بھارت کے ریاستی انتخابات میں کانگریس کو شکست
کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کانگریس کو نئی دہلی میں ایسی شکست ہوگی، لیکن ایسا ہوگیا
بھارت کی مختلف ریاستوں میں انتخابات کے نتائج نے جہاں انتہا پسند ہندو تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور نئی ابھرتی سیاسی قوت ''عام آدمی پارٹی'' کی صفوں میں جیت اور خوشیوں کے شادیانے بجائے ہیں تو دوسری طرف ملک میں برسراقتدار کانگریس کی واضح شکست نے کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی، وزیراعظم من موہن سنگھ اور ان کی پوری ٹیم کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
الیکشن سے قبل تو ہر سیاسی جماعت اور امیدوار کی جانب سے اپنی فتح اور مخالفین کی شکست کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں، خود کو ملک و قوم کا سب سے زیادہ ہم درد اور دوسروں کو غدار اور لٹیرا کہنا سیاسی لیڈروں کا پرانا طریقۂ کار ہے لیکن فیصلہ ہر حال میں عوام ہی کرتے ہیں۔ الیکشن میں عوام کے ووٹ بتاتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کسے ابھی سدھرنے کی ضرورت ہے۔بھارتی ریاستی انتخابات کے حوالے سے تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی مختلف آرا سامنے آئیں، تاہم ایسا نہیں تھا کہ ہر کوئی کانگریس کی اس نمایاں شکست کی نشان دہی کرچکا تھا، دراصل کانگریس کی اس طرح ہار نے کانگریس والوں کو تو پریشان کیا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی پنڈت بھی حیران ہ گئے ہیں۔
کسی بھی جماعت کی واضح شکست کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اس پارٹی کو عوام ابھی حکم راں نہیں دیکھنا چاہتے یا اگر وہ حکومت میں وہ چکی ہے اور پھر لوگوں نے اسے ووٹ نہیں دیے تو سمجھ لینا چاہیے کہ لوگ اس کی پالیسیوں اور فیصلوں سے خوش نہیں۔ کانگریس کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا ہے کہ لوگوں نے اس کی پالیسیوں اور فیصلوں کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 15 سال سے نئی دہلی کی وزارت اعلیٰ اپنے پاس رکھنے والی کانگریس کی شیلا ڈکشٹ کو بھی وزیر اعلیٰ ہائوس چھوڑ کر گھر جانا پڑا ہے۔
کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کانگریس کو نئی دہلی میں ایسی شکست ہوگی، لیکن ایسا ہوگیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ کانگریس کے راہ نما اور تھنک ٹینک سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور شکست کے ذمے داروں کا تعین کرنے کی کوشش میں ہیں۔ دوسری جانب انتہا پسند بی جے پی اور نئی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی کے حامیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ بی جے پی نے تو کئی ریاستوں میں فیصلہ کن برتری حاصل کی ہے۔ تاہم عام آدمی پارٹی نے بھی نئی دہلی میں اپنی دو درجن سے زاید نشستیں جیت کر اپنے ہونے کا احساس دلادیا ہے۔
بھارتی ریاستی انتخابات کے اعدادوشمار پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ مجموعی طور پر کانگریس کو بہت بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نئی دہلی جسے کانگریس کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا، وہاں کانگریس نے اسمبلی کی 70 میں سے صرف 8 نشستیں جیتیں جو عوام کے عدم اعتماد کا کھلا ثبوت ہے۔ نئی دہلی سے اروند کیجری وال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی نے 28 حلقوں میں کام یابی حاصل کی، عام آدمی پارٹی کے قائد اروند کیجری وال نے شیلا ڈکشٹ کو ہراکر تہلکہ مچادیا۔ دہلی سے بھارتیہ جنتا پارٹی سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پارٹی بنی، بی جے پی نے 31 نشستوں کو اپنے نام کیا ہے۔ بی جے پی کے ہرش وردھن نئی دہلی کے نئے وزیراعلیٰ ہوں گے تاہم اس کا باقاعدہ اعلان ہونا ابھی باقی ہے، جس کے بعد وہ کانگریس کی شیلا ڈکشٹ کی جگہ وزیراعلیٰ ہائوس کے نئے مکین ہوں گے۔
