اردو بولنے والے پسند نہیں تو الگ صوبہ بنا دیں الطاف حسین انصاف نہ ملا تو بات علیحدہ ملک تک جا سکتی ہے
سندھ میں ایسی بلدیاتی حلقہ بندی کی گئی کہ پیپلزپارٹی ہرجگہ سے جیت جائے اورمتحدہ کو ہرجگہ سے کاٹ دیا جائے
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے پیپلزپارٹی اور قوم پرستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ اردو بولنے والے شہری سندھی آبادی کو مکمل سندھی تسلیم نہیں کرتے تو پھر اردو بولنے والے نئے سندھیوں کے لیے الگ صوبہ بنا دیا جائے۔
ابھی موقع ہے کہ بات چیت کے ذریعے یہ عمل مکمل کر لوکیونکہ یہ عمل آج نہیں توکل پوراکرنا ہے، ا بھی میں بات چیت کیلیے تیار ہوں کل کہیں ایسا نہ ہوکہ میرے چلے جانے کے بعد بات چیت کرنے والے ہی نہ رہیں اور پھرجس کی طاقت ہوگی وہ اس حصے پر قبضہ کر لے گا توجنگ وجدل ہوگی اور بھائی بھائی کے ہاتھوں کٹے گا، بلال بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری سے کہتا ہوں کہ شہری سندھی صوبے کا مطالبہ واپس ہوسکتاہے لیکن ہم سے ہر شعبے میں پچاس/ پچاس فیصد حصہ دینے کا معاہدہ کرو، اگر ایک باپ کے بیٹے الگ الگ گھروں میں رہ سکتے ہیں تو پھرایک باپ کے بیٹے الگ الگ صوبے میں کیوں نہیں رہ سکتے، ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایم کیو ایم کی انتخابی مہم کے سلسلے میں حیدرآباد کے باغ مصطفٰے گراؤنڈ لطیف آباد نمبر آٹھ میں منعقد ہونے والے پہلے انتخابی جلسہ عام سے لندن سے مواصلاتی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
قائد متحدہ الطاف حسین نے کہا کہ پاکستان میں حکومت چلانے کے حوالے سے پارلیمانی طرز نظام حکومت رائج ہے لیکن گزشتہ سڑسٹھ سالوں سے پاکستان کو بنیادی جمہوریت کے بغیر چلایا جا رہا ہے، اس ملک میں جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا سمیت کتنے مارشل لا لگے جبکہ حکومت پیپلز پارٹی کی شکل میں آئے ہویا پھر مسلم لیگ کی صورت میں آئی ہو کسی نے بھی کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور ہر حکومت کوئی حیلہ بہانہ بناکر الیکشن سے دامن چھڑا کر راہ فرار اختیار کرتی رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سندھ میں ایسے بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کیلیے ایسی حلقہ بندی کی گئی کہ پیپلزپارٹی ہرجگہ سے جیت جائے اور ہر شہر سے ان کے میئر منتخب ہوجائیں اور ایم کیو ایم کو ہر جگہ سے کاٹ دیا جائے، پیپلزپارٹی عددی اکثریت کے نام پر شہری ودیہی کی تفریق کو بڑھارہی ہے، اگر اکثریت کی ہی بات ہے تو پھر اقوام متحدہ کی تحت سندھ میں مردم شماری کرالی جائے تو شہری آبادی زیادہ اور دیہی آبادی کم نکلے گی۔
