جو ہے وہ ہوگا نہ کَل کلُ مَن عَلیھا فان
وہ جو 2013 میں ہم سے بچھڑ گئے
ہر برس چاروں موسموں کے ساتھ اجل کی ظالم رُت بھی آتی ہے، جس کی سرد ہوائیں زندگی کے کتنے برہمن کو یہ کہتے کیا تکلف کہ ''یہ سال اچھا ہے'' بھگتان تو ادا کرنا پڑتا ہے غالب کو؛ سال کے آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ منافع کی شرح، خسارے کے مقابل بہت کم ہے۔
حسبِ گذشتہ، سالِ رفتہ بھی ہم سے بہت کچھ ہتھیا گیا ہے۔ وہ عارض و لب جو رونقِ ہستی تھے، آج تہِ خاک ہیں ۔۔۔۔۔ کُلُّ مَن عَلَیھا فَان۔ آئیے ملک اور دنیا کی ان نام ورترین شخصیات کو یاد کریں جو پچھلے سال اس دیس جابسیں جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔
قاضی حسین احمد ( 12جنوری 1938 / 6 جنوری 2013)
قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے 1987 سے 2007 تک امیر رہے۔ انہیں مسلسل پانچ بار امیر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے، پانچویں بار 2008 میں انہوں نے امارت کا انتخاب لڑنے سے انکار کر دیا تھا جس پر سید منور حسن کو اس عہدے کے لیے منتخب کیا گیا۔ وہ 12 جنوری 1938 کو نوشہرہ (کاکا صاحب) کے ایک عالم فاضل قاضی گھرانے میں مولانا قاضی محمد عبدالرب کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ پشاور یونی ورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کے بعد سیدو کالج میں لیکچرار ہو گئے۔ تاہم تین ہی برس بعد ملازمت ترک کر دی اور اپنا کاروبار شروع کیا اور ذہانت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ جلد ہی صوبائی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے وائس پریذیڈنٹ منتخب ہو گئے۔ 1970 میں جماعت کے رکن بنے، اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بہ دولت1987 میں میاں طفیل محمد صاحب کے بعد امارت کے لیے منتخب ہوئے۔ 1986 میں پہلی بار سینیٹر ہوئے۔ وہ انتہائی فعال سیاست داں تھے، جماعت اسلامی کو اس قدر توانا اور سریع الحرکت کارکن ان سے قبل اور تاحال نصیب نہیں ہوا۔ انہوں نے جماعت میں کشادگی پیدا کی اور رکنیت کے کڑی شرائط اور اصولوں میں نرمی پیدا کی جس سے جماعت اسلامی کی رکنیت میں زبردست اضافہ ہوا۔ انہوں نے پاسبان اور شباب ملی جیسی تنظیموں کی بنیاد بھی رکھی۔
ڈاکٹرمحمد علی صدیقی (7 مارچ 1938/9 جنوری 2013)
محمد علی صدیقی اعلیٰ درجے کے نقاد تھے۔ امروہہ (بھارت) میں پیدا ہوئے، تعلیم و تربیت کراچی میں ہوئی۔ 1992 میں مطالعۂ پاکستان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور 2003 میں اسی موضوع پر ڈی لٹ کیا۔ وہ اس موضوع پر ڈاکٹریٹ اور ڈی لٹ کرنے والی پہلی شخصیت تھے۔ متعدد ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کے رکن تھے۔ اردو کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، فارسی، پنجابی، سندھی اور سرائیکی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ جامعۂ کراچی میں پڑھاتے رہے، دیگر متعدد مؤقر اداروں میں بھی خدمات انجام دیں۔ سو سے زیادہ تحقیقی مضامین اور 17 تصانیف ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ 1976 میں ''توازن'' اور 1979 میں ''کروس کی سرگذشت'' سال کی بہترین کتابیں قرار پائیں۔ 2003 میں ادب کے لیے ان کی خدمات پر انہیں صدارتی ایوارڈ حسن کارکردگی پیش کیا گیا۔ لندن، امریکا، کینیڈا اور ناروے کی یونی ورسٹیوں میں لیکچر دیے۔ فیض احمد فیض انہیں اردو کے واحد تخلیقی نقاد قرار دیتے تھے۔
احمد ہمیش (یکم جولائی 1937/8 ستمبر2013)
احمد ہمیش اترپردیش کے ضلع بلیا کے گائوں بانسپار میں پیدا ہوئے۔ سوتیلی والدہ کے ستائے ہوئے تھے لہٰذا اٹھارہ سال کی عمر (1955) میں لاہور ہجرت کی۔ 1958 میں ادب سے رشتہ قائم ہوا۔ 1970 میں کراچی منتقل ہوئے، ریڈیو پاکستان کے اردو اور ہندی کے شعبے سے منسلک ہوئے، سنسکرت پر بھی عبور حاصل تھا۔ 1990 میں معروف و مقبول رسالہ ''تشکیل'' جاری کیا۔ اپنے افسانے ''مکھی'' سے برصغیر میں شہرت حاصل کی۔ اردو میں نثری نظم کی بناء ڈالنے کے دعوے دار تھے۔ افسانوں کے دو مجموعے ''مکھی (1968)'' اور ''کہانی مجھے لکھتی ہے (1988)'' اور نظموں کا مجموعہ ''ہمیش نظمیں (2005)'' ادب کے لیے ان کی سوغاتیں ہیں۔ سنسکرت کے کئی ناٹک بھی ترجمہ کیے۔ ان کے اسلوب پر علامت نگاری اور تجریدیت غالب تھی۔
مہناز بیگم: (1958 / 19جنوری 2013)
سال 2013 کا آغاز پاکستان میں موسیقی پر بھاری رہا۔ 19 تاریخ کو یہ خبر بداثر آئی کہ انتہائی باصلاحیت مغنیہ مہناز بیگم اب ہم میں نہیں رہیں۔ وہ ایک عرصہ سے علیل تھیں اور امریکا میں اپنے بھائی کے پاس مقیم تھیں، وہیں ان کا علاج ہو رہا تھا۔ موت سے قبل وہ دو ماہ سے کراچی میں رہائش پذیر تھیں اور علاج کا سلسلہ بہ حال کرنے کے لیے میامی (فلوریڈا) امریکا روانہ ہوئیں۔ تاہم راستے میں طبیعت خراب ہو گئی اور بحرین میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ مہناز کا اصل نام تسنیم تھا وہ برصغیر کی ممتاز و معروف مغنیہ اور سوز خواں کجن بیگم اور ایک سرکاری افسر عبداﷲ کی صاحب زادی تھیں۔ انہیں ہلکی پھلکی موسیقی کے علاوہ ٹھمری، دردرا، خیال، دھرپد سوزخوانی اور مرثیہ خوانی، نوحہ، سلام پر بھی عبور تھا۔ انہوں نے 2 ہزار سے زیادہ گانے ریکارڈ کرائے۔ آبائی تعلق لکھنؤ یا فیض آباد (یو پی) سے بتایا جاتا ہے۔
شبنم شکیل: 12 مارچ 1942 / 2 مارچ 2013)
نام ور شاعرہ اور ماہر تعلیم شبنم شکیل لاہور میں اردو کے مممتاز ادیب و محقق سید عابد علی عابد کے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی پہلی کتاب ''تنقیدی مضامین'' تھی، اس کے علاوہ ان کی شاعرکے تین مجموعے 'شب زاد'، 'اضطراب'، 'نہ قفس نہ آشیانہ'، 'تقریب کچھ تو' اور 'مسافت رائگاں تھی' شایع ہو۔ 2004میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس پیش کیا گیا اس کو علاوہ انہیں نے متعدد ایوارڈز حاصل کیے۔
ہیوگو شاویز (28 جولائی 1954۔ 5 مارچ 2013)
