خون میں ڈوبے دن
2013ء میں ہونے والی دہشت گردی میں آبادیوں کو بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے مختلف واقعات پیش آئے
1980ء کی دہائی سے دہشت گردی ایک ایسا آسیب بن چکا ہے، جس پر قابو پانا بہت کٹھن دکھائی دیتا ہے۔
تیسری فوجی آمریت کے زمانے میں جڑ پکڑنے والے اس مسئلے نے جہاں اُس زمانے میں علامہ احسان الٰہی ظہیر، علامہ عارف الحسینی اور ظہورالحسن بھوپالی جیسے سیاسی راہ نمائوں کو نشانہ بنایا، وہیں اس کے بعد سے اب تک ہزاروں کے حساب سے بے گناہ لوگ بھی موت کے گھاٹ اتار دیے ہیں۔ اس کا عنوان سیاسی اور فرقہ وارانہ رہے، بعد میں لسانیت کا عنصر بھی در آیا۔ بم دھماکوں کے علاوہ، خودکُش حملوں اور ہدف بنا کر قتل کیے جانے کے سلسلے نے بھی زور پکڑ لیا۔ سیکڑوں مزید مذہبی، سیاسی اور سماجی راہ نما قتل کیے جاتے رہے، جس کی زد میں مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز رکھنے والی بے نظیر بھٹو بھی آگئیں۔ سمے کا دھارا بہتا رہا، مگر دھرتی کے اس مرض کا علاج ممکن نہ ہوسکا۔ بیتتے لمحات میں یہ مسئلہ منہ زور ہوتا گیا۔ معاملہ صرف داخلی تو نہ تھا، سرحدوں سے پرے عالمی سام راج کے کھلواڑ سے ہی یہ مسئلہ شروع ہوا اور ناعاقبت اندیش حاکموں نے جسے مہمیز لگایا، پھر نئی صدی میں کچھ اپنے تراشیدہ بتوں کی مسماری کا وقت آیا تو پھر اسی خطے کو ایندھن بنایا گیا۔ نہ جانے وہ برس کب آئے گا، جب ہم اس کے اختتام پر یہ کہہ سکیں کہ یہ برس خیر کے ساتھ گزر گیا۔۔۔
ذرا ٹھہر کر گزرے برس میں بہنے والے لہو کا جائزہ لیں، تو واضح طور پر مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے مختلف سلسلے نظر آتے ہیں۔ کہیں فرقہ ورایت کے شعلے بھڑکتے رہے، کہیں مذہبی شدت پسند ی کی تلوار سل قلم کرتی رہی اور تو کہیں لسانیت کا عفریت پنجے گاڑے خون پیتا رہا۔
٭آبادیوں پر بم حملے
2013ء میں ہونے والی دہشت گردی میں آبادیوں کو بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے مختلف واقعات پیش آئے، جن میں سے ایک، ایک واقعے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔ سال کے ابتدائی دنوں میں ہی 10جنوری کو کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 86 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دہشت گردی کے اس الم ناک واقعے کے بعد مرنے والوں کے لواحقین میتیں لے کر احتجاجاً دھرنے پر بیٹھ گئے، ان کے ساتھ پورے ملک میں شیعہ مکتب فکر کے افراد سڑکوں پر آبیٹھے۔ بعدازاں احتجاج کرنے والوں کے مطالبے پر بلوچستان کی حکومت برطرف کرکے گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ 16 فروری کو کوئٹہ میں ایک بار پھر ہزارہ برادری نشانہ بنی۔ واقعے میں 84 افراد جان سے گئے۔ اس کے بعد اسی سال 30 جون کو ہزارہ برادری تیسری بار نشانہ بنی، جس میں 28 زندگیوں کے چراغ گُل ہوگئے۔ 3 مارچ کو کراچی کے علاقے عباس ٹائون میں بھی اسی طرح رہایشی علاقے کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 50 افراد لقمہ اجل بنے۔
٭خیبرپختونخوا کی عبادت گاہوں میں لہو
گذشتہ کئی برسوں کی طرح 2013ء میں بھی دہشت گردی سے صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقے زیادہ متاثر ہوئے۔ دہشت گردوں نے مساجد اور عبادت گاہیں بخشیں اور نہ بازار خیبر پختونخوا میں 2013ء میں مساجد اور عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں کم از کم 150 لوگوں کی زندگی کے چراغ گُل ہوگئے۔ سال کے آغاز پر ہی 10جنوری کو مینگورہ میں مکی مسجد میں نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 25 نمازی جان سے گئے، سال کا سب سے ہلاکت خیز واقعہ 22 ستمبر کو پیش آیا، جب پشاور کے کوہاٹی چوک میں واقع گرجے میں دو خوف ناک خودکُش دھماکوں میں 80 سے زاید ہلاکتیں ہوئیں۔ 9 مارچ کو پشاور کے مینا بازار سے ملحقہ محلہ باقر شاہ میں نماز ظہر کے دوران مسجد کو ہدف بنایا گیا، پیش امام سمیت 6 افراد اس افسوس ناک واقعے کی نذر ہوگئے۔ 17 مئی کو مالاکنڈ کے گائوں بازدرہ بالا کی دو مساجد دہشت گردوں کا نشانہ بنیں۔ نماز جمعہ کے اجتماع کے موقع پر ہونے والے یکے بعد دیگرے دھماکوں میں 20 نمازی جاں بحق ہوگئے اور مساجد بھی شہید ہوگئیں۔ 21 جون کو پشاور کی فیصل کالونی جی ٹی روڈ کی مسجد نشانہ بنی، جس میں پولیس اہلکار سمیت 15 افراد جاں بحق ہوگئے۔
٭10غیرملکی سیاحوں کا قتل
