پاکستانی معیشت کا کمال روپیہ ٹکے سیر کر دیا

پاکستان جیسے ملک میںصاحب ثروت افراد پر ٹیکس دینے کادباو اب بھی کوئی دباؤ نہیں.

2013 میں معاشی ترقی میں گراوٹ کے باوجود افراط زر میں دوبارہ اضافہ ہوا. فوٹو فائل

سال 2013 میں پاکستانی معیشت کے تناظر میں ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا جائزہ لیں تو یہ اب بھی قرضوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے، اب بھی پرانے قرضے واپس کرنے کے لیے مسلسل نئے قرضوں کی ضرورت رہتی ہے۔

حکومت اس حوالے سے جی ڈی پی اور قرضوں کے تناسب کے اعداد و شمار دکھا کر یہ ثابت کرتی تو رہتی ہے کہ ایسا نہیں ہوا لیکن معیشت جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہاں یہ اعداد و شماردرست عکاسی نہیں کرتے ۔ 4 فروری2013 کو جاری کردہ قرضوں کے بارے میں پالیسی بیان کی روشنی میں قرضوں کی ادائی کو ٹیکسوں کی آمدن، غیر ملکی زر مبادلہ کی آمدن اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کے تناسب کے طور پر بہتر انداز میں دیکھا جا سکتا ہے مگر حکومت کے اندرونی قرضوں میں ایک سال کے دوران ہی بہت بڑا اضافہ ہو چکا ہے۔ جو قرضے 15دسمبر 2012 تک 12,600ارب روپے تک پہنچ چکے تھے، وہ دوگنا ہوگئے۔ گزشتہ سال جو قرضے 6,370ارب روپے تھے۔ فروری 2013ء میں 15کھرب روپے سے بھی زیادہ ہوچکے تھے۔قرضوں کا بوجھ عام آدمی کے کندھوں پر ہے اور اس کی خون پسینے کی کمائی کو بٍالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے چھین لیا جاتا ہے۔پیٹرول اور بجلی سمیت ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز پر ٹیکس بڑھایا جارہا ہے جبکہ دولت مند افراد سے براہ راست ٹیکس وصول کرنے کے اہداف میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ دولت مند افراد جو دونوں ہاتھوں سے غریب عوام کا خون چوس رہے ہیںاور دوسری جانب پاکستان جیسے ملک میںصاحب ثروت افراد پر ٹیکس دینے کادباو اب بھی کوئی دباؤ نہیں۔ خود سرمایہ داری کے سنجیدہ ماہرین اس نظام کی موت کا اعلان کرتے نظرآ رہے ہیں۔

آئی ایم ایف کے ایک اہل جیفری فرانکس اس صورت حال پر کچھ یوںکہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستان نے نئے قرضے کے لیے درخواست دی تو اس سے پہلے اس کو معیشت کے حوالے سے سخت اقدامات کرنے ہوں گے، جس میںبہت سی سب سڈی کا خاتمہ اور نئے ٹیکسوں کا نفاذ شامل ہو گا۔ نئے قرضے کا اہل بننے کے لیے بجٹ خسارے کو 7 یا 8 فی صد کی بجائے جی ڈی پی کے 3.5 فی صد تک لانا ہو گا، جس کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ ضروری ہو گا۔ جس سے بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

