پاکستان میں اہل علم و ادب کی مشکلات
صحافت اور اہل صحافت کو جس قسم کے حالات کا سامنا ہے، یہ رویہ کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے۔
برصغیرہندوپاک میں اہل علم وادب اورصحافت ہمیشہ سے کسمپرسی کی زندگی گذارتے رہے ہیں،وہ چاہے مرزاغالب کازمانہ ہو یا پھرآج کا ماڈرن زمانہ ، فنون لطیفہ اورادب وصحافت سمیت کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو ہمارے یہاں گھر خرچ چلانے جتنا بھی معاوضہ نہیں ملاکرتا۔
سرکاری یاحکومتی محکموں میں بھی اِن کے لیے کوئی کوٹہ مختص نہیں ہوتا۔ خواتین یامعذور افراد اورتیسری جنس کے لیے تو کوٹے مخصوص کیے جانے لگے ہیں لیکن کسی نے آج تک ادبی شخصیات اوراہل صحافت کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ ملک بھر میں ہزاروں اہل ادب وسخن اورصحافی مالی مشکلات سے دوچارہیں۔ آج کے اس بڑھتی مہنگائی کے دورمیں بھی اُن کی تنخواہیں کم ہیں۔
آج سے پچاس سال پہلے ہم کبھی ریڈیو پاکستان میں اپنا پروگرام ریکارڈ کرنے جایاکرتے تھے تو وہاں کی کینٹین میں بیٹھے کئی صحافیوں اورادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے ملاقات ہوجایاکرتی تھی۔ مجھے یہاں یہ کہنے سے کوئی عار اورتذبذب نہیں کہ وہاں بیٹھے ہوئے بہت سے لوگوں کے پاس چائے پینے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔
اُن ستم رسیدوں کی داد رسی کے لیے وہاں شاید ہی کوئی ہوتا ہوکیونکہ اُس کینٹین میں بیٹھے تمام افراد کاحال ایک دوسرے سے قطعاً مختلف نہ تھا، وہ کسی کی کیا مدد کرتے خود اُن کے پاس بھی چائے پینے کوپیسے نہیں ہواکرتے تھے۔ یہی حال پریس کلب کا بھی تھا جہاں سارے دن کے تھکے ہارے اپنی بپتااورمجبوریوں کا حال سنانے کے لیے سرے شام وہاں جمع ہوجایاکرتے تھے اوردوچار گھنٹے گذارکر گھروں کولوٹ جایاکرتے تھے۔
سنا ہے ریڈیوپاکستان کی عمارت اب زمانہ آثار قدیمہ کے تصویر بنتی جارہی ہے،کیونکہ لوگوں نے ریڈیا سنناچھوڑدیاہے اورحکومت اِس ادارے کو بوجھ تصور کرنے لگی ہے۔ اِسی طرح پریس کلب میں ہم نے آناجاناچھوڑدیاہے مگرنئے لکھاری اورصحافی حضرات اب بھی پریس کلب کی رونق ہیں۔
صحافت اور اہل صحافت کو جس قسم کے حالات کا سامنا ہے، یہ رویہ کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے۔ حکومت جس کے ذمے داری ہے کہ وہ آزادی فکرواظہارکی نگہبانی کرے ۔اِس ملک میں ہم نے کئی مارشل لاء اور جمہوری دوردیکھے لیکن کسی ایک دور میں بھی اہلِ صحافت نے اچھے دن نہیں گذارے۔ زبان اورقلم اورفکروسوچ پر پابندیوں کایہ سلسلہ بہت طویل ہے۔ اول اول تو ایسی سوچ رکھنے والوں کوجن کے دامن میں علم،سیرت و کردارکاسرمایہ ہو، انھیں بے روزگاری سے دوچار کر دیا جاتاہے۔ دنیا بھر میں صحافتی برادری کی دردناک اور ناگہانی اموات ہوتی ہیں۔
ہمارے ہاں صداقت ، دیانت ، امانت اور پاکیزگی کا درس دینے والے رفتہ رفتہ ناپید ہوتے جارہے ہیں اورجھوٹ،بے ایمانی ، خیانت اور بدکرداری کا دائرہ وسیع سے وسیع ترہوتا جارہا ہے۔ وقت کے حکمرانوں سے الجھنے کانتیجہ صرف گھر پھونک تماشے کے سوا کچھ حاصل نہیںہوتا۔عافیت وسلامتی کاراستہ اورتقاضا بھی یہی ہے کہ سنبھل کر چلا جائے۔
