سپریم کورٹ نے وزیراعظم کیخلاف ترقیاتی فنڈز کیس نمٹادیا
جسٹس فائز اور وزیراعظم ایک مقدمہ میں فریق ہیں، ہم وزیراعظم آفس کنٹرول کرنے نہیں بیٹھے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے سے متعلق وزیراعظم عمران خان کیخلاف کیس نمٹادیا۔
سپریم کورٹ میں وزیراعظم کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان کے دستخط شدہ سیکٹری خزانہ کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جس میں وزیراعظم نے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی خبر کی تردید کردی۔ اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے جواب مانگنے پر اعتراض کردیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ جو اعتراض آج کر رہے ہیں وہ کل کیوں نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئینی سوال کسی بھی سطح پر اٹھایا جا سکتا ہے، کسی رکن اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جا سکتے۔
یہ بھی پڑھیں: ترقیاتی فنڈز نہ دینے سے متعلق وزیراعظم کا دستخط شدہ جواب طلب
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ وزیراعظم کو آئینی تحفظ حاصل ہے، عدالتی حکم میں جواب وزیراعظم کے سیکرٹری سے مانگا گیا تھا، حکومت سیکریٹریز کے زریعے چلائی جاتی ہے، کیا وزیراعظم ذاتی حیثیت میں جوابدہ تھے؟ وہ اس وقت جوابدہ ہے جب معاملہ ان سے متعلقہ ہو، حکومت جوابدہ ہو تو وزیراعظم سے نہیں پوچھا جا سکتا، اٹارنی جنرل صاحب کوئی غیر قانونی حکم جاری نہ کرنے دیا کریں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ کل مجھے واٹس ایپ پر کسی نے کچھ دستاویزات بھیجی ہیں، حلقہ این اے 65 میں حکومتی اتحادی کو بھاری بھرکم فنڈز جاری کیے گئے ہیں، کیا سڑک کی تعمیر کے لیے مخصوص حلقوں کو فنڈز دیئے جا سکتے ہیں، کیا حلقے میں سڑک کیلئے فنڈز دینا قانون کے مطابق ہے، ہم دشمن نہیں عوام کے پیسے اور آئین کے محافظ ہیں، امید ہے آپ بھی چاہیں گے کہ کرپشن پر مبنی اقدامات نہ ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز کا وزیراعظم کی جانب سے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کا نوٹس
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وٹس ایپ والی دستاویزات آپ کی شکایت ہے، جائزہ لینگے۔ اس پر جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ مجھے شکایت کنندہ نہ کہیں میں صرف نشاندہی کر رہا ہوں، آپ نے شاید میری بات ہی نہیں سنی، کیا وزیراعظم کا کام لفافے تقسیم کرنا ہے، وزیراعظم نے کہا پانچ سال کی مدت کم ہوتی ہے، انہیں چاہیے کہ ووٹ میں توسیع کے لیے اسمبلی سے رجوع کریں۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ میرے خلاف ٹوئٹس کی بھرمار ہورہی ہے، کیا کرپٹ پریکٹس کے خلاف اقدامات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں، معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو سیاسی اقدامات پر آئینی تحفظ حاصل ہے یا نہیں، ماضی میں عدالتیں وزرائے اعظم کو طلب کرتی رہی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم کا جواب کافی مدلل ہے، جسٹس فائز اور وزیراعظم ایک مقدمہ میں فریق ہیں، ہم وزیراعظم آفس کنٹرول کرنے نہیں بیٹھے۔
یہ بھی پڑھیں: اگلے سال سے ارکان پارلیمنٹ کو 50 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز دیے جائیں گے، وزیراعظم
سپریم کورٹ نے وزیراعظم کا جواب تسلی بخش قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کے خلاف اراکین اسمبلی کو فنڈز دینے کا مقدمہ نمٹا دیا۔
سپریم کورٹ میں وزیراعظم کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان کے دستخط شدہ سیکٹری خزانہ کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جس میں وزیراعظم نے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی خبر کی تردید کردی۔ اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے جواب مانگنے پر اعتراض کردیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ جو اعتراض آج کر رہے ہیں وہ کل کیوں نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئینی سوال کسی بھی سطح پر اٹھایا جا سکتا ہے، کسی رکن اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جا سکتے۔
یہ بھی پڑھیں: ترقیاتی فنڈز نہ دینے سے متعلق وزیراعظم کا دستخط شدہ جواب طلب
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ وزیراعظم کو آئینی تحفظ حاصل ہے، عدالتی حکم میں جواب وزیراعظم کے سیکرٹری سے مانگا گیا تھا، حکومت سیکریٹریز کے زریعے چلائی جاتی ہے، کیا وزیراعظم ذاتی حیثیت میں جوابدہ تھے؟ وہ اس وقت جوابدہ ہے جب معاملہ ان سے متعلقہ ہو، حکومت جوابدہ ہو تو وزیراعظم سے نہیں پوچھا جا سکتا، اٹارنی جنرل صاحب کوئی غیر قانونی حکم جاری نہ کرنے دیا کریں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ کل مجھے واٹس ایپ پر کسی نے کچھ دستاویزات بھیجی ہیں، حلقہ این اے 65 میں حکومتی اتحادی کو بھاری بھرکم فنڈز جاری کیے گئے ہیں، کیا سڑک کی تعمیر کے لیے مخصوص حلقوں کو فنڈز دیئے جا سکتے ہیں، کیا حلقے میں سڑک کیلئے فنڈز دینا قانون کے مطابق ہے، ہم دشمن نہیں عوام کے پیسے اور آئین کے محافظ ہیں، امید ہے آپ بھی چاہیں گے کہ کرپشن پر مبنی اقدامات نہ ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز کا وزیراعظم کی جانب سے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کا نوٹس
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وٹس ایپ والی دستاویزات آپ کی شکایت ہے، جائزہ لینگے۔ اس پر جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ مجھے شکایت کنندہ نہ کہیں میں صرف نشاندہی کر رہا ہوں، آپ نے شاید میری بات ہی نہیں سنی، کیا وزیراعظم کا کام لفافے تقسیم کرنا ہے، وزیراعظم نے کہا پانچ سال کی مدت کم ہوتی ہے، انہیں چاہیے کہ ووٹ میں توسیع کے لیے اسمبلی سے رجوع کریں۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ میرے خلاف ٹوئٹس کی بھرمار ہورہی ہے، کیا کرپٹ پریکٹس کے خلاف اقدامات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں، معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو سیاسی اقدامات پر آئینی تحفظ حاصل ہے یا نہیں، ماضی میں عدالتیں وزرائے اعظم کو طلب کرتی رہی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم کا جواب کافی مدلل ہے، جسٹس فائز اور وزیراعظم ایک مقدمہ میں فریق ہیں، ہم وزیراعظم آفس کنٹرول کرنے نہیں بیٹھے۔
یہ بھی پڑھیں: اگلے سال سے ارکان پارلیمنٹ کو 50 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز دیے جائیں گے، وزیراعظم
سپریم کورٹ نے وزیراعظم کا جواب تسلی بخش قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کے خلاف اراکین اسمبلی کو فنڈز دینے کا مقدمہ نمٹا دیا۔