کینیڈا کی سیاست میں پاکستانیوں کا کردار
پاکستانیوں کی کینیڈا آمد کا سلسلہ 1960 کے اوائل میں شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔
پاکستانیوں کی کینیڈا آمد کا سلسلہ 1960 کے اوائل میں شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ابتدائی دنوں میں کینیڈا کا رْخ کرتے تھے اور اس کے ساتھ وہ تعلیم یافتہ اور ہْنر مند افراد بھی تھے جو کہ مستقل طور پر رہائش اختیار کر نے کی خاطرکینیڈاآتے تھے۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کئی افراد پاکستان واپس چلے جاتے جب کہ ایک بڑی تعدادنے مستقبل کی خاطر کینیڈا میں ہی قیام کو ترجیحی دی اور یہی کے ہوکر رہ گئے۔ گزشتہ پانچ چھ دہائیوں میں کینیڈا میں پاکستانیوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔
کینیڈا جو کہ ابتداء ہی سے ایک کثیر الثقافتی ملک تصّور کیا جاتا ہے اور دْنیا بھر سے مختلف قومیتیں یہاں آکر آباد ہوتی ہیں۔ یہی لوگ اور اِن کی اولادیں جہاں ایک طرف کینیڈا کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کر تے ہیں تو دوسری طرف کینیڈا کی سیاست میں بھی اپنا لوہا منواتے ہیں۔پاکستانیوں کا شمار چونکہ نئے آنے والے امیگرنٹس میں ہوتا ہے اسی لیے پاکستانی یہاں کی سیاست میں کچھ دیر سے شامل ہوئے۔
پاکستانیوں کے مقابلے میں دیگر ممالک سے آکر آباد ہونے والے افراد کی نمایندگی کینیڈین پارلیمنٹ میں کافی پہلے سے موجود ہے ،ہندوستانی کینیڈین کی نمایندگی بھی یہاں کی پارلیمنٹ میں گزشتہ دو دہائیوں سے نمایاں طور پر نظر آتی ہے جب کہ وہ چند ایک اہم وزارتوں میں بھی شامل ہیں۔ پاکستانیوں کو کینیڈین پارلیمنٹ میں نمایندگی کا موقع اس وقت ملا جب 2004 میں پاکستانی نژاد کینیڈین واجد خان مِسّی ساگا کی ایک رائیڈنگ اسٹریٹ ول کے علاقے سے لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر پہلی بار کینیڈین پارلیمنٹ کے رْکن بنے۔
اْس کے بعد 2015 کے الیکشن میں کینیڈا کی لبرل پارٹی کے پلیٹ فارم سے مِسّی ساگا کے ہی علاقے ایرن مل کی رائیڈنگ سے اقراء خالد نے پہلی خاتون ممبر آف پارلیمنٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ جب کہ اسی سال اسکاربورو کی رائیڈنگ سے ایک اور پاکستانی کینیڈین خاتون سلمہ زاہد نے بھی لبرل پارٹی کے ہی ٹکٹ پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور کینیڈین پارلیمنٹ کی رْکن بنیں۔ کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کی صوبائی اسمبلی میں بھی پاکستانی کینیڈین کی نمایندگی موجود ہے جس میں سب سے نمایاں نام ڈاکٹر شفیق قادری کا ہے جو کہ 2003 سے 2018 تک تقریباً پندرہ سال تک ٹورانٹو کی ایک رائیڈنگ سے اونٹاریو اسمبلی کے رْکن رہے لیکن 2018 کے عام انتخابات میں انھیں ڈگ فورڈ کی کنزرویٹیو پارٹی سے شکست سے دو چار ہونا پڑا۔