دہشت گردوں نے غیرملکی مہمانوں کو بھی نہ بخشا۔ 23 جون کو گلگت بلتستان کے علاقے میں نانگا پربت بیس کیمپ میں نصف شب کو اسکائوٹس کی وردیوں میں ملبوس حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے 10غیرملکی سیاح اور ایک پاکستانی گائیڈ کو قتل کردیا۔ ان سیاحوں کا تعلق چین، سلواکیہ، امریکا لتھوانیا اور یوکرین سے تعلق تھا۔
٭بلوچستان میں خوں ریزی
فرقہ وارانہ بنیادوں اور غیرملکیوں کے علاوہ لسانی بنیادوں پر بھی دہشت گردی کے کچھ افسوس ناک واقعات پیش آئے، جس میں ہلاکتوں کے اعتبار سے سب سے بڑا واقعہ 6 اگست کو پیش آیا، جب بولان کے علاقے مچھ میں کوئٹہ سے پنجاب جانے والی تین مسافر بسوں کے مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان میں سے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ ان تمام کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اس سے قبل 24 فروری کو گوادر میں حملہ آوروں نے مکران کوسٹل ہائی وے پر کام کرنے والے محنت کشوں کو اسی طرح شناخت کے بعد قطار میں کھڑا کرکے گولیاں ماردی تھیں۔ مقتولین کا تعلق بلوچستان کے ضلع ژوب سے تھا۔ اسی طرح 21 اکتوبر کو ڈیرہ مراد جمالی کے قریب پنڈی سے کوئٹہ جانے والی ریل گاڑی پر بم سے حملہ کیا گیا، جس میں 7 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے۔
15جون کو کوئٹہ میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات میں ڈپٹی کمشنر عبدالمنصور کاکڑ اور 14طالبات سمیت 22 ہلاک ہوگئے۔ دہشت گردوں نے خواتین یونیورسٹی کی بس پر دھماکے کے بعد طبی امداد کے لیے اسپتال جانے والے زخمیوں کی موجودگی میں اسپتال کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔ اسی دن زیارت میں قومی ورثہ قرار دی گئی قائد اعظم کی رہایش گاہ کو بھی خاکستر کرنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔
خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی سیکیوریٹی فورسز نشانے پر رہیں۔ 12 مئی کو آئی جی بلوچستان مشتاق احمد سکھیر پر خودکُش حملہ ہوا، جس میں 5 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوگئے۔ اسی طرح 23 مئی کو کوئٹہ میں 13 پولیس اہل کار بم حملے کی نذر ہو گئے۔ 27 جولائی کو گوادر میں کوسٹ گارڈ کی چیک پوسٹ پر حملے میں 10 اہل کار ہلاک ہوئے۔ 2 اکتوبر کو چمن میں باب دوستی پر خودکُش حملہ ہوا، جس میں 2 افغان فوجی اور ایف سی اہل کار سمیت7 افراد لقمۂ اجل بنے۔ اسی دن زلزلے سے متاثرہ آواران میں امدادی کاموں میں مصروف 2 فوجی ریموٹ کنٹرول حملے کی نذر ہوگئے۔
٭سب سے بڑا صوبہ بھی پرُامن نہ رہا
ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی دہشت گردی کے مختلف واقعات کی زد میں رہا۔ جس میں سانحۂ بادامی باغ سب سے افسوس ناک واقعہ ہے۔ 9 مارچ کو مبینہ طور پر توہین رسالت کے ایک واقعے کے نتیجے میں لاہور کے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی میں مشتعل افراد نے ایک گرجے سمیت 170 گھروں کو نذر آتش کر دیا، جس کے خلاف اقلیتی برادری نے سخت احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ23 اگست کو پنجاب کا علاقہ بکھر فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں آگیا، جس میں 11 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ 6 دسمبر کو لاہور میں ''اہلسنت والجماعت'' کے مولانا شمس الرحمن معاویہ اور 15 دسمبر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ علامہ ناصر عباس دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔
٭ کوئٹہ دھماکوں سے لرزتا رہا
دہشت گردی کے دیگر واقعات کا اجمالی جائزہ لیں تو کوئٹہ، خضدار اور چمن میں 9 بم دھماکوں میں 41 سے زاید جانیں گئیں، جن میں سب سے بڑا واقعہ 8 اگست کو اس وقت پیش آیا، جب فائرنگ سے جاں بحق ایس ایچ او سٹی محب اللہ دادی کی نماز جنازہ کے لیے صف بندی کی جا رہی تھی کہ ایک خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا، جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی آپریشن فیاض احمد سنبل اور دیگر افسران سمیت 30 ہلاک ہوگئے۔ اس کے علاوہ 30 اکتوبر کو کوئٹہ میں بم دھماکے میں 4 افراد کی زندگیوں کے چراغ بجھے۔ 20نومبر کو کوئٹہ اور خضدار میں یکے بعد دیگرے 5 دھماکے ہوئے جس میں 2 جانیں گئیں۔21نومبر کو کوئٹہ اور چمن کے بم دھماکوں نے 5 افراد کی جانیں لیں۔
٭روشنیوں کے شہر میں خوف کے سائے!
