لاہور اور ہائیڈل برگ
خود سے کوئی ملک یا شہر اس اعزاز کے لیے اپنے آپ کو پیش نہیں کرسکتا۔
یہ تو اب ساری دنیا کو معلوم ہوگیا ہے کہ لاہور شہر کو یونیسکو نے دنیا کے ستائیسویں ادب اور تہذیب کے نمایندہ شہر کا درجہ دے دیا ہے لیکن یہ بات شاید بہت کم دوستوں کے علم میں ہو کہ اس اعزاز کے ساتھ جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ اور اُس کے پاکستان دوستوں کا کیا تعلق اور کردار ہے اس کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ خود سے کوئی ملک یا شہر اس اعزاز کے لیے اپنے آپ کو پیش نہیں کرسکتا۔
اس کے لیے کسی دوسرے ممبر ملک یا شہر کو اُس کا نام تجویز کرنا ہوتا ہے اور اس سے وابستہ متعلقات کی ایک طویل فہرست ہے جس کی تکمیل اور پیروی بھی اسی تجویز کرنے والے شہر کے ذمے ہوتی ہے اور لاہور کے کیس میں یہ شہر وہی ہائیڈل برگ تھا جس کے دریائے نیکر کے کنارے اقبالؔ نے اپنی ایک مشہور نظم بھی تخلیق کی تھی۔
یہ اب سے کوئی تین برس قبل کی بات ہے لاہور کے اس وقت کے میئر صاحب کی طرف سے دعوت ملی کہ جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ سے وہاں کے ایک پاکستانی نژاد پارلیمنٹرین وسیم بٹ اُن کے پاس آرہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ میں بھی اس میں شرکت کروں کہ معاملہ لاہور شہر کو ادب کے حوالے سے ایک اعزاز دلوانے کا ہے اس سارے قصے میں میرے لیے اس وقت صرف ''ادب'' کا حوالہ ہی معنی رکھتا تھا، یہ اور بات ہے کہ ملاقات میں شرکت کے بعد سے اس کا دائرہ پھیلتا ہی چلا جارہا ہے،۔
وسیم بٹ میرے اندازے کے برخلاف بہت زیادہ کم عمر بلکہ لڑکے سے لگتے تھے جن کو دیکھ کر یہ یقین کرنا بہت مشکل ہوجاتا تھا کہ وہ ایسے اعلیٰ عہدے کے حامل اور اس قدر شدید پاکستان دوست ہوسکتے ہیں کہ نہ صرف اُن کی پیدائش وہاں کی ہے بلکہ اُن کی ساری عمر بھی وہیں گزری ہے وہ ایک خوش رُو اورخوش کلام نوجوان تھے ا ور اُن کی ایک اضافی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ میری تحریروں کے مستقل قاری اور دلدادہ بھی تھے ۔
اس ملاقات میں انھوں نے یونیسکو کے حوالے سے پاکستان کودنیا کے بڑے ادبی شہروں کی فہرست میں شامل کرانے اور اس کی اہمیت کا ذکر توکیا مگر سچی بات ہے کہ اُس مختصر ملاقات میں یہ بات پوری طرح سے میری سمجھ میں نہیں آسکی تھی اب جو عالمی درجہ بندی میں لاہور اور پاکستان کو یہ مقام اور اعزاز مل گیا ہے تو اس کی اہمیت کھل کر سامنے آرہی ہے۔
وسیم بٹ نے بعد کی ایک اور ملاقات میں بتایا کہ وہ ہائیڈل برگ شہر کی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان سے کچھ دوستوں کو جرمنی مدعو کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں جس میں میرا نام بھی شامل ہے مگر پھر کورونا کازمانہ شروع ہوگیا اور ساری دنیا ہی ٹھپ ہوکر رہ گئی۔