جدید زمانے کی ایجادوں اور تبدیلیوں میں ایک جانب روایتی میڈیا ہے تودوسرے جانب آزاد سوشل میڈیاہے، جہاں ہم جیسے لوگ کبھی کبھار اپنے دل کا غبار نکال لیاکرتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات حالات دیکھ کر ہم کچھ سہم اورڈرسے جاتے ہیںاوربے دریغ اپنے خیالات کے اظہارسے رک جاتے ہیں اور ادھر ادھر کی بے تکی باتوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
اہل صحافت نے اپنی آزادی کے لیے بڑی جدوجہد بھی کی ہے اورپرویزمشرف دور میں کسی حد تک کامیابیاں بھی حاصل کیں لیکن اِن رجعت پسند قوتوں کی گرفت بہت مضبوط اور گہری ہوتی ہیں۔وہ کمزور ہونے پر ہلکی اورمدھم ضرور ہوجاتی ہیں لیکن ختم ہر گزنہیں ہوتیں۔ ہرنئے دور میںوہ پھر تازہ دم ہوکرسامنے آجاتی ہیں۔ ہماری ہرحکومت دعویٰ تو یہی کرتی ہے کہ اُس کے دورمیں پریس مکمل آزاد ہے مگر حقائق اُ س کے برعکس ہوا کرتے ہیں۔جولوگ اِس نظام سے اختلاف کرتے ہوئے کچھ تحریرکرنے کی کوشش کرتے ہیں انھیں ملک دشمن قرار دیکر تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہی وجہ کہ ہمارے ہاں غیر شعوری اورغیر ارادی طورپر چاپلوسی اور قصیدہ خوانی کا کلچر فروغ پا گیا ہے ۔ اُن کے اِن عالمانہ بانکپن اور تجزیہ نگاری سے حکومت اپنی غلطیوں اورکوتاہیوں کودرست کرنے کے بجائے انھیں صحیح سمجھنے پر خود بھی بضد ہوتی ہے اوردوسروں کو بھی قائل کرنے پر مجبورکرتی ہے۔ یاد رکھا جائے کہ خود ستائی اورخود نمائی کایہ مرض لاعلاج ہوتاہے اوراِس مرض میں مبتلا شخص نہ صرف اپنانقصان کرتا ہے بلکہ اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو بھی لے ڈوبتا ہے۔
سرکاری یاحکومتی محکموں میں بھی اِن کے لیے کوئی کوٹہ مختص نہیں ہوتا۔ خواتین یامعذور افراد اورتیسری جنس کے لیے تو کوٹے مخصوص کیے جانے لگے ہیں لیکن کسی نے آج تک ادبی شخصیات اوراہل صحافت کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ ملک بھر میں ہزاروں اہل ادب وسخن اورصحافی مالی مشکلات سے دوچارہیں۔ آج کے اس بڑھتی مہنگائی کے دورمیں بھی اُن کی تنخواہیں کم ہیں۔
آج سے پچاس سال پہلے ہم کبھی ریڈیو پاکستان میں اپنا پروگرام ریکارڈ کرنے جایاکرتے تھے تو وہاں کی کینٹین میں بیٹھے کئی صحافیوں اورادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے ملاقات ہوجایاکرتی تھی۔ مجھے یہاں یہ کہنے سے کوئی عار اورتذبذب نہیں کہ وہاں بیٹھے ہوئے بہت سے لوگوں کے پاس چائے پینے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔
اُن ستم رسیدوں کی داد رسی کے لیے وہاں شاید ہی کوئی ہوتا ہوکیونکہ اُس کینٹین میں بیٹھے تمام افراد کاحال ایک دوسرے سے قطعاً مختلف نہ تھا، وہ کسی کی کیا مدد کرتے خود اُن کے پاس بھی چائے پینے کوپیسے نہیں ہواکرتے تھے۔ یہی حال پریس کلب کا بھی تھا جہاں سارے دن کے تھکے ہارے اپنی بپتااورمجبوریوں کا حال سنانے کے لیے سرے شام وہاں جمع ہوجایاکرتے تھے اوردوچار گھنٹے گذارکر گھروں کولوٹ جایاکرتے تھے۔