عروس البلاد کراچی کو اگر قومی تاریخ کا سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثرہ شہر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تین عشرے قبل خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں جب دہشت گردی کے شعلے بھڑکے، تو اس کی سب سے زیادہ تپش مجموعی طور پر اس شہر نے محسوس کی اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس کی صورت حال گنجلک ہوتی چلی گئی۔ 2013ء میں شہر میں ہونے والے بم دھماکوں میں عام لوگوں کے ساتھ، سیکیوریٹی اہل کار، جج اور صحافی بھی نشانہ بنے۔
براہ راست انتخابی مہم کو بم حملوں میں نشانہ بنانے کے دوران درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران یہ دھماکے برنس روڈ، عزیز آباد، قصبہ، لیاری، کورنگی، نارتھ کراچی اور دیگر علاقوں میں پیش آئے۔ اس سے قبل یکم جنوری کو متحدہ قومی موومنٹ کے جلسے کے شرکا کی واپسی کے دوران عائشہ منزل پر دھماکا ہوا، جس میں 4 افراد جان سے گئے۔
26 جون کو برنس روڈ کے علاقے میں نصب بم کے ذریعے سینئر جج جسٹس مقبول باقر کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا، جس میں6 پولیس اور 2 رینجرز اہل کار ہلاک ہوئے اور جسٹس مقبول باقر بھی زخمی ہو گئے۔
10 جولائی کو کراچی میں گرومندر کے نزدیک ایک خودکُش حملے میں صدر آصف زرداری کے سیکیوریٹی انچارج بلال شیخ ہلاک ہوگئے۔ بلال شیخ اپنی بم پروف گاڑی سے پھل خریدنے کے لیے رکے تھے کہ بمبار نے قریب آکر دھماکا کردیا۔ 7اگست کو لیاری میں بزنجو چوک میں فٹبال میچ کے اختتام پر بم دھماکے میں 11 افراد ہلاک ہو گئے۔ تقریب میں مہمان خصوصی صوبائی وزیر جاوید ناگوری بھی شریک تھے، جو بال بال بچ گئے۔ شہر کے دیگر اہم دہشت گرد واقعات میں 24جنوری کو کراچی میں قائد آباد بختاور گوٹھ میں یکے بعد دیگرے 2 بم دھماکوں میں ڈی ایس پی سمیت 3 افراد ہلاک ہوگئے۔
22اگست کو ایک فوجی ٹرک کورنگی میں رینجرز ہیڈکواٹر کے قریب سڑک کنارے نصب بم کا نشانہ بن گیا۔ واقعے میں ایک اہل کار اور ایک راہ گیر لقمہ اجل بنے، جب کہ دس فوجیوں سمیت 19 افراد زخمی ہوئے، بعدازاں مزید دو زخمی فوجی بھی دم توڑ گئے، یوں مجموعی طور پر تین فوجیوں سمیت ہلاکتوں کی تعداد چار ہو گئی۔22 نومبر کو انچولی کے علاقے میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں نجی ٹی وی کے صحافی سمیت 6 افراد جان سے گئے۔
٭اہدافی قتل کا جن۔۔۔
روشنیوں کے شہر کراچی میں شاید ہی کوئی دن جاتا ہو کہ جب گولیاں نہ چلتی ہوں اور لاشیں نہ گرتی ہوں۔ تصادم اور واقعات سے قطع نظر یہاں ایک جن ہدف بنا کر قتل کرنے کا ہے۔ لوگوں کون اور کیوں قتل کرتا ہے، اس کا پتا کم ہی چل پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر کے حالات میں روزانہ نصف درجن سے زاید ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ ''نامعلوم'' کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔ پولیس کی نفری کے ساتھ 1989ء سے مسلسل موجود رینجرز گاہے بگاہے ''سرگرم'' ہوتی رہتی ہے۔ ان دنوں بھی شہر میں بہت زیادہ اس کا غلغلہ ہے۔ مگر یہ نشانہ وار قتل اس شہر کا ایسا آسیب معلوم ہوتا ہے، جس سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں لگتا۔ روزانہ اوسطاً درجن بھر سے زاید افراد کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 10 ہزار سے زاید ملزمان کو حراست میں لے رکھا ہے، مگر اہدافی قتل کا جن ان تمام کارروائیوں سے بے نیاز روزانہ اس شہر کی جنتا کے آٹھ، دس سے پندرہ تک کی جانوں کا لہو پی جاتا ہے۔ اسی پر بس نہیں بہت سے افسوس ناک واقعات میں باوردی اہلکاروں کی جانب سے سرِعام شہریوں کا خون بھی ہوت رہا۔ اس سال بھی 16 جولائی کو رینجرز کی جانب سے نہ رکنے پر ایک 30 سالہ ٹیکسی ڈارئیور کو گولیاں مار دی گئیں۔
اہدافی قتل سے اراکین اسمبلی بھی نہ بچ سکے۔ متحدہ کے دو اراکین سندھ اسمبلی منظر امام18 جنوری اور ساجد قریشی21 جون کو ان نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ انتخابات کے دوران اے این پی کے امیدوار قومی اسمبلی امین صادق بھی نامعلوم گولیوں کی زد میں آئے۔
اگر شہرقائد میں گرتی لاشوں کے صرف چند مہیب ترین دنوں کا احاطہ کریں، تو اس شہر میں 2013ء کے دوران بیتنے والے محض 12 مختلف دنوں میں 152 جانیں ضایع ہوئیں! 13 اگست کو کراچی میں اسماعیلی جماعت خانے اور رہایشی منصوبے پر دستی بموں سے حملے اور دیگر واقعات میں ماں، بیٹا سمیت 8... 27 اگست کو 17، 25 اگست کو 13 ،21 اگست کو 16، 4 ستمبر کو 14، 30 ستمبر کو باپ بیٹوں سمیت17، 2 اکتوبر کو 10، 24 اکتوبر کو 11، 20نومبر کو11، یکم دسمبر کو 10، 3 دسمبر کو 15 اور 14 دسمبر 10زندگیوں کے چراغ گُل کردیے گئے۔
