مارچ سے پہلے مارچ کا امکان
اگر تحریک لبیک نے دوبارہ اسلام آباد کی طرف رخ کرلیا تو پھر ان فدائیوں کو روکنا حکومت کےلیے زیادہ مشکل ہوجائے گا
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے 26 مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اور اس وقت ملکی سیاسی منظرنامے پر پی ڈی ایم اور حکومت کے مابین بیانات اور الزامات کی جنگ ہی موضوع بحث ہے۔
حکومت نے بھی پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو فوکس کر رکھا ہے، لیکن حکومت کےلیے مارچ سے پہلے ایک بڑا امتحان شروع ہونے والا ہے اور وہ ہے تحریک لبیک پاکستان کا ممکنہ احتجاج اور مارچ۔ گوکہ تحریک لبیک پاکستان نے ابھی اس حوالے سے کوئی باقاعدہ اعلان یا شیڈول جاری نہیں کیا لیکن تحریک لبیک کی قیادت حکومت پر واضح کرچکی ہے کہ 16 فروری تک فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہ کیا گیا تو پھر دما دم مست قلندر ہوگا۔
تحریک لبیک لانگ مارچ یا دھرنا کیوں دینا چاہتی ہے؟ اس کےلیے ہمیں چند ماہ پیچھے نومبر 2020 میں جانا ہوگا، جب تحریک لبیک پاکستان نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف فیض آباد میں دھرنا دیا تھا۔ تاہم 16 نومبر کو حکومت اور تحریک لبیک کے مابین معاہدے کے بعد یہ دھرنا ختم کردیا گیا تھا۔ تحریری معاہدے کے مطابق حکومت نے تحریک لبیک کو یقین دہانی کرائی تھی کہ فرانس کے سفیر کو دو سے تین ماہ کے اندر ملک بدر کردیا جائے گا، فرانس میں پاکستان کا سفیر تعینات نہیں ہوگا، تمام فرانسیسی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا، تحریک لبیک کے گرفتار کارکنان کو فوری رہا کردیا جائے گا اور بعدازاں اس مارچ کے شرکا پر کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جائے گا۔
اب 16 فروری کو فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے وعدے کی مدت ختم ہوجائے گی اور پھر تحریک لبیک اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد رضوی یہ واضح کرچکے ہیں کہ حکومت نے 16 فروری تک فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی مہلت مانگی تھی، 17 فروری کا سورج طلوع ہونے تک ہم وعدے کے پابند ہیں، اس کے بعد خاموش نہیں رہیں گے۔ ناموس رسالتؐ کے معاملے پر ایک جنگ چھڑ سکتی ہے، اگر کوئی غلط فہمی میں ہے تو دور کرلے۔ وعدہ کرتے ہیں 17 فروری کے بعد دیر نہیں ہوگی۔
حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت ابھی تک فرانس کے سفیر کو تو ملک بدر نہیں کیا، تاہم تحریک لبیک کے ممکنہ احتجاج اور مارچ کو روکنے کےلیے بیک ڈور رابطے شروع کردیے ہیں۔ چند روز قبل دو اہم حکومتی وزرا نے تحریک لبیک کی قیادت سے رابطہ کیا اور انہیں اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی تھی۔ حکومتی وزرا نے تحریک لبیک کی قیادت کو بتایا کہ حکومت نے توہین رسالت اور گستاخانہ خاکوں کی روک تھام کےلیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی ہے اور یو این او میں اس حوالے سے قانون سازی کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ حکومتی وزرا نے یقین دلانے کی کوشش کی کہ آئندہ اس طرح کے واقعات نہیں ہوں گے، تاہم تحریک لبیک نے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا ہے۔
تحریک کے بانی علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال کے بعد موجودہ سربراہ حافظ سعد رضوی کےلیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے والد کے مشن کو کس طرح لے کر آگے چلتے ہیں۔ حافظ سعد رضوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس جماعت کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے اور شاید اپنے والد کی طرح مذہبی حوالے سے شدت نہ رکھتے ہوں لیکن تحریک لبیک سے جڑے لوگوں کو امید ہے کہ حافظ سعد رضوی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحفظ ناموس رسالتؐ کے نعرے اور مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ویسے بھی مستقبل قریب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں خاطرخواہ کامیابی کےلیے تحریک لبیک کے کارکنان اور وابستگان کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور اس کےلیے تحفظ ختم نبوت کے نعرے سے بڑھ کر کوئی نعرہ نہیں ہوسکتا، جو سب کے دل گرما دیتا ہے۔
تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے تحریک لبیک کی نوجوان قیادت کو جوش اور جذبے کے ساتھ ہوش سے بھی کام لینا ہوگا۔ پاکستان اس وقت جن مشکل حالات سے دوچار ہے اس میں ملک کے اندر پیدا ہونے والی افراتفری اور ہنگامے مزید نقصان کا باعث ہوں گے۔ اپنے والد کی طرف سے وراثت میں ملی جماعت کو احتیاط اور سمجھداری کے ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوگا اور کوئی بھی جذباتی فیصلہ اس تحریک کےلیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال تو ابھی بھی دی جاسکتی ہے۔ تحریک لبیک نے ابھی کسی احتجاج اور لانگ مارچ کا اعلان نہیں کیا لیکن پنجاب حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کے امیر حافظ محمد سعد رضوی سمیت 134 رہنماؤں اور کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کردیے ہیں۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی طرف سے جاری مراسلے کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ فرقہ واریت کے علاوہ حکومت کے خلاف جلسے جلوس اور احتجاج کرکے حکومت کو خوفزدہ اور مجبور کرنے میں ملوث ہے۔ تحریک لبیک کے تمام رہنماؤں اور کارکنوں کے نام انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 3 سال کےلیے فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے ہیں۔ تاہم محکمہ داخلہ پنجاب ان احکامات کو کسی وقت بھی واپس لے سکتا ہے۔
دوسری طرف پی ڈی ایم کی توپوں سے روزانہ حکومتی کیمپوں پر بیانات کی گولہ باری کی جاتی ہے لیکن حکومت اس معاملے میں کوئی سخت قدم نہیں اٹھاتی۔ لیکن تحریک لبیک کے قائدین کے خلاف قبل از وقت ہی حرکت میں آگئی ہے۔ حکومت کو اس معاملے میں جلدبازی نہیں کرنی چاہیے اور تحریک لبیک کی قیادت سے مل کر معاملے کا بہترین حل نکالنا چاہیے۔ پاکستانی قوم جیسی بھی ہے، وہ اپنے نبی مہربانؐ کی حرمت اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور اگر تحریک لبیک نے دوبارہ اسلام آباد کی طرف رخ کرلیا تو پھر ان فدائیوں کو روکنا حکومت کےلیے پی ڈی ایم سے نمٹنے سے زیادہ مشکل ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حکومت نے بھی پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو فوکس کر رکھا ہے، لیکن حکومت کےلیے مارچ سے پہلے ایک بڑا امتحان شروع ہونے والا ہے اور وہ ہے تحریک لبیک پاکستان کا ممکنہ احتجاج اور مارچ۔ گوکہ تحریک لبیک پاکستان نے ابھی اس حوالے سے کوئی باقاعدہ اعلان یا شیڈول جاری نہیں کیا لیکن تحریک لبیک کی قیادت حکومت پر واضح کرچکی ہے کہ 16 فروری تک فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہ کیا گیا تو پھر دما دم مست قلندر ہوگا۔
تحریک لبیک لانگ مارچ یا دھرنا کیوں دینا چاہتی ہے؟ اس کےلیے ہمیں چند ماہ پیچھے نومبر 2020 میں جانا ہوگا، جب تحریک لبیک پاکستان نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف فیض آباد میں دھرنا دیا تھا۔ تاہم 16 نومبر کو حکومت اور تحریک لبیک کے مابین معاہدے کے بعد یہ دھرنا ختم کردیا گیا تھا۔ تحریری معاہدے کے مطابق حکومت نے تحریک لبیک کو یقین دہانی کرائی تھی کہ فرانس کے سفیر کو دو سے تین ماہ کے اندر ملک بدر کردیا جائے گا، فرانس میں پاکستان کا سفیر تعینات نہیں ہوگا، تمام فرانسیسی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا، تحریک لبیک کے گرفتار کارکنان کو فوری رہا کردیا جائے گا اور بعدازاں اس مارچ کے شرکا پر کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جائے گا۔
اب 16 فروری کو فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے وعدے کی مدت ختم ہوجائے گی اور پھر تحریک لبیک اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد رضوی یہ واضح کرچکے ہیں کہ حکومت نے 16 فروری تک فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی مہلت مانگی تھی، 17 فروری کا سورج طلوع ہونے تک ہم وعدے کے پابند ہیں، اس کے بعد خاموش نہیں رہیں گے۔ ناموس رسالتؐ کے معاملے پر ایک جنگ چھڑ سکتی ہے، اگر کوئی غلط فہمی میں ہے تو دور کرلے۔ وعدہ کرتے ہیں 17 فروری کے بعد دیر نہیں ہوگی۔
حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت ابھی تک فرانس کے سفیر کو تو ملک بدر نہیں کیا، تاہم تحریک لبیک کے ممکنہ احتجاج اور مارچ کو روکنے کےلیے بیک ڈور رابطے شروع کردیے ہیں۔ چند روز قبل دو اہم حکومتی وزرا نے تحریک لبیک کی قیادت سے رابطہ کیا اور انہیں اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی تھی۔ حکومتی وزرا نے تحریک لبیک کی قیادت کو بتایا کہ حکومت نے توہین رسالت اور گستاخانہ خاکوں کی روک تھام کےلیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی ہے اور یو این او میں اس حوالے سے قانون سازی کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ حکومتی وزرا نے یقین دلانے کی کوشش کی کہ آئندہ اس طرح کے واقعات نہیں ہوں گے، تاہم تحریک لبیک نے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا ہے۔
تحریک کے بانی علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال کے بعد موجودہ سربراہ حافظ سعد رضوی کےلیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے والد کے مشن کو کس طرح لے کر آگے چلتے ہیں۔ حافظ سعد رضوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس جماعت کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے اور شاید اپنے والد کی طرح مذہبی حوالے سے شدت نہ رکھتے ہوں لیکن تحریک لبیک سے جڑے لوگوں کو امید ہے کہ حافظ سعد رضوی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحفظ ناموس رسالتؐ کے نعرے اور مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ویسے بھی مستقبل قریب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں خاطرخواہ کامیابی کےلیے تحریک لبیک کے کارکنان اور وابستگان کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور اس کےلیے تحفظ ختم نبوت کے نعرے سے بڑھ کر کوئی نعرہ نہیں ہوسکتا، جو سب کے دل گرما دیتا ہے۔
تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے تحریک لبیک کی نوجوان قیادت کو جوش اور جذبے کے ساتھ ہوش سے بھی کام لینا ہوگا۔ پاکستان اس وقت جن مشکل حالات سے دوچار ہے اس میں ملک کے اندر پیدا ہونے والی افراتفری اور ہنگامے مزید نقصان کا باعث ہوں گے۔ اپنے والد کی طرف سے وراثت میں ملی جماعت کو احتیاط اور سمجھداری کے ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوگا اور کوئی بھی جذباتی فیصلہ اس تحریک کےلیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال تو ابھی بھی دی جاسکتی ہے۔ تحریک لبیک نے ابھی کسی احتجاج اور لانگ مارچ کا اعلان نہیں کیا لیکن پنجاب حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کے امیر حافظ محمد سعد رضوی سمیت 134 رہنماؤں اور کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کردیے ہیں۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی طرف سے جاری مراسلے کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ فرقہ واریت کے علاوہ حکومت کے خلاف جلسے جلوس اور احتجاج کرکے حکومت کو خوفزدہ اور مجبور کرنے میں ملوث ہے۔ تحریک لبیک کے تمام رہنماؤں اور کارکنوں کے نام انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 3 سال کےلیے فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے ہیں۔ تاہم محکمہ داخلہ پنجاب ان احکامات کو کسی وقت بھی واپس لے سکتا ہے۔
دوسری طرف پی ڈی ایم کی توپوں سے روزانہ حکومتی کیمپوں پر بیانات کی گولہ باری کی جاتی ہے لیکن حکومت اس معاملے میں کوئی سخت قدم نہیں اٹھاتی۔ لیکن تحریک لبیک کے قائدین کے خلاف قبل از وقت ہی حرکت میں آگئی ہے۔ حکومت کو اس معاملے میں جلدبازی نہیں کرنی چاہیے اور تحریک لبیک کی قیادت سے مل کر معاملے کا بہترین حل نکالنا چاہیے۔ پاکستانی قوم جیسی بھی ہے، وہ اپنے نبی مہربانؐ کی حرمت اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور اگر تحریک لبیک نے دوبارہ اسلام آباد کی طرف رخ کرلیا تو پھر ان فدائیوں کو روکنا حکومت کےلیے پی ڈی ایم سے نمٹنے سے زیادہ مشکل ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