وزیرا عظم منڈیوں اورمارکیٹ کمیٹیوں کی تنظیم نو کیلئے سنجیدہ اور متحرک
زراعت نہ صرف پاکستانی معیشت کی بنیاد بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی نمایاں پہچان بھی ہے
زراعت نہ صرف پاکستانی معیشت کی بنیاد بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی نمایاں پہچان بھی ہے، دنیا بھر میں پاکستان کا ''کینو'' اور''آم'' اپنے ذائقہ کی وجہ سے معروف اور مطلوب ہے ،کیلا ،سیب، آڑو سمیت متعدد پھلوں کا ذائقہ منفرد حیثیت کا حامل ہے،اسی طرح سے سبزیوں کی غذائیت اور ذائقہ دنیا کے کئی زرعی ممالک سے کہیں بہتر ہے ،ان سب ''اعزازات'' کے باوجود آج ہمارا کسان اور زرعی تاجر شدید ترین مشکلات کا شکار ہیں۔
زراعت کے حوالے سے سب سے اہم صوبہ پنجاب ہے لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ نہ تو زرعی پیداوار بڑھانے کی جانب کسی حکومت نے غیر معمولی پیش رفت کی اور نہ ہی زرعی مارکیٹنگ کے جدید تقاضوں کی بنیاد پر ایسا نظام لانے کی کوشش کی گئی جس میں تمام سٹیک ہولڈر یعنی کسان، آڑھتی اور صارف ایک پیج پرہوں اور حکومت ان سب کے حقوق کا یکساں تحفظ یقینی بنا سکے۔زرعی ترقی اور کسان کی خوشحالی کیلئے کسان کی زرعی پیداوار کی منڈیوں تک آمد، شفاف نیلامی اور جائز کمیشن وصولی نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے جبکہ صارفین کو بھی اسی صورت مناسب داموں پر معیاری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے جب منڈیوں میں نیلام ہونے والے مال کی درجہ بندی کر کے اور مناسب منافع شامل کرنے کے بعد انہیں پرچون میں سرکاری نرخ نامہ کے مطابق فروخت کیا جائے۔
اس وقت حکومت کو مہنگائی کا جو بحران درپیش ہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ منڈیوں (ہول سیل )اور پرچون (ریٹیل)کے نرخوں میں غیر معمولی فرق ہے،جس کی ذمہ دار ضلعی انتظامیہ ہے جو درجنوں ''پرائس مجسٹریٹس '' کے ہوتے ہوئے بھی گلی محلے کی دکانوں،سڑکوں پر لگے سٹالز اور ریڑھیوں پر سرکاری نرخ نامے کے نفاذ کو یقینی بنانے میں ناکام ہے۔ یہ ناکامی بدنامی بن کر نہ صرف حکمرانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے جبکہ وزیر اعظم سمیت حکومتی اکابرین کی نگاہوں میں زرعی تاجروں کو ناکردہ گناہ کا ذمہ دار بنا ڈالا ہے ،وزیر اعظم یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ منڈیوں میں خرابی ہے۔
وزیر اعظم سمیت سب فیصلہ سازوں کو یہ سمجھنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ دیہی زرعی معیشت میں آڑھتی''مائیکرو فنانس بنک'' کی مانند ہوتا ہے،کاشتکار فصل کی بوائی کیلئے بیج ،کھاد اور زرعی ادویات کی خریداری کیلئے آڑھتی سے ایڈوانس رقم لیکر استعمال کرتا ہے، گھر میں کوئی خوشی غمی ہوجائے تب بھی اس کی ضرورت آڑھتی سے پوری ہوتی ہے ،کسی بھی منڈی میںدیکھ لیں ، ہر آڑھتی کے لاکھوں روپے کسانوں کے پاس ''ایڈوانس'' کی صورت میں موجود ہیں اور ہر سال لاکھوں روپے ہی کسی نہ کسی کاشتکار کے ڈیفالٹ کرنے کی صورت میں ڈوب جاتے ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر شعبہ کی طرح آڑھتیوں کے درمیان بھی چند کالی بھیڑیں ہیں جو کسانوں کا معاشی استحصال بھی کرتی ہیں اور حکومت کو بھی مکمل ٹیکس ادا نہیں کرتے ،ایسے ہی چند آڑھتی منڈیوں میں بھتہ خوری کرتے ہیں ،اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے نام پر سائیکل سٹینڈ کے ٹھیکے لیکر لوٹ مار کی جاتی ہے ۔
