’’دی رائٹر‘‘ جدید کمپیوٹر کا جد امجد
دی رائٹر 1770ء میں تخلیق کیا گیا
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ کمپیوٹر کی ایجاد بیسویں صدی میں ہوئی تھی۔
یہ درست ہے کہ آج ہم جو کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں، وہ گذشتہ صدی ہی میں معرض وجود میں آیا تھا، مگر حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 240 سال قبل بنائی گئی ایک مشین کو جدید کمپیوٹر کا جدامجد کہا جاسکتا ہے۔'' دی رائٹر'' نامی یہ مشین سوئٹزرلینڈ کے معروف گھڑی ساز Pierre Jaquet-Droz نے 1770ء کے عشرے میں ایجاد کی تھی۔ Pierre نے اس مشین کو ایک بچے کی شکل دی تھی جوکہ ہاتھ میں قلم پکڑے میز پر رکھی ہائی کاپی پر کچھ لکھ رہا ہو۔
درحقیقت 240 سال قبل بنائی گئی یہ مشین خود کار طور پر 40 حروف پر مشتمل جملے کامل درستی کے ساتھ تحریر کرسکتی تھی۔ عجائب گھر میں محفوظ یہ مشین اب بھی اسی طرح کام کرسکتی ہے۔ اُس دور میں ایک ایسی مشین کا تصور جو انسانوں کی طرح لکھ سکتی ہو، یقینی طور پر وقت سے بہت آگے کی بات تھی۔ علاوہ ازیں اس تصور کو حقیقت میں بدلنے کے لیے Pierre نے بہت زیادہ وقت صرف کیا ہوگا۔ مزید برآں مشین کو بچے کی شکل دینے میں بھی خاصا وقت لگا ہوگا۔
'' دی رائٹر '' کیم ٹیکنالوجی ( cam technology) کی بنیاد پر کام کرتا تھا۔ کیم ایک میکانیکی آلہ ہوتا ہے۔ یہ آلہ ایک دھرے سے منسلک ہوتا ہے اور اس کی حرکت مشین کے دیگر پُرزوں کو بھی متحرک کردیتی ہے۔ ''دی رائٹر'' میں کئی کیم لگائے گئے تھے جن کی حرکت 'لڑکے' کے بازو کو حرکت میں لے آتی تھی۔ '' دی رائٹر'' کے میکانیکی نظام میں کیم کو بنیادی اہمیت حاصل تھی کیوں کہ یہ پُرزے قلم کی حرکت کے ساتھ ساتھ کاغذ پر اس کے دباؤ کو بھی کنٹرول کرتے تھے۔ دورحاضر کے سائنس داں '' دی رائٹر'' کو کیم ٹیکنالوجی کا شاہ کار قرار دیتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کی یونی ورسٹی کے محققین کی ریسرچ کے مطابق '' دی رائٹر'' میکانیکی نظام کی ایک حیران کن خوبی یہ تھی کہ قلم جیسے جیسے الفاظ تحریر کرتا ہوا آگے کی جانب حرکت کرتا تھا تو اس کی آنکھیں بھی ساتھ ساتھ متحرک ہوتی تھیں، یعنی وہ لکھے جانے والے الفاظ پر ' نظر' رکھتا تھا۔ ہاتھ کی حرکت کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی حرکت اس وجہ سے ممکن ہوتی تھی کہ کیم کو کنٹرول کرنے والے پہیے علامات اور حروف پر مشتمل تھے جنھیں مختلف الفاظ لکھنے کے لیے ازسرنوترتیب دیا جاسکتا تھا۔ تحقیقی ٹیم کے مطابق اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسے '' ری پروگرام'' کیا جاسکتا تھا۔ '' دی رائٹر'' کی '' پروگرام ایبل'' ( programmable) ہونے کی خاصیت ہی اسے جدید کمپیوٹرز کا جدامجد ٹھہراتی ہے۔
'' دی رائٹر'' چھوٹے بڑے 6000 کے لگ بھگ پُرزوں پر مشتمل تھا۔ تمام پُرزے ہاتھ سے بنائے گئے تھے۔ ان میں انتہائی مختصر جسامت کے پُرزے بھی شامل تھے جنھیں اس طریقے سے بنایا گیا تھا جس طریقے سے گھڑیوں کے پُرزے بنائے جاتے تھے۔ '' دی رائٹر'' کو کام کرنے کے لیے بیرونی توانائی درکار نہیں ہوتی تھی کیوں کہ اس کا میکانیکی نظام ہی مطلوبہ توانائی مہیا کردیتا تھا۔
Jaquet-Droz نے '' دی رائٹر' 'جیسی تین مشینیں تخلیق کی تھیں جن کی نمائش سب سے پہلے یورپین رائل کورٹس میں کی گئی تھی۔ اس لمحے سے لے کر آج تک یہ مشینیں سائنس دانوں اور عام لوگوں کو حیران کرتی آرہی ہیں۔
