انصاف
بدقسمتی سے ہمارا نظام انصاف اس قدر سست رو ہے کہ ایک نسل،دوسری نسل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
انصاف میں تاخیرکو بھی ناانصافی کہا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارا نظام انصاف اس قدر سست رو ہے کہ ایک نسل،دوسری نسل میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن انصاف کی رفتار میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
ہم جس نظام سرمایہ داری میں زندگی گزار رہے ہیں وہ کرپشن کا گڑھ بنا ہوا ہے، اگر انصاف کی گاڑی کو دولت کے پہیے لگا دیے جائیں تو انصاف اس قدر تیز رفتار ہو جاتا ہے کہ مدعی خود حیران رہ جاتا ہے۔ ہم کو سیاسی جرم یعنی ہڑتال کے الزام میں ایک بار جیل جانا پڑا وہ زمانہ یحییٰ خان کا تھا۔ عام عدالتوں کے بجائے غیر سول عدالتیں قائم تھیں اور انصاف تیزی سے ہو رہا تھا۔
کراچی کے کئی علاقوں میں ہڑتالوں کا سلسلہ جاری تھا اورغیر سول عدالتیں تیزی سے انصاف کر رہی تھیں۔ ایوب خان نے مزدوروں کے ساتھ جو سختی روا رکھی تھی، اس کا ردعمل ہڑتالوں کی شکل میں سارے شہر میں دیکھا جاسکتا تھا۔ اس دورمیں کراچی پورٹ ٹرسٹ اور شپ یارڈ میں بھی ہڑتالوں کا سلسلہ جاری تھا ہم چونکہ ٹریڈ یونین کی قیادت میں لیبر آرگنائزنگ کمیٹی میں شامل تھے لہٰذا ہمارا نام بھی شرپسندوں میں شامل تھا۔ مجھے بھی شرپسندی اور جلاؤ گھیرا کے الزام میں پکڑلیا گیا۔
ہماری پولیس کی کارکردگی کا عالم یہ تھا کہ ہم کو پولیس پر پتھراؤ کے الزام میں دھر لیا گیا تھا اور ایف آئی آر میں جرم کا جو وقت بتایا گیا تھا اس وقت ہم ڈیوٹی پر تھے اور اٹینڈنس رجسٹر میں ہمارے سائن موجود تھے اور سارا دفتر گواہ تھا کہ ہم مذکورہ وقت پر ڈیوٹی پر موجود تھے۔
انتظامیہ کی طرف سے ایک افسر اٹینڈنس رجسٹر لیے عدالت میں حاضر تھا اور رجسٹر میں ہماری اٹینڈنس بتا کر آنریبل جج صاحب کے سامنے گواہی دے رہا تھا کہ بندہ مذکور جرم کے وقت دفتر میں اپنی سیٹ پر موجود تھا لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی دراصل یہ کام پولیس کا تھا کہ اس نے ایف آئی آر ہی سرے سے غلط بنائی تھی ہمارا قد پانچ فٹ دس انچ تھا اور ایف آئی آر میں ہمیں ٹھگنا بتایا گیا تھا ،ایف آر اس قدر بوگس تھی کہ جیوری کے دونوں جج اپنی ہنسی چھپا رہے تھے۔
ہم نے محترم جج صاحب سے گزارش کی کہ انسان کا قد کیا پندرہ دن میں ایک فٹ بڑھ سکتا ہے؟ ہماری بات سن کر عدالت کے جج ہنس پڑے۔ بہرحال اصل مسئلہ یہ تھا کہ مزدور سخت مشتعل تھے اور ہڑتالوں کے ذریعے اپنا غصہ اتار رہے تھے، چونکہ ایف آئی آر کے مطابق ہمارا جرم مذاق بن گیا تھا، سو ہمیں ایف آئی آر کے حوالے سے تو سزا نہیں دی گئی البتہ عدالت میں بہت لیٹ حاضر ہونے پر سزا سنا دی گئی یوں ہم مجرم بن گئے۔
اب ذرا اس دور کی جیل کا حال سنیے۔ جیل میں لال ٹوپی والے بڑے مشہور ہوتے ہیں یہ قیدی ہی ہوتے ہیں لیکن اچھی کارکردگی پر انھیں جمعدار بنا دیا جاتا ہے، ہمارے حصے میں جو لال ٹوپی والا آیا وہ عمر قید کا مجرم تھا اور قیدیوں کے کپڑوں کے اسٹور میں کام کرتا تھا۔ ورنہ عمر قید والے قیدیوں کو جیل کے کارخانوں میں لگا دیا جاتا تھا ہم چونکہ ڈبل ایم اے تھے لہٰذا ہمیں کپڑوں کے اسٹور پر لگا دیا گیا۔ جہاں کام کچھ نہیں ہوتا تھا ، بس کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔
جس قیدی کی سزائے موت پر جس روز عملدرآمد ہونا ہوتا اس روز جیل میں بڑی اداسی چھائی رہتی۔ قیدیوں میں ایک بے چینی ہوتی تھی پھانسی سے ایک روز پہلے ہم ریت کی ایک بوری کو ترازو میں دیکھ کر حیران ہوگئے۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ ریت مجرم کے وزن کے برابر ہوتی تھی اور ترازو کے دوسرے حصے پر باندھی جاتی تھی جب جیلر اور ڈاکٹر اشارہ کرتے تو ترازو پر مامور شخص لیورکھینچ دیتا اور قیدی کے گلے میں پھانسی کا پھندا پڑ جاتا اور قیدی کی لاش اس گڑھے میں لٹک جاتی جو اسی مقصد کے لیے بنایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر تھوڑی دیر بعد مجرم کا معائنہ کرتا اور قیدی کی موت کی تصدیق کردیتا، یوں ایک سزائے موت کے قیدی کی موت پر عملدرآمد ہو جاتا۔
سیاست اور سیاسی جرائم پر لکھتے لکھتے ہم بور ہوگئے ہیں۔ آج قلم کا مزہ بدلنے کے لیے جیل کے شب و روز پر لکھ رہے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ یحییٰ خان کے دور میں کورٹ سخت سزائیں دیتی تھیں اور سزا دینے میں دیر نہیں کرتی تھیں، جس کا مقصد مزدوروں اور طالب علموں کو کنٹرول کرنا ہوتا تھا۔ ہمارے ساتھ این ایس ایف کے دونوں گروپوں کو بھی لمبی لمبی سزائیں دی گئی تھیں۔ ان کے لیے الگ بیرک کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جہاں وہ دن بھر ہلہ گلہ کرتے رہتے۔ ایک گروپ کے لیڈر رشید حسن خان اور دوسرے گروپ کے لیڈر امیر حیدر کاظمی تھے باہر سے بریانی کی دیگیں لائی جاتی تھیں ایک لمبے دستر خوان پر مزدور اور طالب علم اکٹھے کھانا کھاتے تھے۔
جیل کے ڈسپلن کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے طلبا اور مزدوروں کو الگ بیرک دیے گئے تھے۔ ایک قیدی لال پیلے سبز رنگ کا پانی بڑی بڑی بوتلوں میں بھر کر ٹھیلا دھکیلتا ساری جیل میں گھومتا تھا، قیدی اپنی مرضی کی دوا حاصل کرکے استعمال کرتے تھے۔ اس زمانے کی جیلوں کا مقابلہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے فائیو اسٹار ہوٹل کا چھپر ہوٹل کے ساتھ موازنہ کرنا۔ جیلوں کے ہزاروں عام قیدیوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر ہوتا ہے اور سیاسی لیڈروں کے لیے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کا علیحدہ بندوبست کیا جاتا ہے یہ ہے ہمارا نظام۔
ہم جس نظام سرمایہ داری میں زندگی گزار رہے ہیں وہ کرپشن کا گڑھ بنا ہوا ہے، اگر انصاف کی گاڑی کو دولت کے پہیے لگا دیے جائیں تو انصاف اس قدر تیز رفتار ہو جاتا ہے کہ مدعی خود حیران رہ جاتا ہے۔ ہم کو سیاسی جرم یعنی ہڑتال کے الزام میں ایک بار جیل جانا پڑا وہ زمانہ یحییٰ خان کا تھا۔ عام عدالتوں کے بجائے غیر سول عدالتیں قائم تھیں اور انصاف تیزی سے ہو رہا تھا۔
کراچی کے کئی علاقوں میں ہڑتالوں کا سلسلہ جاری تھا اورغیر سول عدالتیں تیزی سے انصاف کر رہی تھیں۔ ایوب خان نے مزدوروں کے ساتھ جو سختی روا رکھی تھی، اس کا ردعمل ہڑتالوں کی شکل میں سارے شہر میں دیکھا جاسکتا تھا۔ اس دورمیں کراچی پورٹ ٹرسٹ اور شپ یارڈ میں بھی ہڑتالوں کا سلسلہ جاری تھا ہم چونکہ ٹریڈ یونین کی قیادت میں لیبر آرگنائزنگ کمیٹی میں شامل تھے لہٰذا ہمارا نام بھی شرپسندوں میں شامل تھا۔ مجھے بھی شرپسندی اور جلاؤ گھیرا کے الزام میں پکڑلیا گیا۔
ہماری پولیس کی کارکردگی کا عالم یہ تھا کہ ہم کو پولیس پر پتھراؤ کے الزام میں دھر لیا گیا تھا اور ایف آئی آر میں جرم کا جو وقت بتایا گیا تھا اس وقت ہم ڈیوٹی پر تھے اور اٹینڈنس رجسٹر میں ہمارے سائن موجود تھے اور سارا دفتر گواہ تھا کہ ہم مذکورہ وقت پر ڈیوٹی پر موجود تھے۔
انتظامیہ کی طرف سے ایک افسر اٹینڈنس رجسٹر لیے عدالت میں حاضر تھا اور رجسٹر میں ہماری اٹینڈنس بتا کر آنریبل جج صاحب کے سامنے گواہی دے رہا تھا کہ بندہ مذکور جرم کے وقت دفتر میں اپنی سیٹ پر موجود تھا لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی دراصل یہ کام پولیس کا تھا کہ اس نے ایف آئی آر ہی سرے سے غلط بنائی تھی ہمارا قد پانچ فٹ دس انچ تھا اور ایف آئی آر میں ہمیں ٹھگنا بتایا گیا تھا ،ایف آر اس قدر بوگس تھی کہ جیوری کے دونوں جج اپنی ہنسی چھپا رہے تھے۔
