دل گردے پھیپھڑے’’کارخانوں‘‘ میں بنیں گے۔۔۔
پیچیدہ نوعیت کے جسمانی اعضاء لیبارٹری میں تیار کرنے میں اب بھی کئی مشکلات درپیش ہیں۔
جدید میڈیکل سائنس میں انسانی اعضاء کی لیبارٹریوں میں تیاری کی طرف تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔
2013ء کا سال اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سال مصنوعی انسانی اعضاء تیار کرنے کے معاملے میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔ انسانی اعضاء کا ٹرانسپلانٹ جدید سائنس کی ایک اہم کامیابی ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو عطیہ شدہ انسانی اعضاء لگاکر نئی زندگی دی جاچکی ہے۔ تاہم عطیہ شدہ اعضاء کی قلت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اعضاء کے ٹرانسپلانٹ کے منتظر مریضو ں کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن اتنی تعداد میں اعضاء عطیہ نہیں کیے جا رہے۔ اس کا حل سائنسدان انسانی اعضاء کو مصنوعی طورپر لیبارٹریوں میں تیار کرکے تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔سائنس دانوں کی ان کوششوں سے مریضوں میں خاصی امید جاگی ہے۔
ویسے تو غیرپیچیدہ قسم کے مصنوعی اعضاء پہلے ہی لگائے جا رہے ہیں لیکن پیچیدہ نوعیت کے جسمانی اعضاء لیبارٹری میں تیار کرنے میں اب بھی کئی مشکلات درپیش ہیں۔جگر بھی ایسے پیچیدہ اعضاء میں سے ایک ہے۔ سائنسدان اس مشکل کا حل ڈھونڈنے کے لیے بھیڑ کے جگر پر تجربات کررہے ہیں۔
امریکا کی ویک فارسٹ یونیورسٹی نارتھ کیرولائنا کی ابریٹی ڈھل اس بارے میں بتاتی ہیں کہ ایک بڑی بھیڑ کے جگر کا سائز انسانی جگر کے برابر ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اب ہم بھیڑ کا مصنوعی جگر تیار کرنے میں کامیابی کے قریب ہیں اور امید ہے کہ اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو انسانی جگر تیار کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھیڑ کے جگر کے خلیات کو الگ کرلیں اور ان کی جگہ انسانی خلیات اس میں منتقل کرلیں تو یہ جگر انسان میں بھی کامیابی سے کام کرسکتا ہے۔اس طرح جگر کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو نیا جگر ٹرانسپلانٹ کرنے کے حوالے سے عطیہ شدہ جگر کی جو قلت ہے ، اس کو دور کیا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں جو طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، اسے ''ڈی سیلیولرائزیشن'' کہا جاتا ہے۔ اس طریقے میں بھیڑ کے جگر کو واش کیا جاتا ہے اور خلیات کو الگ کردیا جاتا ہے لیکن ڈھانچے کو برقرار رہنے دیا جاتا ہے۔اس کے بعد اس خالی ڈھانچے میں انسانی جگرکے خلیات کو ڈالا جاتا ہے اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ آیا خلیات اس ڈھانچے میں افزائش حاصل کرپاتے ہیں۔
ڈاکٹر انتھونی اٹالا جو کہ ویک فارسٹ انسٹی ٹیوٹ ری جنریٹو میڈیسن کے ڈائریکٹر ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ خلیات کی مختلف اقسام ان ٹشوز اور اعضاء کو تیار کرتی ہیں لیکن ہماری ترجیح ہے کہ مریض کے اپنے خلیات حتیٰ کہ مخصوص اعضاء کے مخصوص خلیات کو ہی استعمال کیا جائے کیونکہ یہ زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ انہیں کیسے کام کرنا ہے۔مثال کے طورپر ہوا کی نالی کا خلیہ پہلے ہی جانتا ہے کہ وہ ہوا کی نالی کا خلیہ ہے اور یہ ہوا کی نالی کا ایسا خلیہ تیار کرے گا جسے مریض کا جسم مسترد نہیں کرے گا۔
