ذکر کچھ ادبِ اطفال کا
انھوں نے کونسی خدمت کی ہے جو اس باب میں کچھ خامہ فرسائی کرنے چلے۔
زباں فہمی نمبر 84
جب ادبِ اطفال کی بات کروں گا تو قدرتی طور پر یہ سوال ناواقفین کے اذہان میں ابھرے گا کہ انھیں کیا پتا اور انھوں نے کونسی خدمت کی ہے جو اس باب میں کچھ خامہ فرسائی کرنے چلے۔
عرض کرتا ہوںکہ خاکسار نے ایک کتاب 'سارک کہانی'، (سارک کے رکن ممالک کے چھوٹے اور بڑے بچوں کی کہانیاں: تحریر، ترجمہ، ترتیب ازخاکسار)، ٹیلی وژن کے لیے کچھ پروگراموں (ٹی وی کے لیے 'بوجھیے'، ہمارا شو، ہم سورج چاند ستارے، سارک کوئز [SAARC Quiz] بزبان انگریزی کی تحقیق وتحریر، نیز بصری تحقیق [Visual research]، ریڈیو کے لیے بچوں کے پروگرام میں معلوماتی مقابلے کی تحقیق وتحریر اور ریڈیو پر سنائی جانے والی کہانی کی تحریر) اور بچوں کے رسائل (''آنکھ مچولی''، 'پھول') کے لیے کچھ تحریروں کی حد تک ادب ِ اطفال کی حتی المقدور خدمت کی ہے، مزید کا ارادہ ہے۔
{ٹی وی کے اول الذکر تینوں پروگرامز کی میزبان مایا خان تھی، (اسے ٹی وی اسکرین پر پروڈیوسر شاہین انصاری صاحبہ نے متعارف کرایا تھا)، شریک میزبان احمر شیرازی اور مہ وَش اعجاز قاضی (مہ وش حیات)۔ مایا کی بطور میزبان تربیت ورہنمائی کے ساتھ ساتھ اِن دونوں کی بھی حتیٰ الامکان رہنمائی کی کوشش کی، جبکہ نہایت خاموش طبع ، احمر شیرازی سے ایک مرتبہ پروگرام ناظرین پر یہ ظاہر کرکے (پروڈیوسر شاہین انصاری صاحبہ کی منظوری سے) شروع کرایا کہ مایا خان ابھی تک اسٹوڈیو نہیں پہنچیں تو دوسری یا تیسری مرتبہ، واقعتاً ایسا ہی ہوگیا۔ مہ وش تقریباً خاموش ہی رہا کرتی تھی، مگر جب مہ وش حیات بنی تو ایک دنیا نے اسے بولتے ہوئے سنا اور دیکھا۔ ویسے بھی وہ ماضی کی ایک اداکارہ رُخسار اور ٹی وی کے تکنیکی عملے کے اہم رکن اعجاز قاضی کی بیٹی ہے۔ 'ہماراشو' درحقیقت دوسہ ماہی کامیابی سے مکمل کرنے والے 'بوجھیے' ہی کا دوسرا روپ تھا، البتہ ''ہم سورج، چاند، ستارے'' میں ادب ِ اطفال کا جائزہ بالتحقیق لیا گیا تھا۔
اسی پروگرام میں خاکسار کے ہمراہ بچو ں کے ادیب، سلیم الدین احمدفاروقی مرحوم تھے جن کے لفظ محبت کو ''مَحَبت کہیے'' والا معاملہ ایک پرانے کالم میں ذکر کرچکا ہوں۔ مرحوم بہت دل چسپ اور منفرد آدمی تھے۔ اس پروگرام میں مایا کے ساتھ IBA کے ایک طالب علم کو بطور میزبان متعارف کرایا گیا تھا}۔ یہاں یہ بات بھی قارئین کرام کے علم میں خوش گوار اضافہ ثابت ہوگی کہ اصلاح ِ زبان کی اس تحریک (زباں فہمی) کا آغاز، اس راقم نے بچوں کے رسالے ''پھول'' سے کیا تھا، پھر یہ سلسلہ ایک اور مشہور رسالے ''آنکھ مچولی'' میں بھی جاری رکھنے کی کوشش کی۔ آزادہ رَو صحافت [Freelance journalism] میں میرا داخلہ تو (تاریخ کے مختلف موضوعات پر) تحقیقی مضامین سے ہوا تھا جو درحقیقت رَدّتحقیق [Counter research] کے زمرے میں آتے ہیں، مگر یہ ثقیل مواد، وہ بھی ایک گم نام قلم کار کے قلم سے، بہت سے اذہان پر گراں گزرا ہوگا۔
بہرحال موضوعات کے تنوع سے سلسلہ جاری رہا اور اصلاح زبان کی وہ تحریک کہیں پیچھے رہ گئی۔ آج یہ باتیں اس لیے یاد آرہی ہیں کہ میں نے گزشتہ کچھ عرصے سے (پاکستان قومی زبان تحریک کے ہمراہ)، اردو کے نفاذ کی تحریک میں اپنے تئیں کچھ کردار ادا کرنے کی سعی کی ہے۔ اس ضمن میں خاکسار کی رائے ہے کہ اردو کے ہمہ جہتی نفاذ کے لیے، دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ، ادب ِاطفال کا احیاء اور فروغ بہت ضروری ہے۔ چنانچہ راقم نے اپنی سی کوشش شروع کردی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود، بچوں کے رسائل نکل رہے ہیں اور ادب ِاطفال کی کتب بھی شایع ہورہی ہیں، مگر انھیں نصاب میں شامل کیے بغیر اصلاحی مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ ہرچند کہ ادب میں نثر کی اپنی اہمیت ہے، مگر خاکسار کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید بچوں، خصوصاً چھوٹے بچوں کو نظم زیادہ متأثر کرتی ہے۔ ہرچند کہ میرؔ، غالبؔ، حالیؔ واقبال ؔ سمیت متعدد نامور شعراء نے گاہے گاہے بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھیں، مگر یہ اُن کا اختصاص نہ تھا۔