2007 کے انتخابات میں لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر اوٹاوا سینٹرل سے کامیاب ہوکر آنے والے یاسر عباس نقوی بھی پاکستانی کمیونٹی کی ایک بہت بڑی پہچان بن کر اْبھرے۔وہ پیشہ کے لحاظ سے ایک ایڈووکیٹ ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وہ مختلف وزارتوں کے قلمدان سنبھالنے کے علاوہ اٹارنی جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے جو کہ پاکستانی کینیڈینز کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ وہ 2007 سے 2018 تک صوبائی اسمبلی کا حصہ رہے۔
2018میں اونٹاریو میں ہونے والے انتخابات میں مِسّی ساگاکْکس ویل کی رائیڈنگ سے کنزرویٹیو پارٹی کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے والے کلید رشید بھی پہلے پاکستانی کینیڈین ہیں جنھوں نے اونٹاریو کنزرویٹیو پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ حال ہی میں انھوں نے فرنٹ لائن ورکرز کی پروٹیکشن کے لیے اسمبلی میں بل 230بھی پیش کیا۔
شیراز شفیع بھی ایک سیاسی طور پر متحرک پاکستانی کینیڈین ہیں جو کہ تنزانیہ میں پیدا ہوئے اور 1995 سے 2008 تک صوبہ البرٹا کے شہر کیلگری سے قانون ساز اسمبلی کے رْکن رہے۔لیکن 2008 کنزرویٹو کے اْمیدوار سے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔2016 میں صوبہ سسکاچیون کی قانون سازاسمبلی کے لیے الیکشن جیت کر اپنی جگہ بنانے والے محمد فیاض کا شمار بھی اْن پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو پاکستان سے ہجرت کرکے کینیڈا آئے ۔
وہ سسکاچیون کی قانون سازاسمبلی میں پہنچنے والے پہلے مسلمان ہیں۔محمد فیاض ایک کاروباری شخصیت ہیں انھوں نے 1995 میں پاکستان سے ہجرت کرکے ٹورانٹو میں سکونت اختیار کی اور بعد ازاں صوبہ سسکاچیون کے شہر ریجاینا منتقل ہوگئے۔ اس شہر میں مسلمانوں کی قلیل تعداد ہونے کے باوجود وہ قانون ساز اسمبلی کے رکن بننے میں کامیاب ہوگئے۔
بلدیاتی سطح پر شہری حکومتی اداروں میں نمایندگی کی اگر بات کی جائے تو ان میں بھی کئی پاکستانی کینیڈینز کے نام قابل ذکر ہیں جن میں سر فہرست خالد عثمان کا نام آتا ہے خالد عثمان ۷۰ کی دہائی میں ہجرت کرکے کینیڈا آئے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ وہ پہلی بار 1997 میں سٹی آف مارکھم کے کونسلر منتخب ہوئے اور مسلسل نوسال تک مارکھم سٹی ہال میں اپنی کمیونٹی کی نمایندگی کرتے رہے۔جس کے بعد وہ 2018 میں ایک بار پھر ٹورانٹو سے ملحقہ شہر مارکھم سے کونسلر منتخب ہوئے اور تاحال سٹی ہال میں موجود ہیں۔
شاد قادری کا شمار بھی کینیڈا آنے والے پاکستانی پانیئرز میں ہوتا ہے وہ 1963میں پاکستان سے ہجرت کرکے کینیڈا آئے اور یہاں پر دارالحکومت اوٹاوا کو اپنا مسکن بنایا۔اوٹاوا سے ہی1996 میں پہلی بار کونسلر کا الیکشن جیت کر پہلے پاکستانی کینیڈین کونسلر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ شاد قادری 2018تک ہر بار کونسلر کا الیکشن جیت کر کامیاب ہوتے رہے۔ ذیشان حمید کا نام بھی اونٹاریو کی سیاست میں کافی مقبول ہے۔وہ ٹاؤن آف ملٹن سے دو بار کونسلر منتخب ہوئے۔ تیسری بار انھوں نے ریجنل کونسلر کا انتخاب لڑا اور ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔
اْن کے کْل ووٹوں کی تعداد تمام مخالف اْمیدواران کی کْل مجموعی تعداد سے زیادہ رہی۔ ٹاؤن آف ملٹن کے وارڈ ۴ سے اس بار ایک پاکستانی کینیڈین خاتون سمیرا علی نے الیکشن جیت کر کامیابی حاصل کی۔ وارڈ ۴ کی یہ وہی نشست ہے جو ذیشان حمید کے ملٹن ریجن میں جانے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔اس حوالے سے ملٹن کونسل میں دو پاکستانی کینیڈین اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ملٹن شہر میں بڑھتی ہوئی پاکستانی آبادی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آیندہ برسوں میں ملٹن کی مزید نشستوں سے پاکستانی اْمیدواران کی کامیابی متوقع ہے۔
ملٹن کی آبادی گزشتہ دس سالوں میں جس تیزی سے بڑھی اْس کی مثال پورے کینیڈا میں نہیں ملتی ،پاکستانی اکثریتی علاقہ سمجھے جانے والے اس ٹاؤن آف ملٹن میں بڑی تعداد میں پاکستانی آباد ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہْنرمند ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف کاروبار سے بھی مْنسلک ہیں۔ملٹن کی جب بات کی جائے تو عظیم رضوی کا نام کسی تعارّف کا محتاج نہیں۔ماضی میں وہ ایک مضبوط اْمیدوار کے طور پر سامنے آئے لیکن کامیابی اْن کا مقدر نہ بن سکی۔گزشتہ دنوں پارٹی کی اعلٰی قیادت سے اْن کے اختلافات کی خبریں بھی گردش میں رہیں جس کا اثر ان کے سیاسی مستقبل پر پڑنے کا اندیشہ ہے۔
2010 میں سینیٹر سلمہ عطاء اﷲ جان بھی پاکستانی کمیونٹی کی ایک بہت بڑی پہچان بنیں جب اْس وقت کے کینیڈا کے وزیراعظم اسٹیفن ہار پر نے انھیں سینیٹر نامزد کیا۔محترمہ سلمہ عطاء اﷲ کا تعلق پاکستان کے صوبہ مردان سے ہے وہ 1980میں کینیڈا آئیں اور یہاں کی سیاسی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا۔سینیٹر بننے کے بعد انھوں نے پاکستان بالخصوص خیبر پختونخواہ میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے بے شمار پراجیکٹس پر کام کیا۔ اْن کے والد سرانجام خان بھی پاکستان میں سینیٹ کے رْکن تھے۔
موجودہ سیاسی اکھاڑے میں ارسلان بیگ ، عمران میاں ،شفقت علی ، محترمہ حفصہ، ندیم اکبر،ابراہیم دانیال ، طٰہ شیخ , مظہر شفیق ، باقر رضا، انجینئر رانا اسلم ،محمدلطیف اعوان، صفدر حسین اور فیصل جاوید سمیت دیگر کئی اور نمایاں نام ہیں جو مستقبل میں آنے والے کسی بھی الیکشن کے لیے اْمیدواروں کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں جب کہ ان میں سے کئی افراد پارٹی کی جانب سے نامی نیشن ٹکٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچْکے ہیں اور آیندہ انتخابات میں باقاعدہ طور پر حصہ لے رہے ہیں ان اْمیدواروں میں سے بیشتر ماضی میں بھی کمیونٹی کی خدمت سے سرشار ہوکر سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کرچْکے ہیں۔
پاکستانی کینیڈین سیاسی حلقوں میں یہاں محمد اسحاق کا نام بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ اب تک سیاسی میدان میں اْمیدوار کے طور پر تو سامنے نہیں آئے مگر وہ کینیڈاکی دوسری بڑی کنزرویٹو پارٹی میں بہت اچھا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنی ذاتی محنت سے پارٹی لیڈروں،اہم وزارتوں، پریمئیر اور پرائم منسٹر تک اپنی جگہ بنائی۔