نیا آرڈیننس متحدہ اہم مطالبات سے دستبردار ہوگئی
میٹروپولیٹن کارپوریشن کی حیثیت صوبائی حکومت کے ایک ذیلی ادارے سے زیادہ نہیں
سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012 کی سامنے آنے والی تفصیلات سے واضح طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اپنے اہم مطالبات سے دستبردار ہوگئی ہے۔
طویل عرصے سے وہ جن محکموں کی تحلیل کا مطالبہ کررہی تھی وہ محکمے کراچی کی سطح پر قائم کی جانے والے میٹروپولیٹن کارپوریشن میں شامل نہیں ہیں اور یہ محکمے بدستور صوبائی محکموں کے ماتحت رہیں گے۔ تفصیلات کے مطابق کے جمعے کو علیٰ الصباح پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان کئی سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد جو آرڈیننس جاری کیا گیا اس میں میئر کے ماتحت وہ محکمے اور اختیارات نہیں ہیں جو ایم کیوایم کا دیرینہ مطالبہ رہے ہیں ایم کیوایم ہمیشہ کراچی کی سطح پر خودکار ، خودمختار اور بااختیار حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
تاہم طویل مذاکرات کے بعد جس بلدیاتی حکومت کا انتظامی ڈھانچہ سامنے آیا ہے وہ ایم کیوایم کے دیرینہ مطالبات سے بہت دور ہے، ایم کیوایم کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا کہ مکمل تعلیمی نظام بشمول سرکاری جامعات و تعلیمی وامتحانی بورڈ ، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، شہر کے تمام ترقیاتی ادارے بشمول ایل ڈی اے اورایم ڈی اے ،کراچی میں اراضی کا مکمل کنٹرول، امن وامان کی مکمل ذمے داری بشمول ٹریفک پولیس ، کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ ، سائٹ لمیٹڈ سمیت اس نوعیت کے تمام محکمے میئر یا ناظم کے ماتحت کیے جائیں۔
اس کے علاوہ کراچی کا لینڈ کنٹرول جو کہ اس وقت کئی اداروں جن میں کنٹونمنٹ بورڈ ، ڈی ایچ اے ، کے پی ٹی سمیت دیگر اداروں کے پاس ہے وہ ختم کرکے میئر یا ناظم کے ماتحت کیا جائے اور شہر میں صرف ایک چین آف کمانڈ قائم کی جائے جو کہ میئر یا ناظم کے ماتحت ہو ، اس کے علاوہ ٹیکسز میں موٹر وہیکل ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس جو کہ پوری دنیا میں مقامی حکومتیں وصول کرتی ہیں اس کی وصولیابی کا اختیار بھی بلدیاتی حکومت کو دیا جائے اس کے علاوہ کئی اور ایسے مطالبات ہیں جو کہ ماضی میں ایم کیوایم کرتی رہی ہے۔
مگر نئے آرڈیننس میں یہ محکمے اور اختیارات میئر کے ماتحت نہیں کیے گئے ہیں جس سے واضح طور پر محسوس ہورہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے ساتھ ساڑھے چار سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے اختتام پر ایم کیوایم کی تھالی میں صرف ایک لولی لنگڑی میٹروپولیٹن کارپوریشن ڈالی گئی ہے جس کی حیثیت صوبائی حکومت کے ایک ذیلی ادارے سے زیادہ نہیں ، دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے آرڈیننس کے تحت کو کراچی میں جو پیپلزمیٹروپولیٹن کارپوریشن قائم کی جائے گی اس کے ناظم کے پاس اتنے بھی اختیارات نہیں ہوں گے جو کہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں بلدیہ عظمیٰ میں پیپلزپارٹی کی طرف سے تعنیات کیے گئے ایڈمنسٹریٹر کیپٹن فہیم زمان کے پاس تھے۔
طویل عرصے سے وہ جن محکموں کی تحلیل کا مطالبہ کررہی تھی وہ محکمے کراچی کی سطح پر قائم کی جانے والے میٹروپولیٹن کارپوریشن میں شامل نہیں ہیں اور یہ محکمے بدستور صوبائی محکموں کے ماتحت رہیں گے۔ تفصیلات کے مطابق کے جمعے کو علیٰ الصباح پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان کئی سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد جو آرڈیننس جاری کیا گیا اس میں میئر کے ماتحت وہ محکمے اور اختیارات نہیں ہیں جو ایم کیوایم کا دیرینہ مطالبہ رہے ہیں ایم کیوایم ہمیشہ کراچی کی سطح پر خودکار ، خودمختار اور بااختیار حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
تاہم طویل مذاکرات کے بعد جس بلدیاتی حکومت کا انتظامی ڈھانچہ سامنے آیا ہے وہ ایم کیوایم کے دیرینہ مطالبات سے بہت دور ہے، ایم کیوایم کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا کہ مکمل تعلیمی نظام بشمول سرکاری جامعات و تعلیمی وامتحانی بورڈ ، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، شہر کے تمام ترقیاتی ادارے بشمول ایل ڈی اے اورایم ڈی اے ،کراچی میں اراضی کا مکمل کنٹرول، امن وامان کی مکمل ذمے داری بشمول ٹریفک پولیس ، کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ ، سائٹ لمیٹڈ سمیت اس نوعیت کے تمام محکمے میئر یا ناظم کے ماتحت کیے جائیں۔
اس کے علاوہ کراچی کا لینڈ کنٹرول جو کہ اس وقت کئی اداروں جن میں کنٹونمنٹ بورڈ ، ڈی ایچ اے ، کے پی ٹی سمیت دیگر اداروں کے پاس ہے وہ ختم کرکے میئر یا ناظم کے ماتحت کیا جائے اور شہر میں صرف ایک چین آف کمانڈ قائم کی جائے جو کہ میئر یا ناظم کے ماتحت ہو ، اس کے علاوہ ٹیکسز میں موٹر وہیکل ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس جو کہ پوری دنیا میں مقامی حکومتیں وصول کرتی ہیں اس کی وصولیابی کا اختیار بھی بلدیاتی حکومت کو دیا جائے اس کے علاوہ کئی اور ایسے مطالبات ہیں جو کہ ماضی میں ایم کیوایم کرتی رہی ہے۔
مگر نئے آرڈیننس میں یہ محکمے اور اختیارات میئر کے ماتحت نہیں کیے گئے ہیں جس سے واضح طور پر محسوس ہورہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے ساتھ ساڑھے چار سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے اختتام پر ایم کیوایم کی تھالی میں صرف ایک لولی لنگڑی میٹروپولیٹن کارپوریشن ڈالی گئی ہے جس کی حیثیت صوبائی حکومت کے ایک ذیلی ادارے سے زیادہ نہیں ، دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے آرڈیننس کے تحت کو کراچی میں جو پیپلزمیٹروپولیٹن کارپوریشن قائم کی جائے گی اس کے ناظم کے پاس اتنے بھی اختیارات نہیں ہوں گے جو کہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں بلدیہ عظمیٰ میں پیپلزپارٹی کی طرف سے تعنیات کیے گئے ایڈمنسٹریٹر کیپٹن فہیم زمان کے پاس تھے۔