مہنگائی بجلی بم اور گلوبل بیگانگی
صارفین کے بل جو ماہانہ تین چار سو روپے تھے وہ بڑھ کر چار ہزار تک پہنچ گئے ہیں۔
نیپرا نے ملک بھر میں بجلی ایک روپے95 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دے دی۔ یہ بجلی کی یکساں شرح کے فارمولہ کا شاخسانہ بتایا گیا ہے جب کہ عوام بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے شدید مالی دباؤ کا شکارہوگئے ہیں، انھیں یہ بھی یقین نہیں کہ مہنگی بجلی کا یہ جگر سوز سلسلہ کہاں جاکر ٹھہرے گا۔
صارفین کے بل جو ماہانہ تین چار سو روپے تھے وہ بڑھ کر چار ہزار تک پہنچ گئے ہیں، کے الیکٹرک نے ڈیٹکشن بلنگ کے جھٹکے بھی لگانے شروع کر دیے ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں صارفین کی واقعی چیخیں نکل گئی ہیں، عام گھریلو صارفین کو ڈیٹکشن بلنگ کے حساب سے پچاس ہزار روپے تک کے بل موصول ہو رہے ہیں جس کا متوسط طبقہ تصور بھی نہیں کرسکتا، حالیہ اضافہ کا اطلاق 50 یونٹ تک والے صارفین پر بھی ہوگا، صارفین نے جنوری اور فروری کو بجلی کی مد میں انتہائی ہولناک مالی دباؤ اور ذہنی تکلیف کے حوالے سے زبردست ''جھٹکا'' قرار دیا ہے۔
ذرایع کے مطابق اوسط ٹیرف13.55روپے سے بڑھا کر15.50روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 385 ارب اضافہ ہو گا، جس میں سے حکومت 185ارب سبسڈی دے گی جب کہ عوام کی جیبوں سے مزید 200 ارب روپے نکلوائے جائیں گے۔
نیپرا کے مطابق حکومت نے ملک بھر میں یکساں ٹیرف کرنے کی درخواست کی تھی۔ وزارت کے حکام نے دوران سماعت کہا تھا کہ فیصلے کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہو گا تاہم ملک بھر میں یکساں یونیفارم ٹیرف لاگو کرنے کے پیش نظر اب تمام صارفین کے لیے فی یونٹ قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ وزارت توانائی کے نوٹیفیکیشن کے بعد نئی قیمتوں کا اطلاق ہو گیا ہے۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط یا ایجنڈا کے تحت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ملکی ترقی اور گردشی قرضے کے سدباب کے لیے حکومتی مجبوری ہے لہٰذا معیشت کے استحکام کے لیے عوام کو یہ کڑوی گولی کھانا ہی پڑے گی، مگر کب تک؟ لیکن ارباب اقتدار کو غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے اجتماعی دباؤ اور زندگیوں کی تلخیوں میں اضافہ کے تناسب کا شاید ادراک ہی نہیں۔
حکمرانوں کو احساس کرنا ہوگا کہ غریب عوام مہنگائی کے اس ریلے کے خلاف چپ نہیں رہ سکیں گے لوگ اقتصادی استحکام اور پاکستانی روپے میں استقامت اور توازن کی یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں ہونگے، معاشی استحکام عوام کے لیے خوشخبری کی نوید لائے ایسا نہ ہو کہ مہنگائی کا ریلا عوام کے ہوش و ہواس گم کرنے کا باعث بنے تب کوئی تدبیر صورتحال کی بہتری میں موثر ثابت نہیں ہوسکے گی۔
معاشی مسیحاؤں کی مجبوری اپنی جگہ لیکن آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر عوام آخر کب تک مہنگائی کے شدید مصائب تلے کراہتے رہیں گے، عام آدمی کے لیے صورتحال ناقابل برداشت ہے۔ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کی گرتی ہوئی قوت خرید اس شعر سے ظاہر ہے کہ:
جلاہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو کیوں اب راکھ جستجو کیا ہے
