ہُو کا عالم اور سفید شور
یہ دونوں شعری مجموعوں کے عنوان ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
KARACHI:
سب سے پہلے تو یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ دونوں شعری مجموعوں کے عنوان ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پڑی کہ پہلی نظر میں میرا ذہن بھی بہت سی اَن دیکھی زمینوں کی طرف نکل گیا تھا جس کی ایک وجہ شائد یہ بھی تھی کہ دونوں کتابوں کے مصنّفین کا تعلق فوج سے ہے۔
ایک ریٹائرڈ ڈاکٹرکرنل ہدائت اللہ اور دوسرے حاضر سروس بریگیڈیئر اویس ضمیر ، دونوں ہی کے نام اور کلام سے میری ذاتی واقفیت کا دورانیہ دو برس سے بھی کم ہے البتہ دونوں کاتاثر اتنا گہرا اور مثبت ہے کہ مجھے بے اختیار ان پر رائے زنی کرنا پڑگیا ہے کہ دونوں شاعروںکے ہاں گزری اور موجودہ صدی کے مسائل اور اُن کا انسانی طبائع پر ایک ایسا اثر نظر آرہا ہے جو گہرا بھی ہے اورتوجہ طلب بھی ۔
''ہُو کا عالم'' کے شاعر ریٹائرڈ کرنل ہدائت اللہ کا آبائی تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے لیکن یہ بات یہیں تک محدود نہیں، اسی کتاب میں جگہ جگہ وہاں کے لوگوں کی مخصوص ذہنی فضا اور زندگی کے بارے میں روّیوں کا عکس بھی واضح طور پر نظر آتا ہے جس کی ایک جھلک اسی مجموعے کے تعارفی شعر میں بھی دیکھی جاسکتی ہے جو کچھ یوں ہے کہ
بلا کا شور تھا باہر ہمارے
مگر اک ہُو کا عالم دل کے اندر
یہ پشتو بولنے والا میڈیکل کی تعلیم اور فوج سے وابستہ ہونے کے باوصف کیسے اُردو کی محبت میں گرفتار ہوا اور کس طرح اس نے فن شعر میں دسترس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک کھلے اور متحیّر ذہن میں طرح طرح کے خیالات کی آبیاری کی، یہ اپنی جگہ پر کسی کارنامے سے کم نہیں کہ عام طور پر ایسے راستوں سے اس علاقے میں داخل ہونیوالے شاعر ایک مخصوص اور محدود دائرے سے باہر نہیں نکل پاتے کہ نئے اور اجنبی سوالات کا سامنا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر ہدائت اللہ نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی بھرپور توجہ دی ہے اور یہاں بھی نفسِ مضمون کی گہرائی اور ارتقاء کے ساتھ ساتھ انتخابِ الفاظ اور لہجے کی موسیقیت پر بھی بھرپور توجہ دی ہے اور یوں اُن کی نظموں میں اختر شیرانی سے مجید امجدؔ اور اس کے بعد کے اہم شعرا کے ساتھ ایک ایسا تعلقِ خاطر نظر آتا ہے جس میں شاعری اور نغمہ گری ہاتھوں میں ہاتھ دیے اپنا ظہور کرتے نظر آتے ہیں۔ دو تین نظموں کے ابتدائی بند دیکھیئے۔
''زندگی کے صحرا کی
تپتی ریت کے اُوپر
اک سراب دیکھا ہے
ہم نے خواب دیکھا ہے''
.........
''یوں مری زندگی میں تم آئے
جیسے برسوں کے بعد صحرا میں
آرزئوں کی اَدھ کھِلی کلیاں
خوشبوئوں کا پیام لے آئیں''
.........
''چپکے چپکے دھیرے دھیرے
دل میں کوئی اُتر گیا
بھیگا بھیا موسم دل کا
اُجلا اُجلا نکھر گیا''
.........