دیکھا جائے تو سال 2013 میںایک اور مسئلہ بھی درپیش رہا کہ معاشی ترقی میں گراوٹ کے باوجود افراط زر میں دوبارہ اضافہ ہوا، سرکاری طور پر یہ 8 فی صد سے تجاوز کرچکا تھا ۔اس دوران آئی ایم ایف کو قسط کی ادائی کے باعث روپے کی قدر پر بھی شدید دباؤ رہا، جس کے باعث افراط زر میں تیزی آئی۔ اسٹیٹ بینک شرح سود میں اضافے پر مجبور ہوا جس سے متوقع معاشی ترقی کے اہداف بھی پورے کرنا مشکل ہوگئے۔ افراط زر میں کمی کے باوجود منہگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اس صورت حال سے واضح ہے کہ آنے والے عرصے میں معاشی بحران کم ہونے کے امکانات نہیں۔ کرنسی ماہرین کے مطابق گزشتہ چار سال میںروپے کی گرتی ہوئی قدر کے باعث پاکستان کو 35 فی صد زیادہ ادائیاں کرنی پڑیں گی۔ 2008 میں پاکستان نے جب قرضہ لیا تو ڈالر 79 روپے کا تھا جو اب ایک سو دس روپے تک پہنچ کر واپس 106 روپے تک آ چکا ہے لیکن کہنے والے اس کو عارضی قرار دے رہے ہیں۔ اس عمل سے قرضوں کا بوجھ کم ضرور ہوا ہے لیکن حاصل کردہ قرضے میں سے ابھی 5.42 ارب ڈالر 2014-15 تک 4 مزید قسطوں میں واپس کرنے ہیں۔ پاکستان اس قرضے پر 2.5 فی صد سود بھی ہر سال ادا کرے گا، روپے کی قدر میں گراوٹ سے قرضے میں5.5 فی صد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔



آئی ایم ایف ،تارکین وطن او ر ملکی معیشت: 2013 میں آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا اور عوام کا خون نچوڑنے کی شرم ناک شرطوں کی تعمیل بھی کی گئی اس کے باوجود مسائل حل تو کیا ہوتے، ان میںہول ناک اضافہ ہوا، قسط کی ادائی کے لیے مزید قرضے کا ڈول ڈالا جائے گا جب کہ آئی ایم ایف نے برملا کہا ہے کہ پاکستان کا قرضہ کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا اور اگر انہیں قرضہ اتارنے کے لیے نیا قرضہ درکار ہوا تو انہیں ہماری پالیسیوں پر من و عن عمل کرنا ہو گا۔

پاکستان نے 2013 کے پہلے چھے ماہ میں آئی ایم ایف کو 1.6ارب ڈالر کی ادائی کی، جس سے زرمبادلہ کے ''ذخائر'' بری طرح متاثر ہوئے جو پہلے ہی بہ قدر اشک بلبل یعنی 13.47 ارب ڈالر تھے، اُدھر یکم فروری تک اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 8.586 ارب ڈالر تھے جن میں ساٹھ دن بھی پورے کرلینا بڑی بات تھی۔ 2013 کے اواخر تک روپے کا بھرکس یوں نکلا کہ ٹکے سیر ہو کر رہ گیا تھا ۔ آئی ایم ایف ٹیم کے رکن جیفری فرانکس نے انتہائی خوف ناک بات کہی کہ پاکستان کی کرنسی کی قدر کو موجودہ سے پانچ فی صد مزید کم ہونا چاہیے کیوںکہ یہ ہی اس کا اصل مقام ہے، ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ روپے کی موجودہ قدر مصنوعی ہے۔ ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر کم از کم 12سے 14 ارب ڈالر تک ہونے چاہیں لیکن اس وقت وہ 8 ارب ڈالر تھے، یہ رقم مزید کم ہوجاتی لیکن دسمبر 2012 میں امریکا سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 1.8ارب ڈالر کی امداد اور بیرونی ممالک میں تارکین وطن کی بھیجی گئی رقوم کے باعث غیر ملکی زر مبادلہ کو سہارا مل گیا تھا لیکن یاد رہے کہ آنے والے دنوں میں یورپ کا معاشی زوال بڑھے گا سو تارکین وطن پر ہی تکیہ کیے رکھنا زیادہ مناسب نہ ہوگا۔

