باجوڑ میں جرگے نے خواتین کے ایف ایم ریڈیوکو فون کال کرنے پر پابندی لگادی
قبائلی جرگہ اپنا فیصلہ واپس لے بصورت دیگر جرگہ ممبران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، معاون خصوصی برائے اطلاعات
باجوڑ میں قبائلی جرگے نے مقامی خواتین کے ایف ایم ریڈیو کو ٹیلی فون کال کرنے پر پابندی عائد کردی ہے اور خواتین کی فون کال کی صورت میں دس ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا ہے جب کہ کے پی حکومت نے جرگے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے کر انتظامیہ کو کارروائی کی ہدایت کر دی ہے۔
باجوڑکی تحصیل ماموند کے قبائلی عمائدین کے جرگے نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ قبائلی خواتین ایف ایم ریڈیو میں براہ راست کال کر کے حصہ نہیں لے سکتیں ، یہ قبائلی روایات کے خلاف ہے۔
جرگے نے منشیات فروشوں کو دو ہفتے کی ڈیڈلائن دیدی منشیات فروش رضاکارانہ طور پر اپنا کاروبار ختم کرے۔ دو ہفتے بعد منشیات فروشوں کے خلاف لشکر کشی کا فیصلہ کیا جائے گا تاہم قبائلی ضلع میں خواتین کے ریڈیو کالز پر پابندی اور سہولت سینٹر آمد کو روکنے پر خیبر پختونخوا حکومت بھی میدان میں آ گئی۔
حکومت کا ردّ عمل
معاون خصوصی برائے اطلاعات و اعلی تعلیم کامران بنگش نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ قبائلی روایات اور اقدار کی کے پی حکومت بہت قدر کرتی ہے۔ جرگے کو قانونی شکل دینے کے لئے ڈی آر سی موجود ہے۔ خواتین پر پابندی یا اس قسم کے کسی بھی غیر قانونی عمل کو لاگو نہیں ہونے دیا جائے گا۔ باجوڑ میں قبائلی جرگہ اپنا فیصلہ واپس لے بصورت دیگر جرگہ ممبران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ڈپٹی کمشنر باجوڑ فیاض شیرپاؤ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ خواتین کو صدائے امن مرکز جانے سے روکنا، ریڈیو کال پر پابندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مقامی قبائل کے ساتھ مذاکرات کرکے مسئلہ کا حل نکالا جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی عمائدین کی جانب سے بات نہ ماننے کی صورت میں اُن کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہوگی، کیوں کہ اب انضمام کے بعد پاکستانی آئین اور قانون کے مطابق کوئی بھی شخص خواتین کو صدائے امن مرکز جانے یاان کے حقوق سے نہیں روک سکتا۔
فیاض شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ کہ خواتین کو باہر جانے سے روکنا کسی بھی قانون اور رواج میں نہیں ہے، اگر قبائلی مشران کو تحفظات ہیں تو ہمیں بتادیں لیکن اُن پر پابندی لگاناغیر قانونی ہے اور عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔
باجوڑکی تحصیل ماموند کے قبائلی عمائدین کے جرگے نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ قبائلی خواتین ایف ایم ریڈیو میں براہ راست کال کر کے حصہ نہیں لے سکتیں ، یہ قبائلی روایات کے خلاف ہے۔
جرگے نے منشیات فروشوں کو دو ہفتے کی ڈیڈلائن دیدی منشیات فروش رضاکارانہ طور پر اپنا کاروبار ختم کرے۔ دو ہفتے بعد منشیات فروشوں کے خلاف لشکر کشی کا فیصلہ کیا جائے گا تاہم قبائلی ضلع میں خواتین کے ریڈیو کالز پر پابندی اور سہولت سینٹر آمد کو روکنے پر خیبر پختونخوا حکومت بھی میدان میں آ گئی۔
حکومت کا ردّ عمل
معاون خصوصی برائے اطلاعات و اعلی تعلیم کامران بنگش نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ قبائلی روایات اور اقدار کی کے پی حکومت بہت قدر کرتی ہے۔ جرگے کو قانونی شکل دینے کے لئے ڈی آر سی موجود ہے۔ خواتین پر پابندی یا اس قسم کے کسی بھی غیر قانونی عمل کو لاگو نہیں ہونے دیا جائے گا۔ باجوڑ میں قبائلی جرگہ اپنا فیصلہ واپس لے بصورت دیگر جرگہ ممبران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ڈپٹی کمشنر باجوڑ فیاض شیرپاؤ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ خواتین کو صدائے امن مرکز جانے سے روکنا، ریڈیو کال پر پابندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مقامی قبائل کے ساتھ مذاکرات کرکے مسئلہ کا حل نکالا جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی عمائدین کی جانب سے بات نہ ماننے کی صورت میں اُن کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہوگی، کیوں کہ اب انضمام کے بعد پاکستانی آئین اور قانون کے مطابق کوئی بھی شخص خواتین کو صدائے امن مرکز جانے یاان کے حقوق سے نہیں روک سکتا۔
فیاض شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ کہ خواتین کو باہر جانے سے روکنا کسی بھی قانون اور رواج میں نہیں ہے، اگر قبائلی مشران کو تحفظات ہیں تو ہمیں بتادیں لیکن اُن پر پابندی لگاناغیر قانونی ہے اور عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