چند دن قبل مجھے اُن کا ایک واٹس ایپ میسج ملا کہ وائس آف جرمنی کی طرف سے لاہور کو ملنے والے اس عالمی اعزاز کے حوالے سے ایک زوم میٹنگ کا اہتمام کیا جارہا ہے جس میں سلیمہ ہاشمی اور سابق میئر لاہور کے علاوہ مجھے بھی شرکت کرنا ہوگی۔ اب ہُوا یوں کہ کووڈ 19 کے ہنگام میںبے شمار ورچوئل میٹنگز میں شرکت کی وجہ سے میرے لیے اس میں کوئی مشکل نہ تھی سو میں نے وعدہ کرلیا اور وقت مقررہ پر تیار ہوکر اور موبائل فون سامنے رکھ کر بیٹھ بھی گیا مگر یہ بات مجھے یاد نہ رہی کہ میں نے دو دن قبل ہی فون بدلا تھا اور ابھی میرے اس نئے فون میں زوم ایپ ڈاؤن لوڈ نہیں ہوئی تھی۔
اس طرح کے کام عام طور پر میرا بیٹا علی ذی شان یا بہو رابعہ ہی کرتی ہے اور اتفاق سے وہ دونوں اس وقت گھر پر نہیں تھے میں نے اپنی عقل کے مطابق اور جرمنی کے دوستوںکی رہنمائی سے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر کسی طرح بھی بات نہ بن سکی اور اگرچہ دس منٹ بعد ہی مجھے اس کی ویڈیو ریکارڈنگ مل گئی تھی جس سے مجھے اس میں ہونے والی باتوں کا تو پتہ چل گیا مگر میں خود اس کا حصہ نہ بن سکا۔
اتفاق کی بات ہے کہ منتظمین کی اس فرمائش کے حوالے سے کہ مجھے کچھ کلام بھی سنانا ہوگا میں نے اسی ''اعزاز'' کے حوالے سے ایک کچی پکی نظم بھی موزوں کرلی تھی جو سراج اورنگ آبادی کے بقول ''دھری کی دھری'' ہی رہ گئی، اب میں نے اس کی کچھ فائن ٹیوننگ بھی کرلی ہے سو اسی کو درج کرنے کے ساتھ اپنی بات کو ہائیڈل برگ کے دوستوں کے خصوصی شکریہ کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ بقول شیخ سعدی یہ بھی کہنا جائز ہے کہ ''اے صبا ایں ہمہ آوردہِٗ تست''
یہ جو لاہور کو ایک شہرِ ادب کا ہے رتبہ ملا
یہ اُسی کا نہیں شہر والوں کا بھی ایک اعزاز ہے
کس قدر شہر ہیں
کرہ ارض پر یُوں تو بکھرے ہوئے
ایک سے ایک ہے خوش نما، خوش نظر
پھر بھی اے دوستو اک حقیقت ہے یہ
ان میں کم کم ہیں جو
وقت کے دشت میں
اپنی پہچان رکھتے ہوں کچھ اس طرح
اُن کی تاریخ صدیوں پہ پھیلی بھی ہو
اور وہ آج بھی
ویسے ہی باروراور آباد ہوں
جوش اور جذبے کی مہکار سے اب بھی معمور ہوں
ایسے مسرور ہوں
یہ ادب، شاعری اور تہذیب کی جو روایت یہاں
کب سے موجود تھی
آج اُس کو جو دنیا نے تعظیم دی
وہ تو سب کے لیے باعثِ فخر ہے
آؤ مل کر جہاں بھر میں پھیلے ہوئے
اہلِ علم و ادب سے یہ جُھک کر کہیں
شکریہ دوستو، شکریہ اُس محبت اور عزت کا جو
آپ نے ہم کو دی
شکریہ اس حقیقت کی تسلیم کا
شکریہ اس انوکھی سی تعظیم کا
شہرِ لاہور کا یہ نیا مرتبہ
صرف اس کا نہیں آپ سب کے لیے ایک اعزاز ہے
ایک آواز ہے
سازِ امروز میں اپنی موجودگی نقش کرتی ہوئی
ایسی آواز ہے
جس کے ملنے سے اب
عالمی امن کے اس رواں گیت میں ہم بھی شامل ہوئے
رنگِ محفل ہوئے
اس تعلق کا اور رشتہ درد کا یہ جو آغاز ہے
ایک وعدہ ہے یہ اک ارادہ ہے یہ
