پی ٹی آئی کے 2 سال ہر پاکستانی پونے 2 لاکھ روپے کا مقروض ہوگیا
جون 2020 کے اختتام پر مجموعی سرکاری قرضہ 36.4 ٹریلین روپے تھا، 2سال میں فی کس قرض 54901 روپے بڑھ گیا
پاکستان کے ہر شہری پر قرض کا بوجھ بڑھتے بڑھتے پونے دو لاکھ روپے تک پہنچ گیا، یعنی ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 175000روپے کا مقروض ہوتا ہے۔
گذشتہ روز وزارت خزانہ کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا کہ گذشتہ مالی سال کے اختتام پر فی کس قرضہ بڑھ کر پونے دو لاکھ روپے کی سطح تک پہنچ گیا۔ اس طرح 2 سال میں ملک کے ہر شہری پر قرض کے بوجھ میں 54901 روپے ( 46 فیصد ) کا اضافہ ہوا۔
وزارت خزانہ کے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے'' فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ 2020-21'' کے مطابق گذشتہ مالی سال میں فی کس قرض میں 21311 روپے کا اضافہ ہوا۔ فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ کے مطابق جون 2020 کے اختتام پر مجموعی سرکاری قرضہ 36.4 ٹریلین روپے تھا۔ وزارت خزانہ نے قرض کی مجموعی رقم کو 208 ملین پاکستانیوں پر تقسیم کیا ہے۔
واضح رہے کہ جون 2018ء میں مجموعی سرکاری قرضہ 24.9 ٹریلین روپے تھا۔
وزارت خزانہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وفاقی مالیاتی خسارے کو قومی معیشت کے 4 فیصد تک نہ گھٹا کر حکومت نے ' فسکل رسپانسیبلٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005'' کی خلاف ورزی کی ہے۔ وفاقی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 8.6فیصد ہے جو قانون کے تحت مقرر کردہ حد کے دگنا سے بھی زیادہ ہے۔
فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ کے مطابق مالی سال 2019-20 میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جاری اخراجات 28سال میں سب سے زیادہ رہے، جب کہ معاشی حجم کی مناسبت سے ترقیاتی اخراجات پچھلے 10 کی نسبت سب سے کم رہے۔ گذشتہ مالی سال میں مجموعی اخراجات جی ڈی پی کا 23.1فیصد رہے جو 21سال میں اخراجات کی بلند ترین سطح ہے۔
گذشتہ روز وزارت خزانہ کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا کہ گذشتہ مالی سال کے اختتام پر فی کس قرضہ بڑھ کر پونے دو لاکھ روپے کی سطح تک پہنچ گیا۔ اس طرح 2 سال میں ملک کے ہر شہری پر قرض کے بوجھ میں 54901 روپے ( 46 فیصد ) کا اضافہ ہوا۔
وزارت خزانہ کے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے'' فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ 2020-21'' کے مطابق گذشتہ مالی سال میں فی کس قرض میں 21311 روپے کا اضافہ ہوا۔ فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ کے مطابق جون 2020 کے اختتام پر مجموعی سرکاری قرضہ 36.4 ٹریلین روپے تھا۔ وزارت خزانہ نے قرض کی مجموعی رقم کو 208 ملین پاکستانیوں پر تقسیم کیا ہے۔
واضح رہے کہ جون 2018ء میں مجموعی سرکاری قرضہ 24.9 ٹریلین روپے تھا۔
وزارت خزانہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وفاقی مالیاتی خسارے کو قومی معیشت کے 4 فیصد تک نہ گھٹا کر حکومت نے ' فسکل رسپانسیبلٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005'' کی خلاف ورزی کی ہے۔ وفاقی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 8.6فیصد ہے جو قانون کے تحت مقرر کردہ حد کے دگنا سے بھی زیادہ ہے۔
فسکل پالیسی اسٹیٹمنٹ کے مطابق مالی سال 2019-20 میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جاری اخراجات 28سال میں سب سے زیادہ رہے، جب کہ معاشی حجم کی مناسبت سے ترقیاتی اخراجات پچھلے 10 کی نسبت سب سے کم رہے۔ گذشتہ مالی سال میں مجموعی اخراجات جی ڈی پی کا 23.1فیصد رہے جو 21سال میں اخراجات کی بلند ترین سطح ہے۔