اس طرح لیبارٹری میں تھری ڈی پرنٹر کے ساتھ گردے اگانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس میں خلیات کو ''روشنائی'' کے طور استعمال کیا جارہا ہے۔یہ ایک زبردست طبی پیش رفت ہے تاہم پیچیدہ اور بنیادی انسانی اعضاء کو اگانے اور ٹرانسپلانٹ کرنے میں جو دشواری ہے ، وہ ابھی چیلنج ہے۔اس وقت ڈاکٹر جو انسانی اعضاء لیبارٹری میں تیار کرنے میں خاصی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں ، ان میں کان بھی شامل ہے۔ اس طرح دیگر کئی اعضا بھی لیبارٹری میں تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اگرچہ پھیپھڑوں کو لیبارٹری میں تیار کرنے اور ٹرانسپلانٹ کا معاملہ ابھی ذرا مستقبل کی کہانی دکھائی دیتا ہے تاہم سائنسدان اس ہدف کے حصول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ادھر نارتھ کیرولائنا کی ایک لیبارٹری میں گردے کے پروٹوٹائپ تھری ڈی ماڈل تیار کیے جاچکے ہیں۔اس طرح کئی اور لیبارٹریوں میں سائنس دان دل ، پھیپھڑوں ، گردوں اور جگر کو مصنوعی طورپر تیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے جانوروں اور انسانوں دونوں کے خلیات سے مدد لی جارہی ہے۔
یہاں پر ایک تصوراتی منظر نامہ ہے۔ایک مریض بائیوپسی یا محض خون کے ذریعے اپنے خلیات کا عطیہ دیتا ہے۔لیبارٹری ان خلیات یا ان سے بنائے گئے خلیات کو ایک کھانچے میں ڈالتی ہے جو کہ مطلوبہ اعضاء کی شکل کے ہوتے ہیں۔ میساچسٹس جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر ہیرالڈ اوٹ کے مطابق اس کے بعد ہم ایسا عضو تیار کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جس کو جسم کی طرف سے مسترد نہ کیا جائے۔ اس طرح ایسے اعضاء کو ڈیمانڈ کے مطابق تیار کیا جاسکتا ہے اور بالکل اسی طرح ٹرانسپلانٹ کیا جاسکتا ہے جس طرح عطیہ شدہ قدرتی اعضاء کو ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔ البتہ پھیپھڑے اور جگر ایسے پیچیدہ اعضاء ہیں جن کامستقبل قریب میں لیبارٹریوں میں تیار کرنا فی الحال دقت طلب دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب سادہ نوعیت کے کئی اعضاء دھڑا دھڑ لیبارٹریوں میں تیارکرکے مریضوں کو ٹرانسپلانٹ کیے جارہے ہیں اوران سے امید جاگتی ہے کہ ایک دن پیچیدہ انسانی اعضاء بھی لیبارٹری میں تیار ہوسکیں گے۔
صرف چند ہفتے قبل ایک لڑکی کو ہوا کی ایک ایسی نالی لگائی گئی جو سنتھیٹک کھانچے سے تیار کی گئی تھی۔یہ کھانچہ ایسے سٹم سیلز سے کور کیا گیا تھا جو کہ لڑکی کی اپنی ہڈی کے گودے سے حاصل کیاگیا تھا۔ایک درجن سے زائد مریضوں میں اس مصنوعی عضو کو ٹرانسپلانٹ کیا جاچکا ہے۔ اس طرح درجنوں مریض کامیابی کے ساتھ ایسے مثانوں پر زندگی گزار رہے ہیں جو کہ ان کے اپنے خلیات سے مصنوعی طریقے سے اُگائے گئے ہیں۔اس طرح درجنوں مریضوں میں پیشاب کی مصنوعی نالیاں لگائی جاچکی ہیں جو کہ ان کے مثانوں کے ٹشوز سے تیار کی گئی ہیں۔اس طرح ایک سویڈش لڑکی کامیابی سے ایک ایسی مصنوعی شریان کے ساتھ زندگی گذار رہی ہے جو اس کے جگر کی ایک بند شریان کی جگہ بائی پاس کے طورپر لگائی گئی ہے ۔اس طرح گھٹنے کی کرکری ہڈی کو مرمت کرنے کے لیے مریضوں کے ان کے اپنے خلیات استعمال کرنا ایک عام بات بن چکا ہے۔جلے ہوئے مریضوں کو مصنوعی جلد لگانے کا عمل بھی خاصا بڑھ چکا ہے۔