اب سے اِس گیت کو مِل کے گائیں گے ہم
یہ جو اعزازاِس شہر کو ہے ملا
اس کی خوشبو کے ہی ساتھ جائیں گے ہم
شعروعلم وادب کی یہ ہمت فزا
دلُربا روشنی
جس کے باعث ملی ہے یہ حُرمت ہمیں
اس کی تعظیم کرتے رہیں گے سدا
اے رفیقانِ تہذیب و علم و ادب
دوستانِ جہاں، شکریہ شکریہ
اس کے لیے کسی دوسرے ممبر ملک یا شہر کو اُس کا نام تجویز کرنا ہوتا ہے اور اس سے وابستہ متعلقات کی ایک طویل فہرست ہے جس کی تکمیل اور پیروی بھی اسی تجویز کرنے والے شہر کے ذمے ہوتی ہے اور لاہور کے کیس میں یہ شہر وہی ہائیڈل برگ تھا جس کے دریائے نیکر کے کنارے اقبالؔ نے اپنی ایک مشہور نظم بھی تخلیق کی تھی۔
یہ اب سے کوئی تین برس قبل کی بات ہے لاہور کے اس وقت کے میئر صاحب کی طرف سے دعوت ملی کہ جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ سے وہاں کے ایک پاکستانی نژاد پارلیمنٹرین وسیم بٹ اُن کے پاس آرہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ میں بھی اس میں شرکت کروں کہ معاملہ لاہور شہر کو ادب کے حوالے سے ایک اعزاز دلوانے کا ہے اس سارے قصے میں میرے لیے اس وقت صرف ''ادب'' کا حوالہ ہی معنی رکھتا تھا، یہ اور بات ہے کہ ملاقات میں شرکت کے بعد سے اس کا دائرہ پھیلتا ہی چلا جارہا ہے،۔
وسیم بٹ میرے اندازے کے برخلاف بہت زیادہ کم عمر بلکہ لڑکے سے لگتے تھے جن کو دیکھ کر یہ یقین کرنا بہت مشکل ہوجاتا تھا کہ وہ ایسے اعلیٰ عہدے کے حامل اور اس قدر شدید پاکستان دوست ہوسکتے ہیں کہ نہ صرف اُن کی پیدائش وہاں کی ہے بلکہ اُن کی ساری عمر بھی وہیں گزری ہے وہ ایک خوش رُو اورخوش کلام نوجوان تھے ا ور اُن کی ایک اضافی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ میری تحریروں کے مستقل قاری اور دلدادہ بھی تھے ۔
اس ملاقات میں انھوں نے یونیسکو کے حوالے سے پاکستان کودنیا کے بڑے ادبی شہروں کی فہرست میں شامل کرانے اور اس کی اہمیت کا ذکر توکیا مگر سچی بات ہے کہ اُس مختصر ملاقات میں یہ بات پوری طرح سے میری سمجھ میں نہیں آسکی تھی اب جو عالمی درجہ بندی میں لاہور اور پاکستان کو یہ مقام اور اعزاز مل گیا ہے تو اس کی اہمیت کھل کر سامنے آرہی ہے۔
وسیم بٹ نے بعد کی ایک اور ملاقات میں بتایا کہ وہ ہائیڈل برگ شہر کی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان سے کچھ دوستوں کو جرمنی مدعو کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں جس میں میرا نام بھی شامل ہے مگر پھر کورونا کازمانہ شروع ہوگیا اور ساری دنیا ہی ٹھپ ہوکر رہ گئی۔