زرعی منڈیوں کے نظام کو کسان دوست اور صارف دوست بنانے کیلئے مارکیٹ کمیٹیوں کا نظام تشکیل دیا گیا تھا لیکن سیاستدانوں اور حکمرانوں نے سیاسی وذاتی مفادات کی خاطر مارکیٹ کمیٹیوں کو ''سیاسی رشوت'' کے طور پر استعمال کیا، موجودہ حکومت میں بھی مارکیٹ کمیٹیوں کی سیاسی بندر بانٹ کی گئی جس کے نتیجہ میں کرپشن اور بد انتظامی کی سنگین داستانیں سامنے آئیں ۔
یہی سبب ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک مشکل فیصلہ کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی تمام مارکیٹ کمیٹیوں کو تحلیل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ان سیاسی چیئرمینوں کو گھر جانا ہی ہوگا خواہ اس کیلئے حکومت کو ایک نیا آرڈیننس ہی کیوں نہ لانا پڑ جائے۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ مارکیٹ کمیٹیوں اور زرعی منڈیوں کے نظام کو ایک مکمل اوور ہالنگ کی اشد ضرورت ہے لیکن جس تیزی اور بنا مشاورت کے پامرا قانون بنایا گیا وہ طریقہ درست نہیں تھا۔
مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں پامرا(پنجاب ایگریکلچرل مارکیٹنگ ریگولیٹری اتھارٹی) کا قانون اور نظام تیار کیا ۔ میاں شہباز شریف اس قانون کو لاگو نہیں کر سکے جبکہ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو وزیر اعظم کی ہدایت پر جہانگیر ترین نے زرعی مارکیٹنگ کے قانون پر از سر نو کام شروع کیا ۔
انہوں نے آڑھتیوں کے ساتھ درجنوں میٹنگز کیں لیکن ابھی معاملہ بیچ راستے میں تھا کہ جہانگیر ترین سائیڈ لائن کر دیئے گئے ،چند ہفتے قبل محکمہ زراعت پنجاب نے ''پامرا'' ریگولیشنز کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے لیکن اس میں بہت سے امور متنازعہ اور قابل اصلاح ہیں۔ منڈیوں میں مارکیٹ فیس کی وصولی قیمت نیلامی کا 0.5 فیصد مقرر کی گئی ہے لیکن ابھی اس کی وصولی شروع نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے ملک میں 1947 سے ابتک معیشت کٹی پتنگ کی مانند چلتی آرہی ہے اب یک جنبش قلم تاجروں کو نظام تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، یہ کام مرحلہ وار کرنا ہی فائدہ مندہوگا۔
ایسا ہی ایک تجربہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے صارفین کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط عائد کر کے کیا تھا لیکن ناکام ہو گئے تھے کیونکہ ٹیکس نظام میں تبدیلی مرحلہ وار اور باہمی اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے۔ زیادہ مناسب ہوگا کہ پامرا قانون میں ترمیم کر کے اس وقت نافذ 2 روپے فی کوئنٹل مارکیٹ فیس کو بڑھا کر 5 یا 7 روپے کردیا جائے یا پھر نیلامی قیمت کی شرح پر فیس کو کم کر کے 0.2 فیصد کر لیا جائے تا کہ بتدریج یہ نظام جڑیں مضبوط کر سکے۔
حکومت کیلئے یہ سنجیدہ معاملہ ہے کہ پہلی بار پنجاب بھر کی زرعی و غلہ منڈیوں کے آڑھتی اس معاملے پر یکجا ہو گئے ہیں اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں ۔ فریش فروٹ وویجیٹیبل آڑھتیان ایسوسی ایشن کے صدر میاں فیصل، جنرل سیکرٹری محمد رمضان،چیئرمین حامی محمد امین بھٹی، سرپرست اعلی چوہدری محمد اشرف اور سینئر نائب صدر محمد اعظم صابری نے پنجاب بھر کی منڈیوں کے ہنگامی دورے کیئے ہیں ،انہوں نے اعلی ترین حکومتی شخصیات کو ارسال کردہ خطوط میں اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارکیٹ فیس وزن کے تناسب سے ہی وصول کی جائے حکومت اس میں اضافہ کر سکتی ہے۔