دوسری جانب ملک بھر میں ماہ دسمبر کے دوران بڑی صنعتوں میں پیداواری عمل میں اضافہ کی اطلاعات ہیں جو خوش آیند ہے اور بلاشبہ توانائی شعبے سے قدرے مختلف ہے، ان میں آٹو موبائل، پیٹرولیم سیکٹر، فوڈ، کھاد اور ادویہ ساز صنعتیں شامل ہیں۔ ادھر ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق دسمبر 2020 میں بڑی صنعتوں کی جانب سے پیداوار میں 11 اعشاریہ 4 فیصد اضافہ نظر آیا۔
ادارے کے مطابق ماہ دسمبر کے دوران صنعتی پیداوار گزشتہ 22 ماہ کی بلند ترین سطح پر رہی اور اس کی وجوہات میں حکومت کی جانب سے کورونا وبا کے دوران معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے مختلف صنعتوں کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر اپنے ایک ٹویٹ میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ صنعتی شعبہ ایک مستحکم معاشی نشو و نما کو ظاہر کر رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا دسمبر چھ ماہ کے دوران ٹیکسٹائل، فوڈ، مشروبات، تمباکو، اور پیٹرولیم سیکٹر، ادویہ سازی، کیمیکلز، معدنی مصنوعات، آٹو موبائلز، فرٹیلائزر، کاغذ سازی کی صنعتوں میں گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ الیکٹرانکس، چمڑا سازی کی مصنوعات اور انجینئرنگ مصنوعات کی پیداوار میں کمی نظر آئی۔
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران صنعتی پیداوار میں گزشتہ مالی سال کی پہلی شش ماہی کے مقابلے میں مجموعی طور پر 8 اعشاریہ 16 فیصد اضافہ رہا۔جب کہ اسی عرصے کے دوران فوڈ، مشروبات، تمباکو اور معدنی مصنوعات کی پیداوار میں 18 فیصد، کیمیکل سیکٹر کی پیداوار میں 17 فیصد اور ادویہ سازی کی پیداوار میں 14 فیصد اضافہ رہا۔ دوسری جانب چمڑے کی مصنوعات میں گراوٹ دیکھنے میں آئی اور اسی طرح الیکٹرانکس مصنوعات، لکڑی کی مصنوعات کی پیداوار میں کمی نظر آئی۔
ملک میں رواں سال 2021 میں شروع ہونے والا مہنگائی میں اضافے کا رجحان مسلسل برقرار ہے۔ معیشت کے استحکام کے حکومتی بیانیہ کی منطق کا عوامی ریلیف سے مطابقت کا بہر حال کوئی منظرنامہ حقیقت سے قریب اسی وقت نظر آئیگا جب عوام کے لیے اس کے زمینی اثرات ان کی روزمرہ زندگی میں منعکس ہوں اور ان کا گھریلو بجٹ اس کی تصدیق بھی کرے، چنانچہ حکومتی اعلانات کے باوجود عوام کا اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے براہ راست اثرات اور افادیت پر کوئی ردعمل اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا، ہاں البتہ ایک بے اطمینانی اور مہنگائی کے عفریتی اثرات کا غلبہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں فرسٹریشن کا باعث بنا ہوا ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں 11 فروری کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران ہفتہ وار بنیاد پر مہنگائی میں0.81 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ حکومت ایک دیومالائی اقتصادی سیناریو کی کھوج میں ہے، وہ ملکی معاشی صورتحال کے مسائل کی تحقیق کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے اور نئے نئے انکشافات تسلسل کے ساتھ عوام، سیاست دانوں اور معاشی ماہرین پر آشکار ہوتے ہیں، معاشی ترقی کے تضادات کا ورثہ ملکی معیشت کا آج بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک پانچ سال کی پلاننگ سے نہیں بنتے بلکہ ترقی کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی ضروری ہوتی ہے، ان کے مطابق پارلیمانی جمہوریت میں ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتا ہے، حکومتیں صرف پانچ سال کا سوچتی ہیں اور ایسے منصوبے بناتی ہیں جن سے وہ اگلا الیکشن جیت سکیں۔