یہ درست ہے کہ آج ہم جو کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں، وہ گذشتہ صدی ہی میں معرض وجود میں آیا تھا، مگر حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 240 سال قبل بنائی گئی ایک مشین کو جدید کمپیوٹر کا جدامجد کہا جاسکتا ہے۔'' دی رائٹر'' نامی یہ مشین سوئٹزرلینڈ کے معروف گھڑی ساز Pierre Jaquet-Droz نے 1770ء کے عشرے میں ایجاد کی تھی۔ Pierre نے اس مشین کو ایک بچے کی شکل دی تھی جوکہ ہاتھ میں قلم پکڑے میز پر رکھی ہائی کاپی پر کچھ لکھ رہا ہو۔
درحقیقت 240 سال قبل بنائی گئی یہ مشین خود کار طور پر 40 حروف پر مشتمل جملے کامل درستی کے ساتھ تحریر کرسکتی تھی۔ عجائب گھر میں محفوظ یہ مشین اب بھی اسی طرح کام کرسکتی ہے۔ اُس دور میں ایک ایسی مشین کا تصور جو انسانوں کی طرح لکھ سکتی ہو، یقینی طور پر وقت سے بہت آگے کی بات تھی۔ علاوہ ازیں اس تصور کو حقیقت میں بدلنے کے لیے Pierre نے بہت زیادہ وقت صرف کیا ہوگا۔ مزید برآں مشین کو بچے کی شکل دینے میں بھی خاصا وقت لگا ہوگا۔
'' دی رائٹر '' کیم ٹیکنالوجی ( cam technology) کی بنیاد پر کام کرتا تھا۔ کیم ایک میکانیکی آلہ ہوتا ہے۔ یہ آلہ ایک دھرے سے منسلک ہوتا ہے اور اس کی حرکت مشین کے دیگر پُرزوں کو بھی متحرک کردیتی ہے۔ ''دی رائٹر'' میں کئی کیم لگائے گئے تھے جن کی حرکت 'لڑکے' کے بازو کو حرکت میں لے آتی تھی۔ '' دی رائٹر'' کے میکانیکی نظام میں کیم کو بنیادی اہمیت حاصل تھی کیوں کہ یہ پُرزے قلم کی حرکت کے ساتھ ساتھ کاغذ پر اس کے دباؤ کو بھی کنٹرول کرتے تھے۔ دورحاضر کے سائنس داں '' دی رائٹر'' کو کیم ٹیکنالوجی کا شاہ کار قرار دیتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کی یونی ورسٹی کے محققین کی ریسرچ کے مطابق '' دی رائٹر'' میکانیکی نظام کی ایک حیران کن خوبی یہ تھی کہ قلم جیسے جیسے الفاظ تحریر کرتا ہوا آگے کی جانب حرکت کرتا تھا تو اس کی آنکھیں بھی ساتھ ساتھ متحرک ہوتی تھیں، یعنی وہ لکھے جانے والے الفاظ پر ' نظر' رکھتا تھا۔ ہاتھ کی حرکت کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی حرکت اس وجہ سے ممکن ہوتی تھی کہ کیم کو کنٹرول کرنے والے پہیے علامات اور حروف پر مشتمل تھے جنھیں مختلف الفاظ لکھنے کے لیے ازسرنوترتیب دیا جاسکتا تھا۔ تحقیقی ٹیم کے مطابق اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسے '' ری پروگرام'' کیا جاسکتا تھا۔ '' دی رائٹر'' کی '' پروگرام ایبل'' ( programmable) ہونے کی خاصیت ہی اسے جدید کمپیوٹرز کا جدامجد ٹھہراتی ہے۔
'' دی رائٹر'' چھوٹے بڑے 6000 کے لگ بھگ پُرزوں پر مشتمل تھا۔ تمام پُرزے ہاتھ سے بنائے گئے تھے۔ ان میں انتہائی مختصر جسامت کے پُرزے بھی شامل تھے جنھیں اس طریقے سے بنایا گیا تھا جس طریقے سے گھڑیوں کے پُرزے بنائے جاتے تھے۔ '' دی رائٹر'' کو کام کرنے کے لیے بیرونی توانائی درکار نہیں ہوتی تھی کیوں کہ اس کا میکانیکی نظام ہی مطلوبہ توانائی مہیا کردیتا تھا۔
Jaquet-Droz نے '' دی رائٹر' 'جیسی تین مشینیں تخلیق کی تھیں جن کی نمائش سب سے پہلے یورپین رائل کورٹس میں کی گئی تھی۔ اس لمحے سے لے کر آج تک یہ مشینیں سائنس دانوں اور عام لوگوں کو حیران کرتی آرہی ہیں۔