ہیوگو شاویز، وینزویلا کے صدر تھے۔ وہ گذشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں میں نہ صرف وینزویلا بل کہ براعظم امریکا میں بائیں بازو کے سب سے بڑے لیڈر مانے جاتے ہیں۔ 1999 میں برسرِ اقتدار آئے اور اپنی وفات تک اس عہدے کے لیے منتخب ہوتے رہے۔ وہ اپنے ملک میں بولی ویریئن انقلاب لائے، 1999 کا آئین بھی دیا۔ عملی زندگی کا آغاز فوج میں ملازمت سے کیا تاہم نامساعد ملکی حالات انہیں سیاست میں لے آئے۔ 1992 میں انہوں نے صدر کارلوس آندرے پیریز کی حکومت گرانے کی کوشش کی تاہم کام یاب نہ ہوئے اور قید ہو گئے۔ دو سال بعد رہا ہوئے تو سوشلسٹ پولیٹیکل پارٹی کی بنیاد رکھی اور 1998 میں صدر منتخب ہوگئے۔ ان کے عہد میں ملک کے ہر شعبے میں مثبت تبدیلیاں آئیں۔ انہیں امریکا کی تاریخ میں ایک اولوالعزم سیاست داں کے طور پر تادیر یاد رکھا جائے گا۔
آسیہ بیگم: (1951 / 10 مارچ 2013)
ستر اور اسی کی دہائی میں فلم بینوں کے دلوں پر راج کرنے والی اداکارہ آسیہ 1951 بھارتی پنجاب میں پیدا ہوئیں، اصل نام فردوس تھا۔ پاکستان آنے کے بعد ستر کی دہائی میں انہوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا اور جلد ہی فلمی دنیا میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ آسیہ سحرانگیز شخصیت کی مالک تھیں۔ انہوں نے ایک سو اناسی فلموں میں اپنے فن کا جادو جگایا اور ہیروں کے ایک تاجر سے شادی کرکے کینیڈا سدھار گئی تھیں۔ انہیں ان کی بے ساختہ اداکاری کے لیے یاد رکھا جائے گا۔
ایم ایم عالم (ستارۂ جرأت) (6جولائی 1935 / 6 جولائی 2013)
ایم ایم عالم ہماری تاریخ کا ایک تابندہ ستارہ 6 جولائی 2013 کو بے جان ہو گیا۔ محمد محمود عالم کا آبائی تعلق پٹنہ (بہار) سے تھا، جہاں سے ان کے آباء کلکتہ جا آباد ہوئے تھے۔ ان کی پیدائش 6 جولائی 1935 کو کلکتہ میں ہوئی۔ ایم ایم عالم نے 1952 میں ایئرفورس میں شمولیت اختیار کی۔ ایک موقع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں نے فرشتوں کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔ 1965 کی جنگ میں انہوں تیس سیکنڈ میں بھارت کے چار طیارے اور منٹ پورا ہونے سے پہلے پانچواں طیارہ مار گرایا تھا، جو جنگی ہوابازی کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ انہیں ''لٹل ڈریگن'' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
صاحبزادہ فضل کریم (1919۔15 اپریل 2013 )
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ اور مذہبی راہ نما صاحبزادہ فضل کریم 15 اپریل 2013ء پیر کو فیصل آباد میں انتقال کرگئے۔ وہ جگر کے عارضے میں مبتلا تھے۔ ان کی عمر 59 سال تھی اور وہ ایک اہم مذہبی راہ نما تصور کیے جاتے تھے۔ 24 اکتوبر 1954ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دینی علوم کے علاوہ 1987ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1987ء میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد سے اسلامک اسٹیڈیز میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور عملی زندگی کا آغاز کاروباری شخصیت کے طور پر کیا۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریر کا آغاز مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے کیا اور پارٹی کے ٹکٹ پر فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب بھی ہوئے۔ بعد میں انہوں نے جمیعت علمائے پاکستان اور پھر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ 1993 اور1997 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ فضل کریم جمیعت علمائے پاکستان کے صدر اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ صاحبزادہ فضل کریم 1993ء سے 1997ء تک پنجاب اسمبلی کے رکن جب کہ 1997ء سے 1999ء تک صوبائی وزیر بھی رہے۔ انہوں نے 2002ء میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بار کام یابی حاصل کی، پھر اسی نشست پر 2008ء میں بھی کام یاب قرار پائے۔
تاج محمد لنگاہ:(/ 1941 16اپریل 2013)
تاج محمد لنگاہ 72 برس کی ہنگامہ خیز زندگی کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے 6 اپریل کو ملتان میں انتقال کرگئے۔ وہ سرائیکی پارٹی کے سربراہ تھے۔ پنجاب کے ایک قصبہ کہروڑ پکا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت سے کیا۔ 70 کے انتخابات میں وہاڑی سے حصہ لیا مگر میاں ممتاز دولتانہ کے مقابلے میں کام یاب نہ ہو سکے۔ ان کا شمار ترقی پسند وکلا میں ہوتا تھا۔ ان کی زندگی کٹھن جدوجہد سے عبارت ہے۔
مارگریٹ تھیچر (13 اکتوبر 1925 / 8 اپریل 2013)
مارگریٹ ہلڈا تھیچر برطانیہ کی وزارتِ عظمیٰ پر 4 مئی 1979 سے 28 نومبر 1990 تک فائز رہیں۔ وہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بڑے سخت حالات سے کام یابی کے ساتھ گزریں، اس حوالے سے انہیں خاتون آہن (Iron Lady) بھی کہا جاتا ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے کیمسٹ تھیں، بعد میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ ان ہی کے دور میں برطانیہ نے 1982 میں جزیرۂ فاک لینڈ کی ملکیت پر ارجنٹائن سے جنگ لڑی تھی۔
عباس اطہر: (12 اپریل 1939 / 6 مئی 2013)
سید عباس اطہر المعروف شاہ جی نے بھرپور صحافتی زندگی گزاری اور نصف صدی تک صحافت میں اپنی غیر معمولی مہارت اور قابلیت کی بہ دولت نام کمایا۔ اخباری سرخیوں میں جدت پیدا کی۔ ان کی ''اُدھر تم اِدھر ہم'' والی سرخی گو متنازعہ رہی۔ تاہم اس نے انہیں شہرت کی بلندیوں پرپہنچا دیا۔ عباس اطہر 12 اپریل 1939 کو مغل پورہ لاہور کے قریب تاجپورہ گائوں غازی آباد میں پیدا ہوئے۔ وہ بلند مرتبہ صحافی کے علاوہ قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ ادبی حلقوں میں وہ ایک عرصہ شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے رہے تاہم بعد میں صحافی عباس اطہر، شاعر عباس اطہر پر غالب آ گیا۔ وہ 2006 میں روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہوئے۔ ''کنکریاں'' کے عنوان سے ان کے کالموں نے بہت شہرت حاصل کی۔