انھوں نے کہا کہ وہ پیپلزپارٹی اور قوم پرست کو کہتے ہیں کہ اگر آپ اردو بولنے والی شہری سندھی آبادی کو مکمل سندھی نہیں بننے دینا چاہتے تو پھر اردو بولنے والے نئے سندھیوں کا الگ صوبہ بنا دیا جائے، پیپلزپارٹی 1973سے لسانی فسادات کراکر اور مرکز میں سندھ کارڈ کے نام پر حکومت بناکرشہری حقوق پرڈاکا ڈالتی رہی ہے اور چور دروازے سے من مانی کرتی رہی ہے، میں آج اعلان کرتا ہوں کہ جس طرح جرات و ہمت سے آج میں نے شہری سندھی آبادی کے لیے علیحدہ صوبے کا مطالبہ کیا ہے کہ تو تم بھی مردوں اور بہادروں کی طرح مقابلہ کرکے سامنے آؤ اور چور چکاری سے شہری سندھ کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کا عمل بند کر دو، یہ عمل آج نہیں توکل کرنا پڑے گا، مسئلے کو ابھی حل کرلو، میں تو بات چیت کے لیے تیار ہوں میرے چلے جانے کے بعد اگر بات چیت کرنے والے نہ رہیں اور بات اس پر نہج پر آگئی کہ جس کی جو طاقت ہو وہ اس پر قبضہ کر لے تو پھر جنگ وجدل ہوگا، خون بہے گا اور بھائی، بھائی کے ہاتھوں کٹ جائے گا جس سے صوبے کا نقصان ہوگا، میں سندھی دانشوروں سے بھی کہتا ہوں کہ میدان میںآجاؤ بصورت دیگر دیہی علاقوں میں پھر وہی1973 والا ماحول آجائے گا کہ وہاں اردو بولنے والا سندھی نہیں چل سکے گا اور ویسا ہی عمل شہری علاقوں میں ہوگا تو پھر شکایت مت کرنا۔
انھوں نے کہا کہ وہ پیپلزپارٹی کی قیادت بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری سے کہتے ہیں کہ خدا کی قسم شہری سندھی صوبے کا مطالبہ واپس ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے ٹیبل پر بیٹھ کر ہر شعبے میں50/50 فیصد حصہ دینے کا معاہدہ کر لو بصورت دیگر پھر صوبہ بن سکتا ہے اور بات اگر صوبے سے آگے بڑھ گئی تو پھر ملک بھی بن سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کیا ہمارا یہ کام ہی رہ گیا ہے کہ ہم صوبے، اسپتالوں اور یونیورسٹی بنانے کا مطالبہ کرتے رہیں،67 سال میں حیدرآباد میں ایک یونیورسٹی تک نہیں بنائی گئی، اگر ایک ماہ کے اندر پیپلزپارٹی کی حکومت نے حیدرآباد میں سندھ یونیورسٹی بنانے کا اعلان نہیں کیا تو پھر میں حیدرآباد میں سندھ یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرونگا، جس کے لیے ہم جھولیاں پھیلائیں گے اور خود حیدرآباد میں یونیورسٹی بنالیں گے۔
انھوں نے کہا کہ اردو بولنے والے سندھی اور سندھی بولنے والے سندھی ایک رہنا چاہتے ہیں اور ہم بھی سندھ کے بیٹے ہیں جب ایک خاندان میں ایک باپ کے بیٹے الگ الگ گھر میں رہ سکتے ہیں تو پھر ایک باپ کے بیٹے الگ الگ صوبے میں بھی رہ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سندھ کے شہری علاقے ہڑپہ اور موئن جو دڑوکا منظر پیش کر رہے ہیں اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، شہری علاقوں کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کیا جا رہا ہے، ہمارے نوجوانوں کو سی ایس ایس کے امتحانات میں نہیں شامل کیا جاتا، انھوں نے کہا کہ متحدہ نے بلدیاتی حلقہ بندیوں اور قوانین کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی جس پر عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا ہے کہ سندھ حکومت ناجائز کر رہی تھی لیکن اگر طاقت کے زور پر اسے نہیں مانا جائے گا تو پھر یاد رکھا جائے کہ اگر دل ملاؤ گے تودل ملائیں گے کیونکہ ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے۔