اسی ٰ طرح یہ چند شعر بھی اس شاعر کو سمجھنے کے لیے ہمارے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں کہ
جبر کی بستی میں بھی رائے کی آزادی ملے
سب کو استحقاق ہو، تائید کا، تردید کا
عقیدت میں حقیقت کا سنہری رنگ بھرنے
ہر اک فرقے میں کوئی داستاں اپنی گھڑی ہے
ہرن کو اگر پنجہِٗ شیر ملتا
تو شیروں سے بڑھ کے وہ سفّاک ہوتا
اور اب آیئے کچھ لمحے بریگیڈئیر اویس ضمیر کے سنے ہوئے ''سفید شور'' کے ساتھ بسر کرتے ہیں کہ یہ ترکیب جتنی انوکھی ہے اس سے زیادہ خیال افروز ہے۔ا ویس ضمیر بھی ہدائت اللہ کی طرح ''کل وقتی '' شاعر نہیں ہیں ۔شاعری اُن کے دل و دماغ میں خود رَو پودوں کی طرح ظہور کرتی ہے جن سے علیحدہ علیحدہ تو مکالمہ ہوسکتا ہے مگر اُس طرح کی مسلسل اور باضابطہ گفتگو کا سلسلہ کم کم بنتا ہے جو اپنے ساتھ ایک ادبی فضا اور معتبر حوالے لے کر چلتی ہو لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ اکثر اسی طرح کے قدرے اجنبی لہجے آگے چل کر نہ صرف شعری روائت کا حصہ بن جاتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو اس کی پہچان بھی بن جاتے ہیں۔ اپنی اس بات کی وضاحت کے لیے میں ان کی ایک مختصر نظم ''ماورائے سخن'' کی مثال دیتا ہوں جو بیک وقت ان دونوں کشتیوں کی سوار ہے۔
ہم عجب چکروں میں اُلجھے ہوئے
روز ہلکان ہوتے جاتے ہیں
بھاگتے تو ہیں بے تحاشا مگر
ہم وہیں کے وہیں ہی رہتے ہیں
سوچتے ہیں کہ کچھ کیا جائے
ہم مگر سوچتے ہیں کم شائد
ہم کبھی میں نہیں ، کبھی میں ہیں
جس کبھی میں نہیں ہیں ہم شائد
یوں تو ملتے ہیں روز کہنے کو
ہم ملاقات ہی نہیں کرتے
اتنی باتوں کے درمیاں ہم تم
اب کوئی بات ہی نہیں کرتے
اویس ضمیر کی شاعر ی ایک بار پھر ہمارا دھیان اس طرف منتقل کرتی ہے کہ ہر زمانے کے ساتھ ساتھ شعری مضامین اور اظہار کے پیرائے بھی کم یا زیادہ بدلتے رہتے ہیں ، نئے واقعات کے بطن سے نئی تراکیب جنم لیتی ہیں اور پرانی تصویروں میں نئے رنگوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر ان کی کوئی محکم اور باقاعدہ شکل بننے میں وقت لگتا ہے اس حوالے سے اویس ضمیر جیسے شاعروں کا مطالعہ مزید اہم ہوجاتا ہے کہ یہ نہ صرف شاعر ی کے مروّجہ پیمانوں سے باہر ہوکر سوچ سکتے ہیں بلکہ ان کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں مثال کے طور پر یہ چند شعر دیکھئے ۔
عجب ہے جنگ کہ جس میں سمجھ نہیں آتا
حصار تنگ ہے مجھ پر کہ ہے مدد محصور
ہر لمحہ زندگی کا یونہی کھو رہا ہُوں میں
آنکھیںکُھلی ہیں میری مگر سو رہا ہوں میں
بھرے پڑے ہیں کتابوں میں عشق کے قصّے
کسے خبر کہ ہُوا کیا مری کہانی کا
زمیں رہی نہ رہی آسماں خرید لیے
گھروں کو بیچ کے ہم نے مکاں خرید لیے
رہتے عذاب اور بھی ہوں گے اسی لیے
اب تک مری تلاش میں آئی قضا نہیں
