رجسٹروں اور دستاویزوں سے مٹائی اور محو نہیں کی جا سکتیں۔پانچ فروری کو ہم یک زبان اور یک جہت ہو کر مقبوضہ کشمیر کے سبھی ساکنین کو یہ مضبوط اور متحدہ پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگرچہ حالات سازگار نہیں ، عالمِ اسلام کے کئی ممالک مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے ہمنوا نہیں، اکلوتی گلوبل سپر پاور کا جھکاؤ بوجوہ غاصب بھارت کی طرف ہے لیکن ان تمام غیر موافق ہواؤں اور فضاؤں کے باوجود پاکستان کے حکمران اور پاکستان کے 22کروڑ عوام کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ دُنیا چاہے ہماری (ابھی ) ہمنوا اور ہم زباں نہیں لیکن ہم جی جان سے کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے اورہم کشمیریوں کے ہیں۔ طاقتور عالمی فورموں میں ہماری آواز بوجوہ کمزور اور نحیف سہی لیکن کشمیر اور اہلِ کشمیر کے لیے ہمارے جذبے سچے اور ہمہ وقت جواں ہیں ۔
مقبوضہ کشمیر کے اُفق پر آزادی اور حریت کا آفتاب ضرور طلوع ہوگا۔ یہ ہمارے ایقان اور وجدان کا حصہ ہے۔ یہ بات ہمارے ایمان کا جزوِ ناگزیر ہے کہ خالقِ کائنات ہزاروں مجاہد کشمیریوں کا لہو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔
اصول شکن بھارت نے اگرچہ اپنے ہی دستور کی حرمت پامال کرتے ہُوئے پچھلے 17مہینوں سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر کے کشمیر پر اپنا قبضہ اور گرفت مزید مضبوط کرنے کی مصنوعی کوشش کر رکھی ہے لیکن دُنیا اس چال اور فریب کو نہیں مانتی۔ انڈین اسٹیبلشمنٹ اور برہمن ذہنیت کے گٹھ جوڑ سے مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں بھارتی ہندوؤں کو بسانے اور انھیں کشمیر کے ڈومیسائل دینے کی کوششیں بروئے کار ہیں لیکن ان حربوں اور ہتھکنڈوں سے مقبوضہ کشمیر میں اصل کشمیریوںکو معدوم نہیں کیا جا سکتا ۔
مقبوضہ کشمیر میں اگرچہ ''افسپا'' (Armed Forces Special Powers Act) کے سیاہ قانون کے تحت نوجوان کشمیریوں کو بلا دریغ شہید کرنے اور لاتعداد فرضی انکاؤنٹرز کا خونی کھیل جاری ہے لیکن ظلم و استحصال کی یہ کالی رات ضرور آزادی کے روشن دن میں ڈھل کر رہے گی۔ انشاء اللہ۔ مقبوضہ کشمیر کے سبھی سابق کٹھ پتلی حکمران ( ڈاکٹر فاروق عبداللہ ، عمر فاروق عبداللہ ،محبوبہ مفتی) آج بیک زبان پکار اُٹھے ہیں کہ وہ فریب کا شکار تھے ، شیخ عبداللہ نے قائد اعظم ؒ کی بات نہ مان کر گناہِ کبیرہ کیا اور آج اس گناہ کا عذاب سارا کشمیر بھگت رہا ہے۔
آج بھارتی سکھ بھی قائد اعظم کی پیشکش قبول نہ کرنے پر کفِ افسوس ملتے ہُوئے ماسٹر تارا سنگھ کو بے نقط سنا رہے ہیں۔ ابھی کئی حقیقتیں مزید روشن ہوں گی۔ ان حقیقتوں کے عقب ہی سے کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو اسلام آباد کی شاہراہِ کشمیر کا نام''سری نگر ہائی وے'' میں تبدیل کرنے سے آگے بھی کوئی قدم اُٹھا لینا چاہیے ۔