عام آدمی کا مفاد اور حکومت کی ترجیحات
سیاست میں مہنگائی سے جاں بہ لب غریب عوام کے دکھ اور غم کے بجائے اشرافیہ اور سیاست دانوں کا غم حاوی ہوچکا ہے
وزیراعظم عمران خان نے ایک اور دبنگ اور بڑا اعلان کردیا (خیر اعلان تو وہ گزشتہ ڈھائی سال سے کررہے ہيں اور عوام بھی اب سمجھ گئے ہیں) لیکن اس اعلان میں انہوں نے خاص طور پر عام آدمی کا ذکرکیا ہے۔ اور عام آدمی کا ذکرکرتے ہوئے نہ تو اپنی گزشتہ ڈھائی سالہ حکومتی کارکردگی دیکھی، نہ ہی غریب دشمن پالیسیاں اور نہ غریب دشمن وزرا کی فوج ظفرموج دیکھی، جن کا کام سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ پارلیمنٹ آکر اپوزيشن کی کھینچاتانی کرنا اور اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈالتے ہوئے خود کو بری الذمہ کرلینا اور اس کے ساتھ ایک اور کاری وار غریب اور پسے ہوئے عوام پر کرکے اجلاس برخاست کرلینا۔
یہی حال مشیران خوش الحان کا ہے۔ ان کو میڈیا پروگراموں میں حکومتی ناکامیوں کے جتنے مرضی ثبوت پیش کردیے جائیں، وہ اپنا یہ راگ الاپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں نے ہی کیا ہے۔
ابھی جو خان صاحب نے بیان جاری کرکے ایک مرتبہ پھر غریب اور مہنگائی سے جاں بہ لب عوام پر طنز کیا ہے کہ ''حکومت کی اولین ترجیح عام آدمی ہے'' مگر انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ یہ عام آدمی کون ہے جس کو آپ ترجیح دینا چاہتے ہیں اور اس کے غم میں آپ کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ کیا ہم غریب عوام آپ سے پوچھ سکتے ہیں کہ یہ عام آدمی کون ہے؟
یہ عام آدمی وہ سرمایہ کار جو غریب کا مستقل خون چوس رہا ہے؟
یا پھر یہ عام آدمی وہ مڈل مین جو 10 کی خرید کر 50 کی چیز بیچ رہا ہے؟
یا پھر یہ عام آدمی وہ اشرافیہ جس کو ''چڑھی اتری'' کا کوئی غم نہیں۔
یا پھر واقعی یہ وہی عام آدمی ہے جسے عرف عام میں ''غریب، مزدور اور مفلس عوام'' کہتے ہیں۔
کسی بھی حکومت کےلیے ڈھائی سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے کہ وہ اپنی پالیساں نافذ کرکے اپنے منشور کے مطابق کام کرسکے۔ اگر اتنے طویل عرصے کے بعد بھی وہ پرانی کہاوتیں، قصے اور کہانیاں بیان کرتی رہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت، حکومتی وزرا اور مشیران مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اور ایسی حکومت غریب عوام اور ملک وملت پر ایک بوجھ کی حیثیت رکھتی ہے۔
مہنگائی اور افراط زر میں کمی کا سلسلہ نہ صرف اسی طرح برقرار ہے، بلکہ یہ مہنگائی اور افراط زر عام آدمی پر مسلسل بڑھ رہا ہے اور غریب عوام مزید عدم تحفظ کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ اور اگر موجودہ حکومت کا نصف دور حکومت جو گزر چکا ہے، کو دیکھا جائے تو بقیہ نصف دورانیے یا مستقبل قریب میں بھی کوئی ایسی حکمت عملی نظرنہیں آرہی جس سے غریب عوام کےلیے ریلیف کی کوئی شکل نکل سکے۔ کیونکہ اس نصفیے میں وزیراعظم اور ان کی ٹیم اس مسئلے کو کسی بھی پینل پر سنجیدگی سے لیتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ان کی غیرسنجیدگی اور بے توجہی کا یہ بوجھ اس ملک کے ادھ موئے غریب عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سیاستدان پاکستانی قوم کو کیا سمجھ رہے ہیں اور بطور ایک سربراہ مملکت ہونے کے بھی آئے دن وہی بیان داغے جارہے ہیں کہ ''غریب عوام کا مفاد مدنظر ہے''۔ اب سوال تو بنتا ہے کہ
ہر 15 دن بعد پٹرول کی قیمت بڑھا کر کون سے عام آدمی کا مفاد مدنظر رکھا جارہا ہے؟