اینجیلا ایریزاری 2007 میں پیدا ہوئی تو اس کے دل کا صرف ایک چیمبر یا خانہ خون پمپ کررہا تھا۔اس کی وجہ سے اس کا جسم خطرناک حد تک آکسیجن کی کمی کا شکار تھا۔روایتی علاج کے تحت اس کے کئی آپریشن کیے گئے جن میں تازہ ترین آپریشن کے تحت اس کے دل کے قریب خون کی شریانیں لگائی گئیں جواس کی ایک نالی کو ایک آرٹری سے منسلک کرتی تھی اور یوں اس کے دل کے دوران خون کو نئے سرے سے منظم کیا گیا۔
ییل یونیورسٹی کے سرجنوں نے اینجیلا کے والدین کو بتایا کہ وہ ہڈیوں کے گودے کے خلیات سے نالی تخلیق کرسکتے ہیں اور جاپان میں یہ طریقہ کئی مریضوں میں کامیابی کے ساتھ استعمال کیاجاچکا ہے۔ تاہم امریکا میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہوگا۔ اینجیلا کی ماں کلاڈیا کا کہنا ہے کہ یہ رسک تھا۔تاہم اس نے اور اس کے خاوند نے اس آئیڈیا کو پسند کیا جس کے مطابق نالی اینجیلا کے ساتھ ساتھ ہی نشوونما پاتی رہے گی اوراس کو دوبارہ تبدیل کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
چنانچہ ایک دن بارہ گھنٹے کے آپریشن کے ذریعے ڈاکٹروں نے اینجیلا سے ہڈیوں کا گودا لیا ا ور اس میں سے مخصوص خلیات حاصل کیے اور بعد ازاں ان کو ایک بائیو ڈی گریڈایبل پانچ انچ کی ٹیوب میں ڈالا گیا۔اس کے بعد اس کو دوگھنٹے تک انکیوبیٹر میں رکھا گیا اور پھر گرافٹ کو اینجیلا میں ٹرانسپلانٹ کردیا گیا تاکہ اس کو خون کی نالی میں تبدیل کردیا جائے۔اینجیلا کی ماں کے بقول اس بات کو دوسال ہوچکے ہیںاور اینجیلا بہت ٹھیک جارہی ہے۔سرجری سے پہلے وہ دوڑنے اور کھیلنے سے محروم تھی اور بہت جلد تھک جاتی تھی۔اس کے جسم سے آکسیجن ایک دم غائب ہوجاتی تھی۔اب وہ ایک نارمل زندگی گذار رہی ہے۔
تاہم خلیے اور کھانچے کی مدد سے جسمانی عضو تیار کرنا کوئی پودا اگانے کی طرح سادہ نہیں۔اگرچہ اینجیلا کے آپریشن میں جس طرح کیا گیا ، اس طرح جاپان میں لگ بھگ دس سال سے کیاجارہا تھا تاہم اس کے بعد جاپانی سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ جسم کے اندر جو کچھ ہوتا ہے ، اس کو سمجھنے کے معاملے میں ان کا فہم مکمل طورپر غلط ہے۔
نیشنل وائیڈ چلڈرن ہاسپٹل کولمبس کے ڈاکٹر کرسٹوفر بریور کے بقول ہم ہمیشہ یہ فرض کیے بیٹھے تھے کہ ہم ان خلیات سے خون کی نالیاں بنا رہے ہیں جن کو ہم گرافٹ پر بوتے تھے۔تاہم چوہوں پر کیے گئے مطالعے سے پتہ چلا کہ بلڈنگ بلاکس اصل میں دیگر خون کی نالیوں سے ہجرت کرکے آنے والے خلیات تھے۔ بوئے گئے خلیات تو حقیقت میں بہت جلد مرگئے تھے۔اس سے ہمیں پتہ چلا کہ ہم کام تو درست کررہے تھے لیکن غلط اسباب کے لیے۔