کمیشن ایجنٹس، پھڑیا اور بروکر کی لائسنس اور تجدید فیس کم کی جائے۔ منڈی کی منتقلی کی صورت میں فعال کرایہ دار آڑھتیوں کو بھی الاٹمنٹ کا حقدار تسلیم کیا جائے،کمیشن ایجنٹ کے نیو لائسنس کے اجراء کیلئے رجسٹرڈ انجمن آڑھتیان کی تصدیق لازم قرار دی جائے ۔پامرا اتھارٹی میں کمیشن ایجنٹس کو نمائندگی دی جائے جبکہ سبزی وپھل پر آڑھتی کا کمیشن 10 فیصد جبکہ گرینز پر 5 فیصد مقرر کیا جائے ۔ دیکھا جائے تو یہ زیادہ تر مطالبات جائز ہیں ، پامرا ایکٹ میں کمیشن 3.10 فیصد مقرر کیا گیا ہے جبکہ جہانگیر ترین جیسا شخص خود یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے آڑھتی کو 7 فیصد کمیشن دیتا ہے لہذا حکومت کو زمینی حقائق کے مطابق قانون بنانا چاہئے ۔
وزیر اعظم نے پرائیویٹ منڈیوں کو فروغ دینے کی ہدایت کی ہے لیکن انہیں یہ حقیقت بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہو گی کہ زرعی منڈیوں کے نظام کو کسان اکیلا نہیں چلا سکتا کیونکہ مقامی مارکیٹ کی طلب پوری کرنے کیلئے دوسرے صوبوں یا دوسرے ممالک سے زرعی اجناس امپورٹ کرنا ہوتی ہیں جبکہ کسان دوسرے کسانوں کو ایڈوانس رقم بھی مہیا نہیں کر سکتا، پرائیویٹ منڈیوں کا تجربہ پہلے بھی ہو چکا ، ملتان روڈ لاہور پر واقع سبزی وپھل منڈی کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں 70 فیصد دکانوں پر غیر زرعی کاروبار ہو رہا ہے۔
سیکرٹری زراعت پنجاب اسد الرحمن گیلانی اپنے سپیشل سیکرٹری وقار حسین ،ڈی جی پامرا محسن عباس شاکر اور چیئرمین پامرا نوید بھنڈر کے اشتراک سے زرعی مارکیٹنگ کے نظام کو موثر اور شفاف بنانے کیلئے کوشاں ہیں اور ان کی محنت اور نیک نیتی نمایاں ہے لیکن انہیں حکومت کا مکمل تعاون اور وسائل درکار ہیں ۔ اس لئے وفاقی وزراء سید فخر امام، مخدوم خسرو بختیار، صوبائی وزراء حسین جہانیاں گردیزی، میاں اسلم اقبال، چیف سیکرٹری اور دیگر محکمانہ سیکرٹریز کو غیر جانبدارانہ اور حقائق پر مبنی سوچ کے ساتھ ایک نیا زرعی مارکیٹنگ نظام تشکیل دینا ہو گا جو وزیرا عظم کی خواہشات کے مطابق عوام کو بھی فائدہ پہنچائے اور ساتھ ساتھ کسان اور زرعی تاجر کو بھی تحفظ فراہم کرے۔
زراعت کے حوالے سے سب سے اہم صوبہ پنجاب ہے لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ نہ تو زرعی پیداوار بڑھانے کی جانب کسی حکومت نے غیر معمولی پیش رفت کی اور نہ ہی زرعی مارکیٹنگ کے جدید تقاضوں کی بنیاد پر ایسا نظام لانے کی کوشش کی گئی جس میں تمام سٹیک ہولڈر یعنی کسان، آڑھتی اور صارف ایک پیج پرہوں اور حکومت ان سب کے حقوق کا یکساں تحفظ یقینی بنا سکے۔زرعی ترقی اور کسان کی خوشحالی کیلئے کسان کی زرعی پیداوار کی منڈیوں تک آمد، شفاف نیلامی اور جائز کمیشن وصولی نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے جبکہ صارفین کو بھی اسی صورت مناسب داموں پر معیاری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے جب منڈیوں میں نیلام ہونے والے مال کی درجہ بندی کر کے اور مناسب منافع شامل کرنے کے بعد انہیں پرچون میں سرکاری نرخ نامہ کے مطابق فروخت کیا جائے۔
اس وقت حکومت کو مہنگائی کا جو بحران درپیش ہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ منڈیوں (ہول سیل )اور پرچون (ریٹیل)کے نرخوں میں غیر معمولی فرق ہے،جس کی ذمہ دار ضلعی انتظامیہ ہے جو درجنوں ''پرائس مجسٹریٹس '' کے ہوتے ہوئے بھی گلی محلے کی دکانوں،سڑکوں پر لگے سٹالز اور ریڑھیوں پر سرکاری نرخ نامے کے نفاذ کو یقینی بنانے میں ناکام ہے۔ یہ ناکامی بدنامی بن کر نہ صرف حکمرانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے جبکہ وزیر اعظم سمیت حکومتی اکابرین کی نگاہوں میں زرعی تاجروں کو ناکردہ گناہ کا ذمہ دار بنا ڈالا ہے ،وزیر اعظم یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ منڈیوں میں خرابی ہے۔