بچوں کے شعراء میں افسرؔ میرٹھی، مولوی شفیع الدین نیّرؔ، فیضؔ لدھیانوی اور خالدبزمی سمیت بہت سے نام ایسے ہیں جنھیں ہم اپنے بچپن سے جوانی تک پڑھتے رہے، مگر افسوس! گزشتہ چند عشروں سے جہاں دیگر دینی، علمی وادبی مسائل نے جنم لیا ، وہیں نصاب تعلیم ، خصوصاً اسکول کی سطح کے نصاب کا ستیاناس بھی بڑے اہتمام سے کیا گیا۔ کم وبیش چالیس سال پہلے، خالد بزمی صاحب نے بچوں کے رسالے ''تعلیم وتربیت'' کے لیے ایسے شعراء کا تذکرہ مرتب کیا تھا جنھیں ادب ِاطفال میں شہرت ملی، اس فہرست میں اُن کے صاحبزادے احمد خلدون بھی شامل تھے۔ میری بڑی خواہش ہے کہ اگر کسی قاری کے پاس یہ خزینہ محفوظ ہو تو براہ کرم اس کی PDF فائل میرے ای میل پتے پر ارسال کرکے ممنون فرمائیں۔
{افسرؔ میرٹھی اپنے زمانے کے غزل گو شعراء میں بھی ممتاز تھے۔ اُن کا یہ شعر میٹرک کے زمانے سے ذہن کے پردے پر نقش ہے: صدائیں آئی ہیں میٹھے سُروں میں گانے کی/اب آج پھر نہیں امید نیند آنے کی۔ فیض لدھیانوی کے متعلق ایک بار پھر عرض کرتا چلوں کہ ان کی مشہور نظم ''اے نئے سال بتا! تجھ میں نیاپن کیا ہے'' گزشتہ کئی سالوں سے زبردستی فیض احمدفیضؔ سے منسوب کرکے فیس بک اور واٹس ایپ پر پھیلائی جارہی ہے}۔''بچوں کا شاعر'' یہ خطاب اردو ادب میں بہ یک وقت دو نامور شعرائے کرام مولوی اسمٰعیل میرٹھی اور صوفی تبسم کو حاصل ہے۔ مولوی اسمٰعیل میرٹھی اور صوفی تبسم سمیت تمام قدیم وجدید، متوفی و زندہ، بڑے، نامور اور کم معروف یا گم نام شعراء اور اُدباء کے عمدہ کام کا نصاب ِتعلیم میں دوبارہ شامل ہونا، نیز اسی جہت میں نئے اہل قلم سے تعاون حاصل کرنا ازبس ضروری ہے۔
ماضی قریب میں خاکسار نے اپنے اسکول کے دور کے دوست اور ممتاز سماجی وسیاسی کارکن ڈاکٹر فیاض عالم صدیقی کے استفسار پر مختصر خاکہ زبانی پیش کیا تھا، مگر فیاض کی مسلسل مصروفیات کے سبب، دیگر کئی منصوبوں کی طرح، یہ بھی طاقِ نسیاں ہوکر رہ گیا۔ کچھ دن پہلے اسی سلسلے میں خاکسار نے اپنی فیس بک دوست ڈاکٹر فوزیہ تبسم صاحبہ سے گفتگو کرتے ہوئے چند تجاویز پیش کی ہیں۔ آپ اُن کا نام سن کر چونکے تو ہوں گے۔ یہ صوفی تبسم (4اگست 1899ء تا 7فروری 1978ء) کی پوتی اور اُن کے ادبی ورثے کو اُجاگر کرنے کی تحریک بعنوان ''صوفی تبسم آرٹ اکیڈمی'' (لاہور) کی روح رواں ہیں۔ فوزیہ تبسم نے کسی ادبی موضوع پر نہیں، بلکہ حیاتیاتی کیمیا[Biochemistry] میں PhDکیا ہے۔ اب ایسی سائنس داں اگر ادب میں، وہ بھی بچوں کے ادب میں دل چسپی لیتی ہے تو کیا اہل ِ ادب کو نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم کب اس شعبے کی بحالی اور بہتری و ترقی کے لیے آگے بڑھیں۔
صوفی تبسم کا یادگار کردار ٹوٹ بٹوٹ، اردو کے ادب اطفال میں لافانی دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹرفوزیہ تبسم نے انکشاف کیا کہ یہ کردارصوفی صاحب نے اپنے ایک دوست جناب عبدالخالق کے بیٹے کی اوٹ پٹانگ حرکتیں دیکھ کر تخلیق کیا تھا۔ (نام وہ بھول گئیں)۔ آئیے ذرا اپنا بچپن دُہرائیں اور ٹوٹ بٹوٹ کو یاد کریں:
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
خالہ اُس کی لکڑی لائی
پھوپھی لائی دیا سلائی
امی جان نے آگ جلائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
دیگچی، چمچہ، نوکر لائے
بھائی چاول شکّر لائے
بہنیں لائیں دودھ ملائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
ابا نے دی ایک اِکنّی
خالو نے دی ڈیڑھ دوئنی
ٹوٹ بٹوٹ نے آدھی پائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
جوں ہی دسترخوان لگایا
گاؤں کا گاؤں دوڑا آیا
ساری خلقت دوڑی آئی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
مینڈک بھی ٹرّاتے آئے
چوہے شور مچاتے آئے
بلّی گانا گاتی آئی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
کوّے آئے کیں کیں کرتے
