بنگلادیش سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہا
بنگلادیش میں پرتشدد فسادات کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب فروری 2013کو دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت دی گئی تھی۔
ISLAMABAD:
بنگلادیش میں اس سال جو سیاسی صورت حال رہی، اس کی وجہ سے پورا ملک ہلچل، افراتفری، تشدد اور ہنگاموں کی زد میں رہا۔
اس ملک میں 2014کے پہلے ماہ یعنی جنوری میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوا تھا۔ اس کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، اس کے بعد عالمی سیاسی ماہرین اس شک کا اظہار کررہے ہیں کہ پتا نہیں کہ یہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، اس وقت تک بنگلادیش میں عام انتخابات یا تو منعقد ہوچکے ہوں گے یا آگے بڑھ چکے ہوں گے۔ گزرا سال یعنی 2013 بنگلادیش میں سیاسی اتھل پتھل کے حوالے سے خاصا سنگین رہا۔ اس سال میں اس ملک میں جو کچھ ہوا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے مگر یہ طے ہے کہ ان واقعات نے اس ملک کو جو رفتہ رفتہ ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھ رہا تھا، کچھ پیچھے کردیا ہے۔ ملکی اور غیرملکی سرمایہ کار ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور نئے کاروبار اور تجارتی شعبے میں سرمایہ لگاتے ہوئے تذبذب میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
اس سال کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ بنگلادیش میں حزب اختلاف کے راہ نما اور جماعت اسلامی کے ایک اہم لیڈر عبدالقادر ملا کو سزائے موت دے دی گئی جس کے بعد پورا ملک فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ مظاہرین نے نہ صرف مقامی گھروں کو نذر آتش کیا، بلکہ حکومت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی املاک اور تجارتی مراکز بھی تباہ کرڈالے۔ تشدد کی اس لہر میں متعدد لوگ اپنی جانوں سے گئے اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بنگلادیش شدید افراتفری کی زد میں ہے۔ جب کہ اگلے ماہ اس ملک میں عام انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔
65سالہ عبدالقادر ملا کو کس جرم میں پھانسی دی گئی؟ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 1971 کی جنگ میں جسے بنگلا دیش میں جنگ آزادی کا نام دیا گیا ہے، جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ جنگ پاکستان کے خلاف لڑی گئی تھی۔
اس سانحے نے بنگلادیش کی سیاسی تقسیم کو ایک نئی دھماکا خیز سمت دے دی۔ کیا 160 ملین کی آبادی والا یہ ملک جو پہلے ہی شدید غربت کی لپیٹ میں ہے، اس صورت حال سے نبرد آزما ہوسکے گا؟ کیا یہ سیاسی محاذ آرائی ملک کو ایک نئے ہنگامے کی طرف نہیں لے جائے گی؟
ہزاروں افراد نے عبدالقادر ملا کی سزائے موت پر دارالحکومت ڈھاکا میں جشن منایا اور برملا یہ کہا گیا کہ آج انصاف ہوگیا ہے۔بنگلادیش کے روزنامہ ''ڈیلی اسٹار'' نے اپنے اداریے میں بنگلادیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واحد کو مبارک باد دیتے ہوئے لکھا ہے:''آپ نے ملا کو اس کے جنگی جرائم پر سزائے موت دلوانے کے لیے 40 سال تک طویل انتظار کیا اور اس کے لیے مسلسل کوششیں کیں۔''
عبدالقادر ملا بنگلادیش کی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کے ایک ایسے راہ نما اور پہلے فرد ہیں جنہیں اس ملک میں جنگی جرائم پر سزائے موت دی گئی ہے۔ ان کو یہ سزا 2010کے تحت قائم کیے جانے والے ٹری بیونل کی تحقیقات کے بعد دی گئی ہے۔
مذکورہ بالا ٹری بیونل جنگ آزادی میں وحشت و بربریت کے واقعات اور ان میں ملوث افراد کے خلاف تحقیق کررہا تھا۔