وزیر اعظم سمیت سب فیصلہ سازوں کو یہ سمجھنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ دیہی زرعی معیشت میں آڑھتی''مائیکرو فنانس بنک'' کی مانند ہوتا ہے،کاشتکار فصل کی بوائی کیلئے بیج ،کھاد اور زرعی ادویات کی خریداری کیلئے آڑھتی سے ایڈوانس رقم لیکر استعمال کرتا ہے، گھر میں کوئی خوشی غمی ہوجائے تب بھی اس کی ضرورت آڑھتی سے پوری ہوتی ہے ،کسی بھی منڈی میںدیکھ لیں ، ہر آڑھتی کے لاکھوں روپے کسانوں کے پاس ''ایڈوانس'' کی صورت میں موجود ہیں اور ہر سال لاکھوں روپے ہی کسی نہ کسی کاشتکار کے ڈیفالٹ کرنے کی صورت میں ڈوب جاتے ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر شعبہ کی طرح آڑھتیوں کے درمیان بھی چند کالی بھیڑیں ہیں جو کسانوں کا معاشی استحصال بھی کرتی ہیں اور حکومت کو بھی مکمل ٹیکس ادا نہیں کرتے ،ایسے ہی چند آڑھتی منڈیوں میں بھتہ خوری کرتے ہیں ،اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے نام پر سائیکل سٹینڈ کے ٹھیکے لیکر لوٹ مار کی جاتی ہے ۔
زرعی منڈیوں کے نظام کو کسان دوست اور صارف دوست بنانے کیلئے مارکیٹ کمیٹیوں کا نظام تشکیل دیا گیا تھا لیکن سیاستدانوں اور حکمرانوں نے سیاسی وذاتی مفادات کی خاطر مارکیٹ کمیٹیوں کو ''سیاسی رشوت'' کے طور پر استعمال کیا، موجودہ حکومت میں بھی مارکیٹ کمیٹیوں کی سیاسی بندر بانٹ کی گئی جس کے نتیجہ میں کرپشن اور بد انتظامی کی سنگین داستانیں سامنے آئیں ۔
یہی سبب ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک مشکل فیصلہ کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی تمام مارکیٹ کمیٹیوں کو تحلیل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ان سیاسی چیئرمینوں کو گھر جانا ہی ہوگا خواہ اس کیلئے حکومت کو ایک نیا آرڈیننس ہی کیوں نہ لانا پڑ جائے۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ مارکیٹ کمیٹیوں اور زرعی منڈیوں کے نظام کو ایک مکمل اوور ہالنگ کی اشد ضرورت ہے لیکن جس تیزی اور بنا مشاورت کے پامرا قانون بنایا گیا وہ طریقہ درست نہیں تھا۔
مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں پامرا(پنجاب ایگریکلچرل مارکیٹنگ ریگولیٹری اتھارٹی) کا قانون اور نظام تیار کیا ۔ میاں شہباز شریف اس قانون کو لاگو نہیں کر سکے جبکہ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو وزیر اعظم کی ہدایت پر جہانگیر ترین نے زرعی مارکیٹنگ کے قانون پر از سر نو کام شروع کیا ۔
انہوں نے آڑھتیوں کے ساتھ درجنوں میٹنگز کیں لیکن ابھی معاملہ بیچ راستے میں تھا کہ جہانگیر ترین سائیڈ لائن کر دیئے گئے ،چند ہفتے قبل محکمہ زراعت پنجاب نے ''پامرا'' ریگولیشنز کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے لیکن اس میں بہت سے امور متنازعہ اور قابل اصلاح ہیں۔ منڈیوں میں مارکیٹ فیس کی وصولی قیمت نیلامی کا 0.5 فیصد مقرر کی گئی ہے لیکن ابھی اس کی وصولی شروع نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے ملک میں 1947 سے ابتک معیشت کٹی پتنگ کی مانند چلتی آرہی ہے اب یک جنبش قلم تاجروں کو نظام تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، یہ کام مرحلہ وار کرنا ہی فائدہ مندہوگا۔
