قانون میں ترامیم اور حلقہ بندیاں کالعدم قرار دینے کیخلاف سندھ حکومت کی سپریم کورٹ میں درخواست
سندھ حکومت کی جانب سے کی گئی حلقہ بندیاں اور قوانین میں ترامیم آئین کے خلاف نہیں، درخواست میں موقف
سندھ حکومت نے بلدیاتی قانون میں ترمیم اور حلقہ بندیاں کالعدم قرار دیئے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ خالد جاوید کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے حلقہ بندیوں کی ساری کارروائی قانون کے مطابق کی ہیں، 2001 میں ایک یوسی30 سے70 ہزار ووٹرز پر مشتمل تھی جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے تحت تشکیل دی گئی یونین کونسلوں میں رجسٹرڈ ووٹرز 10 سے 50 ہزار کے درمیان ہیں، دونوں ادوار میں کی گئی حلقہ بندیوں میں آبادی کا فرق برابر ہے اس لئے اس پر اعتراض بلاجواز ہے۔
درخواست میں بلدیاتی قوانین میں ترامیم کے حوالے سے موقف اختیار کیا گیا ہےکہ ترمیم کے ذریعے پینل کی شرط بیلٹ پیپرز کی طوالت سے بچنے کے لئےعائد کی گئی ہے کیونکہ پینل کی شرط نہ ہو تو ایک بیلٹ پیپر 25،25 صفحات کا ہوجائے گا، ان بیلٹ پیپرز کی گنتی پر گھنٹوں کے حساب سے وقت لگے گا۔ اس کے علاوہ شہری اور دیہی بجٹ میں فرق ان علاقوں کی ضروریات کے تقاضے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ متن میں درخواست کی گئی ہے کہ اگر 2001 کی حلقہ بندیوں کے تحت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 18 جنوری کو ممکن نہیں اور اس میں 8 سے 10 روز کی تاخیر ہوسکتی ہے۔
درخواست دائر کرنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خالد جاوید نے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت 8 جنوری کو اسلام آباد میں ہوگی۔
واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے چند روز قبل ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کی متفرق درخواستوں پر بلدیاتی قوانین میں ترامیم اور حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ خالد جاوید کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے حلقہ بندیوں کی ساری کارروائی قانون کے مطابق کی ہیں، 2001 میں ایک یوسی30 سے70 ہزار ووٹرز پر مشتمل تھی جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے تحت تشکیل دی گئی یونین کونسلوں میں رجسٹرڈ ووٹرز 10 سے 50 ہزار کے درمیان ہیں، دونوں ادوار میں کی گئی حلقہ بندیوں میں آبادی کا فرق برابر ہے اس لئے اس پر اعتراض بلاجواز ہے۔
درخواست میں بلدیاتی قوانین میں ترامیم کے حوالے سے موقف اختیار کیا گیا ہےکہ ترمیم کے ذریعے پینل کی شرط بیلٹ پیپرز کی طوالت سے بچنے کے لئےعائد کی گئی ہے کیونکہ پینل کی شرط نہ ہو تو ایک بیلٹ پیپر 25،25 صفحات کا ہوجائے گا، ان بیلٹ پیپرز کی گنتی پر گھنٹوں کے حساب سے وقت لگے گا۔ اس کے علاوہ شہری اور دیہی بجٹ میں فرق ان علاقوں کی ضروریات کے تقاضے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ متن میں درخواست کی گئی ہے کہ اگر 2001 کی حلقہ بندیوں کے تحت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 18 جنوری کو ممکن نہیں اور اس میں 8 سے 10 روز کی تاخیر ہوسکتی ہے۔
درخواست دائر کرنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خالد جاوید نے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت 8 جنوری کو اسلام آباد میں ہوگی۔
واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے چند روز قبل ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کی متفرق درخواستوں پر بلدیاتی قوانین میں ترامیم اور حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