دکھ بھرا بڑھاپا

ہمارے معاشرے میں ابھی بزرگوں کی بڑی قدر ہے۔عام طور پر اولاد میں سے کوئی ایک دیکھ بھال کے فرائض سنبھال لیتا ہے۔

gfhlb169@gmail.com

زندگی کی بعض حقیقتیں بہت تلخ ہوتی ہیں۔ ان سے سامنا نہ ہونے میں ہی عافیت ہے۔ اپنی ملازمت کے دوران جب آرمی ہیڈ کوارٹر میں ٹرانسفر ہوئی تو سرکاری رہائش گاہ ملنے میں کئی مہینے لگ گئے۔ راولپنڈی کینٹ میں سرکاری رہائش گاہیں محدود ہونے کی وجہ سے رہائش گاہ کے لیے کچھ انتظار ضرور کرنا پڑتا ہے۔

میں نے بھی کچھ عرصہ آفیسر میس اور کچھ عرصہ کرائے کے مکان میں گزارا اور پھر میری توقعات سے کہیں بڑھ کر ایک مکان مل گیا۔یہ 8کنال پر مشتمل ایک بنگلہ تھا۔ کاب لائن میںجس انکلیو میں یہ بنگلہ تھا وہاں پر کُل اس قسم کی پانچ رہائش گاہیں تھیں جن میں سے ہر ایک کے ساتھ چار چار سرونٹ کوارٹرز تھے۔ان بنگلوں کی مناسب دیکھ بھال ایک مسئلہ تھا۔ جس گلی میں مجھے یہ رہائش ملی تھی اس میں ہمارے متصل گھر میں فوج کے ایک سینئر افسر رہ رہے تھے۔

گلی کی دوسری طرف سولہ کنال پر چار کوٹھیاں تھیں۔یہ سولہ کنال زمین ایک کرنل ڈبلیو صاحب کی ملکیت تھی۔ وہ جنرل یحیٰی کے دور میں ریٹائر ہوئے۔ ان کے پاس سندھ میں زرعی زمین بھی تھی جہاں سے انھیں سالانہ خاطر خواہ آمدن ہونے کی توقع ہوتی تھی۔انھوںنے گلی کے شروع میں اپنی شادی شدہ بڑی بیٹی کے لیے گھر بنوایا۔ دوسرا گھر ان کے اپنے رہنے کے لیے تعمیر ہوا۔ یہ ایک بڑا شاندار گھر تھا۔ وہاں کے پرانے رہائشی بتاتے تھے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو وزیرِ خارجہ بننے سے پہلے اس گھر میں کچھ عرصہ رہائش پذیر رہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب وہ شاید کامرس کے وزیر رہے ہوں گے۔

اس زمانے میں دارالحکومت اسلام آباد منتقل نہیں ہوا تھااور سرکاری دفاتر و وفاقی سیکریٹریٹ ابھی راولپنڈی میں ہی تھا۔پشاور روڈ راولپنڈی کی نہایت ہی اہم شاہراہ سمجھی جاتی تھی۔ زیادہ تر سفارت خانے اسی سڑک پرتھے۔ اپنے گھر کے ساتھ متصل کرنل صاحب نے اپنے بیٹے کے لیے سفید رنگ کا گھر تعمیر کرایا تھا جسے انھوں نے وائٹ ہاؤس کا نام دیا تھا۔

اس سے آگے انھوں نے چوتھا گھر اپنی چھوٹی بیٹی کے لیے بنوایا۔ یوں انھوں نے سولہ کنال اراضی پر اپنے لیے اور اپنے بیٹے اور دونوں بیٹیوں کے لیے رہائش گاہیں تعمیر کرائیں تاکہ ان کے بچے پڑوس میں ان کے ساتھ ہی رہیں۔میں جب اپنی رہائش گاہ میں شفٹ ہوا تو کافی عرصے تک کرنل صاحب کو کبھی گھر سے باہر نکلتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی کو ان کے ہاں آتے جاتے دیکھا۔ کئی مہینے اسی طرح گزر گئے۔ پھر ایک دن میری مسز کی کرنل صاحب کی بیگم سے ان کے مین گیٹ پر ملاقات ہو گئی۔ میری مسز نے انھیں شام کی چائے کے لیے دعوت دے دی۔کرنل صاحب کی بیگم نے شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ کرنل صاحب بیمار رہتے ہیں۔اُن کے لیے زیادہ چلنا پھرنا ممکن نہیں، اس لیے دونوں کا اکھٹے ہمارے ہاں آنا بہت مشکل ہے البتہ بیگم صاحبہ نے میری مسز کو اور مجھے اپنے ہاں چائے کی دعوت دے دی۔یوں ہماری اُن سے ملاقات ہو گئی۔