توتے آئے ٹیں ٹیں کرتے
بُلبل چونچ ہلاتی آئی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
دھوبی، کنجڑا، نائی آیا
پنساری، حلوائی آیا
سب نے آکر دھوم مچائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
گاؤں بھر میں ہوئی لڑائی
کھیر کسی کے ہاتھ نہ آئی
میرے اللہ! تِری دُہائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
صوفی تبسم کی نظموں کی ایک کتاب اسی عنوان کے تحت شایع ہوئی، جبکہ اُن کی نظموں کی دوسری کتاب ''جھوُلنے'' میں بھی ایک نظم اسی کردار ٹوٹ بٹوٹ کی ہے۔ اسی نام سے ایک رسالہ بھی جاری ہوا جو مدتوں جاری رہا اور ہمارے بزرگ معاصر محترم محمودشام صاحب بھی اس کے مدیر کے عہدے پر فائز رہے۔ {یہ کالم زیرِتحریر تھا کہ انٹرنیٹ پر مواد تلاش کرتے ہوئے یہ انکشاف ہوا کہ کسی سیاسی مبصر نے اپنے تنقیدی نکات فرضی نام سے فیس بک پر پیش کرنے کے لیے یہی نام اپنایا ہے۔ یہ میرے خیال میں درست نہیں۔ اگر ٹوٹ بٹوٹ کا کردار صوفی تبسم کے نام سے باقاعدہ Patent ہوا تھا تو اس ضمن میں قانونی چارہ جوئی بھی کی جاسکتی ہے۔ اس سے قطع نظر، بہرحال یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ بچوں کے کسی مشہور کردار کو اس طرح کچھ اور معانی کا جامہ پہنا دیا جائے}۔ صوفی تبسم کی ایک اور مشہور نظم ہے: آئو بچو! سنو کہانی!
آئو بچو! سنو کہانی
ایک تھا راجا، ایک تھی رانی
راجا بیٹھا بِین بجائے
رانی بیٹھی گانا گائے
توتا بیٹھا چونچ ہِلائے
نوکر لے کر حلوہ آیا
توتے کا بھی جی للچایا
راجا بِین بجاتا جائے
نوکر شور مچاتا جائے
توتا حلوہ کھاتا جائے
ایک خوش کُن خبر یہ موصول ہوئی ہے کہ سید بابر علی فائونڈیشن نے گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی ، لاہور کے GCU Endowment Fund Trustکے لیے بیس لاکھ روپے کی خطیر رقم مَختص کی ہے جس سے صوفی تبسم اور کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد کے نام سے دو وظائف جاری کیے جائیں گے۔ ان دو عظیم اساتذہ کو اس طرح خراج تحسین پیش کرنا یقیناً لائق صد ستائش و تقلید ہے۔ ''بچوں کا شاعر'' کا خطاب پانے والے پہلے نامور سخنور مولوی اسمٰعیل میرٹھی (12نومبر 1844ء تا یکم نومبر 1917ء) کی لکھی ہوئی درسی کتب اور اُن کا مقبول عام کلام ناصرف بچوں، بلکہ بڑوں کو بھی اَزبر ہوا کرتا تھا۔ اب معلوم نہیں، اُن کی کتنی منظومات، شامل ِنصاب ہیں۔ خاکسار اُن کے ادبِ اطفال کے چند شہ پارے یہاں نقل کررہا ہے، روانی، سلاست اور (بچوں کی ذہنی استعداد اور نفسیات کے پیش نظر) آسان زبان جیسے عناصر سے مزین یہ کلام ہر لحاظ سے لائق تحسین وتقلید ہے:
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔۔۔ کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا/نہر پر چل رہی ہے پن چکی ...دھن کی پوری ہے کام کی پکی/رب کا شکر ادا کر بھائی ...جس نے ہماری گائے بنائی/ادب سے ہی انسان انسان ہے۔۔۔ ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے/بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت۔۔۔ نہیں کام آتی دلیل اور حجت/ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔۔۔ ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں/ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر۔۔۔ تو ہے خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر/جو بات کہو صاف ہو ستھری ہو بھلی ہو۔۔۔کڑوی نہ ہو کھٹی نہ ہو مصری کی ڈلی ہو۔