یونیورسٹی آف پٹس برگ کے میکگووان انسٹی ٹیوٹ فار ری جنریٹو میڈیسن کے ڈائریکٹر ولیم ویگنر کا کہنا ہے کہ دیگر اقسام کے ٹرانسپلانٹ بھی یہ ظاہر کرچکے ہیں کہ بوئے گئے خلیات روشن چراغوں کی طرح کام کرتے ہوئے متعلقہ جسم کے خلیات کو اپنی جانب بلاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بہت اچھے طریقے سے کام کرتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ سوزش یا زخم کا باعث بن جاتے ہیں۔لہٰذا یہ ایک بنیادی چیلنج ہے کہ ٹرانسپلانٹ شدہ مصنوعی عضو کے خلیات کے جسم کے ساتھ ربط کو کنٹرول کیا جائے۔
نئے اعضا بنانے کا ایک سب سے روایتی طریقہ تو یہ ہے کہ ایک عضو کو لیا جائے اور اس میں سے تمام خلیات نکال لیا جائے اور صر ف کھانچے کو رہنے دیا جائے ، جس میں یہ خلیات موجود تھے۔ اس کے بعد اس کھانچے میں نئے خلیات فٹ کردیے جائیں۔میری لینڈ سکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر جان لاماٹینا کے بقول یہ اس طرح ہی ہے جیسے کسی عمارت میں سے تمام لوگوں کو نکال دیا جائے اور پھر اس میں بالکل نئے لوگوں کو بسادیا جائے۔ وہ اس طریقے کے ذریعے مصنوعی جگر تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس میں جگر کے سب سے خراب حصے کو تبدیل کیا جاتا ہے۔
اس میں پہلے سور کے اعضاء پر تجربہ کیا جارہا ہے۔اس میں سور کے اعضاء میں سے تمام خلیات نکال کر اس کے کھانچے میں انسانی خلیات فٹ کردیے جاتے ہیں۔ٹیکساس ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کی ڈورس ٹیلر کا دعویٰ ہے کہ مستقبل اسی کا ہے۔ یعنی سورکے اعضاء کے کھانچے میں انسانی خلیات فٹ کرکے ان اعضاء کو انسان میں فٹ کردیا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے کو استعمال کرکے 2008ء میں ایک چوہے کا دھڑکتا دل تیار کرلیا گیا تھا اور اب یہی طریقہ مختلف اعضاء کی تیاری کے لیے آزمایا جارہا ہے۔رپورٹ کے مطابق چونکہ سور اور مینڈھے کے مختلف اعضاء کا سائز انسانی اعضاء کے سائز کے برابر ہوتا ہے ، اس لیے ان جانوروں کے اعضاء میں سے خلیات کو نکال کر ان کے کھانچے میں انسانی خلیات کو فٹ کرکے انسانوں کے لیے کارآمد اعضاء کو تیار کیا جاسکتا ہے۔
سائنسدانوں کاکہنا ہے کہ ویسے تو کچھ مصنوعی اعضاء جیسے دانت کافی عرصہ سے تیار کیے جارہے ہیں لیکن یہ صحیح معنوں میں اعضاء کہلانے کے مستحق نہیں۔ دانت عضو کے بجائے محض ایک اوزار ہے اوراس کا نظام بہت سادہ ہے۔لیکن اب ہم ایسے اعضاء تیار کرنے کی جانب عملی کامیابی کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں جو پیچیدہ نظام کے حامل ہیں۔ایک طبی تجزیہ کار جان لیوس کے بقول اکیسویں صدی میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے جس سے طب کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ گردہ بھی ایک پیچیدہ عضو ہے، اس کی مصنوعی طریقے سے تیاری میں کامیابی ایک اہم کامیابی ہے اور وہ اس پر سائنس دانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ گذشتہ کئی عشروں سے طبی نامہ نگاری میں مصروف ہیں اور تحقیق کی اس تیزرفتاری پر حیران ہیں۔چیزیں بہت تیزی سے بدل رہی ہیں۔محقق سے لاما ٹینا اس پیش رفت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس صورت حال کا عملی طورپر کامیاب مظاہرہ کرنے میں کتنا عرصہ لگ جا ئے گا؟جواب میں لاماٹیناکا کہنا تھا کہ اس میں پانچ سے دس سال کا عرصہ مزید لگ سکتا ہے۔''میں ایک رجائیت پسند ہوں۔''لاما ٹینا کہتے ہیں۔''اس قسم کے کاموں کے لیے آپ کو رجائیت پسند ہی ہونا پڑتا ہے۔''