اس کے بعد ہر مہینے دو مہینے کے بعد میں اور میری مسز ان کے ہاں علیک سلیک کے لیے چلے جاتے تھے۔ ہمارے ان کے ہاں جانے پر کرنل صاحب بہت ہشاش بشاش ہو جاتے۔ وہ دن کے وقت عام طور پر گھر کے صحن یا برآمدے میں بیٹھے ہوتے، بیگم صاحبہ سال میں ایک مرتبہ کچھ دنوں کے لیے سندھ اپنی زمینوں پر چلی جاتیں۔ ملاقاتوں کے دوران معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا بریگیڈ میجر تھا۔بی ایم عام طور پر ان افسروں کو لگایا جاتا ہے جنھوں نے کوئٹہ اسٹاف کالج کورس اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا ہوتا ہے۔

ایسے افسران عام طور پر اعلیٰ کمانڈ کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے کرنل صاحب کا یہ ہونہار بیٹا ایک دن راول ڈیم میں تیراکی کے لیے گیا اور ڈیم میں ڈوب کرجاں بحق ہو گیا۔ مرحوم نے پسماندگان میں غم زدہ بیگم اور دو چھوٹے بچے چھوڑے۔ خاوند کی وفات کے تین مہینے بعد وہ بچوں کو لے کر راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤں اپنے والدین کے ہاں شفٹ ہو گئی۔کرنل صاحب نے اپنے پیارے بیٹے کے لیے جو گھر تعمیر کرایا تھا وہ بھی انھی دنوں تیار ہوا تھا۔وہ ابھی اپنی فیملی کے ساتھ اس نئے گھر میں شفٹ نہیں ہوئے تھے۔ یہ وائٹ ہاؤس بہت عرصہ بند پڑا رہا اور آخر کار کرائے پر اُٹھا دیا گیا۔ ہر آدمی جان سکتا ہے کہ یہ صدمہ اس فیملی کے لیے کتنا جانکاہ ثابت ہوا ہو گا۔

ایک دفعہ بیگم صاحبہ حسبِ معمول سندھ اپنی زمینوں پر چلی گئیں۔ انھیں گئے کوئی پانچ دن ہوئے ہوں گے کہ ہمسایوں نے محسوس کیا کہ کرنل صاحب کے گھر سے بد بو آ رہی ہے۔ پڑوسی نے کرنل صاحب کی بڑی بیٹی کے خاوند کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد رونے کی آوازیں آنے لگیں۔پتہ چلا کہ کرنل صاحب وفات پا چکے ہیں۔ہمارے ہاں بیٹیاں اپنے والدین سے بہت جڑی ہوتی ہیں اور والدین کا بہت خیال کرتی ہیں اور کرنل صاحب کی بیٹیاں تو اسی گلی میں رہ رہی تھیں ۔لیکن المیہ دیکھیں کہ والد اکیلا فوت ہو گیا۔ خدا جانے مرحوم کے آخری لمحات کس درد اور کتنی یاسیت میں گزرے ہوں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی بھی نہیں تھا۔

اسی اسٹریٹ میںہماری ایک انتہائی لائقِ احترام نیوز کاسٹر رہ رہی تھیں۔نیوز کاسٹرکے گھر کے مین گیٹ کے بالمقابل کوئی بیس کنال پر مشتمل ایک احاطہ تھا جس کے مالک نے اس جگہ کو اونچی دیوار اُٹھا کر ایک قلعے کی شکل دے دی تھی۔انھوں نے اپنی ساری اولاد کو اس چار دیواری کے اندر بسایا ہوا تھا تاکہ ساری فیملی ایک جگہ اکٹھی رہے۔ چار دیواری کے اندر ان کے بیٹے،بیٹیاں،پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں آباد تھے لیکن نہ جانے کیوں وہ خود سارا دن گھر سے باہر کبھی ایک جگہ اور کبھی دوسری جگہ کھڑے یا بیٹھے نظر آتے۔وہ اس بات کو ترستے تھے کہ کوئی ان سے بات کرے۔کوئی ان سے بات کر لیتا تو ان کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھتا۔وہ صبح صبح گھر سے باہر نکل آتے اور آنے جانے والوں کو ترستی آنکھوں سے دیکھتے رہتے۔

ہمارے معاشرے میں ابھی بزرگوں کی بڑی قدر ہے۔عام طور پر اولاد میں سے کوئی ایک دیکھ بھال کے فرائض سنبھال لیتا ہے لیکن بڑے ہی خوش قسمت ہیں وہ بزرگ جن کو کوئی دیکھ بھال کرنے والا مل جائے۔ اسی طرح دیکھ بھال کرنے والی اولاد بھی بہت ہی خوش قسمت ہے کیونکہ خالقِ کائنات نے والدین کو بہت بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے اور ان کے دکھ،تکلیف پر بڑی وعید سنائی ہے لیکن جا بجا بزرگوں کی دکھ بھری زندگی بھی ہمارے اسی معاشرے میں دیکھنے کو مل جاتی ہے۔زندگی کا یہ پہلو انتہائی افسوس ناک ہے اور دکھ بھرا ہے۔ کاش ہم سب اپنے بزرگوں کی زندگی کو آسان اور باعزت بنا سکیں۔
Load Next Story