ایسا ہی ایک تجربہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے صارفین کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط عائد کر کے کیا تھا لیکن ناکام ہو گئے تھے کیونکہ ٹیکس نظام میں تبدیلی مرحلہ وار اور باہمی اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے۔ زیادہ مناسب ہوگا کہ پامرا قانون میں ترمیم کر کے اس وقت نافذ 2 روپے فی کوئنٹل مارکیٹ فیس کو بڑھا کر 5 یا 7 روپے کردیا جائے یا پھر نیلامی قیمت کی شرح پر فیس کو کم کر کے 0.2 فیصد کر لیا جائے تا کہ بتدریج یہ نظام جڑیں مضبوط کر سکے۔
حکومت کیلئے یہ سنجیدہ معاملہ ہے کہ پہلی بار پنجاب بھر کی زرعی و غلہ منڈیوں کے آڑھتی اس معاملے پر یکجا ہو گئے ہیں اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں ۔ فریش فروٹ وویجیٹیبل آڑھتیان ایسوسی ایشن کے صدر میاں فیصل، جنرل سیکرٹری محمد رمضان،چیئرمین حامی محمد امین بھٹی، سرپرست اعلی چوہدری محمد اشرف اور سینئر نائب صدر محمد اعظم صابری نے پنجاب بھر کی منڈیوں کے ہنگامی دورے کیئے ہیں ،انہوں نے اعلی ترین حکومتی شخصیات کو ارسال کردہ خطوط میں اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارکیٹ فیس وزن کے تناسب سے ہی وصول کی جائے حکومت اس میں اضافہ کر سکتی ہے۔
کمیشن ایجنٹس، پھڑیا اور بروکر کی لائسنس اور تجدید فیس کم کی جائے۔ منڈی کی منتقلی کی صورت میں فعال کرایہ دار آڑھتیوں کو بھی الاٹمنٹ کا حقدار تسلیم کیا جائے،کمیشن ایجنٹ کے نیو لائسنس کے اجراء کیلئے رجسٹرڈ انجمن آڑھتیان کی تصدیق لازم قرار دی جائے ۔پامرا اتھارٹی میں کمیشن ایجنٹس کو نمائندگی دی جائے جبکہ سبزی وپھل پر آڑھتی کا کمیشن 10 فیصد جبکہ گرینز پر 5 فیصد مقرر کیا جائے ۔ دیکھا جائے تو یہ زیادہ تر مطالبات جائز ہیں ، پامرا ایکٹ میں کمیشن 3.10 فیصد مقرر کیا گیا ہے جبکہ جہانگیر ترین جیسا شخص خود یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے آڑھتی کو 7 فیصد کمیشن دیتا ہے لہذا حکومت کو زمینی حقائق کے مطابق قانون بنانا چاہئے ۔
وزیر اعظم نے پرائیویٹ منڈیوں کو فروغ دینے کی ہدایت کی ہے لیکن انہیں یہ حقیقت بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہو گی کہ زرعی منڈیوں کے نظام کو کسان اکیلا نہیں چلا سکتا کیونکہ مقامی مارکیٹ کی طلب پوری کرنے کیلئے دوسرے صوبوں یا دوسرے ممالک سے زرعی اجناس امپورٹ کرنا ہوتی ہیں جبکہ کسان دوسرے کسانوں کو ایڈوانس رقم بھی مہیا نہیں کر سکتا، پرائیویٹ منڈیوں کا تجربہ پہلے بھی ہو چکا ، ملتان روڈ لاہور پر واقع سبزی وپھل منڈی کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں 70 فیصد دکانوں پر غیر زرعی کاروبار ہو رہا ہے۔
سیکرٹری زراعت پنجاب اسد الرحمن گیلانی اپنے سپیشل سیکرٹری وقار حسین ،ڈی جی پامرا محسن عباس شاکر اور چیئرمین پامرا نوید بھنڈر کے اشتراک سے زرعی مارکیٹنگ کے نظام کو موثر اور شفاف بنانے کیلئے کوشاں ہیں اور ان کی محنت اور نیک نیتی نمایاں ہے لیکن انہیں حکومت کا مکمل تعاون اور وسائل درکار ہیں ۔ اس لئے وفاقی وزراء سید فخر امام، مخدوم خسرو بختیار، صوبائی وزراء حسین جہانیاں گردیزی، میاں اسلم اقبال، چیف سیکرٹری اور دیگر محکمانہ سیکرٹریز کو غیر جانبدارانہ اور حقائق پر مبنی سوچ کے ساتھ ایک نیا زرعی مارکیٹنگ نظام تشکیل دینا ہو گا جو وزیرا عظم کی خواہشات کے مطابق عوام کو بھی فائدہ پہنچائے اور ساتھ ساتھ کسان اور زرعی تاجر کو بھی تحفظ فراہم کرے۔