٭بازاروں میں قیامت کے نظارے
دہشت گردوں نے مساجد کے ساتھ بازاروں کو بھی اپنے نشانے پر لیے رکھا۔ بازاروں میں ہونے والی دہشت گردی کے بڑے واقعات میں 80 کے قریب افراد لقمہ اَجل بنے۔ 8 فروری کو دہشت گردوں نے اورکزئی ایجینسی میں بازار کو خون میں نہلادیا، جس میں 15 ہلاک اور25 زخمی ہوگئے۔ چند دن کے بعد ایک بار پھر اورکرزئی، بنوں اور ہنگو میں خودکُش حملے اور دھماکے ہوئے جس میں تقریباً 22 افراد نشانہ بنے۔ 29ستمبر کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں گاڑی کے ذریعے کیے جانے و الے دھماکے کے نتیجے میں 41 افراد ہلاک جب کہ 100 سے زاید زخمی ہوگئے۔
٭مہران میں پیش آئے واقعات
دیگر صوبوں کی طرح صوبہ سندھ کو بھی کچھ دہشت گردیوں کے واقعات کا سامنا رہا۔ ملک کے مختلف علاقوں کی طرح دہشت گردوں نے یہاں بھی انتخابی مہم کو نشانہ بنایا، جس میں متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی امیدوار فخر الاسلام ہلاک ہوئے۔ 13 اگست کو حیدرآباد سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں یکے بد دیگرے کئی دھماکے ہوئے۔ قومی پرچم فروخت کرنے والے مختلف اسٹالوں پر 3 حملے ہوئے جس میں ایک شخص جاں بحق اور 2 افراد زخمی ہو گئے۔ اس کے علاوہ دادو، نواب شاہ اور لاڑکانہ میں بھی کریکر دھماکے کیے گئے۔
اسی طرح 29 اکتوبر کو حیدرآباد کے علاوہ کوٹری، لاڑکانہ، دادو، نوشہرو فیروز، محراب پور، بدین، خیرپور اور دیگر علاقوں میں سمیت اندرون سندھ یکے بعد دیگرے ہلکی نوعیت کے سلسلہ وار 33 دھماکے ہوئے جن میں ایک شخص کی جان گئی۔ اس کے علاوہ 24 جولائی سکھر کے علاقے بیراج کالونی میں آئی ایس آئی کے دفتر پر خودکُش حملے میں 2 اہل کار اور شہری جاں بحق ہو گئے۔ حملہ آوروں نے دھماکے کے بعد فائرنگ بھی کی، جس میں 3 حملہ آور بھی مارے گئے۔
٭فورسز پر سب سے زیادہ حملے
خیبر پختونخوا میں پولیس، رینجرز اور فوج پر ہونے والے درجن بھر حملوں میں 50 کے قریب سیکیوریٹی اہل کار اور دیگر لوگ زد میں آکر جان سے گئے۔
12جنوری کو شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں فوجی قافلے پر ریمورٹ کنٹرول حملہ کیا گیا، جس میں 17 فوجی جان سے گئے۔ 23 مارچ کو شمالی وزیرستان میں فوجی چیک پوسٹ پر بارود سے بھرا پانی کا ٹینکر ٹکرا دیا، جس میں افسر سمیت 6 ہلاکتیں ہوئیں۔ 29مارچ کو پشاور میں خودکُش حملے میں ایف سی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 12 ہلاکتیں ہوئیں۔ 25مئی کو پشاور میں حملوں میں 6 پولیس اہل کاروں سمیت 9 افراد ہلاک ہوگئے۔
30 جون کو پشاور میں بڈھ بیر کے مقام پر فوجی قافلہ نشانہ بنا، جس سے بھرے بازار میں تباہی پھیل گئی اور 18 ہلاکتیں ہوئیں۔ یکم ستمبر کوشمالی وزیرستان میں 9 سیکیوریٹی اہل کار جان سے گئے۔ 20 اکتوبر کو پشاور میں پولیس ناکے پر فائرنگ سے 2 افسران سمیت 4 اہل کار ہلاک ہوئے۔ 30اکتوبر کو جنوبی وزیرستان بارودی سرنگ کے دھماکے میں 5 فوجی ہلاک ہوگئے۔ 15 ستمبر کو پاک افغان سرحدی علاقے میں ہونے والے بم دھماکے میں میجر جنرل ثنا اﷲ نیازی دو جوانوں سمیت شہید ہوگئے۔
٭خوں آشامی کے دیگر واقعات
خیبر پختونخوا میں 2013ء کی دیگر خوں آشام کارروائیوں کا سلسلہ بھی کم نہ رہا۔ شدت پسندوں نے 3 اکتوبر کو ہنگو میں اپنے ایک منحرف کمانڈر ملا نبی حنفی کے مرکز پر خودکُش حملہ کرکے 17 افراد ہلاک کردیے۔ کرم ایجینسی میں جاری انتخابی مہم کے دوران 6 مئی کو جمعیت علمائے اسلام کے جلسے میں دھماکا ہوا، جس میں 18 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ انتخابات کے بعد تحریک انصاف بھی اس کا نشانہ بنی اور 16 اکتوبر کو عید کے روز ڈیرہ اسمعیل خان کی تحصیل کلاچی میں ہونے والے خودکُش دھماکے میں صوبائی وزیر قانون اسرار اللہ گنڈا پور سمیت 8 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس کے علاوہ دہشت گردی کے دیگر اہم واقعات میں بھی بہت سی قیمتیں جانیں ضایع ہوئیں۔ 10 جون کو خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں خاصے دار فورس کی وردی میں ملبوس شدت پسندوں نے نیٹو کنٹینر پر حملہ کیا، جس میں 6 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ 27 ستمبر کو پشاور میں چارسدہ روڈ گل بیلہ پر سرکاری ملازمین کی بس میں دھماکا ہوا، جس میں 2 خواتین سمیت 19 جاں بحق ہوگئے۔ 28 اپریل کو کوہاٹ میں ہونے والے دھماکے میں 5افراد ہلاک ہوئے، جب کہ اسی روز پشاور میں ہونے والے دھماکے نے 3 زندگیوں کے چراغ گُل کردیے۔