محمد اسحاق کی کنزرویٹو پارٹی سے وابستگی آنے والے وقتوں میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کینیڈا میں بسنے والا ہر وہ پاکستانی جو سیاسی سمجھ بوجھ رکھتا ہے اور اْسکا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو وہ محمد اسحاق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کئی افراد پاکستان واپس چلے جاتے جب کہ ایک بڑی تعدادنے مستقبل کی خاطر کینیڈا میں ہی قیام کو ترجیحی دی اور یہی کے ہوکر رہ گئے۔ گزشتہ پانچ چھ دہائیوں میں کینیڈا میں پاکستانیوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔
کینیڈا جو کہ ابتداء ہی سے ایک کثیر الثقافتی ملک تصّور کیا جاتا ہے اور دْنیا بھر سے مختلف قومیتیں یہاں آکر آباد ہوتی ہیں۔ یہی لوگ اور اِن کی اولادیں جہاں ایک طرف کینیڈا کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کر تے ہیں تو دوسری طرف کینیڈا کی سیاست میں بھی اپنا لوہا منواتے ہیں۔پاکستانیوں کا شمار چونکہ نئے آنے والے امیگرنٹس میں ہوتا ہے اسی لیے پاکستانی یہاں کی سیاست میں کچھ دیر سے شامل ہوئے۔
پاکستانیوں کے مقابلے میں دیگر ممالک سے آکر آباد ہونے والے افراد کی نمایندگی کینیڈین پارلیمنٹ میں کافی پہلے سے موجود ہے ،ہندوستانی کینیڈین کی نمایندگی بھی یہاں کی پارلیمنٹ میں گزشتہ دو دہائیوں سے نمایاں طور پر نظر آتی ہے جب کہ وہ چند ایک اہم وزارتوں میں بھی شامل ہیں۔ پاکستانیوں کو کینیڈین پارلیمنٹ میں نمایندگی کا موقع اس وقت ملا جب 2004 میں پاکستانی نژاد کینیڈین واجد خان مِسّی ساگا کی ایک رائیڈنگ اسٹریٹ ول کے علاقے سے لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر پہلی بار کینیڈین پارلیمنٹ کے رْکن بنے۔
اْس کے بعد 2015 کے الیکشن میں کینیڈا کی لبرل پارٹی کے پلیٹ فارم سے مِسّی ساگا کے ہی علاقے ایرن مل کی رائیڈنگ سے اقراء خالد نے پہلی خاتون ممبر آف پارلیمنٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ جب کہ اسی سال اسکاربورو کی رائیڈنگ سے ایک اور پاکستانی کینیڈین خاتون سلمہ زاہد نے بھی لبرل پارٹی کے ہی ٹکٹ پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور کینیڈین پارلیمنٹ کی رْکن بنیں۔ کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کی صوبائی اسمبلی میں بھی پاکستانی کینیڈین کی نمایندگی موجود ہے جس میں سب سے نمایاں نام ڈاکٹر شفیق قادری کا ہے جو کہ 2003 سے 2018 تک تقریباً پندرہ سال تک ٹورانٹو کی ایک رائیڈنگ سے اونٹاریو اسمبلی کے رْکن رہے لیکن 2018 کے عام انتخابات میں انھیں ڈگ فورڈ کی کنزرویٹیو پارٹی سے شکست سے دو چار ہونا پڑا۔
2007 کے انتخابات میں لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر اوٹاوا سینٹرل سے کامیاب ہوکر آنے والے یاسر عباس نقوی بھی پاکستانی کمیونٹی کی ایک بہت بڑی پہچان بن کر اْبھرے۔وہ پیشہ کے لحاظ سے ایک ایڈووکیٹ ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وہ مختلف وزارتوں کے قلمدان سنبھالنے کے علاوہ اٹارنی جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے جو کہ پاکستانی کینیڈینز کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ وہ 2007 سے 2018 تک صوبائی اسمبلی کا حصہ رہے۔