''ہُو کا عالم'' اور ''سفید شور'' کا مطالعہ ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ کم از کم شاعری کی حدتک ہمارا معاشرہ اُن خدشوں سے بہت حد تک پاک ہے جو ہمیں رات دن اور بعض اوقات خوامخواہ گھیرے رہتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ دونوں شعری مجموعوں کے عنوان ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پڑی کہ پہلی نظر میں میرا ذہن بھی بہت سی اَن دیکھی زمینوں کی طرف نکل گیا تھا جس کی ایک وجہ شائد یہ بھی تھی کہ دونوں کتابوں کے مصنّفین کا تعلق فوج سے ہے۔
ایک ریٹائرڈ ڈاکٹرکرنل ہدائت اللہ اور دوسرے حاضر سروس بریگیڈیئر اویس ضمیر ، دونوں ہی کے نام اور کلام سے میری ذاتی واقفیت کا دورانیہ دو برس سے بھی کم ہے البتہ دونوں کاتاثر اتنا گہرا اور مثبت ہے کہ مجھے بے اختیار ان پر رائے زنی کرنا پڑگیا ہے کہ دونوں شاعروںکے ہاں گزری اور موجودہ صدی کے مسائل اور اُن کا انسانی طبائع پر ایک ایسا اثر نظر آرہا ہے جو گہرا بھی ہے اورتوجہ طلب بھی ۔
''ہُو کا عالم'' کے شاعر ریٹائرڈ کرنل ہدائت اللہ کا آبائی تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے لیکن یہ بات یہیں تک محدود نہیں، اسی کتاب میں جگہ جگہ وہاں کے لوگوں کی مخصوص ذہنی فضا اور زندگی کے بارے میں روّیوں کا عکس بھی واضح طور پر نظر آتا ہے جس کی ایک جھلک اسی مجموعے کے تعارفی شعر میں بھی دیکھی جاسکتی ہے جو کچھ یوں ہے کہ
بلا کا شور تھا باہر ہمارے
مگر اک ہُو کا عالم دل کے اندر
یہ پشتو بولنے والا میڈیکل کی تعلیم اور فوج سے وابستہ ہونے کے باوصف کیسے اُردو کی محبت میں گرفتار ہوا اور کس طرح اس نے فن شعر میں دسترس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک کھلے اور متحیّر ذہن میں طرح طرح کے خیالات کی آبیاری کی، یہ اپنی جگہ پر کسی کارنامے سے کم نہیں کہ عام طور پر ایسے راستوں سے اس علاقے میں داخل ہونیوالے شاعر ایک مخصوص اور محدود دائرے سے باہر نہیں نکل پاتے کہ نئے اور اجنبی سوالات کا سامنا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر ہدائت اللہ نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی بھرپور توجہ دی ہے اور یہاں بھی نفسِ مضمون کی گہرائی اور ارتقاء کے ساتھ ساتھ انتخابِ الفاظ اور لہجے کی موسیقیت پر بھی بھرپور توجہ دی ہے اور یوں اُن کی نظموں میں اختر شیرانی سے مجید امجدؔ اور اس کے بعد کے اہم شعرا کے ساتھ ایک ایسا تعلقِ خاطر نظر آتا ہے جس میں شاعری اور نغمہ گری ہاتھوں میں ہاتھ دیے اپنا ظہور کرتے نظر آتے ہیں۔ دو تین نظموں کے ابتدائی بند دیکھیئے۔
''زندگی کے صحرا کی
تپتی ریت کے اُوپر
اک سراب دیکھا ہے
ہم نے خواب دیکھا ہے''
.........
''یوں مری زندگی میں تم آئے
جیسے برسوں کے بعد صحرا میں
آرزئوں کی اَدھ کھِلی کلیاں
خوشبوئوں کا پیام لے آئیں''
.........
''چپکے چپکے دھیرے دھیرے
دل میں کوئی اُتر گیا
بھیگا بھیا موسم دل کا
اُجلا اُجلا نکھر گیا''
.........
