سینیٹ کا میلہ

ایوان بالا میں الیکشن ڈراما آخری مرحلے میں داخل ہورہا ہے، رائے دہی کے طریق کار پر بحث ومباحثہ جاری ہے۔

budha.goraya@yahoo.com

ایوان بالا میں الیکشن ڈراما آخری مرحلے میں داخل ہورہا ہے، رائے دہی کے طریق کار پر بحث ومباحثہ جاری ہے، دلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں، بے پر کی اڑائی جارہی ہے، ووٹ کو عزت دینے اورگئے برس شفاف انتخاب کرانے اور کرپشن کے دروازے بند کرنے کا عزم ظاہر کرنے والے نون لیگی رہنما آج زورشور سے کھلے عام ووٹ ڈالنے کی مخالفت کررہے ہیں۔

میدان سیاست میں باہم مدمقابل سیاست کارجوچاہے کریں، ان کے ہر طرح کے مفادات اس گندے کھیل سے وابستہ ہیں لیکن ان نام نہاد دانشوروں، قلم کاروں اورفن کاروں کا کیاکیجیے جو بلا جھجھک ، بلند پایہ اخلاقی اصولوں کو پامال کیے جارہے ہیں اور آئین کی آڑمیں ووٹوں کی خرید وفروخت کو جمہوریت قرار دیے جارہے ہیں۔ آقاومولا سرورکائناتؐ نے فرمایاتھا:محض عمل کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اس کے ساتھ خلوص نیت لازم ہے جس کا سب کو علم ہے۔ وقتی مصلحتیں اورادنیٰ مفادات کو پیش نظررکھ کر موقف اپنائے جاتے ہیں ۔

رہے میاں نوازشریف اورپیارے عمران خان تو یہ دونوں اشرافیہ کی اقدار کو بچانے پر متفق ہیں۔خاص طور ایوان بالا کا انتخاب تومنہ زور اشرافیہ کے لیے کھیل تماشا بنا دیاگیا ہے۔اس مجلس بزرگان کا بنیادی مقصد تو تمام سیاسی اورجماعتی مفادات اورمصلحتوں سے بلند ہو کر قوم کی رہنمائی کرنا تھا لیکن موجود سینیٹ پر طائرانہ نظرڈالیں تو پتہ چلتا ہے چند شاطر اورعیاروں نے گھیراؤ کرکے اس مقدس ایوان کو اپنی چراگاہ بنا رکھا ہے۔ یہ ہے ہمارے ایوان بالا کامنظرنامہ ۔

ایوان بالا کے ارکان کاانتخاب تو سیدھا سادھا گنتی کا کھیل ہے۔ اگر برسرمیدان ہاتھ کھڑے کرا کے ہارجیت کا فیصلہ ہی کرانا ہے تو الیکشن کے تکلف کی کیا ضرورت ہے، ویسے ہی اراکین کی نسبت تناسب کے اعتبارسے نشستیں بانٹ کر بے پناہ اخراجات اورقومی وقت کا ضیاع روکا جاسکتا ہے۔

یہاں توہماری اشرافیہ کے ذہنی افلاس کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں 15سے زائد وفاداریاں تبدیل کرکے حکمران جماعت کے چیئرمین صادق سنجرانی کو منتخب کرانے والے ارکان کاجناب نواز شریف اور مریم نواز کو بخوبی علم تھا لیکن مصلحتوں نے آج تک ان کی زبان پر تالے لگائے ہوئے ہیں۔ طرفہ تماشاتویہ ہوا کہ اسی شام وہ تمام ''غدارارکان''بڑے دھڑلے سے اپنی جماعت کے عشایئے میں بھی شریک ہوئے تھے اورسب کچھ جانتے بوجھتے جمہوری اقدار کے پہرے داروں نے تقریباتی مسکراہٹوں کے ساتھ ان کا استقبال کیا تھا۔ ہمارا پارلیمانی جمہوری منظرنامہ پنجابی دانش کا مرقع مثال ''من کھوٹا ہجتاں ڈھیر'' کا مجسم مرقع بنا ہوا ہے۔

ارشاد فرمایا گیا کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دنیا یا مال و دولت کے لیے ہو یا کسی عورت کے لیے تھی، پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت اس نے کی ہوگی۔


یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مرحوم محمد خان جونیجو کے اپنے ساتھی وزراء کے احتساب کے بعد عمران خان نے سینیٹ کے میلہ میں خرید وفروخت پر اپنے 20 ارکان کے خلاف کارروائی کی تھی اورگزشتہ دنوں 2سال پرانی وڈیو کلپ میں اپنے موجودہ وزیرقانون کا چہرہ شناخت ہونے پر اسے بھی فوری طورپر وزارت سے برطرف کردیا، یہ جرأت وحوصلہ صرف ''ووٹ کو عزت دینے'' کے بلند آہنگ نعرے لگانے والے جناب نوازشریف تونہ کرسکے تھے۔ شاید کبھی بھی نہ کرسکیں گے۔

ویسے جناب نوازشریف اپنی باوقار اہلیہ اور ماں کا مجسم اوتار والدہ محترمہ کے جنازوں میں شرکت نہ کر سکے۔ ان کے دونوں صاحبزادے توخیرسے برطانوی شہری ہیں اورکہتے ہیں کہ ان کے اہلخانہ انھیں ''گندی سیاست'' سے دور رہنے پر آمادہ کرچکے ہیں۔ ایوان بالا کا انتخاب کھلے بندوں ہاتھ اٹھاکر ووٹ دینے کے بارے میں صدارتی حکم نامہ جاری ہوچکا ہے جس پر ووٹ کو عزت دینے کے دعوی دار سب سے زیادہ ناراض اور بے تاب ہیں۔

آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت صرف وزیراعظم اوروزرائے اعلیٰ کا انتخاب (Show Of Power) کے تحت کیا جا سکتا ہے جب کہ موجودہ سرکارکا موقف یہ ہے کہ سینیٹ الیکشن، الیکشن ایکٹ 2017کے تحت ہوتا ہے جس کے بارے میں صدرمملکت حکم نامہ جاری کرچکے ہیں۔

پس تحریر:گزشتہ ہفتے آبائی گاؤں بڈھاگورائیہ کا چکر لگا، اباجی کے دوست چاچا ظفرگورائیہ رحلت فرما چکے تھے۔ ان کی تعزیت کے لیے حاضرہوا۔ فاتحہ کے بعد یادوں اورباتوں کا سلسلہ جاری تھاکہ ماضی میں کھوگیا۔ یہ 1982کے دن تھے ،گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ جیل کی ملاقاتی وارڈ میں ایک نوجوان کرسی ڈالے جالیوں کے پار اپنے ملاقاتیوں کے ہجوم سے تحمل اورصبر کی تلقین کررہا تھا کہ اچانک مرحوم ظفر اللہ گورائیہ دکھائی دیے۔ انھیں خصوصی انتظام کے تحت ملاقاتی وارڈ کے اندربلا لیا، وہ یہ انتظامات دیکھ کر حیران تھے۔

فرمانے لگے ''ایتھے پسَرنہ جائیں توں قلم کتاب پھڑنی اے''( جیل میں پھیل نہ جانا کتاب وقلم تمہاری منتظرہے) اور16نومبر کی اجلی دوپہر اسلام آباد کلب کے سرسبزوشاداب لان میں دھوپ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تین دہائیوں بعد مہاگرو مرحوم انورعزیزچوہدری اس کالم نگار کا دایاں ہاتھ نرمی سے دباتے ہوئے فرمارہے تھے، ''اسلم خاں کالم لکھدا سونا لگداایں، تعویزنہ لکھیں، لمباراستہ چنگا ہوندا اے۔ Short Cut نہ ماریں'' 1982 سے 2021 کا ہنگامہ خیز تیس برس کا سفر چاچا ظفراللہ گورائیہ اورمہاگرو انورعزیز چوہدری مرحوم کے دوجملوں میں سمٹ گیا اورخاکسار اپنے آنسووں کو ضبط کررہا تھا، چھپا رہا تھا۔

پس ماندگان جانے والوں کے نقش پا پر جواں مردی سے چلا کرتے ہیں، آنسو نہیں بہاتے۔ مجھے بھی راست اقدام کرنا ہیں، جذبات سے عاری چہرے کے ساتھ راہ کی رکاوٹیں ہٹانا ہے۔
Load Next Story