ہمارے بڑے بزنس مین بھی ٹیکس نہیں دیتے، عطیات دے دیتے ہیں۔ یہ بات انھوں نے گزشتہ روز جیلانی پارک لاہور میں اربن فاریسٹ کے منصوبہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی، وزیر اعظم نے کہا، لاہور ایک سرسبز شہر تھا جس کے ماحول پر ماضی میں کوئی توجہ نہیں دی گئی، دنیا کے کسی ملک میں 12 کلائمیٹ زون نہیں، ہمارے ہاں 12 موسم ہیں۔ ماضی میں 70 فیصد گرین بیلٹس کو ختم کر دیا گیا، اب ہم ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے گرین بیلٹس میں اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔
ملک بھر میں شجرکاری کا سیزن شروع ہو چکا ہے، ساری قوم کو اس میں شرکت کرنی چاہیے، یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے، زیتون کے جنگلات کا خاموش انقلاب آنے والا ہے۔ لاہور میں سموگ اور آلودگی کی شرح بہت بلند ہے۔ سموگ انسانی زندگیوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔ قبل ازیں وزیر اعظم نے میاواکی پودا لگا کر منصوبہ کا افتتاح کیا جس کے تحت 50 مقامات پر جنگلات لگائے جائیں گے۔
جنگلات کو تباہی اور ٹمبر مافیا کی چیرہ دستیوں کا سامنا ہے، اس کے انسداد کے لیے حکومت کی ٹائمنگ مناسب ہے، دھند کے اسباب و مضمرات کا سدباب بھی حکومت کے لیے اہم ٹاسک ہے۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ ماحولیات کا مسئلہ ملکی مستقبل کا اہم ایجنڈا ہے، دنیا موسمیاتی تبدیلیوں سے دوچار ہے، عالمی برادری کو باور کرایا گیا ہے کہ اکیسویں صدی میں انسان کا انسان سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے، انسان گلوبل بیگانگی سے دوچار ہے۔
صارفین کے بل جو ماہانہ تین چار سو روپے تھے وہ بڑھ کر چار ہزار تک پہنچ گئے ہیں، کے الیکٹرک نے ڈیٹکشن بلنگ کے جھٹکے بھی لگانے شروع کر دیے ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں صارفین کی واقعی چیخیں نکل گئی ہیں، عام گھریلو صارفین کو ڈیٹکشن بلنگ کے حساب سے پچاس ہزار روپے تک کے بل موصول ہو رہے ہیں جس کا متوسط طبقہ تصور بھی نہیں کرسکتا، حالیہ اضافہ کا اطلاق 50 یونٹ تک والے صارفین پر بھی ہوگا، صارفین نے جنوری اور فروری کو بجلی کی مد میں انتہائی ہولناک مالی دباؤ اور ذہنی تکلیف کے حوالے سے زبردست ''جھٹکا'' قرار دیا ہے۔
ذرایع کے مطابق اوسط ٹیرف13.55روپے سے بڑھا کر15.50روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 385 ارب اضافہ ہو گا، جس میں سے حکومت 185ارب سبسڈی دے گی جب کہ عوام کی جیبوں سے مزید 200 ارب روپے نکلوائے جائیں گے۔
نیپرا کے مطابق حکومت نے ملک بھر میں یکساں ٹیرف کرنے کی درخواست کی تھی۔ وزارت کے حکام نے دوران سماعت کہا تھا کہ فیصلے کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہو گا تاہم ملک بھر میں یکساں یونیفارم ٹیرف لاگو کرنے کے پیش نظر اب تمام صارفین کے لیے فی یونٹ قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ وزارت توانائی کے نوٹیفیکیشن کے بعد نئی قیمتوں کا اطلاق ہو گیا ہے۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط یا ایجنڈا کے تحت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ملکی ترقی اور گردشی قرضے کے سدباب کے لیے حکومتی مجبوری ہے لہٰذا معیشت کے استحکام کے لیے عوام کو یہ کڑوی گولی کھانا ہی پڑے گی، مگر کب تک؟ لیکن ارباب اقتدار کو غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے اجتماعی دباؤ اور زندگیوں کی تلخیوں میں اضافہ کے تناسب کا شاید ادراک ہی نہیں۔
