مسئلہ کشمیر کا حل حق خودارادیت

بھارت کشمیریوں کواپنے حق خودارادیت کے حصول کی منصفانہ جدوجہد جاری رکھنے سے روکنا چاہتا ہے۔

بھارت کشمیریوں کواپنے حق خودارادیت کے حصول کی منصفانہ جدوجہد جاری رکھنے سے روکنا چاہتا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے معاملہ اٹھانے پر امریکا نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرلیا ہے، امریکی محکمہ خارجہ نے واضح کیا ہے کہ امریکا کی کشمیر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور وہ بدستور جموں وکشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ سمجھتا ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ وضاحت امریکی محکمہ خارجہ نے صدر جوبائیڈن اور ان کی حکومت کے اعلیٰ حکام کی طرف سے جنوبی اور وسط ایشیائی خطوں کے بارے میں امریکی پالیسی سے متعلق متعدد بیانات کے بعد ایک نیوز بریفنگ میں دی ہے۔

یہ حقیقت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر دنیا کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے ، جوکہ اقوام متحدہ کے فورم پر حل طلب مسائل میں سرفہرست ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں مسئلہ کشمیر کا حل حق خودارادیت کی صورت میں دے چکی ہیں، مسئلہ کشمیر حل ہونے کی صورت میں ریاست جموں و کشمیر جنوبی ایشیاء کا مرکز بن سکتی ہے۔

کشمیرکا مسئلہ ایک بار پھر عالمی منظر نامے میں سرفہرست نظر آرہا ہے۔اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر خود جانے کے باوجود تجارتی مراسم بڑھا کر کئی ایک ممالک کو ہندوستان نے کشمیر کے معاملے پر خاموش کردیا تھا۔

ہندوستان کا مقصد اپنی پوزیشن کو ایک ایسی جگہ پر لانا تھا جہاں وہ آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کا لیبل لگاسکے اور مختلف علاقوں میں اٹھی ہوئی آزادی کی تحریکوں کو دبانے میں عالمی رائے عامہ ہموار کرسکے۔

اقوام متحدہ میں چونکہ تنازع کشمیر کی مکمل تاریخ موجود ہے اس لیے اس میں اسے خاطر خواہ کامیابی تو نہ ہو سکی ، البتہ افغان سرحد کے ذریعے پاکستان میں ایک عرصے تک دہشت گردانہ واقعات کرواتا رہا ہے، جس کے ثبوت پاکستان نے کئی بار اقوام متحدہ اور دیگر مقتدر ممالک کے ساتھ بانٹے ہیں۔

تقسیم برصغیر کے وقت مسلم لیگ نے ریاستوں کے آزاد رہنے کے حق کی بھرپور وکالت کی تھی جب کہ کانگریس کا موقف یہ تھا کہ ریاستوں کو بہر صورت بھارت یا پاکستان کا حصہ بننا چاہیے۔بھارت کا کشمیر پر غیرقانونی قبضہ الحاق سے مشروط ہے،جو بذات خود قابل اعتراض مسودے کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ حقِ خودارادیت کی بات کی ہے۔ پاکستانی موقف کی تائید نہرو نے خود بھارتی پارلیمنٹ اور سلامتی کونسل میں کی۔بھارت کا مقدمہ کشمیر زمین کے ٹکڑے کی ملکیت پر منحصر ہے جب کہ پاکستان قانون اور انسانی حقوق کے اصولوں پر اس مقدمے کا حل چاہتا ہے۔ یہ جنگ انسانی حقوق اور زمینی قبضے کے درمیان ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ آخر کار جیت اصول ہی کی ہوتی ہے۔ جبر سے لوگوں کو طویل عرصے تک دبایا نہیں جا سکتا۔ فرانس کو آزادی بغاوت کے ذریعے ملی، انھیں کوئی روک نہ سکا۔ روسیوں نے سرمایہ داری کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور زاروں کو مار بھگایا۔ جنوبی افریقہ نے نسلی امتیازکے خلاف کامیاب جنگ لڑی۔

