وکلا نے میری ذات پر نہیں عدلیہ اور ادارے پر حملہ کیا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ
وکلاء نے اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ کر کے سب کو راستہ دکھایا کہ یہ طریقہ ہے، چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ
وکلا کے اسلام ہائی کورٹ پر دھاوا بولنے کے تیسرے روز آج عدالتیں کھل گئیں۔
عدالت میں اندر اور باہر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے آج مکمل ہڑتال کی کال دیتے ہوئے عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جو وکیل کسی عدالت میں پیش ہو گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران وکلاء کے حملے کا تذکرہ ہوا۔ میاں عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں عدالت میں پیش ہوا ہوں لیکن شرم محسوس کر رہا ہوں، نوجوان وکلاء کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جو چیف جسٹس ہمارے ساتھ شفقت کرتے ہیں ان کے گریبان پر جا کر ہاتھ ڈالا، ہمارے معاشرے میں عزت اب ختم ہو چکی ہے، ان اقدامات کی وجہ سے پورے ملک میں وکلاء پر تُھو تُھو ہو رہی ہے۔
یہ پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ پر 21 وکلا کے خلاف مقدمہ درج، 4 خواتین بھی شامل
جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ آپ کیوں شرمندہ ہو رہے ہیں یہ اسکا عکس ہے جو ہم بن چکے ہیں، ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا بن چکے ہیں، یہ کسی شخص کی انفرادی نہیں بلکہ عہدے کی عزت ہوتی ہے، آج یہاں کوئی اور ہے کل کوئی اور ہو گا لیکن ادارے موجود رہیں گے، چاہے جج ہو یا وکیل ہمیں ایک دوسرے کو عزت دینے کی ضرورت ہے، یہ واقعات تو پنجاب میں گوجرانوالہ اور لاہور وغیرہ میں ہوا کرتے تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عزت ذلت اللہ کی طرف سے ہے۔
یہ پڑھیں : وکلاء کا اسلام آباد ہائیکورٹ پر دھاوا، چیف جسٹس کے چیمبر میں توڑ پھوڑ
چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے بھی ایک کیس کی سماعت کے بعد واقعے سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے ہائیکورٹ پر حملے کو پانچ فیصد وکلا کی کارروائی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پانچ فیصد نے یہ سب کچھ کیا 95 فیصد تو پروفیشنل وکیل ہیں، جو کچھ دو روز قبل ہوا اس پر انتہائی شرمندہ ہوں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق سیکرٹری وقاص ملک اور میاں عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے عدالت میں پیش ہوکر چیف جسٹس بلاک حملے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ مجھے ساڑھے تین گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا گیا، میں ایکشن لے سکتا تھا میں نے اکیلے محصور رہنے کا فیصلہ کیا اور ہائی کورٹ سے جانے کے بجائے ساڑھے تین گھنٹے یرغمال رہ کر سامنا کیا، میں ایکشن لیتا تو کہتے اپنے ہی ایڈووکیٹس کے خلاف کارروائی کروائی، اس معاملے میں اتھارٹی بار کونسل ہے انہیں اس معاملے کو دیکھنا چاہیے، وکلاء نے اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ کر کے سب کو راستہ دکھایا ہے کہ یہ طریقہ ہے، ایسا واقعہ دوبارہ تب نہیں ہو گا جب اس واقعے کے ذمہ داران کو مثال بنایا جائے، یہ عدالت بار کونسل سے امید کرتی ہے کہ وہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، یہ حملہ میری ذات پر نہیں عدلیہ اور ادارے پر حملہ ہے۔
صحافیوں کو دھمکیاں
علاوہ ازیں واقعے کی کوریج کے دوران اور اس کے بعد بیٹ رپورٹرز (صحافیوں) کو ملنے والی دھمکیوں کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس کے سامنے اٹھا دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں کو ان کی پروفیشنل ذمہ داری نبھانے سے کبھی نہیں روکا جا سکتا۔
ایکسپریس نیوز کے رپورٹر صدر اسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن ثاقب بشیر ،سابق صدر عامر سعید عباسی،سیکریٹری احتشام کیانی ،جوائنٹ سیکرٹری فرح ماہ جیں،سیکرٹری فنانس ذیشان سید اور ممبر ایسوسی ایشن عابد علی آرائیں عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
صدر ہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن ثاقب بشیر نے کہا کہ بطور صحافی اور ہائی کورٹ بیٹ رپورٹرز صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، حالیہ واقعہ کے دوران اور اس کے بعد ہمارے رپورٹرز کو بھی دھمکیاں دی گئیں، صحافتی اصولوں کو مدنظر رکھ کر اپنی ذمہ داری پوری کی ہے اور آگے بھی کرتے رہیں گے، بار اور بنچ کے ساتھ اس اہم سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں ہمیں بھی افسوس ہے جو کچھ دو روز قبل ہوا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دیئے کہ عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے اور عوام کا حق بھی ہے کہ حقائق اس تک پہنچیں، یہ عدالت آزادی اظہار رائے کی حامی ہے ہم اس حوالے سے کئی فیصلے دے چکے ہیں، صحافیوں کو پروفیشنل ذمہ داریاں ادا کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔
عدالت میں اندر اور باہر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے آج مکمل ہڑتال کی کال دیتے ہوئے عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جو وکیل کسی عدالت میں پیش ہو گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران وکلاء کے حملے کا تذکرہ ہوا۔ میاں عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں عدالت میں پیش ہوا ہوں لیکن شرم محسوس کر رہا ہوں، نوجوان وکلاء کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جو چیف جسٹس ہمارے ساتھ شفقت کرتے ہیں ان کے گریبان پر جا کر ہاتھ ڈالا، ہمارے معاشرے میں عزت اب ختم ہو چکی ہے، ان اقدامات کی وجہ سے پورے ملک میں وکلاء پر تُھو تُھو ہو رہی ہے۔
یہ پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ پر 21 وکلا کے خلاف مقدمہ درج، 4 خواتین بھی شامل
جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ آپ کیوں شرمندہ ہو رہے ہیں یہ اسکا عکس ہے جو ہم بن چکے ہیں، ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا بن چکے ہیں، یہ کسی شخص کی انفرادی نہیں بلکہ عہدے کی عزت ہوتی ہے، آج یہاں کوئی اور ہے کل کوئی اور ہو گا لیکن ادارے موجود رہیں گے، چاہے جج ہو یا وکیل ہمیں ایک دوسرے کو عزت دینے کی ضرورت ہے، یہ واقعات تو پنجاب میں گوجرانوالہ اور لاہور وغیرہ میں ہوا کرتے تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عزت ذلت اللہ کی طرف سے ہے۔
یہ پڑھیں : وکلاء کا اسلام آباد ہائیکورٹ پر دھاوا، چیف جسٹس کے چیمبر میں توڑ پھوڑ
چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے بھی ایک کیس کی سماعت کے بعد واقعے سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے ہائیکورٹ پر حملے کو پانچ فیصد وکلا کی کارروائی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پانچ فیصد نے یہ سب کچھ کیا 95 فیصد تو پروفیشنل وکیل ہیں، جو کچھ دو روز قبل ہوا اس پر انتہائی شرمندہ ہوں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق سیکرٹری وقاص ملک اور میاں عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے عدالت میں پیش ہوکر چیف جسٹس بلاک حملے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ مجھے ساڑھے تین گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا گیا، میں ایکشن لے سکتا تھا میں نے اکیلے محصور رہنے کا فیصلہ کیا اور ہائی کورٹ سے جانے کے بجائے ساڑھے تین گھنٹے یرغمال رہ کر سامنا کیا، میں ایکشن لیتا تو کہتے اپنے ہی ایڈووکیٹس کے خلاف کارروائی کروائی، اس معاملے میں اتھارٹی بار کونسل ہے انہیں اس معاملے کو دیکھنا چاہیے، وکلاء نے اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ کر کے سب کو راستہ دکھایا ہے کہ یہ طریقہ ہے، ایسا واقعہ دوبارہ تب نہیں ہو گا جب اس واقعے کے ذمہ داران کو مثال بنایا جائے، یہ عدالت بار کونسل سے امید کرتی ہے کہ وہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، یہ حملہ میری ذات پر نہیں عدلیہ اور ادارے پر حملہ ہے۔
صحافیوں کو دھمکیاں
علاوہ ازیں واقعے کی کوریج کے دوران اور اس کے بعد بیٹ رپورٹرز (صحافیوں) کو ملنے والی دھمکیوں کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس کے سامنے اٹھا دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں کو ان کی پروفیشنل ذمہ داری نبھانے سے کبھی نہیں روکا جا سکتا۔
ایکسپریس نیوز کے رپورٹر صدر اسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن ثاقب بشیر ،سابق صدر عامر سعید عباسی،سیکریٹری احتشام کیانی ،جوائنٹ سیکرٹری فرح ماہ جیں،سیکرٹری فنانس ذیشان سید اور ممبر ایسوسی ایشن عابد علی آرائیں عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
صدر ہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن ثاقب بشیر نے کہا کہ بطور صحافی اور ہائی کورٹ بیٹ رپورٹرز صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، حالیہ واقعہ کے دوران اور اس کے بعد ہمارے رپورٹرز کو بھی دھمکیاں دی گئیں، صحافتی اصولوں کو مدنظر رکھ کر اپنی ذمہ داری پوری کی ہے اور آگے بھی کرتے رہیں گے، بار اور بنچ کے ساتھ اس اہم سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں ہمیں بھی افسوس ہے جو کچھ دو روز قبل ہوا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دیئے کہ عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے اور عوام کا حق بھی ہے کہ حقائق اس تک پہنچیں، یہ عدالت آزادی اظہار رائے کی حامی ہے ہم اس حوالے سے کئی فیصلے دے چکے ہیں، صحافیوں کو پروفیشنل ذمہ داریاں ادا کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