ذہن میں رہے کہ پاکستان پر بیرونی قرضے کا حجم ساٹھ ارب ڈالرز سے اوپر جا چکا ہے۔ یہ ایک دل چسپ امر ہے کہ امریکا ہمارے ہاں بڑا ہدف نفرت ہے اور وہاں سے ہمارے تارکین ایک ارب ستر کروڑ ڈالر سالانہ بھیجتے ہیں جو ہمیں خاصی تقویت عطا کرتا ہے، اسی طرح برطانیہ سے ہمارے ہم وطن ایک ارب تیرہ کروڑ ڈالرز دیتے ہیں یوں ہمارے پردیسی بھائی ہمیں مجموعی طور پرسالانہ نو، دس ارب ڈالر عطا کرتے ہیں۔ موجودہ مالی سال میں اب تک نو ارب ستر کروڑ ڈالر آچکے ہیں، سعودی عرب سے ہم وطنوں نے سب سے زیادہ نو ارب ڈالر اور دوبئی، شارجہ، ابوظہبی وغیرہ سے ان تین برسوں میں آٹھ ارب ڈالر بھیجے، پانچ ارب ڈالرز کا زرمبادلہ بحرین، کویت، قطر اور اومان سے آیا۔ یورپی یونین سے اس مد میں سب سے کم زرمبادلہ آیا، معلوم پڑتا ہے وہاں پاکستانیوں کی تعداد کم ہے یا انہوں نے وطن سے رشتے قطع کر لیے ہیں۔ یورپی یونین کے دس ممالک جرمنی، فرانس، نیدر لینڈ، سپین، اٹلی، یونان، سویڈن، ڈنمارک، آئرلینڈ اور بلیجیم میں رہنے والے پاکستانیوں نے تین سال میں صرف ایک ارب ڈالر بھیجے ہیں۔ جرمنی سے اس مد میں تین برس میں سب سے زیادہ رقم یعنی تین سو چالیس ملین ڈالر ملے۔




معاشی نمو کے مقررہ ہدف میں کمی:پلاننگ کمیشن کے چیف اکانومسٹ نے مالی سال 2013-14 میں معاشی نمو کے مقررہ 4.4 فی صد ہدف میں کمی پرزور دیا تھا۔ کمیشن نے کاروبارکے لیے غیریقینی ملکی ماحول کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے سرمایہ کاری میں مسلسل کمی کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ توانائی بحران اورکرپشن معیشت کے لیے بڑا چیلنج رہیں گے۔ سال 2013 میں بھی پاکستان معاشی نمو کا ہدف حاصل نہ کر پایا، یہ ہدف کے حصول میں ناکامی کا مسلسل پانچواں سال ہے۔

ناکام ترین معاشی سال کی پیش گوئی:معاشی تجزیہ کاروں نے سال 2013 کے آغاز میں خدشہ ظاہر کیاتھا کہ آئندہ مالی سال حکومت کا ناکام ترین معاشی سال ہوگا جس پر (ن) لیگ کاجواب تھا کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیںگے لیکن ہمارے ہاں سیاست خواب فروشی کا کاروبارہی تو ہے لہٰذاخدشات سچ ثابت ہوئے اور بجٹ کے اہداف ہماری خستہ پائی کا منہ چڑا رہے ہیں، مالی خسارہ صرف آٹھ ماہ میں ہی 880 ارب سے سے بڑھ کر 14 کھرب روپے کے آس پاس ہے جب کہ حکومت اس کے 11 کھرب سے آگے نہ بڑھنے کے دعوے فرماتی تھی۔ ٹیکس آمدنی کا ہدف ایف بی آر کے بس سے باہر ہو چکا تھا، خد شے کے عین مطابق نان ٹیکس آمدنی میں بھی200 ارب روپے حاصل نہیں ہوسکے۔ معیشت دان مالی سال 2014 میں بھی کسی بہتری کا امکان ظاہر نہیں کر رہے، ان کا کہنا ہے کہ منہگائی کی شرح 9.5 فی صد تک جائے گی۔

رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ میں پورٹ فولیو انویسٹمنٹ میں اضافے کے باوجود فنانشل اکاؤنٹ خسارے میں رہا، جس کی بڑی وجہ بیرونی سرمایہ کاری کا فقدان تھا۔ اس دوران روپے کی قدر میں 5 فی صد تک کمی ہوئی، کم زور برآمدات، سست رو معاشی نمو اور خام تیل کی مستحکم قیمتوں کے باعث آئندہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے0.9 فی صد تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیاتھا، جس سے کم زور کیپیٹل انفلوز اور آئی ایم ایف سمیت قرض ادائیوں کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر اور ایکسچینج ریٹ پر دباؤ برقرار رہا۔