سنا ہے ریڈیوپاکستان کی عمارت اب زمانہ آثار قدیمہ کے تصویر بنتی جارہی ہے،کیونکہ لوگوں نے ریڈیا سنناچھوڑدیاہے اورحکومت اِس ادارے کو بوجھ تصور کرنے لگی ہے۔ اِسی طرح پریس کلب میں ہم نے آناجاناچھوڑدیاہے مگرنئے لکھاری اورصحافی حضرات اب بھی پریس کلب کی رونق ہیں۔
صحافت اور اہل صحافت کو جس قسم کے حالات کا سامنا ہے، یہ رویہ کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے۔ حکومت جس کے ذمے داری ہے کہ وہ آزادی فکرواظہارکی نگہبانی کرے ۔اِس ملک میں ہم نے کئی مارشل لاء اور جمہوری دوردیکھے لیکن کسی ایک دور میں بھی اہلِ صحافت نے اچھے دن نہیں گذارے۔ زبان اورقلم اورفکروسوچ پر پابندیوں کایہ سلسلہ بہت طویل ہے۔ اول اول تو ایسی سوچ رکھنے والوں کوجن کے دامن میں علم،سیرت و کردارکاسرمایہ ہو، انھیں بے روزگاری سے دوچار کر دیا جاتاہے۔ دنیا بھر میں صحافتی برادری کی دردناک اور ناگہانی اموات ہوتی ہیں۔
ہمارے ہاں صداقت ، دیانت ، امانت اور پاکیزگی کا درس دینے والے رفتہ رفتہ ناپید ہوتے جارہے ہیں اورجھوٹ،بے ایمانی ، خیانت اور بدکرداری کا دائرہ وسیع سے وسیع ترہوتا جارہا ہے۔ وقت کے حکمرانوں سے الجھنے کانتیجہ صرف گھر پھونک تماشے کے سوا کچھ حاصل نہیںہوتا۔عافیت وسلامتی کاراستہ اورتقاضا بھی یہی ہے کہ سنبھل کر چلا جائے۔
جدید زمانے کی ایجادوں اور تبدیلیوں میں ایک جانب روایتی میڈیا ہے تودوسرے جانب آزاد سوشل میڈیاہے، جہاں ہم جیسے لوگ کبھی کبھار اپنے دل کا غبار نکال لیاکرتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات حالات دیکھ کر ہم کچھ سہم اورڈرسے جاتے ہیںاوربے دریغ اپنے خیالات کے اظہارسے رک جاتے ہیں اور ادھر ادھر کی بے تکی باتوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
اہل صحافت نے اپنی آزادی کے لیے بڑی جدوجہد بھی کی ہے اورپرویزمشرف دور میں کسی حد تک کامیابیاں بھی حاصل کیں لیکن اِن رجعت پسند قوتوں کی گرفت بہت مضبوط اور گہری ہوتی ہیں۔وہ کمزور ہونے پر ہلکی اورمدھم ضرور ہوجاتی ہیں لیکن ختم ہر گزنہیں ہوتیں۔ ہرنئے دور میںوہ پھر تازہ دم ہوکرسامنے آجاتی ہیں۔ ہماری ہرحکومت دعویٰ تو یہی کرتی ہے کہ اُس کے دورمیں پریس مکمل آزاد ہے مگر حقائق اُ س کے برعکس ہوا کرتے ہیں۔جولوگ اِس نظام سے اختلاف کرتے ہوئے کچھ تحریرکرنے کی کوشش کرتے ہیں انھیں ملک دشمن قرار دیکر تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہی وجہ کہ ہمارے ہاں غیر شعوری اورغیر ارادی طورپر چاپلوسی اور قصیدہ خوانی کا کلچر فروغ پا گیا ہے ۔ اُن کے اِن عالمانہ بانکپن اور تجزیہ نگاری سے حکومت اپنی غلطیوں اورکوتاہیوں کودرست کرنے کے بجائے انھیں صحیح سمجھنے پر خود بھی بضد ہوتی ہے اوردوسروں کو بھی قائل کرنے پر مجبورکرتی ہے۔ یاد رکھا جائے کہ خود ستائی اورخود نمائی کایہ مرض لاعلاج ہوتاہے اوراِس مرض میں مبتلا شخص نہ صرف اپنانقصان کرتا ہے بلکہ اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو بھی لے ڈوبتا ہے۔