ادب دوست لاہور اور اکمل علیمی
لاہور کے لیے ادب دوست شہر کا اعزاز کوئی نئی بات نہیں
لاہور کے لیے ادب دوست شہر کا اعزاز کوئی نئی بات نہیں کہ اس شہر نے برصغیر میں ادب دوستی کے حوالے سے اپنامنفرد مقام ہر دور میں قائم و دائم رکھا۔شہر میں ہر نئے آنے والے کے لیے لاہور نے اپنی باہیں کھول کر خوش دلی سے اس کا استقبال کیا ۔ فیض صاحب،سعادت حسن منٹو، ابن انشا، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، انتظار حسین اور ایسے کئی نامی گرامی ادیب اور شعراء نے لاہور میں اپنا خوب رنگ جمایا ۔ یہ نہ تو دور چار برس کی بات ہے اور نہ ہی نصف صدی کا قصہ ہے بلکہ یہ کئی صدیوں پر محیط ایک داستان ہے جس کے داستان گو بھی اب باقی نہیں رہے ۔
علم و ادب کا دور زوال پذیر ہے۔ ہمارا معاشرہ اب ایسے لوگوں سے خالی ہو رہا ہے جنھوں نے علم و ادب کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور آج کے دور کے بارے میں مورخ کے پاس لکھنے کے لیے کچھ خاص نہیں ہوگا۔ اس لیے لازم ہے کہ اگر ادب کو زندہ رکھنا ہے تو ادیبوں کو زندہ رکھا جائے کیونکہ معاشرے میں جس قدر حصہ ادیب کا ہوتا ہے اتنا کسی سیٹھ ، تاجر، صنعتکار اور زمیندار کا نہیں ہو سکتا۔
ہمارے ہاں تو ادیب کی حالت بہت پتلی ہے اور کوئی ادیب ادب کی کمائی پر زندہ نہیں رہ سکتا۔لوگوں نے ادب پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔ ادبی جرائد نہ ہونے کے برابر ہیں اور کتابوں کی اشاعت کے لیے ادیبوں کو اپنی خالی جیب سے خرچ کرنا پڑتا ہے۔ لاہور کو ادب دوست قرار دینے والوں کو ادیبوں کی سرپرستی بھی کرنی چاہیے۔
کچھ عرصہ قبل جب لاہور کوعالمی ادارے یونیسکو کی جانب سے ادب دوست شہر قرار دیا گیا تو میرے والد محترم کے دوست امریکا میں مقیم سینئر اخبار نویس جناب اکمل علیمی اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔ اکمل علیمی سے میرا رشتہ میرے مرحوم والد کے ناتے سے جڑا ہے اور یہ رشتہ کئی دہائیوں پر محیط تھا۔ ان سے میری ذاتی شناسائی تواس صرف حد تک تھی کہ میں ان کے دوست کا بیٹا تھا لیکن بچپن سے اپنے والد کے توسط سے ان کے دوستوں سے ایسے رشتے میں بندھ گیا ہوں کہ کسی بزرگ کے ذکر سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک مدت سے شناسائی ہے ۔
ہمارے گھر میں جب بھی امریکا کا ذکر ہوتا تو انکل اکمل علیمی کے بغیر نامکمل ہوتا ہے ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا امریکا اکمل علیمی تھے ۔والد صاحب اور ان کے نظریات مختلف تھے۔ لیکن انھوں نے نظریات کو اپنے ذاتی تعلقات پر کبھی حاوی نہ ہونے دیا۔دائیں اور بائیں بازو والے نظریات کے حامل دوستی کے خوشگوارتعلق کو خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے۔
والد صاحب ، نواز، مصلح الدین اور اکمل علیمی نے اکٹھے لاہور کی سڑکوں کی خاک چھانی اور زمانے کے گروم و سرد کا خوب مقابلہ کیا۔اکمل علیمی پاکستان میں مختلف صحافتی اداروں سے منسلک رہے۔ رپورٹنگ کا آغاز روزنامہ تسنیم سے کرنے کے بعد روزنامہ امروز سے بطور چیف رپورٹر کے عہدے تک وابستہ رہے ۔ امروز میں اپنے وقت کا مشہورکالم حرف وحکایت بھی لکھتے رہے ۔ یہ لاہور ہے کا عنوان بھی انھی کے کالم کا تھا۔ انھوں نے لاہور کے اہل قلم کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔ جس میں لاہورمیں مقیم اہل قلم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