شمشاد بیگم: (14 اپریل 1919 / 23 اپریل 2013)
شمشاد بیگم نے گانے کا آغاز گذشتہ صدی کی تیسری دہائی میں کیا تھا، یوں مانا جاتا ہے کہ ان کی آواز کے جادو نے برصغیر کی فلمی صنعت میں ناطق فلموں کے آغاز ہی سے سننے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور یہ جادو آج بھی، جب وہ دنیا میں نہیں ہیں، جاری ہے۔ وہ امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اردو، پنجابی ، ہندی، تامل، گجراتی، مراٹھی اور بنگالی میں گایا۔ ان کی آواز بہت توانا تھی، ایک زمانے میں لتا جی بھی انہیں کاپی کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔
ریاض الرحمن ساغر: (2 جون 2013)
ریاض الرحمٰن ساغر 2 جون کو 72 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے، وہ کینسر میں مبتلا تھے۔ بہ طور فلمی شاعر انہوں نے 2 ہزار سے زیادہ گانے لگے جن میں سے بے شمار گانے زبان زدعام ہوئے۔ ''کبھی تو نظر ملائو''، ''چیف صاحب''، ''سرگم''، ''گھونگٹ'' ، ''انتہا''، ''محبتاں سچیاں''، ''سمجھوتہ ایکسپریس''، ''عشقِ خدا'' وغیرہ کے گانوں نے خاصی شہرت حاصل کی۔ مرحوم انتہائی زود نویس اور بسیار گو تھے، بہ طور صحافی ایک عرصے تک منظوم کالم بھی لکھتے رہے۔ فلموں کے علاوہ انہوں نے غیر فلمی گیت بھی لکھے۔ دو سفرنامے ''کیمرا، قلم اور دنیا'' اور ''لاہور تا بومبے براستہ دہلی'' ان کی یادگار ہیں۔
جیا خان : (1919۔3 جون 2013 )
بیتے برس بھارتی فلموں کی جواں سالہ خوب رو اداکارہ جیا خان نے خودکُشی کر لی۔ جیا خان کی لاش ان کے فلیٹ میں پنکھے سے لٹکتی پائی گئی۔ جیا کا اصل نام نفیسہ خان تھا۔ وہ نیویارک، امریکا میں پیدا ہوئیں، لندن میں پلی بڑھیں۔ کیریر کا آغاز 2007ء میں رام گوپال ورما کی متنازع فلم ''نشبد'' سے کیا۔ مدمقابل امیتابھ بچن تھے۔ خبروں کے مطابق وہ اداکار، ادیتا پنچولی کے بیٹے، سورج پنچولی کی محبت میں مبتلا تھیں، جس کی ناکامی نے اْنہیں توڑ کر رکھ دیا اور موت کی سمت دھکیل دیا۔
نشیلا (شوکت علی: ( 1948 / 23 جون 2013)
کامیڈین نشیلا طویل علالت کے بعد وفات پا گئے۔ وہ ایک عرصے سے شوگر اور گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ ان کا اصل نام شوکت علی تھا، وہ اداکاری کے ساتھ گلوکاری بھی کرتے تھے۔ ان کے کریڈٹ پر ''شرطیہ مِٹھے''، ''بشیرا اِن ٹربل'' اور ''دکھ سکھ'' سمیت ان گنت اسٹیج ڈرامے ہیں۔ انہوں نے چالیس سال فن کی خدمت کی۔
پران: (1919۔12جولائی 2013 )
گزرے برس ہندوستانی فلموں کے اداکار پران بھی طویل علالت کے بعد راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کی عمر 93 برس تھی۔ انہوں نے ستّر کی دہائی میں اس وقت کے سپراسٹار امیتابھ بچن کے ساتھ کئی سپر ہٹ فلموں میں کام کیا۔ پران کو اس سال دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی علالت کے باعث وزیر اطلاعات منیش تیواڑی نے ان کے گھر جا کر انہیں ایوارڈ دیا۔ پران نے اپنا فلمی کیریر 40 کی دہائی میں شروع کیا۔ کیریر کے آغاز میں انہوں نے کچھ فلموں میں بطور ہیرو کام کیا، لیکن ان کی اصل پہچان منفی کرداروں کے ذریعے ہی بنی۔ انہوں نے اس وقت کے مشہور ہیرو راج کپور، دیو آنند اور دلیپ کمار کی کئی فلموں میں بطور ولین ناقابل فراموش کردار ادا کیے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری (26 جنوری 1926/ 3 اگست 2013)
سید دلدار علی اصل نام تھا، فتح پور (اترپردیش) میں پیدا ہوئے۔ اردو میں بہ طور ماہر لسانیات، محقق اور نقاد بہت بڑی شخصیت تسلیم کیے گئے، تخلیقی کام بھی کیا۔ غالبیات پر سند کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کا اعزاز ہے کہ وہ اردو کے پہلے ڈی لٹ ہیں۔ 30 برس جامعہ کراچی سے منسلک رہے۔ ان کی نگرانی میں بے شمار محققین نے پی ایچ ڈی کیا۔ 1985 میں اردو ڈکشنری بورڈ کے مدیراعلیٰ مقرر ہوئے۔ 1996 سے سول سروسز بورڈ حکومت سندھ کے رکن تھے۔ ان کا سب سے بڑا اعزاز اردو کے قدیم ترین مجلے ''نگار'' کی ادارت ہے، جس کی بنیاد علامہ نیاز فتح پوری نے رکھی تھی۔ دو درجن سے زیادہ انتہائی قابل قدر تصانیف ان کی یادگار ہیں۔ ان کے انتقال سے اردو ادب اپنے ایک بہت بڑے محسن سے محروم ہو گیا۔
قریش پور: ( 5 / 1932اگست 2013)
قریش پور گذشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے پی ٹی وی کا ایک بہت بڑا نام تھے، اصل نام ذوالقرنین قریشی تھا۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی گھرانا ہو جہاں قریش پور اور ان کے ساتھیوں عبیداﷲ بیگ اور افتخار عارف کا ''کسوٹی'' نہ دیکھا گیا ہو۔ یہ پروگرام اتنا مقبول رہا کہ آج تک لوگ اپنے فارغ اوقات میں اس پروگرام کی نقل کھیلتے ہیں۔ یہ تینوں حضرات خوب صورت آوازوں کے مالک تھے اور سامعین انہیں سن کر نہ صرف اپنی معلومات میں اضافہ بل کہ اپنا شین قاف بھی درست کرتے تھے۔ قریش پور اس کہکشاں کا مرکزی ستارہ ہوتے تھے۔ انہیں زبان و بیان پر حیرت انگیز دست رس تھی، حافظہ بھی غضب کا پایا تھا۔ وہ ذرائع ابلاغ کے نابغہ سمجھے جاتے تھے۔ عربی فارسی بھی روانی سے بولتے تھے۔ انہوں نے ناول اور کالم بھی لکھے۔
ڈیوڈ فراسٹ: (17 اپریل 1939 / یکم ستمبر 2013)
برطانیہ کے مشہور براڈ کاسٹر ڈیوڈ فراسٹ 74 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ڈیوڈ فراسٹ کے خاندان کے مطابق انتقال سے پہلے انہوں نے کوئین الزبتھ بحری جہاز پر اپنی آخری تقریر کی تھی، ڈیوڈ فراسٹ بہ یک وقت صحافی، کامیڈی رائٹر اور ٹی وی میزبان تھے، دنیا کے بڑے راہ نمائوں کے انٹرویو کیے۔ اپنے کیریر کے آخری دور میں انہوں نے الجزیرہ میں کام کرتے تھے۔
زبیدہ خانم:(1935 / 19 اکتوبر 2013)