ظاہر ہے یہ ایسا واقعہ تھا جس کے بعد تشدد میں اضافہ ہوگیا۔ ملک کے مختلف حصوں میں جماعت اسلامی کے حامیوں نے حکم راں جماعت کے حامیوں پر حملے کیے اور ہندو اقلیت کو بھی نشانہ بنایا۔ ان واقعات میں املاک تباہ ہوئیں، گھر اور دکانیں جلادی گئیں۔ ہندوئوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بنگلادیش کے قیام کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ وہ شروع سے ہی بنگلادیش کی موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے حامی ہیں۔
عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد جماعت اسلامی کے ایک راہ نما مقبول احمد نے ایک بیان میں کہا:''اس قتل کا بدلہ اس طرح لیا جائے کہ بنگلادیش میں اسلام نافذ کیا جائے گا۔ اس ملک پر عبدالقادر ملا کے خون کے دھبے لگ گئے ہیں جو اسلام کے نفاذ سے ہی صاف ہوسکیں گے۔''
دوسری جانب عبدالقادر ملا کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ملا کو سنگین جرائم پر سزائے موت دی گئی ہے اور یہ کہ اس سزا کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بنگلادیش کا یہ کہنا ہے کہ نو ماہ پر محیط اس جنگ آزادی کے دوران پاکستانی فوجیوں نے کم از کم تین ملین افراد کو ہلاک کیا اور دو لاکھ خواتین کی آبرو ریزی کی۔
اس کیس نے پورے ملک کو سیاسی طور پر عجیب سی اتھل پتھل میں مبتلا کردیا ہے۔ ویسے بھی جن لوگوں کو اس طرح کے کیسز میں مقدمات کا سامنا ہے، ان کا تعلق بنگلادیش کی حزب اختلاف سے ہے اور عبدالقادر ملا جماعت اسلامی ایک اہم ممبر تھے اور اس طرح اس جماعت کو اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے سے روکا گیا ہے۔ مگر اس گروپ کا بنگلادیش کی اہم اپوزیشن پارٹی ''بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی'' کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
جماعت اسلامی کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ بنیاد پرستوں کا گروپ ہے جس کے لیے ایک سیکولر ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ویسے تو بنگلادیش میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن یہاں زیادہ تر سیکولر قوانین چلتے ہیں۔
اسپیشل ٹریبیونل نے عبدالقادر ملا کو ایک طالب علم اور 11افراد پر مشتمل ایک فیملی کی ہلاکت کا مجرم قرار دیا تھا۔ ملا پر یہ الزام بھی تھا کہ انہوں نے دوران جنگ پاکستانی فوج کی مدد کی جس نے ملا کی مدد سے 369افراد کو قتل کیا۔ملا کی سزائے موت پر عمل درآمد نے بنگلادیش میں اور بھی افراتفری پھیلا دی ہے، جب کہ یہ ملک پہلے ہی سیاسی طور پر کشیدہ صورت حال میں مبتلا تھا۔ حزب اختلاف مسلسل پرتشدد احتجاجی مظاہرے کررہی ہے اور ایک آزاد نگراں حکومت کے قیام کا مطالبہ کررہی ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ 5جنوری کو ہونے والے عام انتخابات ایک غیر جانب دار نگراں حکومت کے تحت کرائے جائیں۔
لیکن بنگلادیش کی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کردیا، جس کے بعد ایک اپوزیشن الائنس نے جس کی قیادت سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کررہی ہیں، انتخابات کے بائیکاٹ کا پلان بنایا ہے۔ اب بنگلادیش میں انتخابات ہوسکیں گے یا نہیں، یہ بھی ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔
بنگلادیش میں پرتشدد فسادات کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب 28 فروری 2013کو دلاور حسین سعیدی کو موت کی سزا دینے کا اعلان ہوا تھا۔ سعیدی بنگلادیش کی جماعت اسلامی کے ایک اہم راہ نما تھے۔ ان پر قتل، آتش زنی، لوٹ مار، عصمت دری اور غیرمسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کے الزامات تھے جن کا ارتکاب ٹریبیونل کے بقول انہوں نے بنگلادیش کی جنگ آزادی یا 1971 کی جنگ میں کیا تھا۔