ممتازسید گھرانے سے تعلق رکھنے والے اکمل علیمی وائس آف امریکا کی اردو سروس سے وابستگی کے بعد امریکا کے ہو کر رہ گئے لیکن انھوں نے امریکا میں بھی اسلام کا علم بلند کیے رکھا۔ ''امریکا میں اسلام'' اور حج بیت اللہ کے سفر کی روداد انھوں نے'' مکہ ڈائری'' کے نام سے قلمبند کی۔ امریکا سے پاکستان کے مختلف اخبارات میں اپنا ہفتہ وار کالم لکھتے رہے جس کے ذریعے انھوں نے اپنے آپ کو آخری وقت تک پاکستان سے جوڑے رکھا۔ آخری دفعہ وہ پندرہ برس قبل پاکستان آئے اور لاہور کے جم خانہ کلب میں قیام کے دوران پرانے دوستوں کے ساتھ محفلیں گرماتے رہے۔
میری یہ خوش قسمتی ہے کہ میں ان محفلوں عینی شاہد ہوں۔ وہ گاہے بگاہے ٹیلی فون کیا کرتے تھے ۔ پھر پارکنسن کی وجہ سے رابطوں میں تعطل آگیا ۔ کبھی گھر میں ذکر کیا تو والد صاحب کہتے تھے کہ دل تو بہت کرتا ہے کہ اکمل سے گفتگو کروں لیکن اس کو بیماری کی وجہ سے بولنے میں دقت ہو گی اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اکمل کی زبان اس کے الفاظ کاساتھ نہ دے ۔ والد صاحب کی وفات پر جب ان کی طرف سے کوئی پیغام موصول نہ ہوا تو میں سمجھ گیا تھا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے اور ان کی طبیعت شاید بہتر نہیں ہے ۔
بہر حال ہم سب نے ایک دن اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ انکل اکمل علیمی بھی اپنے دوست عبدالقادرحسن کی وفات کے چند ہفتوں بعد اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں ۔ سید زادے اکمل علیمی کی تدفین ورجینیا امریکا میں کی گئی ۔ ہم یہاں پاکستان میں ان کی درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہیں۔
علم و ادب کا دور زوال پذیر ہے۔ ہمارا معاشرہ اب ایسے لوگوں سے خالی ہو رہا ہے جنھوں نے علم و ادب کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور آج کے دور کے بارے میں مورخ کے پاس لکھنے کے لیے کچھ خاص نہیں ہوگا۔ اس لیے لازم ہے کہ اگر ادب کو زندہ رکھنا ہے تو ادیبوں کو زندہ رکھا جائے کیونکہ معاشرے میں جس قدر حصہ ادیب کا ہوتا ہے اتنا کسی سیٹھ ، تاجر، صنعتکار اور زمیندار کا نہیں ہو سکتا۔
ہمارے ہاں تو ادیب کی حالت بہت پتلی ہے اور کوئی ادیب ادب کی کمائی پر زندہ نہیں رہ سکتا۔لوگوں نے ادب پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔ ادبی جرائد نہ ہونے کے برابر ہیں اور کتابوں کی اشاعت کے لیے ادیبوں کو اپنی خالی جیب سے خرچ کرنا پڑتا ہے۔ لاہور کو ادب دوست قرار دینے والوں کو ادیبوں کی سرپرستی بھی کرنی چاہیے۔