2018میں اونٹاریو میں ہونے والے انتخابات میں مِسّی ساگاکْکس ویل کی رائیڈنگ سے کنزرویٹیو پارٹی کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے والے کلید رشید بھی پہلے پاکستانی کینیڈین ہیں جنھوں نے اونٹاریو کنزرویٹیو پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ حال ہی میں انھوں نے فرنٹ لائن ورکرز کی پروٹیکشن کے لیے اسمبلی میں بل 230بھی پیش کیا۔
شیراز شفیع بھی ایک سیاسی طور پر متحرک پاکستانی کینیڈین ہیں جو کہ تنزانیہ میں پیدا ہوئے اور 1995 سے 2008 تک صوبہ البرٹا کے شہر کیلگری سے قانون ساز اسمبلی کے رْکن رہے۔لیکن 2008 کنزرویٹو کے اْمیدوار سے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔2016 میں صوبہ سسکاچیون کی قانون سازاسمبلی کے لیے الیکشن جیت کر اپنی جگہ بنانے والے محمد فیاض کا شمار بھی اْن پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو پاکستان سے ہجرت کرکے کینیڈا آئے ۔
وہ سسکاچیون کی قانون سازاسمبلی میں پہنچنے والے پہلے مسلمان ہیں۔محمد فیاض ایک کاروباری شخصیت ہیں انھوں نے 1995 میں پاکستان سے ہجرت کرکے ٹورانٹو میں سکونت اختیار کی اور بعد ازاں صوبہ سسکاچیون کے شہر ریجاینا منتقل ہوگئے۔ اس شہر میں مسلمانوں کی قلیل تعداد ہونے کے باوجود وہ قانون ساز اسمبلی کے رکن بننے میں کامیاب ہوگئے۔
بلدیاتی سطح پر شہری حکومتی اداروں میں نمایندگی کی اگر بات کی جائے تو ان میں بھی کئی پاکستانی کینیڈینز کے نام قابل ذکر ہیں جن میں سر فہرست خالد عثمان کا نام آتا ہے خالد عثمان ۷۰ کی دہائی میں ہجرت کرکے کینیڈا آئے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ وہ پہلی بار 1997 میں سٹی آف مارکھم کے کونسلر منتخب ہوئے اور مسلسل نوسال تک مارکھم سٹی ہال میں اپنی کمیونٹی کی نمایندگی کرتے رہے۔جس کے بعد وہ 2018 میں ایک بار پھر ٹورانٹو سے ملحقہ شہر مارکھم سے کونسلر منتخب ہوئے اور تاحال سٹی ہال میں موجود ہیں۔
شاد قادری کا شمار بھی کینیڈا آنے والے پاکستانی پانیئرز میں ہوتا ہے وہ 1963میں پاکستان سے ہجرت کرکے کینیڈا آئے اور یہاں پر دارالحکومت اوٹاوا کو اپنا مسکن بنایا۔اوٹاوا سے ہی1996 میں پہلی بار کونسلر کا الیکشن جیت کر پہلے پاکستانی کینیڈین کونسلر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ شاد قادری 2018تک ہر بار کونسلر کا الیکشن جیت کر کامیاب ہوتے رہے۔ ذیشان حمید کا نام بھی اونٹاریو کی سیاست میں کافی مقبول ہے۔وہ ٹاؤن آف ملٹن سے دو بار کونسلر منتخب ہوئے۔ تیسری بار انھوں نے ریجنل کونسلر کا انتخاب لڑا اور ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔
اْن کے کْل ووٹوں کی تعداد تمام مخالف اْمیدواران کی کْل مجموعی تعداد سے زیادہ رہی۔ ٹاؤن آف ملٹن کے وارڈ ۴ سے اس بار ایک پاکستانی کینیڈین خاتون سمیرا علی نے الیکشن جیت کر کامیابی حاصل کی۔ وارڈ ۴ کی یہ وہی نشست ہے جو ذیشان حمید کے ملٹن ریجن میں جانے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔اس حوالے سے ملٹن کونسل میں دو پاکستانی کینیڈین اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ملٹن شہر میں بڑھتی ہوئی پاکستانی آبادی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آیندہ برسوں میں ملٹن کی مزید نشستوں سے پاکستانی اْمیدواران کی کامیابی متوقع ہے۔