زبیدہ خانم کا شمار پاکستان کی اولین پلے بیک سنگرز میں ہوتا ہے۔ زبیدہ خانم نے فلمی صنعت پر ایک دہائی راج کیا۔ 1950 کی دہائی اور 1960 کے اوائل کے برسوں میں شاید ہی کوئی فلم خاص طور پر پنجابی فلم ہو، جس میں زبیدہ خانم کی آواز شامل نہ ہو یوں انہوں نے اڑھائی سو سے زیادہ گانے ریکارڈ کرائے۔ فلمی صنعت میں ان کا داخلہ 1951 میں فلم ''بلو'' سے ہوا تاہم 1953 میں فلم ''شہری بابو'' کے گانوں سے انہیں شہرت ملی۔ زبیدہ 1935 میں امرتسر میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق موسیقی کے کسی روایتی گھرانے سے نہیں تھا۔ انہوں نے گانے کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل نہیںکی تھی۔ زبیدہ خانم نے بعض پنجابی فلموں میں اداکاری بھی کی جن میں پاٹے خان اور دلابھٹی میں شامل ہیں۔ اپنے عروج کے دور میں کیمرہ مین سید فیصل بخاری کے ساتھ شادی کی اور فلمی صنعت چھوڑ دی۔ ان کا گایا ہوا ''آئے موسم رنگیلے سہانے'' آج بھی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔
مناڈے :(یکم مئی 1919 / 24 اکتوبر 2013)
بھارت کے لیجنڈ گلوکار مناڈے طویل علالت کے بعد 94 برس کی عمر میں آںجہانی ہوئے۔ ان کا اصل نام پربودھ چندرڈے تھا۔ ہر طرح کے نغموں کو بہ آسانی گانے کا ہنر رکھنے والے مناڈے کا شمار 1950 اور 60 کی دہائی کے اہم پلے بیک سنگرز میں ہوتاہے۔ ویسے تو مناڈے نے ہر طرح کے گیت گائے لیکن ان کی وجۂ شہرت کلاسیکی گائیکی تھی۔ مناڈے 'لاگا چنری میں داغ' یا پھر 'پوچھو نہ کیسے میں نے رین بِتائی' 'اے مری زہرہ جبیں، 'تو پیار کا ساگر ہے' 'یہ رات بھیگی بھیگی' اور بے شمار گیتوں کے لیے ہمیشہ یاد رہیں گے۔ مناڈے کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے کیریر میں تین ہزار سے زیادہ گیت گائے۔1971 میں پدم شری، 2005 میں پدم بھوشن ایوارڈ اور 2007 میں انہیں سب سے ا ہم دادا صاحب پھالکے ایوارڈ پیش کیا گیا۔
بلبلِ صحرا ریشماں، ستارۂ امتیاز: ( 1947 / 3نومبر( 2013
برصغیر پاک و ہند کی معروف گلوکارہ ریشماں 67 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد وفات پا گئیں۔ وہ گلے کے کینسر کی مریضہ تھیں۔ انہیں بلبل صحرا کا خطاب دیا گیا تھا۔ ریشماں 1947 میں بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع رتن گڑھ کے ایک گائوں لوحا میں خانہ بہ دوشوں میں پیدا ہوئیں، پٹھانی بیگم اصل نام تھا، تقسیم کے بعد خاندان کے ہم راہ پاکستان آئیں، بچپن سندھ کے صوفیا کے مزاروں صوفیانہ کلام پڑھتے گزرا۔ انہوں نے موسیقی کی کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن ان کی آواز میں سروں کی خداداد کہکشاںآباد تھی۔ ریشماں کو ان کی فنی خدمات کے صلے میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی اور ستیارہ امتیاز پیش کیا گیا۔ ریشماں کے گائے مقبول گیتوں میں ''چار دناں دا پیار او ربا بڑی لمبی جدائی، گوریے میں جاناں پردیس، کتھے نین نہ جوڑیں، اکھیاں نوں رین وے، سن چرخے دی مٹھی مٹھی کوک، وے میں چوری چوری تیرے نال، میری ہم جولیاں، نہ دل دیندی بے دردی نوں، ہائے او ربا نئی او لگدا دل میرا، آ سجناں رل اکھٹیاں سمیت بہت سے گیت بھی شامل ہیں۔
پال واکر (12 ستمبر 1973۔ یکم دسمبر 2013)
ہالی ووڈ کے معروف امریکی اداکار اور فلم ''فاسٹ اینڈ فیورئیس'' سیریز کے ہیرو پال واکر کیلی فورنیا میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہوئے۔ انہوں نے 2001 میں ریلیز ہونے والی فلم ''فاسٹ اینڈ فیورئیس'' میں اداکاری کی تھی۔ ان کا آخری ڈراما ''آورز''ہے۔
اسلم سراج الدین: (وفات 3 دسمبر 2013)
کہا جاتا ہے کہ اسلم سراج الدین کے بغیر جدید افسانے کی تاریخ مکمل نہیں ہو پاتی۔ اسلم سراج الدین ''مارکسی تصوف'' کے آدمی تھے اور انہوں نے ساری زندگی درویشی میں گزاری۔ انتہائی اہم افسانہ نگار ہونے کے باوجود اپنی تشہیر سے گریزاں رہتے تھے۔ ان کے افسانے انسان کی داخلی پیچیدگیوں کے فن کارانہ اظہار کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ''سومر سامر'' کے نام سے شائع ہوا تھا جس پر انہیں 1998 کا نیشنل لٹریری ایوارڈ پیش کیا گیا تھا۔ وہ عربی، فارسی، انگریزی کے الفاظ اس مہارت سے استعمال کرتے تھے کہ لگتا تھا کہ وہ ایک نئی زبان کی طرح رکھ رہے ہیں۔ انہوں نے نامقبول الفاظ، نظریات، علامات اور عجیب و غریب کرداروں سے اپنے افسانے بنے اور اردو زبان کو ایک بالکل نئی جہت سے روشناس کرایا۔ اسلم سراج الدین حرکتِ قلب بند ہونے سے گوجرانوالہ میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔
نیلسن مینڈیلا:(18 جولائی 1918۔ 5 دسمبر 2013)
جنوبی افریقا کے سیاہ فام باسیوں کے حقوق کے لیے کئی عشروں تک جدوجہد کرنے اور اس کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے نیلشن منڈیلا متفقہ طور پر بیسویں صدی کے عظیم راہ نما تسلیم کیے گئے۔
پیٹر اوٹول: (2 اگست 1932۔ 14 دسمبر 2013)
''لارنس آف عربیہ'' میں لارنس کا یادگارکردار ادا کرنے والے پیٹر اوٹول 81 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ وہ 1959 میں فلموں کی طرف آئے اس سے قبل وہ اسٹیج ڈراموں اور خاص طور پر شیکسپیرئین ڈراموں میں کام کیا کرتے تھے۔ شہرت انہیں 1962 میں لارنس آف عربیہ میں لارنس کا کردار ادا کرنے پر ملی۔ اوٹول مختلف فلموں میںآٹھ بارآسکر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے تاہم بدقسمتی سے ایک بار بھی یہ ایوارڈ حاصل نہ کر پائے۔
میخائل کلاشنکوف (1919۔3 2دسمبر 2013 )
جدید ترین خود کار بندوق کلاشنکوف کے موجد میخائل کلاشنکوف بھی اس سال دنیا سے کوچ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ کلاشنکوف یا اے کے 47 دنیا کی ایسی ایجاد بنی جو انگولا سے لے کر ویت نام اور الجیریا سے افغانستان تک استعمال کی گئی۔ میخائل کلاشنکوف کی عمر 94 برس تھی۔ 1938ء میں انہیں سوویت فوج میں شامل کیا گیا۔ میخائل کلاشنکوف کو بے شمار اعزازات سے نوازا گیا، جن میں ایوارڈز میں آرڈرز آف لینن بھی شامل ہے جو انہیں تین بار دیا گیا اور ہیرو آف سوشلسٹ لیبر نمایاں ہیں۔
فاروق شیخ : ( 25 مارچ 1948 27 /دسمبر 2013 )
فاروق شیخ بھارتی فلم انڈسٹری کے خوب رو اور شائستہ اداکار تھے۔ گجرات کے ضلع بڑودا کے قریب ایک گاؤں میںایک متمول زمیںدار شیخ مصطفیٰ کے ہاں پیدا ہوئے۔ وکالت کی لیکن اداکاربنے۔ پہلی گرم ہوا (1973) تھی آخر فلم لاہور (2009) تھی، جس میں انہیں بہترین معاون اداکاری پرانہیں نیشنل فلم ایوارڈ پیش کیاگیا۔ امراؤجان اور چشمِ بد دور یادگار فیلمیں ہیں۔ دبئی میں دل کی حرکت بند ہونے سے انتقال ہوا۔
