معاشرتی بے راہ روی اور تربیت کا فقدان
پاکستان میں ارادی طور پر حاملہ ہونے والی پچاس فیصد لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے اسقاط حمل کروایا جاتا ہے
''ہم بچے نہیں پالتو جانور پال رہے ہیں۔'' ایک تعلیم یافتہ شخص کے منہ سے یہ بات سن کر عجیب لگا، اور استفسار سے ان کی طرف دیکھا تو گویا ہوئے۔
''ہم پالتو جانوروں کو اپنے گھر میں اچھی جگہ پر رکھتے ہیں، عام جانوروں کے ساتھ باڑے میں نہیں باندھتے۔ اچھی غذا دیتے ہیں۔ اگر بیمار ہوجائے تو اچھے ڈاکٹر کو چیک کرواتے ہیں۔ جبکہ عام جانور اگر بیمار ہوجائے تو پہلے پہل ٹوٹکے آزمائے جاتے ہیں، حالت زیادہ بگڑنے پر ڈاکٹر بلانے کی زحمت کی جاتی ہے۔ ایسے ہی آج کل ہم اپنے بچوں کے ساتھ کررہے ہیں۔ ہم اچھی غذا، لباس، اپنی حیثیت سے بڑھ کر اسکول اور بعض اوقات اسکول کے بعد ٹیوشن، بیماری کی صورت میں اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو چیک اپ، اور ہر جائز و ناجائز خواہش کی تکمیل کو پورا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے فرض ادا کردیا۔ حالانکہ بچوں کو اگر ہم اپنی حیثیت کے مطابق اسکول، لباس، غذا مہیا کردیں لیکن ان کی بہترین تربیت کریں جو امیر و غریب ہر کوئی کرسکتا ہے تو یہ بچے کی دنیا اور آخرت دونوں جہان کی زندگی بنادے گا۔''
وہ پیشے کے لحاظ سے سرکاری اسپتال میں ڈسپنسر ہونے کے ساتھ اصلاح معاشرہ کا فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے۔ آج سے کم و بیش اٹھارہ بیس سال قبل کی ہوئی ان کی یہ گفتگو مجھے گوجرانوالہ کے واقعے نے یاد کروادی۔ وہی گوجرانوالہ جہاں سے حوا کی بیٹی لاہور علم کے زیور سے آراستہ ہونے کےلیے پہنچی لیکن پھر شاید تربیت کا فقدان ہونے کے باعث غلاظت سے آراستہ ہوگئی۔ اور پھر جب اس نے نجات کےلیے نام نہاد ڈاکٹر کا رخ کیا تو زندگی کی بازی ہی ہار گئی۔
اس طرح کے واقعات اب عام ہوتے جارہے ہیں۔ اگر چہ یہ میڈیا پر شاذ و نادر ہی رپورٹ ہوتے ہیں، مگر نجی ہاسٹلز میں کرپٹ عملے کی موجودگی، میڈیکل اسٹورز پر مانع حمل ادویات کی دستیابی اور والدین کا بچوں پر اندھا اعتماد ایسے واقعات کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر والدین اپنے بچوں کو صرف مالی لحاظ سے سپورٹ کرکے اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہیں گے تو ایسے واقعات کی روک تھام ناممکن ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ارادی طور پر حاملہ ہونے والی پچاس فیصد لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے اسقاط حمل کروایا جاتا ہے۔ جبکہ ایک غیر سرکاری ذریعے کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں روزانہ چھ ہزار اور سالانہ بائیس لاکھ سے زائد واقعات میں اسقاط حمل کرایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر سال ہونے والے پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ اسقاط حمل میں سے پاکستان کا ایک بڑا حصہ ہے۔
بلاشبہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومت تنہا اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتی۔ البتہ حکومت یہ ضرور کرسکتی ہے کہ سرکاری اور نجی ہاسٹلز کی تعداد بڑھانے کے ساتھ قانون سازی کے ذریعے سیکیورٹی کے نظام کو بہتر بنائے۔ حکومت یہ تو کرسکتی ہے کہ میڈیکل اسٹورز کو پابند کردے کہ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ادویہ فروخت نہ کریں اور ایسا کرنے والے کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ حکومت اتائی ڈاکٹروں کے خلاف سخت کریک ڈاون تو کرسکتی ہے۔ حکومت قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو متحرک کرسکتی ہے۔ حکومت ہر چھوٹے بڑے شہر میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھا کر یا کم ازکم نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرکے تعلیم کےلیے دوردراز شہروں کا سفر کرنے والوں کے دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے اول تو چھوٹے شہروں میں اعلیٰ سطح کے تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں۔ اگر کہیں ہیں تو ان میں اسٹاف نہیں ہے اور اگر اسٹاف ہے تو وہ حاضر نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے چھوٹے شہروں کے طلبا و طالبات ادارے ہونے کے باوجود والدین کی آنکھوں سے اوجھل ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین ہی اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیں۔ بچوں کی تربیت اس انداز میں کی جائے کہ اگر وہ نظروں سے اوجھل بھی ہوں تو زمانے کی آلودگی ان کو متاثر نہ کرسکے۔ بچوں خاص طور پر لڑکیوں کے ہاسٹلز سے والدین مسلسل رابطے میں رہیں۔ والدین اور بچوں کے درمیان رابطوں کا فقدان بعض اوقات وہاں لے جاتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہتی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''ہم پالتو جانوروں کو اپنے گھر میں اچھی جگہ پر رکھتے ہیں، عام جانوروں کے ساتھ باڑے میں نہیں باندھتے۔ اچھی غذا دیتے ہیں۔ اگر بیمار ہوجائے تو اچھے ڈاکٹر کو چیک کرواتے ہیں۔ جبکہ عام جانور اگر بیمار ہوجائے تو پہلے پہل ٹوٹکے آزمائے جاتے ہیں، حالت زیادہ بگڑنے پر ڈاکٹر بلانے کی زحمت کی جاتی ہے۔ ایسے ہی آج کل ہم اپنے بچوں کے ساتھ کررہے ہیں۔ ہم اچھی غذا، لباس، اپنی حیثیت سے بڑھ کر اسکول اور بعض اوقات اسکول کے بعد ٹیوشن، بیماری کی صورت میں اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو چیک اپ، اور ہر جائز و ناجائز خواہش کی تکمیل کو پورا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے فرض ادا کردیا۔ حالانکہ بچوں کو اگر ہم اپنی حیثیت کے مطابق اسکول، لباس، غذا مہیا کردیں لیکن ان کی بہترین تربیت کریں جو امیر و غریب ہر کوئی کرسکتا ہے تو یہ بچے کی دنیا اور آخرت دونوں جہان کی زندگی بنادے گا۔''
وہ پیشے کے لحاظ سے سرکاری اسپتال میں ڈسپنسر ہونے کے ساتھ اصلاح معاشرہ کا فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے۔ آج سے کم و بیش اٹھارہ بیس سال قبل کی ہوئی ان کی یہ گفتگو مجھے گوجرانوالہ کے واقعے نے یاد کروادی۔ وہی گوجرانوالہ جہاں سے حوا کی بیٹی لاہور علم کے زیور سے آراستہ ہونے کےلیے پہنچی لیکن پھر شاید تربیت کا فقدان ہونے کے باعث غلاظت سے آراستہ ہوگئی۔ اور پھر جب اس نے نجات کےلیے نام نہاد ڈاکٹر کا رخ کیا تو زندگی کی بازی ہی ہار گئی۔
اس طرح کے واقعات اب عام ہوتے جارہے ہیں۔ اگر چہ یہ میڈیا پر شاذ و نادر ہی رپورٹ ہوتے ہیں، مگر نجی ہاسٹلز میں کرپٹ عملے کی موجودگی، میڈیکل اسٹورز پر مانع حمل ادویات کی دستیابی اور والدین کا بچوں پر اندھا اعتماد ایسے واقعات کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر والدین اپنے بچوں کو صرف مالی لحاظ سے سپورٹ کرکے اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہیں گے تو ایسے واقعات کی روک تھام ناممکن ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ارادی طور پر حاملہ ہونے والی پچاس فیصد لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے اسقاط حمل کروایا جاتا ہے۔ جبکہ ایک غیر سرکاری ذریعے کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں روزانہ چھ ہزار اور سالانہ بائیس لاکھ سے زائد واقعات میں اسقاط حمل کرایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر سال ہونے والے پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ اسقاط حمل میں سے پاکستان کا ایک بڑا حصہ ہے۔
بلاشبہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومت تنہا اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتی۔ البتہ حکومت یہ ضرور کرسکتی ہے کہ سرکاری اور نجی ہاسٹلز کی تعداد بڑھانے کے ساتھ قانون سازی کے ذریعے سیکیورٹی کے نظام کو بہتر بنائے۔ حکومت یہ تو کرسکتی ہے کہ میڈیکل اسٹورز کو پابند کردے کہ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ادویہ فروخت نہ کریں اور ایسا کرنے والے کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ حکومت اتائی ڈاکٹروں کے خلاف سخت کریک ڈاون تو کرسکتی ہے۔ حکومت قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو متحرک کرسکتی ہے۔ حکومت ہر چھوٹے بڑے شہر میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھا کر یا کم ازکم نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرکے تعلیم کےلیے دوردراز شہروں کا سفر کرنے والوں کے دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے اول تو چھوٹے شہروں میں اعلیٰ سطح کے تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں۔ اگر کہیں ہیں تو ان میں اسٹاف نہیں ہے اور اگر اسٹاف ہے تو وہ حاضر نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے چھوٹے شہروں کے طلبا و طالبات ادارے ہونے کے باوجود والدین کی آنکھوں سے اوجھل ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین ہی اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیں۔ بچوں کی تربیت اس انداز میں کی جائے کہ اگر وہ نظروں سے اوجھل بھی ہوں تو زمانے کی آلودگی ان کو متاثر نہ کرسکے۔ بچوں خاص طور پر لڑکیوں کے ہاسٹلز سے والدین مسلسل رابطے میں رہیں۔ والدین اور بچوں کے درمیان رابطوں کا فقدان بعض اوقات وہاں لے جاتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہتی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