تیسری فوجی آمریت کے زمانے میں جڑ پکڑنے والے اس مسئلے نے جہاں اُس زمانے میں علامہ احسان الٰہی ظہیر، علامہ عارف الحسینی اور ظہورالحسن بھوپالی جیسے سیاسی راہ نمائوں کو نشانہ بنایا، وہیں اس کے بعد سے اب تک ہزاروں کے حساب سے بے گناہ لوگ بھی موت کے گھاٹ اتار دیے ہیں۔ اس کا عنوان سیاسی اور فرقہ وارانہ رہے، بعد میں لسانیت کا عنصر بھی در آیا۔ بم دھماکوں کے علاوہ، خودکُش حملوں اور ہدف بنا کر قتل کیے جانے کے سلسلے نے بھی زور پکڑ لیا۔ سیکڑوں مزید مذہبی، سیاسی اور سماجی راہ نما قتل کیے جاتے رہے، جس کی زد میں مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز رکھنے والی بے نظیر بھٹو بھی آگئیں۔ سمے کا دھارا بہتا رہا، مگر دھرتی کے اس مرض کا علاج ممکن نہ ہوسکا۔ بیتتے لمحات میں یہ مسئلہ منہ زور ہوتا گیا۔ معاملہ صرف داخلی تو نہ تھا، سرحدوں سے پرے عالمی سام راج کے کھلواڑ سے ہی یہ مسئلہ شروع ہوا اور ناعاقبت اندیش حاکموں نے جسے مہمیز لگایا، پھر نئی صدی میں کچھ اپنے تراشیدہ بتوں کی مسماری کا وقت آیا تو پھر اسی خطے کو ایندھن بنایا گیا۔ نہ جانے وہ برس کب آئے گا، جب ہم اس کے اختتام پر یہ کہہ سکیں کہ یہ برس خیر کے ساتھ گزر گیا۔۔۔
ذرا ٹھہر کر گزرے برس میں بہنے والے لہو کا جائزہ لیں، تو واضح طور پر مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے مختلف سلسلے نظر آتے ہیں۔ کہیں فرقہ ورایت کے شعلے بھڑکتے رہے، کہیں مذہبی شدت پسند ی کی تلوار سل قلم کرتی رہی اور تو کہیں لسانیت کا عفریت پنجے گاڑے خون پیتا رہا۔
٭آبادیوں پر بم حملے
2013ء میں ہونے والی دہشت گردی میں آبادیوں کو بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے مختلف واقعات پیش آئے، جن میں سے ایک، ایک واقعے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔ سال کے ابتدائی دنوں میں ہی 10جنوری کو کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 86 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دہشت گردی کے اس الم ناک واقعے کے بعد مرنے والوں کے لواحقین میتیں لے کر احتجاجاً دھرنے پر بیٹھ گئے، ان کے ساتھ پورے ملک میں شیعہ مکتب فکر کے افراد سڑکوں پر آبیٹھے۔ بعدازاں احتجاج کرنے والوں کے مطالبے پر بلوچستان کی حکومت برطرف کرکے گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ 16 فروری کو کوئٹہ میں ایک بار پھر ہزارہ برادری نشانہ بنی۔ واقعے میں 84 افراد جان سے گئے۔ اس کے بعد اسی سال 30 جون کو ہزارہ برادری تیسری بار نشانہ بنی، جس میں 28 زندگیوں کے چراغ گُل ہوگئے۔ 3 مارچ کو کراچی کے علاقے عباس ٹائون میں بھی اسی طرح رہایشی علاقے کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 50 افراد لقمہ اجل بنے۔
٭خیبرپختونخوا کی عبادت گاہوں میں لہو
گذشتہ کئی برسوں کی طرح 2013ء میں بھی دہشت گردی سے صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقے زیادہ متاثر ہوئے۔ دہشت گردوں نے مساجد اور عبادت گاہیں بخشیں اور نہ بازار خیبر پختونخوا میں 2013ء میں مساجد اور عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں کم از کم 150 لوگوں کی زندگی کے چراغ گُل ہوگئے۔ سال کے آغاز پر ہی 10جنوری کو مینگورہ میں مکی مسجد میں نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 25 نمازی جان سے گئے، سال کا سب سے ہلاکت خیز واقعہ 22 ستمبر کو پیش آیا، جب پشاور کے کوہاٹی چوک میں واقع گرجے میں دو خوف ناک خودکُش دھماکوں میں 80 سے زاید ہلاکتیں ہوئیں۔ 9 مارچ کو پشاور کے مینا بازار سے ملحقہ محلہ باقر شاہ میں نماز ظہر کے دوران مسجد کو ہدف بنایا گیا، پیش امام سمیت 6 افراد اس افسوس ناک واقعے کی نذر ہوگئے۔ 17 مئی کو مالاکنڈ کے گائوں بازدرہ بالا کی دو مساجد دہشت گردوں کا نشانہ بنیں۔ نماز جمعہ کے اجتماع کے موقع پر ہونے والے یکے بعد دیگرے دھماکوں میں 20 نمازی جاں بحق ہوگئے اور مساجد بھی شہید ہوگئیں۔ 21 جون کو پشاور کی فیصل کالونی جی ٹی روڈ کی مسجد نشانہ بنی، جس میں پولیس اہلکار سمیت 15 افراد جاں بحق ہوگئے۔
٭10غیرملکی سیاحوں کا قتل