مولوی صاحب کی خدمات محض نصابی کتب (جماعت یکم تا پنجم، نیز ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو قاعدہ، جغرافیہ کی کتاب) کی تحریروترتیب اور بچوں کے لیے شاعری تک ہی محدود نہ رہیں۔ انھوں نے اردو کی ایک لغت مرتب کی، صَرف ونَحو[Grammar & composition]کی کتاب اور اپنے پیرومرشد کا تذکرہ بعنوان 'تذکرہ غوثیہ' لکھا۔ انھوں نے الطاف حسین حالیؔ اور محمد حسین آزادؔ کے ہمراہ، فارسی کی جگہ اردو کے مدارس/اسکولز میں رواج کے لیے کام کیا اور جدید نظم کے بھی بانیوں میں شامل ہوئے۔ اگر کبھی ادبِ اطفال کا کوئی ایسا جائزہ مرتب ہو جس میں فلمی دنیا کا حصہ بھی شامل کیا جائے تو بعض عمدہ شعری نمونے بھی اُن لوگو ں تک پہنچیں گے جنھوں نے ایسا کلام کبھی سنا نہ دیکھا۔ پرانے زمانے کی ہندوستانی اور پاکستانی فلموں میں خاص طور پر بچوں کے مطلب کے گانے لکھواکر شامل کیے جاتے تھے۔ ایک باقاعدہ کیفیت Situation/ کے تحت شاعر کوئی ایسا نغمہ تیار کرتا تھا جسے سن کر سبھی جھوم اٹھیں۔ ہم میں کتنے ایسے ہوں گے جنھوں نے ایسے گانے سنے اور دیکھے ہوں گے:
؎ ہم بھی اگر بچے ہوتے، نام ہمارا ہوتا، ببلوڈبلو، کھانے کو ملتے لڈّو/اور دنیا کہتی Happy birthday to you
؎ اونٹ پہ بیٹھا میرا مُنّا ،اونٹ کے پیچھے بچّے
؎ میری سال گرہ ہے ، بولو، بولو نا/ Happy birthday to you,baby
قارئین کرام ! اگر یہ بے مایہ شاعر، ادیب وصحافی اپنی سی کوشش کرسکتا ہے تو صاحب ِحیثیت لوگ جو اپنی شہرت وثروت میں اضافے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں ، اپنی شان میں قصائد لکھواتے ہیں، اپنے ہی پیسوں سے اپنا جشن منواتے ہیں یا کوئی ''مرغا'' پکڑکر اُس سے یہ کام لیتے ہیں، کیا انھیں نہیں چاہیے کہ چند لاکھ روپے فی کس نکال کر ایک باقاعدہ ادارہ قایم کریں، فعال اور باصلاحیت اہل قلم کویکجا کریں اور اس تحریک کا بھرپور آغاز کریں۔ {اخباری اطلاعات کے مطابق، محض صوبہ سندھ میں نام نہاد فلاحی (غیرسرکاری) تنظیموں [NGOs]کی تعداد چھتیس ہزار[36,000] سے زائد ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ صوبہ کسی بھی شعبے میں ترقی کے لحاظ سے نہایت پس ماندہ ہے۔ اربابِ اقتدار اور دیگر اہلِ سیاست کو سوچنا چاہیے کہ انھوں نے اس شہر، صوبے اور ملک سے کس قدر کمایا یا کھُلے لفظوں میں لُوٹا ہے، اب مرنے سے پہلے کوئی نیکی بھی کرجائیں۔ اپنی بے حساب دولت سے کچھ حصہ ہر شعبہ زندگی کے، محروم و پس ماندہ لوگوں کی فلاح کے لیے وقف کردیں۔ اس وطن کے ہر شعبے میں اصلاح وترقی کے لیے سرمایہ کہیں باہر سے مانگنے، کسی عالمی ادارے کے آگے ہاتھ پھیلانے اور اُن کی شرائط پوری کرنے کے لیے ایسے بجائے خود غلط اقدامات کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں جن سے معاشی و معاشرتی انحطاط مزید بڑھے۔ مسائل کا ادراک ہو، لوگوں کو پرکھنے کا شعور ہو اور عمل کرنے والا ذہن ہو تو ہر مسئلے کا حل یہیں موجود ہے۔ اس کے لیے کروڑوں روپے فی کس معاوضے پر، غیرملکی آقائوں کے نامزد کردہ اشخاص کو قوم کے سروں پر مسلط کرنے کی ضرورت نہیں}۔ براہ راست موضوع پر بات کریں تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ بچوں کے ادب اور تعلیمی نصاب سازی کے لیے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے مابین کسی قسم کے ربط وضبط کا فقدان ہی وہ بنیادی سبب ہے جس نے مسائل بڑھادیے ہیں۔ آج کل نصاب سازی کے موضوع پر سرکاری ونجی سطح پر کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں۔ چونکہ ہم ایسے لوگ ان کا بوجوہ حصہ نہیں، اس لیے ان کی تفصیلات بھی ٹھیک سے معلوم نہیں، بہرحال یہ طے ہے کہ تبدیلی کے نام پر ایسی گڑبڑ۔یا۔بگاڑ لانا کہ یہ قوم مزید تباہ حالی کا شکار ہو، ہرگز مفید نہیں۔ ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ سامراج کی فرمائش پر سب کچھ تلپٹ کردیا گیا، یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں، بلکہ اس کے کچھ اور حامی پیدا ہوچکے ہیں۔ ان سطور کا راقم اپنے قارئین کرام کو دعوت دیتا ہے کہ اگر اس تحریر کو دل گداز سمجھتے ہوئے واقعتاً کچھ کرنا چاہتے ہیں تو مجھے ای میل کریں۔ ہم اہل قلم، ادبی قارئین، اساتذہ کرام اور عزیز طلبہ وطالبات کی مدد سے وہ کام کرسکتے ہیں جس کے لیے عموماً بڑے اداروں کے قیام کی باتیں کی جاتی ہیں اور قیام کے بعد، مدتوں کوئی منصوبہ بوجوہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ آئیے ادب ِاطفال کی بہتری وترقی کے ذریعے قومی زبان کے ہمہ جہتی نفاذ کی راہ میں حائل، ایک رکاوٹ دور کرنے کے لیے سرمایہ ، مواد اور کارکن جمع کریں۔