بی جے پی نے راجستھان کی 200 میں سے 162 نشستیں حاصل کرکے اپنی فتح کا اعلان کردیا ہے، یہاں بھی کانگریس کے امیدواروں کو خفت کا سامنا کرنا پڑا اور سونیا گاندھی اینڈ پارٹی کے حصے میں صرف 21 نشستیں آئیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس کام یابی کے بعد بی جے پی کی حکومت کا اعلان رسمی ہوگا۔ ریاست مدھیہ پردیش 230 نشستوں کے انتخابات میں 230 حلقوں میں انتخابی معرکہ آرائی ہوئی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہاں بھی کانگریس کو دھول چٹادی۔ بی جے پی نے مدھیہ پردیش اسمبلی کی 165 نشستیں جیت کر اپنی فتح کا بگل بجادیا، جب کہ اس کی روایتی حریف کانگریس کو صرف 58 حلقوں میں کام یابی کے نغمے گانے کا موقع ملا۔
ریاست چھتیس گڑھ میں انتخابی معرکہ آرائی کو ایک سخت مقابلہ کہا جاسکتا ہے، جہاں کانگریس اور بی جے پی دونوں کے درمیان زبردست کشمکش دیکھنے میں آئی۔ یہاں 90 میں سے بی جے پی نے 49 جب کہ کانگریس نے 39 نشستیں جیتیں۔ ریاست میزورام میں کانگریس کو واضح اکثریت سے کام یابی ملی، میزورام کی 40 میں سے 31 نشستیں کانگریس کے حصے میں آئیں۔ یہاں پر آنے والے انتخابی نتائج کو دیکھ کر یقینی طور پر کانگریس اور اس کے حامیوں نے تھوڑی دیر کے لیے سکھ کا سانس ضرور لیا ہوگا، کیوںکہ دوسری ریاستوں میں تو ان کو بری طرح شکست ہوئی ہے۔
میزورام کی کامیابی کے باوجود نئی دہلی، چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی شکست نے بھارتی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔ نئی دہلی میں عام آدمی پارٹی کو ''کنگ میکر'' کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کی روایتی مقابلے بازی اور دونوں پارٹیوں کا عام آدمی پارٹی سے بھرپور اختلاف حکومت سازی کے مراحل کو ابھی سے کافی پیچیدہ بنارہا ہے۔ نئی دہلی میں کسی جماعت کو اتنی اکثریت حاصل نہیں کہ وہ اکیلے حکومت تشکیل دے سکے، گوکہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوئی، لیکن موجودہ صورت حال میں ایسا بھی لگتا کہ عام آدمی پارٹی کانگریس یا بی جے پی سے ہاتھ ملالے گی یا کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار کے لیے ایک دوسرے کو گلے لگانے کے لیے مجبور ہوجائیں گی۔
الیکشن سے قبل تو ہر سیاسی جماعت اور امیدوار کی جانب سے اپنی فتح اور مخالفین کی شکست کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں، خود کو ملک و قوم کا سب سے زیادہ ہم درد اور دوسروں کو غدار اور لٹیرا کہنا سیاسی لیڈروں کا پرانا طریقۂ کار ہے لیکن فیصلہ ہر حال میں عوام ہی کرتے ہیں۔ الیکشن میں عوام کے ووٹ بتاتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کسے ابھی سدھرنے کی ضرورت ہے۔بھارتی ریاستی انتخابات کے حوالے سے تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی مختلف آرا سامنے آئیں، تاہم ایسا نہیں تھا کہ ہر کوئی کانگریس کی اس نمایاں شکست کی نشان دہی کرچکا تھا، دراصل کانگریس کی اس طرح ہار نے کانگریس والوں کو تو پریشان کیا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی پنڈت بھی حیران ہ گئے ہیں۔
کسی بھی جماعت کی واضح شکست کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اس پارٹی کو عوام ابھی حکم راں نہیں دیکھنا چاہتے یا اگر وہ حکومت میں وہ چکی ہے اور پھر لوگوں نے اسے ووٹ نہیں دیے تو سمجھ لینا چاہیے کہ لوگ اس کی پالیسیوں اور فیصلوں سے خوش نہیں۔ کانگریس کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا ہے کہ لوگوں نے اس کی پالیسیوں اور فیصلوں کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 15 سال سے نئی دہلی کی وزارت اعلیٰ اپنے پاس رکھنے والی کانگریس کی شیلا ڈکشٹ کو بھی وزیر اعلیٰ ہائوس چھوڑ کر گھر جانا پڑا ہے۔
کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کانگریس کو نئی دہلی میں ایسی شکست ہوگی، لیکن ایسا ہوگیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ کانگریس کے راہ نما اور تھنک ٹینک سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور شکست کے ذمے داروں کا تعین کرنے کی کوشش میں ہیں۔ دوسری جانب انتہا پسند بی جے پی اور نئی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی کے حامیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ بی جے پی نے تو کئی ریاستوں میں فیصلہ کن برتری حاصل کی ہے۔ تاہم عام آدمی پارٹی نے بھی نئی دہلی میں اپنی دو درجن سے زاید نشستیں جیت کر اپنے ہونے کا احساس دلادیا ہے۔
بھارتی ریاستی انتخابات کے اعدادوشمار پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ مجموعی طور پر کانگریس کو بہت بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نئی دہلی جسے کانگریس کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا، وہاں کانگریس نے اسمبلی کی 70 میں سے صرف 8 نشستیں جیتیں جو عوام کے عدم اعتماد کا کھلا ثبوت ہے۔ نئی دہلی سے اروند کیجری وال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی نے 28 حلقوں میں کام یابی حاصل کی، عام آدمی پارٹی کے قائد اروند کیجری وال نے شیلا ڈکشٹ کو ہراکر تہلکہ مچادیا۔ دہلی سے بھارتیہ جنتا پارٹی سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پارٹی بنی، بی جے پی نے 31 نشستوں کو اپنے نام کیا ہے۔ بی جے پی کے ہرش وردھن نئی دہلی کے نئے وزیراعلیٰ ہوں گے تاہم اس کا باقاعدہ اعلان ہونا ابھی باقی ہے، جس کے بعد وہ کانگریس کی شیلا ڈکشٹ کی جگہ وزیراعلیٰ ہائوس کے نئے مکین ہوں گے۔
بی جے پی نے راجستھان کی 200 میں سے 162 نشستیں حاصل کرکے اپنی فتح کا اعلان کردیا ہے، یہاں بھی کانگریس کے امیدواروں کو خفت کا سامنا کرنا پڑا اور سونیا گاندھی اینڈ پارٹی کے حصے میں صرف 21 نشستیں آئیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس کام یابی کے بعد بی جے پی کی حکومت کا اعلان رسمی ہوگا۔ ریاست مدھیہ پردیش 230 نشستوں کے انتخابات میں 230 حلقوں میں انتخابی معرکہ آرائی ہوئی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہاں بھی کانگریس کو دھول چٹادی۔ بی جے پی نے مدھیہ پردیش اسمبلی کی 165 نشستیں جیت کر اپنی فتح کا بگل بجادیا، جب کہ اس کی روایتی حریف کانگریس کو صرف 58 حلقوں میں کام یابی کے نغمے گانے کا موقع ملا۔
ریاست چھتیس گڑھ میں انتخابی معرکہ آرائی کو ایک سخت مقابلہ کہا جاسکتا ہے، جہاں کانگریس اور بی جے پی دونوں کے درمیان زبردست کشمکش دیکھنے میں آئی۔ یہاں 90 میں سے بی جے پی نے 49 جب کہ کانگریس نے 39 نشستیں جیتیں۔ ریاست میزورام میں کانگریس کو واضح اکثریت سے کام یابی ملی، میزورام کی 40 میں سے 31 نشستیں کانگریس کے حصے میں آئیں۔ یہاں پر آنے والے انتخابی نتائج کو دیکھ کر یقینی طور پر کانگریس اور اس کے حامیوں نے تھوڑی دیر کے لیے سکھ کا سانس ضرور لیا ہوگا، کیوںکہ دوسری ریاستوں میں تو ان کو بری طرح شکست ہوئی ہے۔
میزورام کی کامیابی کے باوجود نئی دہلی، چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی شکست نے بھارتی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔ نئی دہلی میں عام آدمی پارٹی کو ''کنگ میکر'' کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کی روایتی مقابلے بازی اور دونوں پارٹیوں کا عام آدمی پارٹی سے بھرپور اختلاف حکومت سازی کے مراحل کو ابھی سے کافی پیچیدہ بنارہا ہے۔ نئی دہلی میں کسی جماعت کو اتنی اکثریت حاصل نہیں کہ وہ اکیلے حکومت تشکیل دے سکے، گوکہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوئی، لیکن موجودہ صورت حال میں ایسا بھی لگتا کہ عام آدمی پارٹی کانگریس یا بی جے پی سے ہاتھ ملالے گی یا کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار کے لیے ایک دوسرے کو گلے لگانے کے لیے مجبور ہوجائیں گی۔