گھی، چینی اور دالوں کی قیمتیں جو آسمان کو چھو رہی ہیں اور مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اس کے اضافے میں بھی کوئی مفاد ہوگا؟
پاکستان نے کورونا وبا کے دوران پانچویں بڑی معاشی طاقت کا بننے کا اعزازحاصل کیا ہے اور اس اعزاز میں کلیدی کردار ٹیکسٹائل سیکٹر کے ورکرز کا ہے۔ جنہوں نے شبانہ روز کام کرکے اور خون پسینہ ایک کرکے محنت کی اور ملک کو ایک کثیر زرمبادلہ مہیا کیا۔ لیکن اس معاشی ترقی میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے پسے ہوئے مزدور کو کیا ملا کہ گزشتہ 2 سال سے اس بیچارے کی تنخواہ میں ہی اضافہ نہیں ہوا۔ جبکہ بے پناہ ایکسپورٹ اور ڈالر کے ریٹ میں اضافے سے سرمایہ کار نے اربوں روپے کمائے۔ لیکن ٹیکسٹائل سیکٹر کا مزدور آج بھی نان جویں کےلیے محتاج ہے۔
ہم کب تک غریب اور پسماندہ طبقے کو نظر انداز کرتے رہیں گے۔ کم از کم ایک صدارتی آرڈیننس اس سیکٹر کے مزدوروں کےلیے آجاتا کہ ان کی محنت کے عوض ان کی تنخواہیں بڑھادی جائیں۔ لیکن صدارتی آرڈیننس جاری بھی ہوا تو پھر سیاستدانوں کےلیے، تاکہ ہم ہر جگہ ''مرزا یار'' کی حیثیت حاصل کرکے ''اپنا راج'' قائم کرلیں۔
لہٰذا سینیٹ الیکشن کےلیے کھچڑی پکائی جارہی ہے۔ اس کھچڑی کےلیے دال پکائی جارہی اور اس دال میں ایک بار پھر غریب عوام کا خون جگر ہی شامل ہوگا۔ اور اگر موجودہ حکومت سینیٹ میں بھی جیت گئی تو پھر اس ملک کے غریب عوام ایک اور چکی میں پھنستے چلے جائیں گے۔ کیونکہ جب ہر جگہ اپنا راج ہوگا تو کون عوام اور کون سا ضمیر؟
سینیٹ میں بھی حکومت ان ہی لوگوں کو لانا چاہتی ہے جن کی گزشتہ پالیسیوں کی وجہ سے عوام پہلے ہی بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کا وہ ورکر، جو عمران خان اور عوام کےلیے دھکے کھاتا تھا اس جگہ بھی مات کھاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کیونکہ خاں صاحب یوٹرن لینے کے اب اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ ان کی سیاست میں مہنگائی سے جاں بہ لب غریب عوام کے دکھ اور غم کے بجائے اشرافیہ اور سیاست دانوں کا غم حاوی ہوچکا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہی حال مشیران خوش الحان کا ہے۔ ان کو میڈیا پروگراموں میں حکومتی ناکامیوں کے جتنے مرضی ثبوت پیش کردیے جائیں، وہ اپنا یہ راگ الاپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں نے ہی کیا ہے۔
ابھی جو خان صاحب نے بیان جاری کرکے ایک مرتبہ پھر غریب اور مہنگائی سے جاں بہ لب عوام پر طنز کیا ہے کہ ''حکومت کی اولین ترجیح عام آدمی ہے'' مگر انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ یہ عام آدمی کون ہے جس کو آپ ترجیح دینا چاہتے ہیں اور اس کے غم میں آپ کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ کیا ہم غریب عوام آپ سے پوچھ سکتے ہیں کہ یہ عام آدمی کون ہے؟
یہ عام آدمی وہ سرمایہ کار جو غریب کا مستقل خون چوس رہا ہے؟
یا پھر یہ عام آدمی وہ مڈل مین جو 10 کی خرید کر 50 کی چیز بیچ رہا ہے؟
یا پھر یہ عام آدمی وہ اشرافیہ جس کو ''چڑھی اتری'' کا کوئی غم نہیں۔
یا پھر واقعی یہ وہی عام آدمی ہے جسے عرف عام میں ''غریب، مزدور اور مفلس عوام'' کہتے ہیں۔