انٹرنیشنل کرائمز ٹری بیونل(ICT) کے اس فیصلے کے فوری بعد ہی جماعت اسلامی کے حامیوں اور اس جماعت کے اسٹوڈنٹ ونگ ''اسلامی چھاترا شبر'' نے ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے کرنے شروع کردیے۔ حکومتی حلقے ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مخالفین کے علاوہ پولیس اور اقلیتوں پر حملے کیے، مندر نذر آتش کیے، کاروں اور گاڑیوں کو جلایا اور ملک بھر میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی عبادت گاہوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ جس دن یہ فیصلہ آیا تھا، اس دن قانون نافذ کرنے والے اداروں اور جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کے درمیان خوف ناک تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں لگ بھگ 40افراد اپنی جانوں سے گئے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق زیادہ اموات سیکیوریٹی فورسز کی وجہ سے ہوئیں جنہوں نے طلبہ کے خلاف کھل کر اسلحہ استعمال کیا۔ تاہم اس تصادم میں کچھ پولیس والے مارے گئے اور کچھ زخمی ہوئے۔ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کا یہ احتجاج کئی روز تک جاری رہا۔ تشدد کے ارتکاب پر 98,000 افراد پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
جماعت اسلامی نے اس فیصلے کے خلاف 3مارچ کو48 گھنٹے کی ملک گیر عام ہڑتال کا اعلان کیا۔ اس ہڑتال میں جماعت کا ساتھ اس کی اتحادی جماعت بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی نے بھی دیا، جس کے نتیجے میں ملک میں ساری تجارتی، سماجی، کاروباری، تعلیمی اور دیگر سرگرمیاں ماند پڑگئیں۔
اس کے بعد نیشلسٹ پارٹی نے 5مارچ کو ایک روزہ ہڑتال کی کال بھی دی۔ اس ہڑتال کے دوران پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لیے بنگلادیش کی حکومت نے دس اضلاع میں دفعہ 144نافذ کردی یا کرفیو لگادیا اور ناخوش گوار واقعات سے نمٹنے کے لیے ''بارڈر گارڈ بنگلادیش'' کی خدمات حاصل کرلیں۔
بنگلادیش کی صورت حال جس طرح بگڑ رہی تھی اس کے نتیجے میں پرتشدد واقعات مسلسل رونما ہورہے تھے۔ ملک بھر میں ٹرینوں اور بسوں کو نذر آتش کیا جاتا رہا اور قیمتی املاک تباہ ہوتی رہیں۔ ان میں عام افراد بھی مررہے تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کے نوجوان بھی۔ایک طرف حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت پر الزام لگارہی تھیں کہ وہ عسکری قوت سے لوگوں کی آواز دبانے کی کوشش کررہی ہے اور دوسری جانب حکومت بنگلادیش کا یہ موقف تھا کہ پرتشدد واقعات سے نمٹنے اور عام لوگوں کی جان و مال کو بچانے کے لیے وہ ہر ممکن اقدام اٹھائے گی۔
بنگلادیش کی سابق وزیراعظم حکومت کے اقدامات کو وحشیانہ قرار دے رہی تھیں اور ان کی ہر سطح پر مذمت کررہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کے نام پر حکومت بنگلا دیش اپنی مخالف جماعتوں کو سرے سے مٹاڈالنا چاہتی ہے۔
بنگلا دیش میں گذشتہ سال پیدا ہونے والے حالات نے ملک کی معاشی حالت مزید ابتر کردی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کار اور خاص طور سے پاکستانی سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ آگے چل کر حالات کیا رخ اختیار کریں گے اور یہ ان کے سرمائے کا کیا ہوگا۔
پھر بنگلادیش کی حکومت کے حامیوں اور حکومت نواز جماعتوں نے پاکستانی سفارت خانے کے سامنے مسلسل مظاہرے کرنے شروع کردیے اور پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا بھی شروع کردیا۔دوسری جانب عالمی برادری نے بنگلادیش میں انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا۔ہیومن رائٹس واچ نے حکومت بنگلادیش اور جماعت اسلامی دونوں پر زور دیا کہ وہ صورت حال پر قابو پانے اور امن و امان کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔
اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی فیصلے یا اقدام پر احتجاج کرنا عام لوگوں یا جماعتوں کا حق ہے، مگر یہ احتجاج پرامن ہونا چاہیے۔ دوسری طرف حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ احتجاج کو کچلنے کے لیے ایسے طریقے استعمال نہ کرے جن سے انسانی حقوق پامال ہوتے ہوں۔
بنگلادیش میں برطانوی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ بنگلادیش کی موجودہ صورت حال عالمی برادری کو ایک منفی پیغام دے رہی ہے۔ اگر لوگوں کی جان و مال اسی طرح غیر محفوظ رہی تو غیرملکی سرمایہ کار اس ملک سے مایوس ہوسکتے ہیں۔ عالمی برادری بنگلادیش میں سرمایہ کاری میں اپنی دل چسپی کم کرسکتی ہے۔
امریکا نے بھی بنگلادیش کی موجودہ صورت حال کو سیاسی عدم استحکام سے تعبیر کیا اور عام لوگوں کے گھروں، مقدس مقامات اور اقلیتوں پر حملوں کو تشویش ناک قرار دیا۔ امریکا نے بنگلادیش کی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
بنگلادیش کی آبادی کا بڑا حصہ (لگ بھگ 80فی صد) دیہی علاقوں میں رہتا ہے۔ متعدد افراد دور دراز دیہات میں رہتے ہیں، جہاں سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے، اس کے بعد تعلیمی اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کی کمی، سڑکوں اور بازاروں تک رسائی کی کمی جیسی مشکلات الگ ہیں۔
مختلف ادوار میں مختلف سیاسی حکومتوں نے اس کی ترقی اور خوش حالی کے لیے کوششیں کیں، مگر سیاسی عدم استحکام، دائمی غربت اور قدرتی آفات اس قوم کے لیے بہت بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ معاشی تجزیہ نگار یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ گذشتہ سال بنگلادیش میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ اب تک ہورہا ہے، اس کے بعد یہ ملک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا اور اسی مقام پر کھڑا ہوگا جہاں اپنے قیام سے پہلے تھا۔
بنگلادیش میں اس سال جو سیاسی صورت حال رہی، اس کی وجہ سے پورا ملک ہلچل، افراتفری، تشدد اور ہنگاموں کی زد میں رہا۔
اس ملک میں 2014کے پہلے ماہ یعنی جنوری میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوا تھا۔ اس کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، اس کے بعد عالمی سیاسی ماہرین اس شک کا اظہار کررہے ہیں کہ پتا نہیں کہ یہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، اس وقت تک بنگلادیش میں عام انتخابات یا تو منعقد ہوچکے ہوں گے یا آگے بڑھ چکے ہوں گے۔ گزرا سال یعنی 2013 بنگلادیش میں سیاسی اتھل پتھل کے حوالے سے خاصا سنگین رہا۔ اس سال میں اس ملک میں جو کچھ ہوا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے مگر یہ طے ہے کہ ان واقعات نے اس ملک کو جو رفتہ رفتہ ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھ رہا تھا، کچھ پیچھے کردیا ہے۔ ملکی اور غیرملکی سرمایہ کار ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور نئے کاروبار اور تجارتی شعبے میں سرمایہ لگاتے ہوئے تذبذب میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
اس سال کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ بنگلادیش میں حزب اختلاف کے راہ نما اور جماعت اسلامی کے ایک اہم لیڈر عبدالقادر ملا کو سزائے موت دے دی گئی جس کے بعد پورا ملک فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ مظاہرین نے نہ صرف مقامی گھروں کو نذر آتش کیا، بلکہ حکومت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی املاک اور تجارتی مراکز بھی تباہ کرڈالے۔ تشدد کی اس لہر میں متعدد لوگ اپنی جانوں سے گئے اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بنگلادیش شدید افراتفری کی زد میں ہے۔ جب کہ اگلے ماہ اس ملک میں عام انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔
65سالہ عبدالقادر ملا کو کس جرم میں پھانسی دی گئی؟ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 1971 کی جنگ میں جسے بنگلا دیش میں جنگ آزادی کا نام دیا گیا ہے، جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ جنگ پاکستان کے خلاف لڑی گئی تھی۔
اس سانحے نے بنگلادیش کی سیاسی تقسیم کو ایک نئی دھماکا خیز سمت دے دی۔ کیا 160 ملین کی آبادی والا یہ ملک جو پہلے ہی شدید غربت کی لپیٹ میں ہے، اس صورت حال سے نبرد آزما ہوسکے گا؟ کیا یہ سیاسی محاذ آرائی ملک کو ایک نئے ہنگامے کی طرف نہیں لے جائے گی؟
ہزاروں افراد نے عبدالقادر ملا کی سزائے موت پر دارالحکومت ڈھاکا میں جشن منایا اور برملا یہ کہا گیا کہ آج انصاف ہوگیا ہے۔بنگلادیش کے روزنامہ ''ڈیلی اسٹار'' نے اپنے اداریے میں بنگلادیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واحد کو مبارک باد دیتے ہوئے لکھا ہے:''آپ نے ملا کو اس کے جنگی جرائم پر سزائے موت دلوانے کے لیے 40 سال تک طویل انتظار کیا اور اس کے لیے مسلسل کوششیں کیں۔''
عبدالقادر ملا بنگلادیش کی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کے ایک ایسے راہ نما اور پہلے فرد ہیں جنہیں اس ملک میں جنگی جرائم پر سزائے موت دی گئی ہے۔ ان کو یہ سزا 2010کے تحت قائم کیے جانے والے ٹری بیونل کی تحقیقات کے بعد دی گئی ہے۔
مذکورہ بالا ٹری بیونل جنگ آزادی میں وحشت و بربریت کے واقعات اور ان میں ملوث افراد کے خلاف تحقیق کررہا تھا۔
ظاہر ہے یہ ایسا واقعہ تھا جس کے بعد تشدد میں اضافہ ہوگیا۔ ملک کے مختلف حصوں میں جماعت اسلامی کے حامیوں نے حکم راں جماعت کے حامیوں پر حملے کیے اور ہندو اقلیت کو بھی نشانہ بنایا۔ ان واقعات میں املاک تباہ ہوئیں، گھر اور دکانیں جلادی گئیں۔ ہندوئوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بنگلادیش کے قیام کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ وہ شروع سے ہی بنگلادیش کی موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے حامی ہیں۔
عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد جماعت اسلامی کے ایک راہ نما مقبول احمد نے ایک بیان میں کہا:''اس قتل کا بدلہ اس طرح لیا جائے کہ بنگلادیش میں اسلام نافذ کیا جائے گا۔ اس ملک پر عبدالقادر ملا کے خون کے دھبے لگ گئے ہیں جو اسلام کے نفاذ سے ہی صاف ہوسکیں گے۔''
دوسری جانب عبدالقادر ملا کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ملا کو سنگین جرائم پر سزائے موت دی گئی ہے اور یہ کہ اس سزا کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بنگلادیش کا یہ کہنا ہے کہ نو ماہ پر محیط اس جنگ آزادی کے دوران پاکستانی فوجیوں نے کم از کم تین ملین افراد کو ہلاک کیا اور دو لاکھ خواتین کی آبرو ریزی کی۔
اس کیس نے پورے ملک کو سیاسی طور پر عجیب سی اتھل پتھل میں مبتلا کردیا ہے۔ ویسے بھی جن لوگوں کو اس طرح کے کیسز میں مقدمات کا سامنا ہے، ان کا تعلق بنگلادیش کی حزب اختلاف سے ہے اور عبدالقادر ملا جماعت اسلامی ایک اہم ممبر تھے اور اس طرح اس جماعت کو اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے سے روکا گیا ہے۔ مگر اس گروپ کا بنگلادیش کی اہم اپوزیشن پارٹی ''بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی'' کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
جماعت اسلامی کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ بنیاد پرستوں کا گروپ ہے جس کے لیے ایک سیکولر ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ویسے تو بنگلادیش میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن یہاں زیادہ تر سیکولر قوانین چلتے ہیں۔