چند دن قبل مجھے اُن کا ایک واٹس ایپ میسج ملا کہ وائس آف جرمنی کی طرف سے لاہور کو ملنے والے اس عالمی اعزاز کے حوالے سے ایک زوم میٹنگ کا اہتمام کیا جارہا ہے جس میں سلیمہ ہاشمی اور سابق میئر لاہور کے علاوہ مجھے بھی شرکت کرنا ہوگی۔ اب ہُوا یوں کہ کووڈ 19 کے ہنگام میںبے شمار ورچوئل میٹنگز میں شرکت کی وجہ سے میرے لیے اس میں کوئی مشکل نہ تھی سو میں نے وعدہ کرلیا اور وقت مقررہ پر تیار ہوکر اور موبائل فون سامنے رکھ کر بیٹھ بھی گیا مگر یہ بات مجھے یاد نہ رہی کہ میں نے دو دن قبل ہی فون بدلا تھا اور ابھی میرے اس نئے فون میں زوم ایپ ڈاؤن لوڈ نہیں ہوئی تھی۔
اس طرح کے کام عام طور پر میرا بیٹا علی ذی شان یا بہو رابعہ ہی کرتی ہے اور اتفاق سے وہ دونوں اس وقت گھر پر نہیں تھے میں نے اپنی عقل کے مطابق اور جرمنی کے دوستوںکی رہنمائی سے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر کسی طرح بھی بات نہ بن سکی اور اگرچہ دس منٹ بعد ہی مجھے اس کی ویڈیو ریکارڈنگ مل گئی تھی جس سے مجھے اس میں ہونے والی باتوں کا تو پتہ چل گیا مگر میں خود اس کا حصہ نہ بن سکا۔
اتفاق کی بات ہے کہ منتظمین کی اس فرمائش کے حوالے سے کہ مجھے کچھ کلام بھی سنانا ہوگا میں نے اسی ''اعزاز'' کے حوالے سے ایک کچی پکی نظم بھی موزوں کرلی تھی جو سراج اورنگ آبادی کے بقول ''دھری کی دھری'' ہی رہ گئی، اب میں نے اس کی کچھ فائن ٹیوننگ بھی کرلی ہے سو اسی کو درج کرنے کے ساتھ اپنی بات کو ہائیڈل برگ کے دوستوں کے خصوصی شکریہ کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ بقول شیخ سعدی یہ بھی کہنا جائز ہے کہ ''اے صبا ایں ہمہ آوردہِٗ تست''
یہ جو لاہور کو ایک شہرِ ادب کا ہے رتبہ ملا
یہ اُسی کا نہیں شہر والوں کا بھی ایک اعزاز ہے
کس قدر شہر ہیں
کرہ ارض پر یُوں تو بکھرے ہوئے
ایک سے ایک ہے خوش نما، خوش نظر
پھر بھی اے دوستو اک حقیقت ہے یہ
ان میں کم کم ہیں جو
وقت کے دشت میں
اپنی پہچان رکھتے ہوں کچھ اس طرح
اُن کی تاریخ صدیوں پہ پھیلی بھی ہو
اور وہ آج بھی
ویسے ہی باروراور آباد ہوں
جوش اور جذبے کی مہکار سے اب بھی معمور ہوں
ایسے مسرور ہوں
یہ ادب، شاعری اور تہذیب کی جو روایت یہاں
کب سے موجود تھی
آج اُس کو جو دنیا نے تعظیم دی
وہ تو سب کے لیے باعثِ فخر ہے
آؤ مل کر جہاں بھر میں پھیلے ہوئے
اہلِ علم و ادب سے یہ جُھک کر کہیں
شکریہ دوستو، شکریہ اُس محبت اور عزت کا جو
آپ نے ہم کو دی
شکریہ اس حقیقت کی تسلیم کا
شکریہ اس انوکھی سی تعظیم کا
شہرِ لاہور کا یہ نیا مرتبہ
صرف اس کا نہیں آپ سب کے لیے ایک اعزاز ہے
ایک آواز ہے
سازِ امروز میں اپنی موجودگی نقش کرتی ہوئی
ایسی آواز ہے
جس کے ملنے سے اب
عالمی امن کے اس رواں گیت میں ہم بھی شامل ہوئے
رنگِ محفل ہوئے
اس تعلق کا اور رشتہ درد کا یہ جو آغاز ہے
ایک وعدہ ہے یہ اک ارادہ ہے یہ
اب سے اِس گیت کو مِل کے گائیں گے ہم
یہ جو اعزازاِس شہر کو ہے ملا
اس کی خوشبو کے ہی ساتھ جائیں گے ہم
شعروعلم وادب کی یہ ہمت فزا
دلُربا روشنی
جس کے باعث ملی ہے یہ حُرمت ہمیں
اس کی تعظیم کرتے رہیں گے سدا
اے رفیقانِ تہذیب و علم و ادب
دوستانِ جہاں، شکریہ شکریہ