کسی بھی حکومت کےلیے ڈھائی سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے کہ وہ اپنی پالیساں نافذ کرکے اپنے منشور کے مطابق کام کرسکے۔ اگر اتنے طویل عرصے کے بعد بھی وہ پرانی کہاوتیں، قصے اور کہانیاں بیان کرتی رہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت، حکومتی وزرا اور مشیران مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اور ایسی حکومت غریب عوام اور ملک وملت پر ایک بوجھ کی حیثیت رکھتی ہے۔
مہنگائی اور افراط زر میں کمی کا سلسلہ نہ صرف اسی طرح برقرار ہے، بلکہ یہ مہنگائی اور افراط زر عام آدمی پر مسلسل بڑھ رہا ہے اور غریب عوام مزید عدم تحفظ کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ اور اگر موجودہ حکومت کا نصف دور حکومت جو گزر چکا ہے، کو دیکھا جائے تو بقیہ نصف دورانیے یا مستقبل قریب میں بھی کوئی ایسی حکمت عملی نظرنہیں آرہی جس سے غریب عوام کےلیے ریلیف کی کوئی شکل نکل سکے۔ کیونکہ اس نصفیے میں وزیراعظم اور ان کی ٹیم اس مسئلے کو کسی بھی پینل پر سنجیدگی سے لیتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ان کی غیرسنجیدگی اور بے توجہی کا یہ بوجھ اس ملک کے ادھ موئے غریب عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سیاستدان پاکستانی قوم کو کیا سمجھ رہے ہیں اور بطور ایک سربراہ مملکت ہونے کے بھی آئے دن وہی بیان داغے جارہے ہیں کہ ''غریب عوام کا مفاد مدنظر ہے''۔ اب سوال تو بنتا ہے کہ
ہر 15 دن بعد پٹرول کی قیمت بڑھا کر کون سے عام آدمی کا مفاد مدنظر رکھا جارہا ہے؟
گھی، چینی اور دالوں کی قیمتیں جو آسمان کو چھو رہی ہیں اور مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اس کے اضافے میں بھی کوئی مفاد ہوگا؟
پاکستان نے کورونا وبا کے دوران پانچویں بڑی معاشی طاقت کا بننے کا اعزازحاصل کیا ہے اور اس اعزاز میں کلیدی کردار ٹیکسٹائل سیکٹر کے ورکرز کا ہے۔ جنہوں نے شبانہ روز کام کرکے اور خون پسینہ ایک کرکے محنت کی اور ملک کو ایک کثیر زرمبادلہ مہیا کیا۔ لیکن اس معاشی ترقی میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے پسے ہوئے مزدور کو کیا ملا کہ گزشتہ 2 سال سے اس بیچارے کی تنخواہ میں ہی اضافہ نہیں ہوا۔ جبکہ بے پناہ ایکسپورٹ اور ڈالر کے ریٹ میں اضافے سے سرمایہ کار نے اربوں روپے کمائے۔ لیکن ٹیکسٹائل سیکٹر کا مزدور آج بھی نان جویں کےلیے محتاج ہے۔
ہم کب تک غریب اور پسماندہ طبقے کو نظر انداز کرتے رہیں گے۔ کم از کم ایک صدارتی آرڈیننس اس سیکٹر کے مزدوروں کےلیے آجاتا کہ ان کی محنت کے عوض ان کی تنخواہیں بڑھادی جائیں۔ لیکن صدارتی آرڈیننس جاری بھی ہوا تو پھر سیاستدانوں کےلیے، تاکہ ہم ہر جگہ ''مرزا یار'' کی حیثیت حاصل کرکے ''اپنا راج'' قائم کرلیں۔
لہٰذا سینیٹ الیکشن کےلیے کھچڑی پکائی جارہی ہے۔ اس کھچڑی کےلیے دال پکائی جارہی اور اس دال میں ایک بار پھر غریب عوام کا خون جگر ہی شامل ہوگا۔ اور اگر موجودہ حکومت سینیٹ میں بھی جیت گئی تو پھر اس ملک کے غریب عوام ایک اور چکی میں پھنستے چلے جائیں گے۔ کیونکہ جب ہر جگہ اپنا راج ہوگا تو کون عوام اور کون سا ضمیر؟
سینیٹ میں بھی حکومت ان ہی لوگوں کو لانا چاہتی ہے جن کی گزشتہ پالیسیوں کی وجہ سے عوام پہلے ہی بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کا وہ ورکر، جو عمران خان اور عوام کےلیے دھکے کھاتا تھا اس جگہ بھی مات کھاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کیونکہ خاں صاحب یوٹرن لینے کے اب اتنے ماہر ہوچکے ہیں کہ ان کی سیاست میں مہنگائی سے جاں بہ لب غریب عوام کے دکھ اور غم کے بجائے اشرافیہ اور سیاست دانوں کا غم حاوی ہوچکا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