مالی سال 2013 کے بجٹ کے ریونیو اہداف حاصل نہ ہونے کا امکان، مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس وصولیوں میں صرف 12 فی صد اضافہ، جوبجٹ اہداف حاصل کرنے کے لیے درکار 23.7 فی صد کے اضافے سے کہیں کم تھا، سود کی ادائیاں، سب سڈی اورپاور سیکٹر کے واجبات مزید بڑھنے کے امکانات، سب سڈیز کا 120ارب روپے کے ہدف سے بڑھ کر 200 ارب روپے تک پہنچنا، بجٹ خسارہ پہلی شش ماہی میں ہی جی ڈی پی کا 2.5 فی صد ہونا، مالیاتی توازن کے سہ ماہی رجحانات کے پیش نظر رواں سال کے اختتام تک بجٹ خسارہ 4.7 فی صد کے ہدف سے تجاوز کرتے ہوئے 7 سے 7.5 فی صد تک پہنچ جانا، جس میں پاور سیکٹر کے بقایاجات شامل نہیں تھے، یہ وہ صداقت تھی جو غیروں نے بتائی لیکن ''مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے''۔



حکومت نے کئی بار اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور دوسری سہ ماہی میںمرکزی بینک سے بجٹ اخراجات کے لیے 183 ارب روپے کا قرض لیا جب کہ کمرشل بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرضے لینے کے باعث مرکزی بینک کو بینکاری نظام میں ہفتہ وار بنیادوں پر سرمائے کی فراہمی کرنا پڑ ی، حالاں کہ افراط زر سے نمٹنے کے لیے اس رجحان کو روکنا ضروری تھا۔ آخر کار سال کے آخر تک ہر پاکستانی کو 96 ہزار روپے کا مقروض کردیاگیا، چال یہ ہی بے ڈھنگی رہی تو نئے سال میں یہ قرض ایک لاکھ سے تجاوز کر جائے گا۔

معاشی ابتری کا منظرنامہ:اسٹیٹ بنک کی مانیٹری پالیسی کی تازہ رپورٹ بھی، بہ دستور معاشی ابتری کی تصویر پیش کرتی ہے جس میں یہ پیشن گوئی ہے کہ بعض حکومتی اقدامات کے نتیجے میں منہگائی میں تین فی صد سے زیادہ اضافہ ہوگا، اگرچہ موجودہ حکومت نے بعض معاشی اصلاحات کی ہیں مگر بامعنی ٹیکس اصلاحات کا اب بھی فقدان ہے، بنک نے شرح سود میں نصف فی صد اضافہ کرکے نو سے 9.5 فی صد کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود رواں سال کامالی خسارہ 6.3 فی صد رہے گا۔ گورنراسٹیٹ بنک یاسین ملک کی مالیاتی رپورٹ بھی یاس انگیز تھی۔ بنک کی مانیٹری پالیسی بیان میں کہاگیا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی ذمے دار سابق حکومت ہے، رواں سال منہگائی میں مزید تین فی صد اضافہ ہوگا، توانائی کے بحران سے منہگائی مزید بڑھے گی۔ بیرونی ادائیگیوں پر دبائو رہے گا۔

نیٹو سپلائی کی بندش سے: نیٹو سپلائی کی بندش سے ملکی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوئے۔ امریکا کی جانب سے خود سپلائی لائن کو معطل کرنا خطے میں مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں کی طرف بھی ایک اشارہ تھا۔ پاکستان کے راستے افغانستان سے سامان کی ترسیل معطل کیے جانے کے بعد پاکستان کی روزانہ لاکھوں ڈالرز کی آمدن رک گئی۔ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر بات بڑھ گئی تو امریکا کولیشین سپورٹ فنڈ کی رقم اور کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کو ملنے والی لاکھوں ڈالر امداد کی فراہمی پر بھی نظر ثانی کر سکتا ہے، مجموعی طور پر چوبیس ہزار کنٹینرز اور بیس ہزار گاڑیاں واپس جانی ہیں، طور خم اور چمن کے راستے سے اور امریکا کا ٹرانسپورٹیشن کا جو کل بجٹ ہے وہ سات ارب ڈالرز ہے، یہ رقم بھی ڈوبتی نظر آ رہی ہے۔
Load Next Story