اسپیشل ٹریبیونل نے عبدالقادر ملا کو ایک طالب علم اور 11افراد پر مشتمل ایک فیملی کی ہلاکت کا مجرم قرار دیا تھا۔ ملا پر یہ الزام بھی تھا کہ انہوں نے دوران جنگ پاکستانی فوج کی مدد کی جس نے ملا کی مدد سے 369افراد کو قتل کیا۔ملا کی سزائے موت پر عمل درآمد نے بنگلادیش میں اور بھی افراتفری پھیلا دی ہے، جب کہ یہ ملک پہلے ہی سیاسی طور پر کشیدہ صورت حال میں مبتلا تھا۔ حزب اختلاف مسلسل پرتشدد احتجاجی مظاہرے کررہی ہے اور ایک آزاد نگراں حکومت کے قیام کا مطالبہ کررہی ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ 5جنوری کو ہونے والے عام انتخابات ایک غیر جانب دار نگراں حکومت کے تحت کرائے جائیں۔
لیکن بنگلادیش کی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کردیا، جس کے بعد ایک اپوزیشن الائنس نے جس کی قیادت سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کررہی ہیں، انتخابات کے بائیکاٹ کا پلان بنایا ہے۔ اب بنگلادیش میں انتخابات ہوسکیں گے یا نہیں، یہ بھی ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔
بنگلادیش میں پرتشدد فسادات کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب 28 فروری 2013کو دلاور حسین سعیدی کو موت کی سزا دینے کا اعلان ہوا تھا۔ سعیدی بنگلادیش کی جماعت اسلامی کے ایک اہم راہ نما تھے۔ ان پر قتل، آتش زنی، لوٹ مار، عصمت دری اور غیرمسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کے الزامات تھے جن کا ارتکاب ٹریبیونل کے بقول انہوں نے بنگلادیش کی جنگ آزادی یا 1971 کی جنگ میں کیا تھا۔
انٹرنیشنل کرائمز ٹری بیونل(ICT) کے اس فیصلے کے فوری بعد ہی جماعت اسلامی کے حامیوں اور اس جماعت کے اسٹوڈنٹ ونگ ''اسلامی چھاترا شبر'' نے ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے کرنے شروع کردیے۔ حکومتی حلقے ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مخالفین کے علاوہ پولیس اور اقلیتوں پر حملے کیے، مندر نذر آتش کیے، کاروں اور گاڑیوں کو جلایا اور ملک بھر میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی عبادت گاہوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ جس دن یہ فیصلہ آیا تھا، اس دن قانون نافذ کرنے والے اداروں اور جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کے درمیان خوف ناک تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں لگ بھگ 40افراد اپنی جانوں سے گئے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق زیادہ اموات سیکیوریٹی فورسز کی وجہ سے ہوئیں جنہوں نے طلبہ کے خلاف کھل کر اسلحہ استعمال کیا۔ تاہم اس تصادم میں کچھ پولیس والے مارے گئے اور کچھ زخمی ہوئے۔ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کا یہ احتجاج کئی روز تک جاری رہا۔ تشدد کے ارتکاب پر 98,000 افراد پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
جماعت اسلامی نے اس فیصلے کے خلاف 3مارچ کو48 گھنٹے کی ملک گیر عام ہڑتال کا اعلان کیا۔ اس ہڑتال میں جماعت کا ساتھ اس کی اتحادی جماعت بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی نے بھی دیا، جس کے نتیجے میں ملک میں ساری تجارتی، سماجی، کاروباری، تعلیمی اور دیگر سرگرمیاں ماند پڑگئیں۔
اس کے بعد نیشلسٹ پارٹی نے 5مارچ کو ایک روزہ ہڑتال کی کال بھی دی۔ اس ہڑتال کے دوران پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لیے بنگلادیش کی حکومت نے دس اضلاع میں دفعہ 144نافذ کردی یا کرفیو لگادیا اور ناخوش گوار واقعات سے نمٹنے کے لیے ''بارڈر گارڈ بنگلادیش'' کی خدمات حاصل کرلیں۔