جب ادبِ اطفال کی بات کروں گا تو قدرتی طور پر یہ سوال ناواقفین کے اذہان میں ابھرے گا کہ انھیں کیا پتا اور انھوں نے کونسی خدمت کی ہے جو اس باب میں کچھ خامہ فرسائی کرنے چلے۔
عرض کرتا ہوںکہ خاکسار نے ایک کتاب 'سارک کہانی'، (سارک کے رکن ممالک کے چھوٹے اور بڑے بچوں کی کہانیاں: تحریر، ترجمہ، ترتیب ازخاکسار)، ٹیلی وژن کے لیے کچھ پروگراموں (ٹی وی کے لیے 'بوجھیے'، ہمارا شو، ہم سورج چاند ستارے، سارک کوئز [SAARC Quiz] بزبان انگریزی کی تحقیق وتحریر، نیز بصری تحقیق [Visual research]، ریڈیو کے لیے بچوں کے پروگرام میں معلوماتی مقابلے کی تحقیق وتحریر اور ریڈیو پر سنائی جانے والی کہانی کی تحریر) اور بچوں کے رسائل (''آنکھ مچولی''، 'پھول') کے لیے کچھ تحریروں کی حد تک ادب ِ اطفال کی حتی المقدور خدمت کی ہے، مزید کا ارادہ ہے۔
{ٹی وی کے اول الذکر تینوں پروگرامز کی میزبان مایا خان تھی، (اسے ٹی وی اسکرین پر پروڈیوسر شاہین انصاری صاحبہ نے متعارف کرایا تھا)، شریک میزبان احمر شیرازی اور مہ وَش اعجاز قاضی (مہ وش حیات)۔ مایا کی بطور میزبان تربیت ورہنمائی کے ساتھ ساتھ اِن دونوں کی بھی حتیٰ الامکان رہنمائی کی کوشش کی، جبکہ نہایت خاموش طبع ، احمر شیرازی سے ایک مرتبہ پروگرام ناظرین پر یہ ظاہر کرکے (پروڈیوسر شاہین انصاری صاحبہ کی منظوری سے) شروع کرایا کہ مایا خان ابھی تک اسٹوڈیو نہیں پہنچیں تو دوسری یا تیسری مرتبہ، واقعتاً ایسا ہی ہوگیا۔ مہ وش تقریباً خاموش ہی رہا کرتی تھی، مگر جب مہ وش حیات بنی تو ایک دنیا نے اسے بولتے ہوئے سنا اور دیکھا۔ ویسے بھی وہ ماضی کی ایک اداکارہ رُخسار اور ٹی وی کے تکنیکی عملے کے اہم رکن اعجاز قاضی کی بیٹی ہے۔ 'ہماراشو' درحقیقت دوسہ ماہی کامیابی سے مکمل کرنے والے 'بوجھیے' ہی کا دوسرا روپ تھا، البتہ ''ہم سورج، چاند، ستارے'' میں ادب ِ اطفال کا جائزہ بالتحقیق لیا گیا تھا۔
اسی پروگرام میں خاکسار کے ہمراہ بچو ں کے ادیب، سلیم الدین احمدفاروقی مرحوم تھے جن کے لفظ محبت کو ''مَحَبت کہیے'' والا معاملہ ایک پرانے کالم میں ذکر کرچکا ہوں۔ مرحوم بہت دل چسپ اور منفرد آدمی تھے۔ اس پروگرام میں مایا کے ساتھ IBA کے ایک طالب علم کو بطور میزبان متعارف کرایا گیا تھا}۔ یہاں یہ بات بھی قارئین کرام کے علم میں خوش گوار اضافہ ثابت ہوگی کہ اصلاح ِ زبان کی اس تحریک (زباں فہمی) کا آغاز، اس راقم نے بچوں کے رسالے ''پھول'' سے کیا تھا، پھر یہ سلسلہ ایک اور مشہور رسالے ''آنکھ مچولی'' میں بھی جاری رکھنے کی کوشش کی۔ آزادہ رَو صحافت [Freelance journalism] میں میرا داخلہ تو (تاریخ کے مختلف موضوعات پر) تحقیقی مضامین سے ہوا تھا جو درحقیقت رَدّتحقیق [Counter research] کے زمرے میں آتے ہیں، مگر یہ ثقیل مواد، وہ بھی ایک گم نام قلم کار کے قلم سے، بہت سے اذہان پر گراں گزرا ہوگا۔
بہرحال موضوعات کے تنوع سے سلسلہ جاری رہا اور اصلاح زبان کی وہ تحریک کہیں پیچھے رہ گئی۔ آج یہ باتیں اس لیے یاد آرہی ہیں کہ میں نے گزشتہ کچھ عرصے سے (پاکستان قومی زبان تحریک کے ہمراہ)، اردو کے نفاذ کی تحریک میں اپنے تئیں کچھ کردار ادا کرنے کی سعی کی ہے۔ اس ضمن میں خاکسار کی رائے ہے کہ اردو کے ہمہ جہتی نفاذ کے لیے، دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ، ادب ِاطفال کا احیاء اور فروغ بہت ضروری ہے۔ چنانچہ راقم نے اپنی سی کوشش شروع کردی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود، بچوں کے رسائل نکل رہے ہیں اور ادب ِاطفال کی کتب بھی شایع ہورہی ہیں، مگر انھیں نصاب میں شامل کیے بغیر اصلاحی مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ ہرچند کہ ادب میں نثر کی اپنی اہمیت ہے، مگر خاکسار کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید بچوں، خصوصاً چھوٹے بچوں کو نظم زیادہ متأثر کرتی ہے۔ ہرچند کہ میرؔ، غالبؔ، حالیؔ واقبال ؔ سمیت متعدد نامور شعراء نے گاہے گاہے بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھیں، مگر یہ اُن کا اختصاص نہ تھا۔