اسی طرح امریکا نے برطانیہ کے خلاف جنگ جیت کر آزادی حاصل کی۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان مسلم لیگ بلکہ آل انڈیا کانگریس کی ساری جدوجہد حق خودارادیت کے اصولوں پر مرتکز تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کی علیحدگی بھی عوامی خواہشات کے مطابق کی گئی تھی۔

بھارت کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ پانچ اگست 2019سے اب تک کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ شاید جرمنی کے باشندوں نے بھی نازیوں کے ہاتھوں ایسا ظلم نہ سہا ہوگا۔ اس وقت کشمیر میں دنیا کی سب سے بڑی قابض فوج موجود ہے۔ حکومت کی ہدایت کے مطابق کسی بھی سیاستدان یا پولیس آفیسر کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا۔ Armed forces act 1990 کی شق 7کے مطابق قابض بھارتی فوج کے پاس لامحدود اختیارات ہیں جس میں کسی کو مارنا اور املاک کو تباہ کرنا بھی شامل ہے۔

کشمیر میں بھارتی فوج کو حکومتی تحفظ حاصل ہے اورانھیں کوئی بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے اور کشمیر کو جبراً بھارت کا حصہ بنانے کی مذموم کوشش نے مودی سرکار کی ہندو توا پالیسی کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ کشمیر میں جاری عوامی تحریک کو روکنا اب مشکل ہے ۔


مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف نفرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگ نیند میں بھی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں، یہ آگ اب بجھائی نہیں جا سکتی۔ امریکی اقوام کو بھی ویتنام سے نکلنا پڑا تھا۔ لوگوں کی خود ارادیت کو کچلنا آسان نہیں۔ بھارت کے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے دفتر خارجہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے اقوام متحدہ کی کشمیر کے مطابق قراردادوں کو دوبارہ زندہ کردیا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر بھارت کی کشمیر پر قانونی گرفت کمزور پڑ گئی ہے۔

ٹرمپ، مہاتیر، اردوان اور چین کے وزیر خارجہ نے کھل کر اقوام متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں کو نافذ کرنے کی حمایت کی ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارت کاحصہ بنانے کے جارحانہ اقدام سے کشمیر کا معاملہ مزید اجاگر ہوا ہے اور دنیا ہندوستان کے اس اقدام پر سخت تشویش ظاہر کررہی ہے۔

ہندوستان نے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اب دنیا میں کشمیر کے تنازعہ کے حل کا مطالبہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ حکومت پاکستان کے کشمیر کے بارے میں موقف کو اقوام عالم تسلیم کرتا ہے جب کہ بھارت اپنے اقدامات کی وجہ سے پوری دنیا میں رسوا ہورہا ہے۔بھارت کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہا ہے۔

بھارت کشمیریوں کواپنے حق خودارادیت کے حصول کی منصفانہ جدوجہد جاری رکھنے سے روکنا چاہتا ہے، بھارت اس طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیری عوام کو محکوم نہیں رکھ سکتا ہے، حالیہ بھارتی اقدامات کی وجہ سے بھارت کے خلاف کشمیری عوام کی نفرت، ناراضگی اور مزاحمت کئی گنا بڑھ گئی ہے، یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور کشمیریوں کا غم وغصہ ایسی شکل اختیار کرسکتا ہے جسے روک پانا بھارت کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔

آج کشمیر کی تحریک عوامی تحریک میں بدل چکی ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام کو یقین ہے آزادی کشمیر کی یہ عوامی تحریک بھارت کی قابض فوج کے مقابلے میں فتح یاب ہوگی۔کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھارت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ کشمیر میں شاید ہی کوئی گھر بچا ہو جہاں ان کے پیاروں پر ظلم و ستم یا ان کا قتل نہ ہوا ہو۔