اسی ٰ طرح یہ چند شعر بھی اس شاعر کو سمجھنے کے لیے ہمارے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں کہ
جبر کی بستی میں بھی رائے کی آزادی ملے
سب کو استحقاق ہو، تائید کا، تردید کا
عقیدت میں حقیقت کا سنہری رنگ بھرنے
ہر اک فرقے میں کوئی داستاں اپنی گھڑی ہے
ہرن کو اگر پنجہِٗ شیر ملتا
تو شیروں سے بڑھ کے وہ سفّاک ہوتا
اور اب آیئے کچھ لمحے بریگیڈئیر اویس ضمیر کے سنے ہوئے ''سفید شور'' کے ساتھ بسر کرتے ہیں کہ یہ ترکیب جتنی انوکھی ہے اس سے زیادہ خیال افروز ہے۔ا ویس ضمیر بھی ہدائت اللہ کی طرح ''کل وقتی '' شاعر نہیں ہیں ۔شاعری اُن کے دل و دماغ میں خود رَو پودوں کی طرح ظہور کرتی ہے جن سے علیحدہ علیحدہ تو مکالمہ ہوسکتا ہے مگر اُس طرح کی مسلسل اور باضابطہ گفتگو کا سلسلہ کم کم بنتا ہے جو اپنے ساتھ ایک ادبی فضا اور معتبر حوالے لے کر چلتی ہو لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ اکثر اسی طرح کے قدرے اجنبی لہجے آگے چل کر نہ صرف شعری روائت کا حصہ بن جاتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو اس کی پہچان بھی بن جاتے ہیں۔ اپنی اس بات کی وضاحت کے لیے میں ان کی ایک مختصر نظم ''ماورائے سخن'' کی مثال دیتا ہوں جو بیک وقت ان دونوں کشتیوں کی سوار ہے۔
ہم عجب چکروں میں اُلجھے ہوئے
روز ہلکان ہوتے جاتے ہیں
بھاگتے تو ہیں بے تحاشا مگر
ہم وہیں کے وہیں ہی رہتے ہیں
سوچتے ہیں کہ کچھ کیا جائے
ہم مگر سوچتے ہیں کم شائد
ہم کبھی میں نہیں ، کبھی میں ہیں
جس کبھی میں نہیں ہیں ہم شائد
یوں تو ملتے ہیں روز کہنے کو
ہم ملاقات ہی نہیں کرتے
اتنی باتوں کے درمیاں ہم تم
اب کوئی بات ہی نہیں کرتے
اویس ضمیر کی شاعر ی ایک بار پھر ہمارا دھیان اس طرف منتقل کرتی ہے کہ ہر زمانے کے ساتھ ساتھ شعری مضامین اور اظہار کے پیرائے بھی کم یا زیادہ بدلتے رہتے ہیں ، نئے واقعات کے بطن سے نئی تراکیب جنم لیتی ہیں اور پرانی تصویروں میں نئے رنگوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر ان کی کوئی محکم اور باقاعدہ شکل بننے میں وقت لگتا ہے اس حوالے سے اویس ضمیر جیسے شاعروں کا مطالعہ مزید اہم ہوجاتا ہے کہ یہ نہ صرف شاعر ی کے مروّجہ پیمانوں سے باہر ہوکر سوچ سکتے ہیں بلکہ ان کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں مثال کے طور پر یہ چند شعر دیکھئے ۔
عجب ہے جنگ کہ جس میں سمجھ نہیں آتا
حصار تنگ ہے مجھ پر کہ ہے مدد محصور
ہر لمحہ زندگی کا یونہی کھو رہا ہُوں میں
آنکھیںکُھلی ہیں میری مگر سو رہا ہوں میں
بھرے پڑے ہیں کتابوں میں عشق کے قصّے
کسے خبر کہ ہُوا کیا مری کہانی کا
زمیں رہی نہ رہی آسماں خرید لیے
گھروں کو بیچ کے ہم نے مکاں خرید لیے
رہتے عذاب اور بھی ہوں گے اسی لیے
اب تک مری تلاش میں آئی قضا نہیں
''ہُو کا عالم'' اور ''سفید شور'' کا مطالعہ ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ کم از کم شاعری کی حدتک ہمارا معاشرہ اُن خدشوں سے بہت حد تک پاک ہے جو ہمیں رات دن اور بعض اوقات خوامخواہ گھیرے رہتے ہیں۔