حکمرانوں کو احساس کرنا ہوگا کہ غریب عوام مہنگائی کے اس ریلے کے خلاف چپ نہیں رہ سکیں گے لوگ اقتصادی استحکام اور پاکستانی روپے میں استقامت اور توازن کی یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں ہونگے، معاشی استحکام عوام کے لیے خوشخبری کی نوید لائے ایسا نہ ہو کہ مہنگائی کا ریلا عوام کے ہوش و ہواس گم کرنے کا باعث بنے تب کوئی تدبیر صورتحال کی بہتری میں موثر ثابت نہیں ہوسکے گی۔
معاشی مسیحاؤں کی مجبوری اپنی جگہ لیکن آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر عوام آخر کب تک مہنگائی کے شدید مصائب تلے کراہتے رہیں گے، عام آدمی کے لیے صورتحال ناقابل برداشت ہے۔ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کی گرتی ہوئی قوت خرید اس شعر سے ظاہر ہے کہ:
جلاہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو کیوں اب راکھ جستجو کیا ہے
دوسری جانب ملک بھر میں ماہ دسمبر کے دوران بڑی صنعتوں میں پیداواری عمل میں اضافہ کی اطلاعات ہیں جو خوش آیند ہے اور بلاشبہ توانائی شعبے سے قدرے مختلف ہے، ان میں آٹو موبائل، پیٹرولیم سیکٹر، فوڈ، کھاد اور ادویہ ساز صنعتیں شامل ہیں۔ ادھر ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق دسمبر 2020 میں بڑی صنعتوں کی جانب سے پیداوار میں 11 اعشاریہ 4 فیصد اضافہ نظر آیا۔
ادارے کے مطابق ماہ دسمبر کے دوران صنعتی پیداوار گزشتہ 22 ماہ کی بلند ترین سطح پر رہی اور اس کی وجوہات میں حکومت کی جانب سے کورونا وبا کے دوران معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے مختلف صنعتوں کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر اپنے ایک ٹویٹ میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ صنعتی شعبہ ایک مستحکم معاشی نشو و نما کو ظاہر کر رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا دسمبر چھ ماہ کے دوران ٹیکسٹائل، فوڈ، مشروبات، تمباکو، اور پیٹرولیم سیکٹر، ادویہ سازی، کیمیکلز، معدنی مصنوعات، آٹو موبائلز، فرٹیلائزر، کاغذ سازی کی صنعتوں میں گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ الیکٹرانکس، چمڑا سازی کی مصنوعات اور انجینئرنگ مصنوعات کی پیداوار میں کمی نظر آئی۔
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران صنعتی پیداوار میں گزشتہ مالی سال کی پہلی شش ماہی کے مقابلے میں مجموعی طور پر 8 اعشاریہ 16 فیصد اضافہ رہا۔جب کہ اسی عرصے کے دوران فوڈ، مشروبات، تمباکو اور معدنی مصنوعات کی پیداوار میں 18 فیصد، کیمیکل سیکٹر کی پیداوار میں 17 فیصد اور ادویہ سازی کی پیداوار میں 14 فیصد اضافہ رہا۔ دوسری جانب چمڑے کی مصنوعات میں گراوٹ دیکھنے میں آئی اور اسی طرح الیکٹرانکس مصنوعات، لکڑی کی مصنوعات کی پیداوار میں کمی نظر آئی۔