بچوں کے شعراء میں افسرؔ میرٹھی، مولوی شفیع الدین نیّرؔ، فیضؔ لدھیانوی اور خالدبزمی سمیت بہت سے نام ایسے ہیں جنھیں ہم اپنے بچپن سے جوانی تک پڑھتے رہے، مگر افسوس! گزشتہ چند عشروں سے جہاں دیگر دینی، علمی وادبی مسائل نے جنم لیا ، وہیں نصاب تعلیم ، خصوصاً اسکول کی سطح کے نصاب کا ستیاناس بھی بڑے اہتمام سے کیا گیا۔ کم وبیش چالیس سال پہلے، خالد بزمی صاحب نے بچوں کے رسالے ''تعلیم وتربیت'' کے لیے ایسے شعراء کا تذکرہ مرتب کیا تھا جنھیں ادب ِاطفال میں شہرت ملی، اس فہرست میں اُن کے صاحبزادے احمد خلدون بھی شامل تھے۔ میری بڑی خواہش ہے کہ اگر کسی قاری کے پاس یہ خزینہ محفوظ ہو تو براہ کرم اس کی PDF فائل میرے ای میل پتے پر ارسال کرکے ممنون فرمائیں۔
{افسرؔ میرٹھی اپنے زمانے کے غزل گو شعراء میں بھی ممتاز تھے۔ اُن کا یہ شعر میٹرک کے زمانے سے ذہن کے پردے پر نقش ہے: صدائیں آئی ہیں میٹھے سُروں میں گانے کی/اب آج پھر نہیں امید نیند آنے کی۔ فیض لدھیانوی کے متعلق ایک بار پھر عرض کرتا چلوں کہ ان کی مشہور نظم ''اے نئے سال بتا! تجھ میں نیاپن کیا ہے'' گزشتہ کئی سالوں سے زبردستی فیض احمدفیضؔ سے منسوب کرکے فیس بک اور واٹس ایپ پر پھیلائی جارہی ہے}۔''بچوں کا شاعر'' یہ خطاب اردو ادب میں بہ یک وقت دو نامور شعرائے کرام مولوی اسمٰعیل میرٹھی اور صوفی تبسم کو حاصل ہے۔ مولوی اسمٰعیل میرٹھی اور صوفی تبسم سمیت تمام قدیم وجدید، متوفی و زندہ، بڑے، نامور اور کم معروف یا گم نام شعراء اور اُدباء کے عمدہ کام کا نصاب ِتعلیم میں دوبارہ شامل ہونا، نیز اسی جہت میں نئے اہل قلم سے تعاون حاصل کرنا ازبس ضروری ہے۔
ماضی قریب میں خاکسار نے اپنے اسکول کے دور کے دوست اور ممتاز سماجی وسیاسی کارکن ڈاکٹر فیاض عالم صدیقی کے استفسار پر مختصر خاکہ زبانی پیش کیا تھا، مگر فیاض کی مسلسل مصروفیات کے سبب، دیگر کئی منصوبوں کی طرح، یہ بھی طاقِ نسیاں ہوکر رہ گیا۔ کچھ دن پہلے اسی سلسلے میں خاکسار نے اپنی فیس بک دوست ڈاکٹر فوزیہ تبسم صاحبہ سے گفتگو کرتے ہوئے چند تجاویز پیش کی ہیں۔ آپ اُن کا نام سن کر چونکے تو ہوں گے۔ یہ صوفی تبسم (4اگست 1899ء تا 7فروری 1978ء) کی پوتی اور اُن کے ادبی ورثے کو اُجاگر کرنے کی تحریک بعنوان ''صوفی تبسم آرٹ اکیڈمی'' (لاہور) کی روح رواں ہیں۔ فوزیہ تبسم نے کسی ادبی موضوع پر نہیں، بلکہ حیاتیاتی کیمیا[Biochemistry] میں PhDکیا ہے۔ اب ایسی سائنس داں اگر ادب میں، وہ بھی بچوں کے ادب میں دل چسپی لیتی ہے تو کیا اہل ِ ادب کو نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم کب اس شعبے کی بحالی اور بہتری و ترقی کے لیے آگے بڑھیں۔
صوفی تبسم کا یادگار کردار ٹوٹ بٹوٹ، اردو کے ادب اطفال میں لافانی دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹرفوزیہ تبسم نے انکشاف کیا کہ یہ کردارصوفی صاحب نے اپنے ایک دوست جناب عبدالخالق کے بیٹے کی اوٹ پٹانگ حرکتیں دیکھ کر تخلیق کیا تھا۔ (نام وہ بھول گئیں)۔ آئیے ذرا اپنا بچپن دُہرائیں اور ٹوٹ بٹوٹ کو یاد کریں:
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
خالہ اُس کی لکڑی لائی
پھوپھی لائی دیا سلائی
امی جان نے آگ جلائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
دیگچی، چمچہ، نوکر لائے
بھائی چاول شکّر لائے
بہنیں لائیں دودھ ملائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
ابا نے دی ایک اِکنّی
خالو نے دی ڈیڑھ دوئنی
ٹوٹ بٹوٹ نے آدھی پائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
جوں ہی دسترخوان لگایا
گاؤں کا گاؤں دوڑا آیا
ساری خلقت دوڑی آئی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
مینڈک بھی ٹرّاتے آئے
چوہے شور مچاتے آئے
بلّی گانا گاتی آئی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
کوّے آئے کیں کیں کرتے
توتے آئے ٹیں ٹیں کرتے