بھارتی فوج کی مظاہرین کے خلاف تشدد کی داستان بھی طویل اور دردناک ہے۔ جھوٹے مقابلوں میں لوگوں کو مروایا جاتا ہے۔ حراست میں لوگوں کی اموات معمول ہیں۔ پیلٹ گن سے متعدد کشمیریوں کو اندھا کیا جا چکا ہے۔ جبری اغوا آئے دن کی بات ہے اور خواتین کی عصمت دری ایک مسلسل عذاب ہے، جس سے کشمیری خواتین ہر وقت خائف رہنے لگی ہیں۔

مسئلہ کشمیر کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ تقریباً سات دہائیاں گزر نے کے باوجود یہ مسئلہ نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس کی جنوبی ایشیاء اور عالمی امن کے لیے کلیدی حیثیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ 1947-48 میں اگر تاریخ کے دھارے کو فطری طور پر بڑھنے دیا جاتا، تو آج پورا جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتا،لیکن دو وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا۔ اول، مہاراجہ کشمیر اور شاہی خاندان کے حکم پر ہندو انتہا پسندوں نے تقریباً اڑھائی لاکھ مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا۔ جموں میں نسل کشی کی یہ بد ترین مثال تھی۔

دوسرے، ہندوستانی فوج نے وادی کشمیر، جموں اور لداخ پر 27 اکتوبر 1947 کو قبضہ کر لیا اور یہ غیرقانونی قبضہ آج تک جاری ہے۔ قتل عام بھی آج تک جاری ہے۔ 1948سے لے کر 1957 تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے درجن بھر قرار دادوں میں یہ فیصلہ دیا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اہل جموں و کشمیر کی مرضی سے نکالا جائے گا۔ کشمیری عوام ہی اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ایک جمہوری طریقے سے رائے شماری کے ذریعے یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس طرح اہل جموں و کشمیر کا حق خود ارادیت اصالتاً اور قانوناً محفوظ ہو گیا۔

ہندوستان سات دہائیوں سے اس حق کے حصول کی راہ میں کھڑا ہے۔ اُس نے جبر و طاقت سے کشمیریوں کی آواز کوکچلنے کی کوششیںکی۔ تحریص و ترغیب اور معاشی ترقی کے وعدوں سے ان کے دل جیتنے کی کوششیں کیں۔ اس نے اپنی حلیف جماعتیں بھی کشمیر میں کھڑی کی ہیں اور دنیا میں کشمیریوں کو بدنام کیا کہ وہ دہشت گرد ہیں، جن کی پشت پناہی پاکستان کر رہا ہے۔

ہندوستان کے چاروں حربے ناکام رہے ہیں اور آج بھی مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں اور وادیوں، دریاؤں، مرغزاروں اور کھیتوں، شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے ایک ہی آواز بلند ہو رہی ہے۔ آزادی،آزادی اور اسی ایک ہی نعرے کی باز گشت سنائی دے رہی ہے ۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام نے لاکھوں جانیں قربان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ۔دوسری طرف ایسی کوئی طاقت موجود نہیں جو بھارت کو ریاست پر سے اپنا قبضہ ختم کرنے پر مجبور کرے۔جس طرح 1947میں بنگال اور پنجاب تقسیم ہو کر ہی پاکستان کا حصہ بن سکے تھے وہی عمل ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ دہرایا جانا ہو گا۔

کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت سب کے لیے اس مسئلے کا حل ہو جانا ضروری ہے اور اس کا واحد ممکنہ اور منصفانہ حل کشمیریوں کا حق خود ارادیت ہے۔ تقسیم سے بچاؤ کا واحد راستہ یہی ہے۔حق خودارادیت کو اقوام متحدہ بنیادی حق تسلیم کر چکی ہے اور موجودہ وقتوں میں کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں نے اس حق کو اپنی خودمختاری کے لیے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔
Load Next Story