ہم ان لوگوں کی اولادیں ہیں جوکہ خون کے دریا عبور کرکے پاکستان آئے تھے اور ہم بدترین ریاستی آپریشن کاسامنا کرنے کے باوجود آج بھی زندہ ہیں، ہم سمندر میں غرق ہونے یا پھر کسی کے غلام بننے نہیں آئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید1950 کے بعد سندھ آئے ، وہ اگر سندھ کے بیٹے بن سکتے ہیںتوہم کیوں نہیں بن سکتے،آپ ہم کو سندھی کہیں بھی لیکن جب کچھ دینے کا وقت آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اردو بولنے والے ہیں، یہ کونسی بے ایمانی ہے، کیا تم آدھے سندھ کی آبادی کوسمندر میں غرق کردو گے، تم یہ کیا کر رہے ہو۔ انھوں نے کہا کہ جنرل پرویزمشرف کو چاہے سزا دو لیکن12 اکتوبر 1999 کو جنھوں نے نواز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس سے اسلحے کے زور پر باہر نکالا انہیں کیوں معاف کیا گیا، اس میں توجنرل کیانی بھی ملوث تھے، مجھے بتایا جائے کہ جنرل پرویز مشرف کو3 سال کی توسیع میں نے دی تھی یا سپریم کورٹ کے ججز نے دی تھی، آپ ضیا، پرویز مشرف اور الطاف حسین کو لٹکائیں تو چوہدری صاحب سمیت سب کو بھی لٹکائیں۔
کیونکہ ججز بھی آمریت اورمارشل لاء کے نفاذ میں ذمے دار ہیں۔ میں دیار غیر میں ہو اور مجھے کہا جاتا ہے کہ پاکستان واپس کیوں نہیں آتے، وہ چاہتے ہیں کہ میں آؤ تو ضیا کی طرح ٹھونکا جاؤ، یہاں اگر مجھے ٹھونکوں تو پھر اپنے آپ کو بھی ٹھونکو لیکن میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں واپس آنے سے نہیں ڈرتا، وفاقی حکومت والوں کیا تم مہاجروں میںعلیحدگی کے جراثیم پیدا کرنا چاہتے ہو۔ انھوں نے کہا کہ میں طالبان کے خلاف بات کرتا رہا، میں نے مسلح افواج کو طالبان کے خلاف ایک لاکھ رضا کار غیر مشروط طور پر فراہم کرنے کی پیش کش کی اور کہا کہ پہلے انہیں آگے بھیج دو پھر تم آگے بڑھنا، اب یہ پیش کش طالبان سے بڑھ کرآگے چلی جاتی ہے اگربھارت پاکستان کی طرف ٹیڑھی نگاہ اٹھائے تو بھارت سے مقابلے کیلیے2 لاکھ کارکن پیش کرتا ہوں۔
انھوں نے کہاکہ وہ آئین کے ماہر نہیں بلکہ طالب ہیں اور وہ آئینی ماہرین سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ کونسا قانون اور آئینی شق ہے کہ جس کے تحت ججز نے12کتوبر1999ء کے عمل کو جائز قرار دیا ، انھوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ سمیت ان کے دیگر وکلاکو دھمکیاں دی گئی، میں وفاقی حکومت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کدھر ہو آپ نے کیوں دھمکیاں دینے والوں کا گریبان نہیں پکڑا اور انہیں کیوں قانون کے کٹہرے میں نہیں لائے۔
انھوں نے کہاکہ میں پاکستان کو متحدہ، خوشحال اور کرپشن فری پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں، میرا جینا مرنا پاکستان کیلیے ہے، فوج میرا سینہ چیر کر دیکھ لے کہ میراجینا پاکستان کے لیے ہے یانہیں، پاکستانیت کے حوالے سے میں سخت آدمی ہوں اور میں خزانہ لوٹنے والوں کا پیٹ پھاڑ کر بھی لوٹا گیا خزانہ نکال لوں گا لیکن اسے غلط تناظر میں نہیں لیا جائے بلکہ میرا مطلب ہے کہ لوٹ مارکرنے والے کو قانون کے شکنجے میں اس طرح لاؤنگا کہ یا تووہ لوٹ گیا مال سرکاری خزانے میں جمع کرادیں گے ۔ انھوں نے وزیراعظم محمد نواز شریف کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان بچانا ہے تو یہ مجبوری ہے کہ آپ سندھ میں آؤ اور مداخلت کروکیونکہ پیپلزپارٹی اور قائم علی شاہ کی حکومت نے سندھ کی آدھی آبادی کو کاٹ کر پھینک دیا ہے۔