حسبِ گذشتہ، سالِ رفتہ بھی ہم سے بہت کچھ ہتھیا گیا ہے۔ وہ عارض و لب جو رونقِ ہستی تھے، آج تہِ خاک ہیں ۔۔۔۔۔ کُلُّ مَن عَلَیھا فَان۔ آئیے ملک اور دنیا کی ان نام ورترین شخصیات کو یاد کریں جو پچھلے سال اس دیس جابسیں جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔
قاضی حسین احمد ( 12جنوری 1938 / 6 جنوری 2013)
قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے 1987 سے 2007 تک امیر رہے۔ انہیں مسلسل پانچ بار امیر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے، پانچویں بار 2008 میں انہوں نے امارت کا انتخاب لڑنے سے انکار کر دیا تھا جس پر سید منور حسن کو اس عہدے کے لیے منتخب کیا گیا۔ وہ 12 جنوری 1938 کو نوشہرہ (کاکا صاحب) کے ایک عالم فاضل قاضی گھرانے میں مولانا قاضی محمد عبدالرب کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ پشاور یونی ورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کے بعد سیدو کالج میں لیکچرار ہو گئے۔ تاہم تین ہی برس بعد ملازمت ترک کر دی اور اپنا کاروبار شروع کیا اور ذہانت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ جلد ہی صوبائی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے وائس پریذیڈنٹ منتخب ہو گئے۔ 1970 میں جماعت کے رکن بنے، اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بہ دولت1987 میں میاں طفیل محمد صاحب کے بعد امارت کے لیے منتخب ہوئے۔ 1986 میں پہلی بار سینیٹر ہوئے۔ وہ انتہائی فعال سیاست داں تھے، جماعت اسلامی کو اس قدر توانا اور سریع الحرکت کارکن ان سے قبل اور تاحال نصیب نہیں ہوا۔ انہوں نے جماعت میں کشادگی پیدا کی اور رکنیت کے کڑی شرائط اور اصولوں میں نرمی پیدا کی جس سے جماعت اسلامی کی رکنیت میں زبردست اضافہ ہوا۔ انہوں نے پاسبان اور شباب ملی جیسی تنظیموں کی بنیاد بھی رکھی۔
ڈاکٹرمحمد علی صدیقی (7 مارچ 1938/9 جنوری 2013)
محمد علی صدیقی اعلیٰ درجے کے نقاد تھے۔ امروہہ (بھارت) میں پیدا ہوئے، تعلیم و تربیت کراچی میں ہوئی۔ 1992 میں مطالعۂ پاکستان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور 2003 میں اسی موضوع پر ڈی لٹ کیا۔ وہ اس موضوع پر ڈاکٹریٹ اور ڈی لٹ کرنے والی پہلی شخصیت تھے۔ متعدد ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کے رکن تھے۔ اردو کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، فارسی، پنجابی، سندھی اور سرائیکی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ جامعۂ کراچی میں پڑھاتے رہے، دیگر متعدد مؤقر اداروں میں بھی خدمات انجام دیں۔ سو سے زیادہ تحقیقی مضامین اور 17 تصانیف ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ 1976 میں ''توازن'' اور 1979 میں ''کروس کی سرگذشت'' سال کی بہترین کتابیں قرار پائیں۔ 2003 میں ادب کے لیے ان کی خدمات پر انہیں صدارتی ایوارڈ حسن کارکردگی پیش کیا گیا۔ لندن، امریکا، کینیڈا اور ناروے کی یونی ورسٹیوں میں لیکچر دیے۔ فیض احمد فیض انہیں اردو کے واحد تخلیقی نقاد قرار دیتے تھے۔
احمد ہمیش (یکم جولائی 1937/8 ستمبر2013)
احمد ہمیش اترپردیش کے ضلع بلیا کے گائوں بانسپار میں پیدا ہوئے۔ سوتیلی والدہ کے ستائے ہوئے تھے لہٰذا اٹھارہ سال کی عمر (1955) میں لاہور ہجرت کی۔ 1958 میں ادب سے رشتہ قائم ہوا۔ 1970 میں کراچی منتقل ہوئے، ریڈیو پاکستان کے اردو اور ہندی کے شعبے سے منسلک ہوئے، سنسکرت پر بھی عبور حاصل تھا۔ 1990 میں معروف و مقبول رسالہ ''تشکیل'' جاری کیا۔ اپنے افسانے ''مکھی'' سے برصغیر میں شہرت حاصل کی۔ اردو میں نثری نظم کی بناء ڈالنے کے دعوے دار تھے۔ افسانوں کے دو مجموعے ''مکھی (1968)'' اور ''کہانی مجھے لکھتی ہے (1988)'' اور نظموں کا مجموعہ ''ہمیش نظمیں (2005)'' ادب کے لیے ان کی سوغاتیں ہیں۔ سنسکرت کے کئی ناٹک بھی ترجمہ کیے۔ ان کے اسلوب پر علامت نگاری اور تجریدیت غالب تھی۔
مہناز بیگم: (1958 / 19جنوری 2013)
سال 2013 کا آغاز پاکستان میں موسیقی پر بھاری رہا۔ 19 تاریخ کو یہ خبر بداثر آئی کہ انتہائی باصلاحیت مغنیہ مہناز بیگم اب ہم میں نہیں رہیں۔ وہ ایک عرصہ سے علیل تھیں اور امریکا میں اپنے بھائی کے پاس مقیم تھیں، وہیں ان کا علاج ہو رہا تھا۔ موت سے قبل وہ دو ماہ سے کراچی میں رہائش پذیر تھیں اور علاج کا سلسلہ بہ حال کرنے کے لیے میامی (فلوریڈا) امریکا روانہ ہوئیں۔ تاہم راستے میں طبیعت خراب ہو گئی اور بحرین میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ مہناز کا اصل نام تسنیم تھا وہ برصغیر کی ممتاز و معروف مغنیہ اور سوز خواں کجن بیگم اور ایک سرکاری افسر عبداﷲ کی صاحب زادی تھیں۔ انہیں ہلکی پھلکی موسیقی کے علاوہ ٹھمری، دردرا، خیال، دھرپد سوزخوانی اور مرثیہ خوانی، نوحہ، سلام پر بھی عبور تھا۔ انہوں نے 2 ہزار سے زیادہ گانے ریکارڈ کرائے۔ آبائی تعلق لکھنؤ یا فیض آباد (یو پی) سے بتایا جاتا ہے۔
شبنم شکیل: 12 مارچ 1942 / 2 مارچ 2013)
نام ور شاعرہ اور ماہر تعلیم شبنم شکیل لاہور میں اردو کے مممتاز ادیب و محقق سید عابد علی عابد کے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی پہلی کتاب ''تنقیدی مضامین'' تھی، اس کے علاوہ ان کی شاعرکے تین مجموعے 'شب زاد'، 'اضطراب'، 'نہ قفس نہ آشیانہ'، 'تقریب کچھ تو' اور 'مسافت رائگاں تھی' شایع ہو۔ 2004میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس پیش کیا گیا اس کو علاوہ انہیں نے متعدد ایوارڈز حاصل کیے۔
ہیوگو شاویز (28 جولائی 1954۔ 5 مارچ 2013)