2013ء کا سال اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سال مصنوعی انسانی اعضاء تیار کرنے کے معاملے میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔ انسانی اعضاء کا ٹرانسپلانٹ جدید سائنس کی ایک اہم کامیابی ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو عطیہ شدہ انسانی اعضاء لگاکر نئی زندگی دی جاچکی ہے۔ تاہم عطیہ شدہ اعضاء کی قلت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اعضاء کے ٹرانسپلانٹ کے منتظر مریضو ں کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن اتنی تعداد میں اعضاء عطیہ نہیں کیے جا رہے۔ اس کا حل سائنسدان انسانی اعضاء کو مصنوعی طورپر لیبارٹریوں میں تیار کرکے تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔سائنس دانوں کی ان کوششوں سے مریضوں میں خاصی امید جاگی ہے۔
ویسے تو غیرپیچیدہ قسم کے مصنوعی اعضاء پہلے ہی لگائے جا رہے ہیں لیکن پیچیدہ نوعیت کے جسمانی اعضاء لیبارٹری میں تیار کرنے میں اب بھی کئی مشکلات درپیش ہیں۔جگر بھی ایسے پیچیدہ اعضاء میں سے ایک ہے۔ سائنسدان اس مشکل کا حل ڈھونڈنے کے لیے بھیڑ کے جگر پر تجربات کررہے ہیں۔
امریکا کی ویک فارسٹ یونیورسٹی نارتھ کیرولائنا کی ابریٹی ڈھل اس بارے میں بتاتی ہیں کہ ایک بڑی بھیڑ کے جگر کا سائز انسانی جگر کے برابر ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اب ہم بھیڑ کا مصنوعی جگر تیار کرنے میں کامیابی کے قریب ہیں اور امید ہے کہ اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو انسانی جگر تیار کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھیڑ کے جگر کے خلیات کو الگ کرلیں اور ان کی جگہ انسانی خلیات اس میں منتقل کرلیں تو یہ جگر انسان میں بھی کامیابی سے کام کرسکتا ہے۔اس طرح جگر کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو نیا جگر ٹرانسپلانٹ کرنے کے حوالے سے عطیہ شدہ جگر کی جو قلت ہے ، اس کو دور کیا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں جو طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، اسے ''ڈی سیلیولرائزیشن'' کہا جاتا ہے۔ اس طریقے میں بھیڑ کے جگر کو واش کیا جاتا ہے اور خلیات کو الگ کردیا جاتا ہے لیکن ڈھانچے کو برقرار رہنے دیا جاتا ہے۔اس کے بعد اس خالی ڈھانچے میں انسانی جگرکے خلیات کو ڈالا جاتا ہے اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ آیا خلیات اس ڈھانچے میں افزائش حاصل کرپاتے ہیں۔
ڈاکٹر انتھونی اٹالا جو کہ ویک فارسٹ انسٹی ٹیوٹ ری جنریٹو میڈیسن کے ڈائریکٹر ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ خلیات کی مختلف اقسام ان ٹشوز اور اعضاء کو تیار کرتی ہیں لیکن ہماری ترجیح ہے کہ مریض کے اپنے خلیات حتیٰ کہ مخصوص اعضاء کے مخصوص خلیات کو ہی استعمال کیا جائے کیونکہ یہ زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ انہیں کیسے کام کرنا ہے۔مثال کے طورپر ہوا کی نالی کا خلیہ پہلے ہی جانتا ہے کہ وہ ہوا کی نالی کا خلیہ ہے اور یہ ہوا کی نالی کا ایسا خلیہ تیار کرے گا جسے مریض کا جسم مسترد نہیں کرے گا۔