دہشت گردوں نے غیرملکی مہمانوں کو بھی نہ بخشا۔ 23 جون کو گلگت بلتستان کے علاقے میں نانگا پربت بیس کیمپ میں نصف شب کو اسکائوٹس کی وردیوں میں ملبوس حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے 10غیرملکی سیاح اور ایک پاکستانی گائیڈ کو قتل کردیا۔ ان سیاحوں کا تعلق چین، سلواکیہ، امریکا لتھوانیا اور یوکرین سے تعلق تھا۔
٭بلوچستان میں خوں ریزی
فرقہ وارانہ بنیادوں اور غیرملکیوں کے علاوہ لسانی بنیادوں پر بھی دہشت گردی کے کچھ افسوس ناک واقعات پیش آئے، جس میں ہلاکتوں کے اعتبار سے سب سے بڑا واقعہ 6 اگست کو پیش آیا، جب بولان کے علاقے مچھ میں کوئٹہ سے پنجاب جانے والی تین مسافر بسوں کے مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان میں سے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ ان تمام کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اس سے قبل 24 فروری کو گوادر میں حملہ آوروں نے مکران کوسٹل ہائی وے پر کام کرنے والے محنت کشوں کو اسی طرح شناخت کے بعد قطار میں کھڑا کرکے گولیاں ماردی تھیں۔ مقتولین کا تعلق بلوچستان کے ضلع ژوب سے تھا۔ اسی طرح 21 اکتوبر کو ڈیرہ مراد جمالی کے قریب پنڈی سے کوئٹہ جانے والی ریل گاڑی پر بم سے حملہ کیا گیا، جس میں 7 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے۔
15جون کو کوئٹہ میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات میں ڈپٹی کمشنر عبدالمنصور کاکڑ اور 14طالبات سمیت 22 ہلاک ہوگئے۔ دہشت گردوں نے خواتین یونیورسٹی کی بس پر دھماکے کے بعد طبی امداد کے لیے اسپتال جانے والے زخمیوں کی موجودگی میں اسپتال کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔ اسی دن زیارت میں قومی ورثہ قرار دی گئی قائد اعظم کی رہایش گاہ کو بھی خاکستر کرنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔
خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی سیکیوریٹی فورسز نشانے پر رہیں۔ 12 مئی کو آئی جی بلوچستان مشتاق احمد سکھیر پر خودکُش حملہ ہوا، جس میں 5 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوگئے۔ اسی طرح 23 مئی کو کوئٹہ میں 13 پولیس اہل کار بم حملے کی نذر ہو گئے۔ 27 جولائی کو گوادر میں کوسٹ گارڈ کی چیک پوسٹ پر حملے میں 10 اہل کار ہلاک ہوئے۔ 2 اکتوبر کو چمن میں باب دوستی پر خودکُش حملہ ہوا، جس میں 2 افغان فوجی اور ایف سی اہل کار سمیت7 افراد لقمۂ اجل بنے۔ اسی دن زلزلے سے متاثرہ آواران میں امدادی کاموں میں مصروف 2 فوجی ریموٹ کنٹرول حملے کی نذر ہوگئے۔
٭سب سے بڑا صوبہ بھی پرُامن نہ رہا
ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی دہشت گردی کے مختلف واقعات کی زد میں رہا۔ جس میں سانحۂ بادامی باغ سب سے افسوس ناک واقعہ ہے۔ 9 مارچ کو مبینہ طور پر توہین رسالت کے ایک واقعے کے نتیجے میں لاہور کے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی میں مشتعل افراد نے ایک گرجے سمیت 170 گھروں کو نذر آتش کر دیا، جس کے خلاف اقلیتی برادری نے سخت احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ23 اگست کو پنجاب کا علاقہ بکھر فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں آگیا، جس میں 11 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ 6 دسمبر کو لاہور میں ''اہلسنت والجماعت'' کے مولانا شمس الرحمن معاویہ اور 15 دسمبر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ علامہ ناصر عباس دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔
٭ کوئٹہ دھماکوں سے لرزتا رہا
دہشت گردی کے دیگر واقعات کا اجمالی جائزہ لیں تو کوئٹہ، خضدار اور چمن میں 9 بم دھماکوں میں 41 سے زاید جانیں گئیں، جن میں سب سے بڑا واقعہ 8 اگست کو اس وقت پیش آیا، جب فائرنگ سے جاں بحق ایس ایچ او سٹی محب اللہ دادی کی نماز جنازہ کے لیے صف بندی کی جا رہی تھی کہ ایک خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا، جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی آپریشن فیاض احمد سنبل اور دیگر افسران سمیت 30 ہلاک ہوگئے۔ اس کے علاوہ 30 اکتوبر کو کوئٹہ میں بم دھماکے میں 4 افراد کی زندگیوں کے چراغ بجھے۔ 20نومبر کو کوئٹہ اور خضدار میں یکے بعد دیگرے 5 دھماکے ہوئے جس میں 2 جانیں گئیں۔21نومبر کو کوئٹہ اور چمن کے بم دھماکوں نے 5 افراد کی جانیں لیں۔
٭روشنیوں کے شہر میں خوف کے سائے!