بُلبل چونچ ہلاتی آئی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
دھوبی، کنجڑا، نائی آیا
پنساری، حلوائی آیا
سب نے آکر دھوم مچائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
گاؤں بھر میں ہوئی لڑائی
کھیر کسی کے ہاتھ نہ آئی
میرے اللہ! تِری دُہائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
صوفی تبسم کی نظموں کی ایک کتاب اسی عنوان کے تحت شایع ہوئی، جبکہ اُن کی نظموں کی دوسری کتاب ''جھوُلنے'' میں بھی ایک نظم اسی کردار ٹوٹ بٹوٹ کی ہے۔ اسی نام سے ایک رسالہ بھی جاری ہوا جو مدتوں جاری رہا اور ہمارے بزرگ معاصر محترم محمودشام صاحب بھی اس کے مدیر کے عہدے پر فائز رہے۔ {یہ کالم زیرِتحریر تھا کہ انٹرنیٹ پر مواد تلاش کرتے ہوئے یہ انکشاف ہوا کہ کسی سیاسی مبصر نے اپنے تنقیدی نکات فرضی نام سے فیس بک پر پیش کرنے کے لیے یہی نام اپنایا ہے۔ یہ میرے خیال میں درست نہیں۔ اگر ٹوٹ بٹوٹ کا کردار صوفی تبسم کے نام سے باقاعدہ Patent ہوا تھا تو اس ضمن میں قانونی چارہ جوئی بھی کی جاسکتی ہے۔ اس سے قطع نظر، بہرحال یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ بچوں کے کسی مشہور کردار کو اس طرح کچھ اور معانی کا جامہ پہنا دیا جائے}۔ صوفی تبسم کی ایک اور مشہور نظم ہے: آئو بچو! سنو کہانی!
آئو بچو! سنو کہانی
ایک تھا راجا، ایک تھی رانی
راجا بیٹھا بِین بجائے
رانی بیٹھی گانا گائے
توتا بیٹھا چونچ ہِلائے
نوکر لے کر حلوہ آیا
توتے کا بھی جی للچایا
راجا بِین بجاتا جائے
نوکر شور مچاتا جائے
توتا حلوہ کھاتا جائے
ایک خوش کُن خبر یہ موصول ہوئی ہے کہ سید بابر علی فائونڈیشن نے گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی ، لاہور کے GCU Endowment Fund Trustکے لیے بیس لاکھ روپے کی خطیر رقم مَختص کی ہے جس سے صوفی تبسم اور کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد کے نام سے دو وظائف جاری کیے جائیں گے۔ ان دو عظیم اساتذہ کو اس طرح خراج تحسین پیش کرنا یقیناً لائق صد ستائش و تقلید ہے۔ ''بچوں کا شاعر'' کا خطاب پانے والے پہلے نامور سخنور مولوی اسمٰعیل میرٹھی (12نومبر 1844ء تا یکم نومبر 1917ء) کی لکھی ہوئی درسی کتب اور اُن کا مقبول عام کلام ناصرف بچوں، بلکہ بڑوں کو بھی اَزبر ہوا کرتا تھا۔ اب معلوم نہیں، اُن کی کتنی منظومات، شامل ِنصاب ہیں۔ خاکسار اُن کے ادبِ اطفال کے چند شہ پارے یہاں نقل کررہا ہے، روانی، سلاست اور (بچوں کی ذہنی استعداد اور نفسیات کے پیش نظر) آسان زبان جیسے عناصر سے مزین یہ کلام ہر لحاظ سے لائق تحسین وتقلید ہے:
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔۔۔ کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا/نہر پر چل رہی ہے پن چکی ...دھن کی پوری ہے کام کی پکی/رب کا شکر ادا کر بھائی ...جس نے ہماری گائے بنائی/ادب سے ہی انسان انسان ہے۔۔۔ ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے/بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت۔۔۔ نہیں کام آتی دلیل اور حجت/ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔۔۔ ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں/ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر۔۔۔ تو ہے خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر/جو بات کہو صاف ہو ستھری ہو بھلی ہو۔۔۔کڑوی نہ ہو کھٹی نہ ہو مصری کی ڈلی ہو۔
مولوی صاحب کی خدمات محض نصابی کتب (جماعت یکم تا پنجم، نیز ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو قاعدہ، جغرافیہ کی کتاب) کی تحریروترتیب اور بچوں کے لیے شاعری تک ہی محدود نہ رہیں۔ انھوں نے اردو کی ایک لغت مرتب کی، صَرف ونَحو[Grammar & composition]کی کتاب اور اپنے پیرومرشد کا تذکرہ بعنوان 'تذکرہ غوثیہ' لکھا۔ انھوں نے الطاف حسین حالیؔ اور محمد حسین آزادؔ کے ہمراہ، فارسی کی جگہ اردو کے مدارس/اسکولز میں رواج کے لیے کام کیا اور جدید نظم کے بھی بانیوں میں شامل ہوئے۔ اگر کبھی ادبِ اطفال کا کوئی ایسا جائزہ مرتب ہو جس میں فلمی دنیا کا حصہ بھی شامل کیا جائے تو بعض عمدہ شعری نمونے بھی اُن لوگو ں تک پہنچیں گے جنھوں نے ایسا کلام کبھی سنا نہ دیکھا۔ پرانے زمانے کی ہندوستانی اور پاکستانی فلموں میں خاص طور پر بچوں کے مطلب کے گانے لکھواکر شامل کیے جاتے تھے۔ ایک باقاعدہ کیفیت Situation/ کے تحت شاعر کوئی ایسا نغمہ تیار کرتا تھا جسے سن کر سبھی جھوم اٹھیں۔ ہم میں کتنے ایسے ہوں گے جنھوں نے ایسے گانے سنے اور دیکھے ہوں گے:
؎ ہم بھی اگر بچے ہوتے، نام ہمارا ہوتا، ببلوڈبلو، کھانے کو ملتے لڈّو/اور دنیا کہتی Happy birthday to you
؎ اونٹ پہ بیٹھا میرا مُنّا ،اونٹ کے پیچھے بچّے
؎ میری سال گرہ ہے ، بولو، بولو نا/ Happy birthday to you,baby
قارئین کرام ! اگر یہ بے مایہ شاعر، ادیب وصحافی اپنی سی کوشش کرسکتا ہے تو صاحب ِحیثیت لوگ جو اپنی شہرت وثروت میں اضافے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں ، اپنی شان میں قصائد لکھواتے ہیں، اپنے ہی پیسوں سے اپنا جشن منواتے ہیں یا کوئی ''مرغا'' پکڑکر اُس سے یہ کام لیتے ہیں، کیا انھیں نہیں چاہیے کہ چند لاکھ روپے فی کس نکال کر ایک باقاعدہ ادارہ قایم کریں، فعال اور باصلاحیت اہل قلم کویکجا کریں اور اس تحریک کا بھرپور آغاز کریں۔ {اخباری اطلاعات کے مطابق، محض صوبہ سندھ میں نام نہاد فلاحی (غیرسرکاری) تنظیموں [NGOs]کی تعداد چھتیس ہزار[36,000] سے زائد ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ صوبہ کسی بھی شعبے میں ترقی کے لحاظ سے نہایت پس ماندہ ہے۔ اربابِ اقتدار اور دیگر اہلِ سیاست کو سوچنا چاہیے کہ انھوں نے اس شہر، صوبے اور ملک سے کس قدر کمایا یا کھُلے لفظوں میں لُوٹا ہے، اب مرنے سے پہلے کوئی نیکی بھی کرجائیں۔ اپنی بے حساب دولت سے کچھ حصہ ہر شعبہ زندگی کے، محروم و پس ماندہ لوگوں کی فلاح کے لیے وقف کردیں۔ اس وطن کے ہر شعبے میں اصلاح وترقی کے لیے سرمایہ کہیں باہر سے مانگنے، کسی عالمی ادارے کے آگے ہاتھ پھیلانے اور اُن کی شرائط پوری کرنے کے لیے ایسے بجائے خود غلط اقدامات کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں جن سے معاشی و معاشرتی انحطاط مزید بڑھے۔ مسائل کا ادراک ہو، لوگوں کو پرکھنے کا شعور ہو اور عمل کرنے والا ذہن ہو تو ہر مسئلے کا حل یہیں موجود ہے۔ اس کے لیے کروڑوں روپے فی کس معاوضے پر، غیرملکی آقائوں کے نامزد کردہ اشخاص کو قوم کے سروں پر مسلط کرنے کی ضرورت نہیں}۔ براہ راست موضوع پر بات کریں تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ بچوں کے ادب اور تعلیمی نصاب سازی کے لیے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے مابین کسی قسم کے ربط وضبط کا فقدان ہی وہ بنیادی سبب ہے جس نے مسائل بڑھادیے ہیں۔ آج کل نصاب سازی کے موضوع پر سرکاری ونجی سطح پر کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں۔ چونکہ ہم ایسے لوگ ان کا بوجوہ حصہ نہیں، اس لیے ان کی تفصیلات بھی ٹھیک سے معلوم نہیں، بہرحال یہ طے ہے کہ تبدیلی کے نام پر ایسی گڑبڑ۔یا۔بگاڑ لانا کہ یہ قوم مزید تباہ حالی کا شکار ہو، ہرگز مفید نہیں۔ ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ سامراج کی فرمائش پر سب کچھ تلپٹ کردیا گیا، یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں، بلکہ اس کے کچھ اور حامی پیدا ہوچکے ہیں۔ ان سطور کا راقم اپنے قارئین کرام کو دعوت دیتا ہے کہ اگر اس تحریر کو دل گداز سمجھتے ہوئے واقعتاً کچھ کرنا چاہتے ہیں تو مجھے ای میل کریں۔ ہم اہل قلم، ادبی قارئین، اساتذہ کرام اور عزیز طلبہ وطالبات کی مدد سے وہ کام کرسکتے ہیں جس کے لیے عموماً بڑے اداروں کے قیام کی باتیں کی جاتی ہیں اور قیام کے بعد، مدتوں کوئی منصوبہ بوجوہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ آئیے ادب ِاطفال کی بہتری وترقی کے ذریعے قومی زبان کے ہمہ جہتی نفاذ کی راہ میں حائل، ایک رکاوٹ دور کرنے کے لیے سرمایہ ، مواد اور کارکن جمع کریں۔