بنگلادیش کی صورت حال جس طرح بگڑ رہی تھی اس کے نتیجے میں پرتشدد واقعات مسلسل رونما ہورہے تھے۔ ملک بھر میں ٹرینوں اور بسوں کو نذر آتش کیا جاتا رہا اور قیمتی املاک تباہ ہوتی رہیں۔ ان میں عام افراد بھی مررہے تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کے نوجوان بھی۔ایک طرف حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت پر الزام لگارہی تھیں کہ وہ عسکری قوت سے لوگوں کی آواز دبانے کی کوشش کررہی ہے اور دوسری جانب حکومت بنگلادیش کا یہ موقف تھا کہ پرتشدد واقعات سے نمٹنے اور عام لوگوں کی جان و مال کو بچانے کے لیے وہ ہر ممکن اقدام اٹھائے گی۔
بنگلادیش کی سابق وزیراعظم حکومت کے اقدامات کو وحشیانہ قرار دے رہی تھیں اور ان کی ہر سطح پر مذمت کررہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کے نام پر حکومت بنگلا دیش اپنی مخالف جماعتوں کو سرے سے مٹاڈالنا چاہتی ہے۔
بنگلا دیش میں گذشتہ سال پیدا ہونے والے حالات نے ملک کی معاشی حالت مزید ابتر کردی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کار اور خاص طور سے پاکستانی سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ آگے چل کر حالات کیا رخ اختیار کریں گے اور یہ ان کے سرمائے کا کیا ہوگا۔
پھر بنگلادیش کی حکومت کے حامیوں اور حکومت نواز جماعتوں نے پاکستانی سفارت خانے کے سامنے مسلسل مظاہرے کرنے شروع کردیے اور پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا بھی شروع کردیا۔دوسری جانب عالمی برادری نے بنگلادیش میں انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا۔ہیومن رائٹس واچ نے حکومت بنگلادیش اور جماعت اسلامی دونوں پر زور دیا کہ وہ صورت حال پر قابو پانے اور امن و امان کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔
اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی فیصلے یا اقدام پر احتجاج کرنا عام لوگوں یا جماعتوں کا حق ہے، مگر یہ احتجاج پرامن ہونا چاہیے۔ دوسری طرف حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ احتجاج کو کچلنے کے لیے ایسے طریقے استعمال نہ کرے جن سے انسانی حقوق پامال ہوتے ہوں۔
بنگلادیش میں برطانوی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ بنگلادیش کی موجودہ صورت حال عالمی برادری کو ایک منفی پیغام دے رہی ہے۔ اگر لوگوں کی جان و مال اسی طرح غیر محفوظ رہی تو غیرملکی سرمایہ کار اس ملک سے مایوس ہوسکتے ہیں۔ عالمی برادری بنگلادیش میں سرمایہ کاری میں اپنی دل چسپی کم کرسکتی ہے۔
امریکا نے بھی بنگلادیش کی موجودہ صورت حال کو سیاسی عدم استحکام سے تعبیر کیا اور عام لوگوں کے گھروں، مقدس مقامات اور اقلیتوں پر حملوں کو تشویش ناک قرار دیا۔ امریکا نے بنگلادیش کی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
بنگلادیش کی آبادی کا بڑا حصہ (لگ بھگ 80فی صد) دیہی علاقوں میں رہتا ہے۔ متعدد افراد دور دراز دیہات میں رہتے ہیں، جہاں سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے، اس کے بعد تعلیمی اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کی کمی، سڑکوں اور بازاروں تک رسائی کی کمی جیسی مشکلات الگ ہیں۔
مختلف ادوار میں مختلف سیاسی حکومتوں نے اس کی ترقی اور خوش حالی کے لیے کوششیں کیں، مگر سیاسی عدم استحکام، دائمی غربت اور قدرتی آفات اس قوم کے لیے بہت بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ معاشی تجزیہ نگار یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ گذشتہ سال بنگلادیش میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ اب تک ہورہا ہے، اس کے بعد یہ ملک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا اور اسی مقام پر کھڑا ہوگا جہاں اپنے قیام سے پہلے تھا۔