عروس البلاد کراچی کو اگر قومی تاریخ کا سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثرہ شہر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تین عشرے قبل خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں جب دہشت گردی کے شعلے بھڑکے، تو اس کی سب سے زیادہ تپش مجموعی طور پر اس شہر نے محسوس کی اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس کی صورت حال گنجلک ہوتی چلی گئی۔ 2013ء میں شہر میں ہونے والے بم دھماکوں میں عام لوگوں کے ساتھ، سیکیوریٹی اہل کار، جج اور صحافی بھی نشانہ بنے۔
براہ راست انتخابی مہم کو بم حملوں میں نشانہ بنانے کے دوران درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران یہ دھماکے برنس روڈ، عزیز آباد، قصبہ، لیاری، کورنگی، نارتھ کراچی اور دیگر علاقوں میں پیش آئے۔ اس سے قبل یکم جنوری کو متحدہ قومی موومنٹ کے جلسے کے شرکا کی واپسی کے دوران عائشہ منزل پر دھماکا ہوا، جس میں 4 افراد جان سے گئے۔
26 جون کو برنس روڈ کے علاقے میں نصب بم کے ذریعے سینئر جج جسٹس مقبول باقر کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا، جس میں6 پولیس اور 2 رینجرز اہل کار ہلاک ہوئے اور جسٹس مقبول باقر بھی زخمی ہو گئے۔
10 جولائی کو کراچی میں گرومندر کے نزدیک ایک خودکُش حملے میں صدر آصف زرداری کے سیکیوریٹی انچارج بلال شیخ ہلاک ہوگئے۔ بلال شیخ اپنی بم پروف گاڑی سے پھل خریدنے کے لیے رکے تھے کہ بمبار نے قریب آکر دھماکا کردیا۔ 7اگست کو لیاری میں بزنجو چوک میں فٹبال میچ کے اختتام پر بم دھماکے میں 11 افراد ہلاک ہو گئے۔ تقریب میں مہمان خصوصی صوبائی وزیر جاوید ناگوری بھی شریک تھے، جو بال بال بچ گئے۔ شہر کے دیگر اہم دہشت گرد واقعات میں 24جنوری کو کراچی میں قائد آباد بختاور گوٹھ میں یکے بعد دیگرے 2 بم دھماکوں میں ڈی ایس پی سمیت 3 افراد ہلاک ہوگئے۔
22اگست کو ایک فوجی ٹرک کورنگی میں رینجرز ہیڈکواٹر کے قریب سڑک کنارے نصب بم کا نشانہ بن گیا۔ واقعے میں ایک اہل کار اور ایک راہ گیر لقمہ اجل بنے، جب کہ دس فوجیوں سمیت 19 افراد زخمی ہوئے، بعدازاں مزید دو زخمی فوجی بھی دم توڑ گئے، یوں مجموعی طور پر تین فوجیوں سمیت ہلاکتوں کی تعداد چار ہو گئی۔22 نومبر کو انچولی کے علاقے میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں نجی ٹی وی کے صحافی سمیت 6 افراد جان سے گئے۔
٭اہدافی قتل کا جن۔۔۔
روشنیوں کے شہر کراچی میں شاید ہی کوئی دن جاتا ہو کہ جب گولیاں نہ چلتی ہوں اور لاشیں نہ گرتی ہوں۔ تصادم اور واقعات سے قطع نظر یہاں ایک جن ہدف بنا کر قتل کرنے کا ہے۔ لوگوں کون اور کیوں قتل کرتا ہے، اس کا پتا کم ہی چل پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر کے حالات میں روزانہ نصف درجن سے زاید ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ ''نامعلوم'' کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔ پولیس کی نفری کے ساتھ 1989ء سے مسلسل موجود رینجرز گاہے بگاہے ''سرگرم'' ہوتی رہتی ہے۔ ان دنوں بھی شہر میں بہت زیادہ اس کا غلغلہ ہے۔ مگر یہ نشانہ وار قتل اس شہر کا ایسا آسیب معلوم ہوتا ہے، جس سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں لگتا۔ روزانہ اوسطاً درجن بھر سے زاید افراد کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 10 ہزار سے زاید ملزمان کو حراست میں لے رکھا ہے، مگر اہدافی قتل کا جن ان تمام کارروائیوں سے بے نیاز روزانہ اس شہر کی جنتا کے آٹھ، دس سے پندرہ تک کی جانوں کا لہو پی جاتا ہے۔ اسی پر بس نہیں بہت سے افسوس ناک واقعات میں باوردی اہلکاروں کی جانب سے سرِعام شہریوں کا خون بھی ہوت رہا۔ اس سال بھی 16 جولائی کو رینجرز کی جانب سے نہ رکنے پر ایک 30 سالہ ٹیکسی ڈارئیور کو گولیاں مار دی گئیں۔
اہدافی قتل سے اراکین اسمبلی بھی نہ بچ سکے۔ متحدہ کے دو اراکین سندھ اسمبلی منظر امام18 جنوری اور ساجد قریشی21 جون کو ان نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ انتخابات کے دوران اے این پی کے امیدوار قومی اسمبلی امین صادق بھی نامعلوم گولیوں کی زد میں آئے۔
اگر شہرقائد میں گرتی لاشوں کے صرف چند مہیب ترین دنوں کا احاطہ کریں، تو اس شہر میں 2013ء کے دوران بیتنے والے محض 12 مختلف دنوں میں 152 جانیں ضایع ہوئیں! 13 اگست کو کراچی میں اسماعیلی جماعت خانے اور رہایشی منصوبے پر دستی بموں سے حملے اور دیگر واقعات میں ماں، بیٹا سمیت 8... 27 اگست کو 17، 25 اگست کو 13 ،21 اگست کو 16، 4 ستمبر کو 14، 30 ستمبر کو باپ بیٹوں سمیت17، 2 اکتوبر کو 10، 24 اکتوبر کو 11، 20نومبر کو11، یکم دسمبر کو 10، 3 دسمبر کو 15 اور 14 دسمبر 10زندگیوں کے چراغ گُل کردیے گئے۔