ہیوگو شاویز، وینزویلا کے صدر تھے۔ وہ گذشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں میں نہ صرف وینزویلا بل کہ براعظم امریکا میں بائیں بازو کے سب سے بڑے لیڈر مانے جاتے ہیں۔ 1999 میں برسرِ اقتدار آئے اور اپنی وفات تک اس عہدے کے لیے منتخب ہوتے رہے۔ وہ اپنے ملک میں بولی ویریئن انقلاب لائے، 1999 کا آئین بھی دیا۔ عملی زندگی کا آغاز فوج میں ملازمت سے کیا تاہم نامساعد ملکی حالات انہیں سیاست میں لے آئے۔ 1992 میں انہوں نے صدر کارلوس آندرے پیریز کی حکومت گرانے کی کوشش کی تاہم کام یاب نہ ہوئے اور قید ہو گئے۔ دو سال بعد رہا ہوئے تو سوشلسٹ پولیٹیکل پارٹی کی بنیاد رکھی اور 1998 میں صدر منتخب ہوگئے۔ ان کے عہد میں ملک کے ہر شعبے میں مثبت تبدیلیاں آئیں۔ انہیں امریکا کی تاریخ میں ایک اولوالعزم سیاست داں کے طور پر تادیر یاد رکھا جائے گا۔
آسیہ بیگم: (1951 / 10 مارچ 2013)
ستر اور اسی کی دہائی میں فلم بینوں کے دلوں پر راج کرنے والی اداکارہ آسیہ 1951 بھارتی پنجاب میں پیدا ہوئیں، اصل نام فردوس تھا۔ پاکستان آنے کے بعد ستر کی دہائی میں انہوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا اور جلد ہی فلمی دنیا میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ آسیہ سحرانگیز شخصیت کی مالک تھیں۔ انہوں نے ایک سو اناسی فلموں میں اپنے فن کا جادو جگایا اور ہیروں کے ایک تاجر سے شادی کرکے کینیڈا سدھار گئی تھیں۔ انہیں ان کی بے ساختہ اداکاری کے لیے یاد رکھا جائے گا۔
ایم ایم عالم (ستارۂ جرأت) (6جولائی 1935 / 6 جولائی 2013)
ایم ایم عالم ہماری تاریخ کا ایک تابندہ ستارہ 6 جولائی 2013 کو بے جان ہو گیا۔ محمد محمود عالم کا آبائی تعلق پٹنہ (بہار) سے تھا، جہاں سے ان کے آباء کلکتہ جا آباد ہوئے تھے۔ ان کی پیدائش 6 جولائی 1935 کو کلکتہ میں ہوئی۔ ایم ایم عالم نے 1952 میں ایئرفورس میں شمولیت اختیار کی۔ ایک موقع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں نے فرشتوں کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔ 1965 کی جنگ میں انہوں تیس سیکنڈ میں بھارت کے چار طیارے اور منٹ پورا ہونے سے پہلے پانچواں طیارہ مار گرایا تھا، جو جنگی ہوابازی کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ انہیں ''لٹل ڈریگن'' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
صاحبزادہ فضل کریم (1919۔15 اپریل 2013 )
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ اور مذہبی راہ نما صاحبزادہ فضل کریم 15 اپریل 2013ء پیر کو فیصل آباد میں انتقال کرگئے۔ وہ جگر کے عارضے میں مبتلا تھے۔ ان کی عمر 59 سال تھی اور وہ ایک اہم مذہبی راہ نما تصور کیے جاتے تھے۔ 24 اکتوبر 1954ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دینی علوم کے علاوہ 1987ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1987ء میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد سے اسلامک اسٹیڈیز میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور عملی زندگی کا آغاز کاروباری شخصیت کے طور پر کیا۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریر کا آغاز مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے کیا اور پارٹی کے ٹکٹ پر فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب بھی ہوئے۔ بعد میں انہوں نے جمیعت علمائے پاکستان اور پھر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ 1993 اور1997 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ فضل کریم جمیعت علمائے پاکستان کے صدر اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ صاحبزادہ فضل کریم 1993ء سے 1997ء تک پنجاب اسمبلی کے رکن جب کہ 1997ء سے 1999ء تک صوبائی وزیر بھی رہے۔ انہوں نے 2002ء میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بار کام یابی حاصل کی، پھر اسی نشست پر 2008ء میں بھی کام یاب قرار پائے۔
تاج محمد لنگاہ:(/ 1941 16اپریل 2013)
تاج محمد لنگاہ 72 برس کی ہنگامہ خیز زندگی کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے 6 اپریل کو ملتان میں انتقال کرگئے۔ وہ سرائیکی پارٹی کے سربراہ تھے۔ پنجاب کے ایک قصبہ کہروڑ پکا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت سے کیا۔ 70 کے انتخابات میں وہاڑی سے حصہ لیا مگر میاں ممتاز دولتانہ کے مقابلے میں کام یاب نہ ہو سکے۔ ان کا شمار ترقی پسند وکلا میں ہوتا تھا۔ ان کی زندگی کٹھن جدوجہد سے عبارت ہے۔
مارگریٹ تھیچر (13 اکتوبر 1925 / 8 اپریل 2013)
مارگریٹ ہلڈا تھیچر برطانیہ کی وزارتِ عظمیٰ پر 4 مئی 1979 سے 28 نومبر 1990 تک فائز رہیں۔ وہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بڑے سخت حالات سے کام یابی کے ساتھ گزریں، اس حوالے سے انہیں خاتون آہن (Iron Lady) بھی کہا جاتا ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے کیمسٹ تھیں، بعد میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ ان ہی کے دور میں برطانیہ نے 1982 میں جزیرۂ فاک لینڈ کی ملکیت پر ارجنٹائن سے جنگ لڑی تھی۔
عباس اطہر: (12 اپریل 1939 / 6 مئی 2013)
سید عباس اطہر المعروف شاہ جی نے بھرپور صحافتی زندگی گزاری اور نصف صدی تک صحافت میں اپنی غیر معمولی مہارت اور قابلیت کی بہ دولت نام کمایا۔ اخباری سرخیوں میں جدت پیدا کی۔ ان کی ''اُدھر تم اِدھر ہم'' والی سرخی گو متنازعہ رہی۔ تاہم اس نے انہیں شہرت کی بلندیوں پرپہنچا دیا۔ عباس اطہر 12 اپریل 1939 کو مغل پورہ لاہور کے قریب تاجپورہ گائوں غازی آباد میں پیدا ہوئے۔ وہ بلند مرتبہ صحافی کے علاوہ قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ ادبی حلقوں میں وہ ایک عرصہ شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے رہے تاہم بعد میں صحافی عباس اطہر، شاعر عباس اطہر پر غالب آ گیا۔ وہ 2006 میں روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہوئے۔ ''کنکریاں'' کے عنوان سے ان کے کالموں نے بہت شہرت حاصل کی۔
شمشاد بیگم: (14 اپریل 1919 / 23 اپریل 2013)