ملٹن کی آبادی گزشتہ دس سالوں میں جس تیزی سے بڑھی اْس کی مثال پورے کینیڈا میں نہیں ملتی ،پاکستانی اکثریتی علاقہ سمجھے جانے والے اس ٹاؤن آف ملٹن میں بڑی تعداد میں پاکستانی آباد ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہْنرمند ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف کاروبار سے بھی مْنسلک ہیں۔ملٹن کی جب بات کی جائے تو عظیم رضوی کا نام کسی تعارّف کا محتاج نہیں۔ماضی میں وہ ایک مضبوط اْمیدوار کے طور پر سامنے آئے لیکن کامیابی اْن کا مقدر نہ بن سکی۔گزشتہ دنوں پارٹی کی اعلٰی قیادت سے اْن کے اختلافات کی خبریں بھی گردش میں رہیں جس کا اثر ان کے سیاسی مستقبل پر پڑنے کا اندیشہ ہے۔
2010 میں سینیٹر سلمہ عطاء اﷲ جان بھی پاکستانی کمیونٹی کی ایک بہت بڑی پہچان بنیں جب اْس وقت کے کینیڈا کے وزیراعظم اسٹیفن ہار پر نے انھیں سینیٹر نامزد کیا۔محترمہ سلمہ عطاء اﷲ کا تعلق پاکستان کے صوبہ مردان سے ہے وہ 1980میں کینیڈا آئیں اور یہاں کی سیاسی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا۔سینیٹر بننے کے بعد انھوں نے پاکستان بالخصوص خیبر پختونخواہ میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے بے شمار پراجیکٹس پر کام کیا۔ اْن کے والد سرانجام خان بھی پاکستان میں سینیٹ کے رْکن تھے۔
موجودہ سیاسی اکھاڑے میں ارسلان بیگ ، عمران میاں ،شفقت علی ، محترمہ حفصہ، ندیم اکبر،ابراہیم دانیال ، طٰہ شیخ , مظہر شفیق ، باقر رضا، انجینئر رانا اسلم ،محمدلطیف اعوان، صفدر حسین اور فیصل جاوید سمیت دیگر کئی اور نمایاں نام ہیں جو مستقبل میں آنے والے کسی بھی الیکشن کے لیے اْمیدواروں کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں جب کہ ان میں سے کئی افراد پارٹی کی جانب سے نامی نیشن ٹکٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچْکے ہیں اور آیندہ انتخابات میں باقاعدہ طور پر حصہ لے رہے ہیں ان اْمیدواروں میں سے بیشتر ماضی میں بھی کمیونٹی کی خدمت سے سرشار ہوکر سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کرچْکے ہیں۔
پاکستانی کینیڈین سیاسی حلقوں میں یہاں محمد اسحاق کا نام بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ اب تک سیاسی میدان میں اْمیدوار کے طور پر تو سامنے نہیں آئے مگر وہ کینیڈاکی دوسری بڑی کنزرویٹو پارٹی میں بہت اچھا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنی ذاتی محنت سے پارٹی لیڈروں،اہم وزارتوں، پریمئیر اور پرائم منسٹر تک اپنی جگہ بنائی۔محمد اسحاق کی کنزرویٹو پارٹی سے وابستگی آنے والے وقتوں میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کینیڈا میں بسنے والا ہر وہ پاکستانی جو سیاسی سمجھ بوجھ رکھتا ہے اور اْسکا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو وہ محمد اسحاق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