اس طرح لیبارٹری میں تھری ڈی پرنٹر کے ساتھ گردے اگانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس میں خلیات کو ''روشنائی'' کے طور استعمال کیا جارہا ہے۔یہ ایک زبردست طبی پیش رفت ہے تاہم پیچیدہ اور بنیادی انسانی اعضاء کو اگانے اور ٹرانسپلانٹ کرنے میں جو دشواری ہے ، وہ ابھی چیلنج ہے۔اس وقت ڈاکٹر جو انسانی اعضاء لیبارٹری میں تیار کرنے میں خاصی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں ، ان میں کان بھی شامل ہے۔ اس طرح دیگر کئی اعضا بھی لیبارٹری میں تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اگرچہ پھیپھڑوں کو لیبارٹری میں تیار کرنے اور ٹرانسپلانٹ کا معاملہ ابھی ذرا مستقبل کی کہانی دکھائی دیتا ہے تاہم سائنسدان اس ہدف کے حصول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ادھر نارتھ کیرولائنا کی ایک لیبارٹری میں گردے کے پروٹوٹائپ تھری ڈی ماڈل تیار کیے جاچکے ہیں۔اس طرح کئی اور لیبارٹریوں میں سائنس دان دل ، پھیپھڑوں ، گردوں اور جگر کو مصنوعی طورپر تیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے جانوروں اور انسانوں دونوں کے خلیات سے مدد لی جارہی ہے۔
یہاں پر ایک تصوراتی منظر نامہ ہے۔ایک مریض بائیوپسی یا محض خون کے ذریعے اپنے خلیات کا عطیہ دیتا ہے۔لیبارٹری ان خلیات یا ان سے بنائے گئے خلیات کو ایک کھانچے میں ڈالتی ہے جو کہ مطلوبہ اعضاء کی شکل کے ہوتے ہیں۔ میساچسٹس جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر ہیرالڈ اوٹ کے مطابق اس کے بعد ہم ایسا عضو تیار کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جس کو جسم کی طرف سے مسترد نہ کیا جائے۔ اس طرح ایسے اعضاء کو ڈیمانڈ کے مطابق تیار کیا جاسکتا ہے اور بالکل اسی طرح ٹرانسپلانٹ کیا جاسکتا ہے جس طرح عطیہ شدہ قدرتی اعضاء کو ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔ البتہ پھیپھڑے اور جگر ایسے پیچیدہ اعضاء ہیں جن کامستقبل قریب میں لیبارٹریوں میں تیار کرنا فی الحال دقت طلب دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب سادہ نوعیت کے کئی اعضاء دھڑا دھڑ لیبارٹریوں میں تیارکرکے مریضوں کو ٹرانسپلانٹ کیے جارہے ہیں اوران سے امید جاگتی ہے کہ ایک دن پیچیدہ انسانی اعضاء بھی لیبارٹری میں تیار ہوسکیں گے۔
صرف چند ہفتے قبل ایک لڑکی کو ہوا کی ایک ایسی نالی لگائی گئی جو سنتھیٹک کھانچے سے تیار کی گئی تھی۔یہ کھانچہ ایسے سٹم سیلز سے کور کیا گیا تھا جو کہ لڑکی کی اپنی ہڈی کے گودے سے حاصل کیاگیا تھا۔ایک درجن سے زائد مریضوں میں اس مصنوعی عضو کو ٹرانسپلانٹ کیا جاچکا ہے۔ اس طرح درجنوں مریض کامیابی کے ساتھ ایسے مثانوں پر زندگی گزار رہے ہیں جو کہ ان کے اپنے خلیات سے مصنوعی طریقے سے اُگائے گئے ہیں۔اس طرح درجنوں مریضوں میں پیشاب کی مصنوعی نالیاں لگائی جاچکی ہیں جو کہ ان کے مثانوں کے ٹشوز سے تیار کی گئی ہیں۔اس طرح ایک سویڈش لڑکی کامیابی سے ایک ایسی مصنوعی شریان کے ساتھ زندگی گذار رہی ہے جو اس کے جگر کی ایک بند شریان کی جگہ بائی پاس کے طورپر لگائی گئی ہے ۔اس طرح گھٹنے کی کرکری ہڈی کو مرمت کرنے کے لیے مریضوں کے ان کے اپنے خلیات استعمال کرنا ایک عام بات بن چکا ہے۔جلے ہوئے مریضوں کو مصنوعی جلد لگانے کا عمل بھی خاصا بڑھ چکا ہے۔