کچھ عرصہ قبل جب لاہور کوعالمی ادارے یونیسکو کی جانب سے ادب دوست شہر قرار دیا گیا تو میرے والد محترم کے دوست امریکا میں مقیم سینئر اخبار نویس جناب اکمل علیمی اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔ اکمل علیمی سے میرا رشتہ میرے مرحوم والد کے ناتے سے جڑا ہے اور یہ رشتہ کئی دہائیوں پر محیط تھا۔ ان سے میری ذاتی شناسائی تواس صرف حد تک تھی کہ میں ان کے دوست کا بیٹا تھا لیکن بچپن سے اپنے والد کے توسط سے ان کے دوستوں سے ایسے رشتے میں بندھ گیا ہوں کہ کسی بزرگ کے ذکر سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک مدت سے شناسائی ہے ۔
ہمارے گھر میں جب بھی امریکا کا ذکر ہوتا تو انکل اکمل علیمی کے بغیر نامکمل ہوتا ہے ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا امریکا اکمل علیمی تھے ۔والد صاحب اور ان کے نظریات مختلف تھے۔ لیکن انھوں نے نظریات کو اپنے ذاتی تعلقات پر کبھی حاوی نہ ہونے دیا۔دائیں اور بائیں بازو والے نظریات کے حامل دوستی کے خوشگوارتعلق کو خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے۔
والد صاحب ، نواز، مصلح الدین اور اکمل علیمی نے اکٹھے لاہور کی سڑکوں کی خاک چھانی اور زمانے کے گروم و سرد کا خوب مقابلہ کیا۔اکمل علیمی پاکستان میں مختلف صحافتی اداروں سے منسلک رہے۔ رپورٹنگ کا آغاز روزنامہ تسنیم سے کرنے کے بعد روزنامہ امروز سے بطور چیف رپورٹر کے عہدے تک وابستہ رہے ۔ امروز میں اپنے وقت کا مشہورکالم حرف وحکایت بھی لکھتے رہے ۔ یہ لاہور ہے کا عنوان بھی انھی کے کالم کا تھا۔ انھوں نے لاہور کے اہل قلم کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔ جس میں لاہورمیں مقیم اہل قلم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
ممتازسید گھرانے سے تعلق رکھنے والے اکمل علیمی وائس آف امریکا کی اردو سروس سے وابستگی کے بعد امریکا کے ہو کر رہ گئے لیکن انھوں نے امریکا میں بھی اسلام کا علم بلند کیے رکھا۔ ''امریکا میں اسلام'' اور حج بیت اللہ کے سفر کی روداد انھوں نے'' مکہ ڈائری'' کے نام سے قلمبند کی۔ امریکا سے پاکستان کے مختلف اخبارات میں اپنا ہفتہ وار کالم لکھتے رہے جس کے ذریعے انھوں نے اپنے آپ کو آخری وقت تک پاکستان سے جوڑے رکھا۔ آخری دفعہ وہ پندرہ برس قبل پاکستان آئے اور لاہور کے جم خانہ کلب میں قیام کے دوران پرانے دوستوں کے ساتھ محفلیں گرماتے رہے۔
میری یہ خوش قسمتی ہے کہ میں ان محفلوں عینی شاہد ہوں۔ وہ گاہے بگاہے ٹیلی فون کیا کرتے تھے ۔ پھر پارکنسن کی وجہ سے رابطوں میں تعطل آگیا ۔ کبھی گھر میں ذکر کیا تو والد صاحب کہتے تھے کہ دل تو بہت کرتا ہے کہ اکمل سے گفتگو کروں لیکن اس کو بیماری کی وجہ سے بولنے میں دقت ہو گی اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اکمل کی زبان اس کے الفاظ کاساتھ نہ دے ۔ والد صاحب کی وفات پر جب ان کی طرف سے کوئی پیغام موصول نہ ہوا تو میں سمجھ گیا تھا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے اور ان کی طبیعت شاید بہتر نہیں ہے ۔
بہر حال ہم سب نے ایک دن اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ انکل اکمل علیمی بھی اپنے دوست عبدالقادرحسن کی وفات کے چند ہفتوں بعد اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں ۔ سید زادے اکمل علیمی کی تدفین ورجینیا امریکا میں کی گئی ۔ ہم یہاں پاکستان میں ان کی درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہیں۔