ابھی موقع ہے کہ بات چیت کے ذریعے یہ عمل مکمل کر لوکیونکہ یہ عمل آج نہیں توکل پوراکرنا ہے، ا بھی میں بات چیت کیلیے تیار ہوں کل کہیں ایسا نہ ہوکہ میرے چلے جانے کے بعد بات چیت کرنے والے ہی نہ رہیں اور پھرجس کی طاقت ہوگی وہ اس حصے پر قبضہ کر لے گا توجنگ وجدل ہوگی اور بھائی بھائی کے ہاتھوں کٹے گا، بلال بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری سے کہتا ہوں کہ شہری سندھی صوبے کا مطالبہ واپس ہوسکتاہے لیکن ہم سے ہر شعبے میں پچاس/ پچاس فیصد حصہ دینے کا معاہدہ کرو، اگر ایک باپ کے بیٹے الگ الگ گھروں میں رہ سکتے ہیں تو پھرایک باپ کے بیٹے الگ الگ صوبے میں کیوں نہیں رہ سکتے، ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایم کیو ایم کی انتخابی مہم کے سلسلے میں حیدرآباد کے باغ مصطفٰے گراؤنڈ لطیف آباد نمبر آٹھ میں منعقد ہونے والے پہلے انتخابی جلسہ عام سے لندن سے مواصلاتی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
قائد متحدہ الطاف حسین نے کہا کہ پاکستان میں حکومت چلانے کے حوالے سے پارلیمانی طرز نظام حکومت رائج ہے لیکن گزشتہ سڑسٹھ سالوں سے پاکستان کو بنیادی جمہوریت کے بغیر چلایا جا رہا ہے، اس ملک میں جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا سمیت کتنے مارشل لا لگے جبکہ حکومت پیپلز پارٹی کی شکل میں آئے ہویا پھر مسلم لیگ کی صورت میں آئی ہو کسی نے بھی کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور ہر حکومت کوئی حیلہ بہانہ بناکر الیکشن سے دامن چھڑا کر راہ فرار اختیار کرتی رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سندھ میں ایسے بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کیلیے ایسی حلقہ بندی کی گئی کہ پیپلزپارٹی ہرجگہ سے جیت جائے اور ہر شہر سے ان کے میئر منتخب ہوجائیں اور ایم کیو ایم کو ہر جگہ سے کاٹ دیا جائے، پیپلزپارٹی عددی اکثریت کے نام پر شہری ودیہی کی تفریق کو بڑھارہی ہے، اگر اکثریت کی ہی بات ہے تو پھر اقوام متحدہ کی تحت سندھ میں مردم شماری کرالی جائے تو شہری آبادی زیادہ اور دیہی آبادی کم نکلے گی۔
انھوں نے کہا کہ وہ پیپلزپارٹی اور قوم پرست کو کہتے ہیں کہ اگر آپ اردو بولنے والی شہری سندھی آبادی کو مکمل سندھی نہیں بننے دینا چاہتے تو پھر اردو بولنے والے نئے سندھیوں کا الگ صوبہ بنا دیا جائے، پیپلزپارٹی 1973سے لسانی فسادات کراکر اور مرکز میں سندھ کارڈ کے نام پر حکومت بناکرشہری حقوق پرڈاکا ڈالتی رہی ہے اور چور دروازے سے من مانی کرتی رہی ہے، میں آج اعلان کرتا ہوں کہ جس طرح جرات و ہمت سے آج میں نے شہری سندھی آبادی کے لیے علیحدہ صوبے کا مطالبہ کیا ہے کہ تو تم بھی مردوں اور بہادروں کی طرح مقابلہ کرکے سامنے آؤ اور چور چکاری سے شہری سندھ کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کا عمل بند کر دو، یہ عمل آج نہیں توکل کرنا پڑے گا، مسئلے کو ابھی حل کرلو، میں تو بات چیت کے لیے تیار ہوں میرے چلے جانے کے بعد اگر بات چیت کرنے والے نہ رہیں اور بات اس پر نہج پر آگئی کہ جس کی جو طاقت ہو وہ اس پر قبضہ کر لے تو پھر جنگ وجدل ہوگا، خون بہے گا اور بھائی، بھائی کے ہاتھوں کٹ جائے گا جس سے صوبے کا نقصان ہوگا، میں سندھی دانشوروں سے بھی کہتا ہوں کہ میدان میںآجاؤ بصورت دیگر دیہی علاقوں میں پھر وہی1973 والا ماحول آجائے گا کہ وہاں اردو بولنے والا سندھی نہیں چل سکے گا اور ویسا ہی عمل شہری علاقوں میں ہوگا تو پھر شکایت مت کرنا۔
انھوں نے کہا کہ وہ پیپلزپارٹی کی قیادت بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری سے کہتے ہیں کہ خدا کی قسم شہری سندھی صوبے کا مطالبہ واپس ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے ٹیبل پر بیٹھ کر ہر شعبے میں50/50 فیصد حصہ دینے کا معاہدہ کر لو بصورت دیگر پھر صوبہ بن سکتا ہے اور بات اگر صوبے سے آگے بڑھ گئی تو پھر ملک بھی بن سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کیا ہمارا یہ کام ہی رہ گیا ہے کہ ہم صوبے، اسپتالوں اور یونیورسٹی بنانے کا مطالبہ کرتے رہیں،67 سال میں حیدرآباد میں ایک یونیورسٹی تک نہیں بنائی گئی، اگر ایک ماہ کے اندر پیپلزپارٹی کی حکومت نے حیدرآباد میں سندھ یونیورسٹی بنانے کا اعلان نہیں کیا تو پھر میں حیدرآباد میں سندھ یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرونگا، جس کے لیے ہم جھولیاں پھیلائیں گے اور خود حیدرآباد میں یونیورسٹی بنالیں گے۔
انھوں نے کہا کہ اردو بولنے والے سندھی اور سندھی بولنے والے سندھی ایک رہنا چاہتے ہیں اور ہم بھی سندھ کے بیٹے ہیں جب ایک خاندان میں ایک باپ کے بیٹے الگ الگ گھر میں رہ سکتے ہیں تو پھر ایک باپ کے بیٹے الگ الگ صوبے میں بھی رہ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سندھ کے شہری علاقے ہڑپہ اور موئن جو دڑوکا منظر پیش کر رہے ہیں اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، شہری علاقوں کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کیا جا رہا ہے، ہمارے نوجوانوں کو سی ایس ایس کے امتحانات میں نہیں شامل کیا جاتا، انھوں نے کہا کہ متحدہ نے بلدیاتی حلقہ بندیوں اور قوانین کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی جس پر عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا ہے کہ سندھ حکومت ناجائز کر رہی تھی لیکن اگر طاقت کے زور پر اسے نہیں مانا جائے گا تو پھر یاد رکھا جائے کہ اگر دل ملاؤ گے تودل ملائیں گے کیونکہ ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے۔