ہم نے محترم جج صاحب سے گزارش کی کہ انسان کا قد کیا پندرہ دن میں ایک فٹ بڑھ سکتا ہے؟ ہماری بات سن کر عدالت کے جج ہنس پڑے۔ بہرحال اصل مسئلہ یہ تھا کہ مزدور سخت مشتعل تھے اور ہڑتالوں کے ذریعے اپنا غصہ اتار رہے تھے، چونکہ ایف آئی آر کے مطابق ہمارا جرم مذاق بن گیا تھا، سو ہمیں ایف آئی آر کے حوالے سے تو سزا نہیں دی گئی البتہ عدالت میں بہت لیٹ حاضر ہونے پر سزا سنا دی گئی یوں ہم مجرم بن گئے۔
اب ذرا اس دور کی جیل کا حال سنیے۔ جیل میں لال ٹوپی والے بڑے مشہور ہوتے ہیں یہ قیدی ہی ہوتے ہیں لیکن اچھی کارکردگی پر انھیں جمعدار بنا دیا جاتا ہے، ہمارے حصے میں جو لال ٹوپی والا آیا وہ عمر قید کا مجرم تھا اور قیدیوں کے کپڑوں کے اسٹور میں کام کرتا تھا۔ ورنہ عمر قید والے قیدیوں کو جیل کے کارخانوں میں لگا دیا جاتا تھا ہم چونکہ ڈبل ایم اے تھے لہٰذا ہمیں کپڑوں کے اسٹور پر لگا دیا گیا۔ جہاں کام کچھ نہیں ہوتا تھا ، بس کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔
جس قیدی کی سزائے موت پر جس روز عملدرآمد ہونا ہوتا اس روز جیل میں بڑی اداسی چھائی رہتی۔ قیدیوں میں ایک بے چینی ہوتی تھی پھانسی سے ایک روز پہلے ہم ریت کی ایک بوری کو ترازو میں دیکھ کر حیران ہوگئے۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ ریت مجرم کے وزن کے برابر ہوتی تھی اور ترازو کے دوسرے حصے پر باندھی جاتی تھی جب جیلر اور ڈاکٹر اشارہ کرتے تو ترازو پر مامور شخص لیورکھینچ دیتا اور قیدی کے گلے میں پھانسی کا پھندا پڑ جاتا اور قیدی کی لاش اس گڑھے میں لٹک جاتی جو اسی مقصد کے لیے بنایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر تھوڑی دیر بعد مجرم کا معائنہ کرتا اور قیدی کی موت کی تصدیق کردیتا، یوں ایک سزائے موت کے قیدی کی موت پر عملدرآمد ہو جاتا۔
سیاست اور سیاسی جرائم پر لکھتے لکھتے ہم بور ہوگئے ہیں۔ آج قلم کا مزہ بدلنے کے لیے جیل کے شب و روز پر لکھ رہے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ یحییٰ خان کے دور میں کورٹ سخت سزائیں دیتی تھیں اور سزا دینے میں دیر نہیں کرتی تھیں، جس کا مقصد مزدوروں اور طالب علموں کو کنٹرول کرنا ہوتا تھا۔ ہمارے ساتھ این ایس ایف کے دونوں گروپوں کو بھی لمبی لمبی سزائیں دی گئی تھیں۔ ان کے لیے الگ بیرک کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جہاں وہ دن بھر ہلہ گلہ کرتے رہتے۔ ایک گروپ کے لیڈر رشید حسن خان اور دوسرے گروپ کے لیڈر امیر حیدر کاظمی تھے باہر سے بریانی کی دیگیں لائی جاتی تھیں ایک لمبے دستر خوان پر مزدور اور طالب علم اکٹھے کھانا کھاتے تھے۔
جیل کے ڈسپلن کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے طلبا اور مزدوروں کو الگ بیرک دیے گئے تھے۔ ایک قیدی لال پیلے سبز رنگ کا پانی بڑی بڑی بوتلوں میں بھر کر ٹھیلا دھکیلتا ساری جیل میں گھومتا تھا، قیدی اپنی مرضی کی دوا حاصل کرکے استعمال کرتے تھے۔ اس زمانے کی جیلوں کا مقابلہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے فائیو اسٹار ہوٹل کا چھپر ہوٹل کے ساتھ موازنہ کرنا۔ جیلوں کے ہزاروں عام قیدیوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر ہوتا ہے اور سیاسی لیڈروں کے لیے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کا علیحدہ بندوبست کیا جاتا ہے یہ ہے ہمارا نظام۔