اینجیلا ایریزاری 2007 میں پیدا ہوئی تو اس کے دل کا صرف ایک چیمبر یا خانہ خون پمپ کررہا تھا۔اس کی وجہ سے اس کا جسم خطرناک حد تک آکسیجن کی کمی کا شکار تھا۔روایتی علاج کے تحت اس کے کئی آپریشن کیے گئے جن میں تازہ ترین آپریشن کے تحت اس کے دل کے قریب خون کی شریانیں لگائی گئیں جواس کی ایک نالی کو ایک آرٹری سے منسلک کرتی تھی اور یوں اس کے دل کے دوران خون کو نئے سرے سے منظم کیا گیا۔
ییل یونیورسٹی کے سرجنوں نے اینجیلا کے والدین کو بتایا کہ وہ ہڈیوں کے گودے کے خلیات سے نالی تخلیق کرسکتے ہیں اور جاپان میں یہ طریقہ کئی مریضوں میں کامیابی کے ساتھ استعمال کیاجاچکا ہے۔ تاہم امریکا میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہوگا۔ اینجیلا کی ماں کلاڈیا کا کہنا ہے کہ یہ رسک تھا۔تاہم اس نے اور اس کے خاوند نے اس آئیڈیا کو پسند کیا جس کے مطابق نالی اینجیلا کے ساتھ ساتھ ہی نشوونما پاتی رہے گی اوراس کو دوبارہ تبدیل کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
چنانچہ ایک دن بارہ گھنٹے کے آپریشن کے ذریعے ڈاکٹروں نے اینجیلا سے ہڈیوں کا گودا لیا ا ور اس میں سے مخصوص خلیات حاصل کیے اور بعد ازاں ان کو ایک بائیو ڈی گریڈایبل پانچ انچ کی ٹیوب میں ڈالا گیا۔اس کے بعد اس کو دوگھنٹے تک انکیوبیٹر میں رکھا گیا اور پھر گرافٹ کو اینجیلا میں ٹرانسپلانٹ کردیا گیا تاکہ اس کو خون کی نالی میں تبدیل کردیا جائے۔اینجیلا کی ماں کے بقول اس بات کو دوسال ہوچکے ہیںاور اینجیلا بہت ٹھیک جارہی ہے۔سرجری سے پہلے وہ دوڑنے اور کھیلنے سے محروم تھی اور بہت جلد تھک جاتی تھی۔اس کے جسم سے آکسیجن ایک دم غائب ہوجاتی تھی۔اب وہ ایک نارمل زندگی گذار رہی ہے۔
تاہم خلیے اور کھانچے کی مدد سے جسمانی عضو تیار کرنا کوئی پودا اگانے کی طرح سادہ نہیں۔اگرچہ اینجیلا کے آپریشن میں جس طرح کیا گیا ، اس طرح جاپان میں لگ بھگ دس سال سے کیاجارہا تھا تاہم اس کے بعد جاپانی سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ جسم کے اندر جو کچھ ہوتا ہے ، اس کو سمجھنے کے معاملے میں ان کا فہم مکمل طورپر غلط ہے۔
نیشنل وائیڈ چلڈرن ہاسپٹل کولمبس کے ڈاکٹر کرسٹوفر بریور کے بقول ہم ہمیشہ یہ فرض کیے بیٹھے تھے کہ ہم ان خلیات سے خون کی نالیاں بنا رہے ہیں جن کو ہم گرافٹ پر بوتے تھے۔تاہم چوہوں پر کیے گئے مطالعے سے پتہ چلا کہ بلڈنگ بلاکس اصل میں دیگر خون کی نالیوں سے ہجرت کرکے آنے والے خلیات تھے۔ بوئے گئے خلیات تو حقیقت میں بہت جلد مرگئے تھے۔اس سے ہمیں پتہ چلا کہ ہم کام تو درست کررہے تھے لیکن غلط اسباب کے لیے۔
یونیورسٹی آف پٹس برگ کے میکگووان انسٹی ٹیوٹ فار ری جنریٹو میڈیسن کے ڈائریکٹر ولیم ویگنر کا کہنا ہے کہ دیگر اقسام کے ٹرانسپلانٹ بھی یہ ظاہر کرچکے ہیں کہ بوئے گئے خلیات روشن چراغوں کی طرح کام کرتے ہوئے متعلقہ جسم کے خلیات کو اپنی جانب بلاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بہت اچھے طریقے سے کام کرتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ سوزش یا زخم کا باعث بن جاتے ہیں۔لہٰذا یہ ایک بنیادی چیلنج ہے کہ ٹرانسپلانٹ شدہ مصنوعی عضو کے خلیات کے جسم کے ساتھ ربط کو کنٹرول کیا جائے۔