ہم ان لوگوں کی اولادیں ہیں جوکہ خون کے دریا عبور کرکے پاکستان آئے تھے اور ہم بدترین ریاستی آپریشن کاسامنا کرنے کے باوجود آج بھی زندہ ہیں، ہم سمندر میں غرق ہونے یا پھر کسی کے غلام بننے نہیں آئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید1950 کے بعد سندھ آئے ، وہ اگر سندھ کے بیٹے بن سکتے ہیںتوہم کیوں نہیں بن سکتے،آپ ہم کو سندھی کہیں بھی لیکن جب کچھ دینے کا وقت آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اردو بولنے والے ہیں، یہ کونسی بے ایمانی ہے، کیا تم آدھے سندھ کی آبادی کوسمندر میں غرق کردو گے، تم یہ کیا کر رہے ہو۔ انھوں نے کہا کہ جنرل پرویزمشرف کو چاہے سزا دو لیکن12 اکتوبر 1999 کو جنھوں نے نواز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس سے اسلحے کے زور پر باہر نکالا انہیں کیوں معاف کیا گیا، اس میں توجنرل کیانی بھی ملوث تھے، مجھے بتایا جائے کہ جنرل پرویز مشرف کو3 سال کی توسیع میں نے دی تھی یا سپریم کورٹ کے ججز نے دی تھی، آپ ضیا، پرویز مشرف اور الطاف حسین کو لٹکائیں تو چوہدری صاحب سمیت سب کو بھی لٹکائیں۔
کیونکہ ججز بھی آمریت اورمارشل لاء کے نفاذ میں ذمے دار ہیں۔ میں دیار غیر میں ہو اور مجھے کہا جاتا ہے کہ پاکستان واپس کیوں نہیں آتے، وہ چاہتے ہیں کہ میں آؤ تو ضیا کی طرح ٹھونکا جاؤ، یہاں اگر مجھے ٹھونکوں تو پھر اپنے آپ کو بھی ٹھونکو لیکن میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں واپس آنے سے نہیں ڈرتا، وفاقی حکومت والوں کیا تم مہاجروں میںعلیحدگی کے جراثیم پیدا کرنا چاہتے ہو۔ انھوں نے کہا کہ میں طالبان کے خلاف بات کرتا رہا، میں نے مسلح افواج کو طالبان کے خلاف ایک لاکھ رضا کار غیر مشروط طور پر فراہم کرنے کی پیش کش کی اور کہا کہ پہلے انہیں آگے بھیج دو پھر تم آگے بڑھنا، اب یہ پیش کش طالبان سے بڑھ کرآگے چلی جاتی ہے اگربھارت پاکستان کی طرف ٹیڑھی نگاہ اٹھائے تو بھارت سے مقابلے کیلیے2 لاکھ کارکن پیش کرتا ہوں۔
انھوں نے کہاکہ وہ آئین کے ماہر نہیں بلکہ طالب ہیں اور وہ آئینی ماہرین سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ کونسا قانون اور آئینی شق ہے کہ جس کے تحت ججز نے12کتوبر1999ء کے عمل کو جائز قرار دیا ، انھوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ سمیت ان کے دیگر وکلاکو دھمکیاں دی گئی، میں وفاقی حکومت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کدھر ہو آپ نے کیوں دھمکیاں دینے والوں کا گریبان نہیں پکڑا اور انہیں کیوں قانون کے کٹہرے میں نہیں لائے۔
انھوں نے کہاکہ میں پاکستان کو متحدہ، خوشحال اور کرپشن فری پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں، میرا جینا مرنا پاکستان کیلیے ہے، فوج میرا سینہ چیر کر دیکھ لے کہ میراجینا پاکستان کے لیے ہے یانہیں، پاکستانیت کے حوالے سے میں سخت آدمی ہوں اور میں خزانہ لوٹنے والوں کا پیٹ پھاڑ کر بھی لوٹا گیا خزانہ نکال لوں گا لیکن اسے غلط تناظر میں نہیں لیا جائے بلکہ میرا مطلب ہے کہ لوٹ مارکرنے والے کو قانون کے شکنجے میں اس طرح لاؤنگا کہ یا تووہ لوٹ گیا مال سرکاری خزانے میں جمع کرادیں گے ۔ انھوں نے وزیراعظم محمد نواز شریف کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان بچانا ہے تو یہ مجبوری ہے کہ آپ سندھ میں آؤ اور مداخلت کروکیونکہ پیپلزپارٹی اور قائم علی شاہ کی حکومت نے سندھ کی آدھی آبادی کو کاٹ کر پھینک دیا ہے۔