ملک میں رواں سال 2021 میں شروع ہونے والا مہنگائی میں اضافے کا رجحان مسلسل برقرار ہے۔ معیشت کے استحکام کے حکومتی بیانیہ کی منطق کا عوامی ریلیف سے مطابقت کا بہر حال کوئی منظرنامہ حقیقت سے قریب اسی وقت نظر آئیگا جب عوام کے لیے اس کے زمینی اثرات ان کی روزمرہ زندگی میں منعکس ہوں اور ان کا گھریلو بجٹ اس کی تصدیق بھی کرے، چنانچہ حکومتی اعلانات کے باوجود عوام کا اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے براہ راست اثرات اور افادیت پر کوئی ردعمل اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا، ہاں البتہ ایک بے اطمینانی اور مہنگائی کے عفریتی اثرات کا غلبہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں فرسٹریشن کا باعث بنا ہوا ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں 11 فروری کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران ہفتہ وار بنیاد پر مہنگائی میں0.81 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ حکومت ایک دیومالائی اقتصادی سیناریو کی کھوج میں ہے، وہ ملکی معاشی صورتحال کے مسائل کی تحقیق کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے اور نئے نئے انکشافات تسلسل کے ساتھ عوام، سیاست دانوں اور معاشی ماہرین پر آشکار ہوتے ہیں، معاشی ترقی کے تضادات کا ورثہ ملکی معیشت کا آج بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک پانچ سال کی پلاننگ سے نہیں بنتے بلکہ ترقی کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی ضروری ہوتی ہے، ان کے مطابق پارلیمانی جمہوریت میں ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتا ہے، حکومتیں صرف پانچ سال کا سوچتی ہیں اور ایسے منصوبے بناتی ہیں جن سے وہ اگلا الیکشن جیت سکیں۔
ہمارے بڑے بزنس مین بھی ٹیکس نہیں دیتے، عطیات دے دیتے ہیں۔ یہ بات انھوں نے گزشتہ روز جیلانی پارک لاہور میں اربن فاریسٹ کے منصوبہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی، وزیر اعظم نے کہا، لاہور ایک سرسبز شہر تھا جس کے ماحول پر ماضی میں کوئی توجہ نہیں دی گئی، دنیا کے کسی ملک میں 12 کلائمیٹ زون نہیں، ہمارے ہاں 12 موسم ہیں۔ ماضی میں 70 فیصد گرین بیلٹس کو ختم کر دیا گیا، اب ہم ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے گرین بیلٹس میں اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔
ملک بھر میں شجرکاری کا سیزن شروع ہو چکا ہے، ساری قوم کو اس میں شرکت کرنی چاہیے، یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے، زیتون کے جنگلات کا خاموش انقلاب آنے والا ہے۔ لاہور میں سموگ اور آلودگی کی شرح بہت بلند ہے۔ سموگ انسانی زندگیوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔ قبل ازیں وزیر اعظم نے میاواکی پودا لگا کر منصوبہ کا افتتاح کیا جس کے تحت 50 مقامات پر جنگلات لگائے جائیں گے۔
جنگلات کو تباہی اور ٹمبر مافیا کی چیرہ دستیوں کا سامنا ہے، اس کے انسداد کے لیے حکومت کی ٹائمنگ مناسب ہے، دھند کے اسباب و مضمرات کا سدباب بھی حکومت کے لیے اہم ٹاسک ہے۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ ماحولیات کا مسئلہ ملکی مستقبل کا اہم ایجنڈا ہے، دنیا موسمیاتی تبدیلیوں سے دوچار ہے، عالمی برادری کو باور کرایا گیا ہے کہ اکیسویں صدی میں انسان کا انسان سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے، انسان گلوبل بیگانگی سے دوچار ہے۔