نئے اعضا بنانے کا ایک سب سے روایتی طریقہ تو یہ ہے کہ ایک عضو کو لیا جائے اور اس میں سے تمام خلیات نکال لیا جائے اور صر ف کھانچے کو رہنے دیا جائے ، جس میں یہ خلیات موجود تھے۔ اس کے بعد اس کھانچے میں نئے خلیات فٹ کردیے جائیں۔میری لینڈ سکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر جان لاماٹینا کے بقول یہ اس طرح ہی ہے جیسے کسی عمارت میں سے تمام لوگوں کو نکال دیا جائے اور پھر اس میں بالکل نئے لوگوں کو بسادیا جائے۔ وہ اس طریقے کے ذریعے مصنوعی جگر تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس میں جگر کے سب سے خراب حصے کو تبدیل کیا جاتا ہے۔
اس میں پہلے سور کے اعضاء پر تجربہ کیا جارہا ہے۔اس میں سور کے اعضاء میں سے تمام خلیات نکال کر اس کے کھانچے میں انسانی خلیات فٹ کردیے جاتے ہیں۔ٹیکساس ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کی ڈورس ٹیلر کا دعویٰ ہے کہ مستقبل اسی کا ہے۔ یعنی سورکے اعضاء کے کھانچے میں انسانی خلیات فٹ کرکے ان اعضاء کو انسان میں فٹ کردیا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے کو استعمال کرکے 2008ء میں ایک چوہے کا دھڑکتا دل تیار کرلیا گیا تھا اور اب یہی طریقہ مختلف اعضاء کی تیاری کے لیے آزمایا جارہا ہے۔رپورٹ کے مطابق چونکہ سور اور مینڈھے کے مختلف اعضاء کا سائز انسانی اعضاء کے سائز کے برابر ہوتا ہے ، اس لیے ان جانوروں کے اعضاء میں سے خلیات کو نکال کر ان کے کھانچے میں انسانی خلیات کو فٹ کرکے انسانوں کے لیے کارآمد اعضاء کو تیار کیا جاسکتا ہے۔
سائنسدانوں کاکہنا ہے کہ ویسے تو کچھ مصنوعی اعضاء جیسے دانت کافی عرصہ سے تیار کیے جارہے ہیں لیکن یہ صحیح معنوں میں اعضاء کہلانے کے مستحق نہیں۔ دانت عضو کے بجائے محض ایک اوزار ہے اوراس کا نظام بہت سادہ ہے۔لیکن اب ہم ایسے اعضاء تیار کرنے کی جانب عملی کامیابی کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں جو پیچیدہ نظام کے حامل ہیں۔ایک طبی تجزیہ کار جان لیوس کے بقول اکیسویں صدی میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے جس سے طب کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ گردہ بھی ایک پیچیدہ عضو ہے، اس کی مصنوعی طریقے سے تیاری میں کامیابی ایک اہم کامیابی ہے اور وہ اس پر سائنس دانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ گذشتہ کئی عشروں سے طبی نامہ نگاری میں مصروف ہیں اور تحقیق کی اس تیزرفتاری پر حیران ہیں۔چیزیں بہت تیزی سے بدل رہی ہیں۔محقق سے لاما ٹینا اس پیش رفت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس صورت حال کا عملی طورپر کامیاب مظاہرہ کرنے میں کتنا عرصہ لگ جا ئے گا؟جواب میں لاماٹیناکا کہنا تھا کہ اس میں پانچ سے دس سال کا عرصہ مزید لگ سکتا ہے۔''میں ایک رجائیت پسند ہوں۔''لاما ٹینا کہتے ہیں۔''اس قسم کے کاموں کے لیے آپ کو رجائیت پسند ہی ہونا پڑتا ہے۔''