شمشاد بیگم نے گانے کا آغاز گذشتہ صدی کی تیسری دہائی میں کیا تھا، یوں مانا جاتا ہے کہ ان کی آواز کے جادو نے برصغیر کی فلمی صنعت میں ناطق فلموں کے آغاز ہی سے سننے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور یہ جادو آج بھی، جب وہ دنیا میں نہیں ہیں، جاری ہے۔ وہ امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اردو، پنجابی ، ہندی، تامل، گجراتی، مراٹھی اور بنگالی میں گایا۔ ان کی آواز بہت توانا تھی، ایک زمانے میں لتا جی بھی انہیں کاپی کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔
ریاض الرحمن ساغر: (2 جون 2013)
ریاض الرحمٰن ساغر 2 جون کو 72 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے، وہ کینسر میں مبتلا تھے۔ بہ طور فلمی شاعر انہوں نے 2 ہزار سے زیادہ گانے لگے جن میں سے بے شمار گانے زبان زدعام ہوئے۔ ''کبھی تو نظر ملائو''، ''چیف صاحب''، ''سرگم''، ''گھونگٹ'' ، ''انتہا''، ''محبتاں سچیاں''، ''سمجھوتہ ایکسپریس''، ''عشقِ خدا'' وغیرہ کے گانوں نے خاصی شہرت حاصل کی۔ مرحوم انتہائی زود نویس اور بسیار گو تھے، بہ طور صحافی ایک عرصے تک منظوم کالم بھی لکھتے رہے۔ فلموں کے علاوہ انہوں نے غیر فلمی گیت بھی لکھے۔ دو سفرنامے ''کیمرا، قلم اور دنیا'' اور ''لاہور تا بومبے براستہ دہلی'' ان کی یادگار ہیں۔
جیا خان : (1919۔3 جون 2013 )
بیتے برس بھارتی فلموں کی جواں سالہ خوب رو اداکارہ جیا خان نے خودکُشی کر لی۔ جیا خان کی لاش ان کے فلیٹ میں پنکھے سے لٹکتی پائی گئی۔ جیا کا اصل نام نفیسہ خان تھا۔ وہ نیویارک، امریکا میں پیدا ہوئیں، لندن میں پلی بڑھیں۔ کیریر کا آغاز 2007ء میں رام گوپال ورما کی متنازع فلم ''نشبد'' سے کیا۔ مدمقابل امیتابھ بچن تھے۔ خبروں کے مطابق وہ اداکار، ادیتا پنچولی کے بیٹے، سورج پنچولی کی محبت میں مبتلا تھیں، جس کی ناکامی نے اْنہیں توڑ کر رکھ دیا اور موت کی سمت دھکیل دیا۔
نشیلا (شوکت علی: ( 1948 / 23 جون 2013)
کامیڈین نشیلا طویل علالت کے بعد وفات پا گئے۔ وہ ایک عرصے سے شوگر اور گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ ان کا اصل نام شوکت علی تھا، وہ اداکاری کے ساتھ گلوکاری بھی کرتے تھے۔ ان کے کریڈٹ پر ''شرطیہ مِٹھے''، ''بشیرا اِن ٹربل'' اور ''دکھ سکھ'' سمیت ان گنت اسٹیج ڈرامے ہیں۔ انہوں نے چالیس سال فن کی خدمت کی۔
پران: (1919۔12جولائی 2013 )
گزرے برس ہندوستانی فلموں کے اداکار پران بھی طویل علالت کے بعد راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کی عمر 93 برس تھی۔ انہوں نے ستّر کی دہائی میں اس وقت کے سپراسٹار امیتابھ بچن کے ساتھ کئی سپر ہٹ فلموں میں کام کیا۔ پران کو اس سال دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی علالت کے باعث وزیر اطلاعات منیش تیواڑی نے ان کے گھر جا کر انہیں ایوارڈ دیا۔ پران نے اپنا فلمی کیریر 40 کی دہائی میں شروع کیا۔ کیریر کے آغاز میں انہوں نے کچھ فلموں میں بطور ہیرو کام کیا، لیکن ان کی اصل پہچان منفی کرداروں کے ذریعے ہی بنی۔ انہوں نے اس وقت کے مشہور ہیرو راج کپور، دیو آنند اور دلیپ کمار کی کئی فلموں میں بطور ولین ناقابل فراموش کردار ادا کیے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری (26 جنوری 1926/ 3 اگست 2013)
سید دلدار علی اصل نام تھا، فتح پور (اترپردیش) میں پیدا ہوئے۔ اردو میں بہ طور ماہر لسانیات، محقق اور نقاد بہت بڑی شخصیت تسلیم کیے گئے، تخلیقی کام بھی کیا۔ غالبیات پر سند کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کا اعزاز ہے کہ وہ اردو کے پہلے ڈی لٹ ہیں۔ 30 برس جامعہ کراچی سے منسلک رہے۔ ان کی نگرانی میں بے شمار محققین نے پی ایچ ڈی کیا۔ 1985 میں اردو ڈکشنری بورڈ کے مدیراعلیٰ مقرر ہوئے۔ 1996 سے سول سروسز بورڈ حکومت سندھ کے رکن تھے۔ ان کا سب سے بڑا اعزاز اردو کے قدیم ترین مجلے ''نگار'' کی ادارت ہے، جس کی بنیاد علامہ نیاز فتح پوری نے رکھی تھی۔ دو درجن سے زیادہ انتہائی قابل قدر تصانیف ان کی یادگار ہیں۔ ان کے انتقال سے اردو ادب اپنے ایک بہت بڑے محسن سے محروم ہو گیا۔
قریش پور: ( 5 / 1932اگست 2013)
قریش پور گذشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے پی ٹی وی کا ایک بہت بڑا نام تھے، اصل نام ذوالقرنین قریشی تھا۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی گھرانا ہو جہاں قریش پور اور ان کے ساتھیوں عبیداﷲ بیگ اور افتخار عارف کا ''کسوٹی'' نہ دیکھا گیا ہو۔ یہ پروگرام اتنا مقبول رہا کہ آج تک لوگ اپنے فارغ اوقات میں اس پروگرام کی نقل کھیلتے ہیں۔ یہ تینوں حضرات خوب صورت آوازوں کے مالک تھے اور سامعین انہیں سن کر نہ صرف اپنی معلومات میں اضافہ بل کہ اپنا شین قاف بھی درست کرتے تھے۔ قریش پور اس کہکشاں کا مرکزی ستارہ ہوتے تھے۔ انہیں زبان و بیان پر حیرت انگیز دست رس تھی، حافظہ بھی غضب کا پایا تھا۔ وہ ذرائع ابلاغ کے نابغہ سمجھے جاتے تھے۔ عربی فارسی بھی روانی سے بولتے تھے۔ انہوں نے ناول اور کالم بھی لکھے۔
ڈیوڈ فراسٹ: (17 اپریل 1939 / یکم ستمبر 2013)
برطانیہ کے مشہور براڈ کاسٹر ڈیوڈ فراسٹ 74 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ڈیوڈ فراسٹ کے خاندان کے مطابق انتقال سے پہلے انہوں نے کوئین الزبتھ بحری جہاز پر اپنی آخری تقریر کی تھی، ڈیوڈ فراسٹ بہ یک وقت صحافی، کامیڈی رائٹر اور ٹی وی میزبان تھے، دنیا کے بڑے راہ نمائوں کے انٹرویو کیے۔ اپنے کیریر کے آخری دور میں انہوں نے الجزیرہ میں کام کرتے تھے۔
زبیدہ خانم:(1935 / 19 اکتوبر 2013)
زبیدہ خانم کا شمار پاکستان کی اولین پلے بیک سنگرز میں ہوتا ہے۔ زبیدہ خانم نے فلمی صنعت پر ایک دہائی راج کیا۔ 1950 کی دہائی اور 1960 کے اوائل کے برسوں میں شاید ہی کوئی فلم خاص طور پر پنجابی فلم ہو، جس میں زبیدہ خانم کی آواز شامل نہ ہو یوں انہوں نے اڑھائی سو سے زیادہ گانے ریکارڈ کرائے۔ فلمی صنعت میں ان کا داخلہ 1951 میں فلم ''بلو'' سے ہوا تاہم 1953 میں فلم ''شہری بابو'' کے گانوں سے انہیں شہرت ملی۔ زبیدہ 1935 میں امرتسر میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق موسیقی کے کسی روایتی گھرانے سے نہیں تھا۔ انہوں نے گانے کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل نہیںکی تھی۔ زبیدہ خانم نے بعض پنجابی فلموں میں اداکاری بھی کی جن میں پاٹے خان اور دلابھٹی میں شامل ہیں۔ اپنے عروج کے دور میں کیمرہ مین سید فیصل بخاری کے ساتھ شادی کی اور فلمی صنعت چھوڑ دی۔ ان کا گایا ہوا ''آئے موسم رنگیلے سہانے'' آج بھی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔
مناڈے :(یکم مئی 1919 / 24 اکتوبر 2013)
بھارت کے لیجنڈ گلوکار مناڈے طویل علالت کے بعد 94 برس کی عمر میں آںجہانی ہوئے۔ ان کا اصل نام پربودھ چندرڈے تھا۔ ہر طرح کے نغموں کو بہ آسانی گانے کا ہنر رکھنے والے مناڈے کا شمار 1950 اور 60 کی دہائی کے اہم پلے بیک سنگرز میں ہوتاہے۔ ویسے تو مناڈے نے ہر طرح کے گیت گائے لیکن ان کی وجۂ شہرت کلاسیکی گائیکی تھی۔ مناڈے 'لاگا چنری میں داغ' یا پھر 'پوچھو نہ کیسے میں نے رین بِتائی' 'اے مری زہرہ جبیں، 'تو پیار کا ساگر ہے' 'یہ رات بھیگی بھیگی' اور بے شمار گیتوں کے لیے ہمیشہ یاد رہیں گے۔ مناڈے کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے کیریر میں تین ہزار سے زیادہ گیت گائے۔1971 میں پدم شری، 2005 میں پدم بھوشن ایوارڈ اور 2007 میں انہیں سب سے ا ہم دادا صاحب پھالکے ایوارڈ پیش کیا گیا۔
بلبلِ صحرا ریشماں، ستارۂ امتیاز: ( 1947 / 3نومبر( 2013
برصغیر پاک و ہند کی معروف گلوکارہ ریشماں 67 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد وفات پا گئیں۔ وہ گلے کے کینسر کی مریضہ تھیں۔ انہیں بلبل صحرا کا خطاب دیا گیا تھا۔ ریشماں 1947 میں بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع رتن گڑھ کے ایک گائوں لوحا میں خانہ بہ دوشوں میں پیدا ہوئیں، پٹھانی بیگم اصل نام تھا، تقسیم کے بعد خاندان کے ہم راہ پاکستان آئیں، بچپن سندھ کے صوفیا کے مزاروں صوفیانہ کلام پڑھتے گزرا۔ انہوں نے موسیقی کی کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن ان کی آواز میں سروں کی خداداد کہکشاںآباد تھی۔ ریشماں کو ان کی فنی خدمات کے صلے میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی اور ستیارہ امتیاز پیش کیا گیا۔ ریشماں کے گائے مقبول گیتوں میں ''چار دناں دا پیار او ربا بڑی لمبی جدائی، گوریے میں جاناں پردیس، کتھے نین نہ جوڑیں، اکھیاں نوں رین وے، سن چرخے دی مٹھی مٹھی کوک، وے میں چوری چوری تیرے نال، میری ہم جولیاں، نہ دل دیندی بے دردی نوں، ہائے او ربا نئی او لگدا دل میرا، آ سجناں رل اکھٹیاں سمیت بہت سے گیت بھی شامل ہیں۔
پال واکر (12 ستمبر 1973۔ یکم دسمبر 2013)
ہالی ووڈ کے معروف امریکی اداکار اور فلم ''فاسٹ اینڈ فیورئیس'' سیریز کے ہیرو پال واکر کیلی فورنیا میں ایک کار حادثے میں ہلاک ہوئے۔ انہوں نے 2001 میں ریلیز ہونے والی فلم ''فاسٹ اینڈ فیورئیس'' میں اداکاری کی تھی۔ ان کا آخری ڈراما ''آورز''ہے۔
اسلم سراج الدین: (وفات 3 دسمبر 2013)
کہا جاتا ہے کہ اسلم سراج الدین کے بغیر جدید افسانے کی تاریخ مکمل نہیں ہو پاتی۔ اسلم سراج الدین ''مارکسی تصوف'' کے آدمی تھے اور انہوں نے ساری زندگی درویشی میں گزاری۔ انتہائی اہم افسانہ نگار ہونے کے باوجود اپنی تشہیر سے گریزاں رہتے تھے۔ ان کے افسانے انسان کی داخلی پیچیدگیوں کے فن کارانہ اظہار کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ''سومر سامر'' کے نام سے شائع ہوا تھا جس پر انہیں 1998 کا نیشنل لٹریری ایوارڈ پیش کیا گیا تھا۔ وہ عربی، فارسی، انگریزی کے الفاظ اس مہارت سے استعمال کرتے تھے کہ لگتا تھا کہ وہ ایک نئی زبان کی طرح رکھ رہے ہیں۔ انہوں نے نامقبول الفاظ، نظریات، علامات اور عجیب و غریب کرداروں سے اپنے افسانے بنے اور اردو زبان کو ایک بالکل نئی جہت سے روشناس کرایا۔ اسلم سراج الدین حرکتِ قلب بند ہونے سے گوجرانوالہ میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔
نیلسن مینڈیلا:(18 جولائی 1918۔ 5 دسمبر 2013)
جنوبی افریقا کے سیاہ فام باسیوں کے حقوق کے لیے کئی عشروں تک جدوجہد کرنے اور اس کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے نیلشن منڈیلا متفقہ طور پر بیسویں صدی کے عظیم راہ نما تسلیم کیے گئے۔
پیٹر اوٹول: (2 اگست 1932۔ 14 دسمبر 2013)
''لارنس آف عربیہ'' میں لارنس کا یادگارکردار ادا کرنے والے پیٹر اوٹول 81 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ وہ 1959 میں فلموں کی طرف آئے اس سے قبل وہ اسٹیج ڈراموں اور خاص طور پر شیکسپیرئین ڈراموں میں کام کیا کرتے تھے۔ شہرت انہیں 1962 میں لارنس آف عربیہ میں لارنس کا کردار ادا کرنے پر ملی۔ اوٹول مختلف فلموں میںآٹھ بارآسکر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے تاہم بدقسمتی سے ایک بار بھی یہ ایوارڈ حاصل نہ کر پائے۔
میخائل کلاشنکوف (1919۔3 2دسمبر 2013 )
جدید ترین خود کار بندوق کلاشنکوف کے موجد میخائل کلاشنکوف بھی اس سال دنیا سے کوچ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ کلاشنکوف یا اے کے 47 دنیا کی ایسی ایجاد بنی جو انگولا سے لے کر ویت نام اور الجیریا سے افغانستان تک استعمال کی گئی۔ میخائل کلاشنکوف کی عمر 94 برس تھی۔ 1938ء میں انہیں سوویت فوج میں شامل کیا گیا۔ میخائل کلاشنکوف کو بے شمار اعزازات سے نوازا گیا، جن میں ایوارڈز میں آرڈرز آف لینن بھی شامل ہے جو انہیں تین بار دیا گیا اور ہیرو آف سوشلسٹ لیبر نمایاں ہیں۔
فاروق شیخ : ( 25 مارچ 1948 27 /دسمبر 2013 )
فاروق شیخ بھارتی فلم انڈسٹری کے خوب رو اور شائستہ اداکار تھے۔ گجرات کے ضلع بڑودا کے قریب ایک گاؤں میںایک متمول زمیںدار شیخ مصطفیٰ کے ہاں پیدا ہوئے۔ وکالت کی لیکن اداکاربنے۔ پہلی گرم ہوا (1973) تھی آخر فلم لاہور (2009) تھی، جس میں انہیں بہترین معاون اداکاری پرانہیں نیشنل فلم ایوارڈ پیش کیاگیا۔ امراؤجان اور چشمِ بد دور یادگار فیلمیں ہیں۔ دبئی میں دل کی حرکت بند ہونے سے انتقال ہوا۔