خلیفۂ رسولِ اکرمؐ سیّدنا ابُوبکر صدیق ؓ

آپؓ نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایسا فعل نہیں کیا جو نبی کریمؐ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔

نبی کریمؐ کے اعلان نبوت اور دعوت اسلام پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے سیّدنا ابوبکرؓ ہی تھے۔ فوٹو: فائل

آپؓ کا نام عبداﷲ، لقب صدیق اور عتیق ہیں۔ یہ دونوں القاب جناب نبی کریمؐ نے عطا فرمائے۔ آپؓ کا نسب آٹھویں پشت پر رسول کریمؐ سے جا ملتا ہے۔ آپؓ نہایت رقیق القلب اور بردبار تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی کریمؐ کے پہلے صحابی، پہلے امّتی، پہلے خلیفہ، رازدار اور خسرمحترم بھی تھے۔

سیدنا ابوبکرؓ قریش کے ایک بااثر اور ممتاز فرد تھے۔ آپؓ کی اس قدر عزت کی جاتی تھی کہ دیت و تاوان کے تنازعات کا فیصلہ آپؓ ہی سے کرایا جاتا تھا۔ جب آپؓ کسی کی ضمانت دے دیتے تو اس پر اعتبار کیا جاتا۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی آپؓ نے شراب کو چُھوا تک نہیں۔ بچپن سے ہی آپؓ کو رسول اکرمؐ سے والہانہ محبّت و مودت تھی۔ اعلان نبوتؐ کے بعد آپؓ کوئی معجزہ طلب کیے بغیر ایمان لائے۔ مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد سیّدنا ابُوبکر صدیقؓ نے اسلام کی وہ خدمت کی کہ اس کی کوئی دوسری مثال نہیں دی جاسکتی۔

یہ وہ وقت تھا کہ دعوت اسلام کا زبان پر لانا ایسے تھا جیسے جلتا ہوا انگار ہاتھ میں لینا۔ مگر آپؓ نے اس دور میں بھی دامن نبوتؐ نہ چھوڑا اور نبی کریمؐ کے کام کو اپنا کام سمجھ کر اپنایا اور ایسا اپنایا کہ اس راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی اور اس راستے میں ہر طرح کی تکالیف، مصائب اور آلام خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔ اشراف قریش کی ایک جماعت سیّدنا ابوبکرؓ کی تبلیغ سے ہی حلقہ بہ گوش اسلام ہوئی۔ عشرہ مبشرہ میں سے سیّدنا عثمان، سیّدنا طلحہ، سیّدنا زبیر، سیّدنا سعد بن ابی وقاص، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہم اجمعین آپؓ کے وعظ و ترغیب سے مسلمان ہوئے۔

اعلان نبوتؐ کو تیرہ سال گزر چکے تھے کہ بارگاہ ایزدی سے رسالت مآب حضرت محمد ﷺ کو اذن ہجرت ہوتا ہے تو آپؐ اپنے دیرینہ دوست سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے گھر کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ سیّدنا ابوبکرؓ نبی اکرمؐ کی معیت میں مدینہ منورہ کی طرف رخت سفر باندھتے ہیں۔ ادھر ابوجہل اور اس کے آلہ کار سرجوڑ کر بیٹھتے ہیں اور نبی کریمؐ اور سیّدنا ابوبکرؓ کی تلاش میں مختلف لوگوں کو بھیجتے ہیں۔

ابوجہل خود بھی چند ساتھیوں کے ساتھ کھوجی لے کر سیّدالانبیاء نبی کریمؐ اور سیّدالصحابہؓ کی تلاش میں نکلتا ہے۔ کھوجی قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے پتھریلی زمین پر پہنچ کر رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہاں تک تو وہ دونوں آئے ہیں مگر اس کے بعد آگے ایک ہی شخص گیا ہے۔ ابوجہل ایک دم چیخ اٹھا کہ کیا تمہیں رستہ نہیں نظر آرہا ؟ دیکھتے نہیں کہ راستہ پتھریلا ہے، ضرور ابوبکرؓ نے اپنے ساتھی محمد ﷺ کو اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہوگا۔

اﷲ رب العزت کی قدرت تھی کہ جناب نبی کریمؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے غار میں داخل ہونے کے بعد حکم ربّانی کے تحت ایک کبوتری نے غار میں داخل ہونے والی جگہ پر گھونسلا بنا کر اس میں انڈے دیے اور ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بُن ڈالا۔ یہ دیکھ کر ابوجہل اور اس کے گماشتے رسول کریمؐ اور سیّدنا ابوبکرؓ کی تلاش سے مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے۔ ہجرت مدینہ کے اس جان لیوا، دشوار گزار اور پُرخطر سفر کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔


اس موقع پر اﷲ تعالی نے حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو حضور نبی کریمؐ کا صحابی فرمایا ہے۔ حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے نبی کریمؐ کی معیت میں ساری زندگی گزاری ۔ آپؓ نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایسا فعل نہیں کیا جو نبی کریمؐ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ نبی کریمؐ کے اعلان نبوت اور دعوت اسلام پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے سیّدنا ابوبکرؓ ہی تھے۔

آپؓ نے اسلام کے ابتدائی دور میں انتہائی سخت حالات کو بڑی جاں فشانی سے برداشت کیا اور اپنا سب کچھ اپنے آقا ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ نبی کریمؐ کے سفر و حضر، قیام و طعام، جہاد و حج حتی کہ قبر مبارک کے ساتھی بھی سیّدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ سیّدنا ابوبکرؓ ہر غزوہ میں نبی کریمؐ کے قدم بہ قدم رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ وہ واحد صحابی ہیں کہ جن کی چار پشتیں صحابی تھیں۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اور نبی کریم ﷺ کے حالات زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوگا کہ نبی کریمؐ اور جناب ابوبکرؓ کی زندگی میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔

جیسا کہ نبی کریمؐ اور سیّدنا ابوبکر صدیقؓ دونوں کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی۔ اسی طرح بیماری کا عرصہ بھی ایک ہی تھا۔ ہر دو حضرات کے وصال کے بعد سب سے بہتر شخصیت نے ان کی جگہ سنبھالی یعنی نبی کریمؐ کے بعد سیّدنا ابوبکرؓ اور بعد میں سیّدنا عمرؓ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ جب سیّدنا ابوبکرؓ خلیفہ بنائے گئے تو انہیں خلیفہ رسولؐ کہا جاتا تھا۔ یہ لقب امت میں صرف سیّدنا ابوبکرؓ کو حاصل ہے۔ جب کہ دیگر خلفاء کے لیے امیرالمومنین کا لقب استعمال کیا گیا۔

سیّدنا صدیق اکبرؓ نے معیت نبوت ؐ اور اپنی خلافت میں اسلام کی وہ خدمت کی کہ امّت مسلمہ تاقیامت ان کے اس احسان سے سبک دوش نہیں ہوسکتی۔ مرض وفات میں فرمایا کہ جن کپڑوں میں میرا انتقال ہورہا ہے،

مجھے انہی کپڑوں میں کفنا دینا۔ تجہیز و تکفین کے بعد ام المومنین سیّدہ عائشہؓ کے حجرہ (جو کہ روضہ نبویؐ کہلاتا ہے) میں نبی کریمؐ کے ساتھ تدفین کی گئی۔

اﷲ پاک ہمیں صحابۂ کرامؓ کی طرح نبی کریم ﷺ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story