٭بازاروں میں قیامت کے نظارے
دہشت گردوں نے مساجد کے ساتھ بازاروں کو بھی اپنے نشانے پر لیے رکھا۔ بازاروں میں ہونے والی دہشت گردی کے بڑے واقعات میں 80 کے قریب افراد لقمہ اَجل بنے۔ 8 فروری کو دہشت گردوں نے اورکزئی ایجینسی میں بازار کو خون میں نہلادیا، جس میں 15 ہلاک اور25 زخمی ہوگئے۔ چند دن کے بعد ایک بار پھر اورکرزئی، بنوں اور ہنگو میں خودکُش حملے اور دھماکے ہوئے جس میں تقریباً 22 افراد نشانہ بنے۔ 29ستمبر کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں گاڑی کے ذریعے کیے جانے و الے دھماکے کے نتیجے میں 41 افراد ہلاک جب کہ 100 سے زاید زخمی ہوگئے۔
٭مہران میں پیش آئے واقعات
دیگر صوبوں کی طرح صوبہ سندھ کو بھی کچھ دہشت گردیوں کے واقعات کا سامنا رہا۔ ملک کے مختلف علاقوں کی طرح دہشت گردوں نے یہاں بھی انتخابی مہم کو نشانہ بنایا، جس میں متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی امیدوار فخر الاسلام ہلاک ہوئے۔ 13 اگست کو حیدرآباد سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں یکے بد دیگرے کئی دھماکے ہوئے۔ قومی پرچم فروخت کرنے والے مختلف اسٹالوں پر 3 حملے ہوئے جس میں ایک شخص جاں بحق اور 2 افراد زخمی ہو گئے۔ اس کے علاوہ دادو، نواب شاہ اور لاڑکانہ میں بھی کریکر دھماکے کیے گئے۔
اسی طرح 29 اکتوبر کو حیدرآباد کے علاوہ کوٹری، لاڑکانہ، دادو، نوشہرو فیروز، محراب پور، بدین، خیرپور اور دیگر علاقوں میں سمیت اندرون سندھ یکے بعد دیگرے ہلکی نوعیت کے سلسلہ وار 33 دھماکے ہوئے جن میں ایک شخص کی جان گئی۔ اس کے علاوہ 24 جولائی سکھر کے علاقے بیراج کالونی میں آئی ایس آئی کے دفتر پر خودکُش حملے میں 2 اہل کار اور شہری جاں بحق ہو گئے۔ حملہ آوروں نے دھماکے کے بعد فائرنگ بھی کی، جس میں 3 حملہ آور بھی مارے گئے۔
٭فورسز پر سب سے زیادہ حملے
خیبر پختونخوا میں پولیس، رینجرز اور فوج پر ہونے والے درجن بھر حملوں میں 50 کے قریب سیکیوریٹی اہل کار اور دیگر لوگ زد میں آکر جان سے گئے۔
12جنوری کو شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں فوجی قافلے پر ریمورٹ کنٹرول حملہ کیا گیا، جس میں 17 فوجی جان سے گئے۔ 23 مارچ کو شمالی وزیرستان میں فوجی چیک پوسٹ پر بارود سے بھرا پانی کا ٹینکر ٹکرا دیا، جس میں افسر سمیت 6 ہلاکتیں ہوئیں۔ 29مارچ کو پشاور میں خودکُش حملے میں ایف سی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 12 ہلاکتیں ہوئیں۔ 25مئی کو پشاور میں حملوں میں 6 پولیس اہل کاروں سمیت 9 افراد ہلاک ہوگئے۔
30 جون کو پشاور میں بڈھ بیر کے مقام پر فوجی قافلہ نشانہ بنا، جس سے بھرے بازار میں تباہی پھیل گئی اور 18 ہلاکتیں ہوئیں۔ یکم ستمبر کوشمالی وزیرستان میں 9 سیکیوریٹی اہل کار جان سے گئے۔ 20 اکتوبر کو پشاور میں پولیس ناکے پر فائرنگ سے 2 افسران سمیت 4 اہل کار ہلاک ہوئے۔ 30اکتوبر کو جنوبی وزیرستان بارودی سرنگ کے دھماکے میں 5 فوجی ہلاک ہوگئے۔ 15 ستمبر کو پاک افغان سرحدی علاقے میں ہونے والے بم دھماکے میں میجر جنرل ثنا اﷲ نیازی دو جوانوں سمیت شہید ہوگئے۔
٭خوں آشامی کے دیگر واقعات
خیبر پختونخوا میں 2013ء کی دیگر خوں آشام کارروائیوں کا سلسلہ بھی کم نہ رہا۔ شدت پسندوں نے 3 اکتوبر کو ہنگو میں اپنے ایک منحرف کمانڈر ملا نبی حنفی کے مرکز پر خودکُش حملہ کرکے 17 افراد ہلاک کردیے۔ کرم ایجینسی میں جاری انتخابی مہم کے دوران 6 مئی کو جمعیت علمائے اسلام کے جلسے میں دھماکا ہوا، جس میں 18 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ انتخابات کے بعد تحریک انصاف بھی اس کا نشانہ بنی اور 16 اکتوبر کو عید کے روز ڈیرہ اسمعیل خان کی تحصیل کلاچی میں ہونے والے خودکُش دھماکے میں صوبائی وزیر قانون اسرار اللہ گنڈا پور سمیت 8 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس کے علاوہ دہشت گردی کے دیگر اہم واقعات میں بھی بہت سی قیمتیں جانیں ضایع ہوئیں۔ 10 جون کو خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں خاصے دار فورس کی وردی میں ملبوس شدت پسندوں نے نیٹو کنٹینر پر حملہ کیا، جس میں 6 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ 27 ستمبر کو پشاور میں چارسدہ روڈ گل بیلہ پر سرکاری ملازمین کی بس میں دھماکا ہوا، جس میں 2 خواتین سمیت 19 جاں بحق ہوگئے۔ 28 اپریل کو کوہاٹ میں ہونے والے دھماکے میں 5افراد ہلاک ہوئے، جب کہ اسی روز پشاور میں ہونے والے دھماکے نے 3 زندگیوں کے چراغ گُل کردیے۔