ایسے مناتے ہیں وہ نئے سال کی خوشی

اگر جانے والا سال غلطیوں، پچھتاوؤں اور مایوسیوں کا سال تھا تو آنے والا سال اس کے بالکل برعکس بھی ہو سکتا ہے۔

آنے والا سال یقیناً ہر ایک کے لیے خوشیوں، امنگوں اور آرزوئوں سے بھر پور ہو تا ہے، فوٹو: فائل

دنیا کے بہت سے ممالک میں نئے سال کی آمد کو مختلف اور عجیب طریقے سے منایا جاتا ہے۔

آنے والا سال یقیناً ہر ایک کے لیے خوشیوں، امنگوں اور آرزوئوں سے بھر پور ہو تا ہے، کیوں کہ اگر جانے والا سال غلطیوں، پچھتاوؤں اور مایوسیوں کا سال تھا تو آنے والا سال اس کے بالکل برعکس بھی ہو سکتا ہے۔ چناںچہ پچھلے سال کی نحوستوں اور مایوسیوں سے بچنے کے لیے سال کی آمد کو دنیا کے کئی ممالک بڑے عجیب وغریب طرح مناتے ہیں۔ براعظم ایشیا میں نئے سال کو دو طرح سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ مختلف ممالک کے علاقائی کیلنڈر کے مطابق ان کے قدیم اور صدیوں سے رائج تہواروں کی طرح منایا جاتا ہے، جب کہ دوسرا طریقہGregorianکیلنڈر کے مطابق ہے۔ ایشیا کے اکثر ممالک میں دونوں طریقوں کو اپنایا جاتا ہے۔ یعنی ایک اپنے دیسی طریقے سے اور دوسرا پوری دنیا کے ساتھ۔

ہانگ کانگ، دبئی، سنگاپور اور شنگھائی نئے سال کی آمد پر کی جانے والی آتش بازی پوری دنیا میں مشہور ہے اور دنیا کے کئی ملکوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ صرف یہ آتش بازی اور آسمان پر کی جانے والی رنگ برنگی روشنیوں کی برسات دیکھنے کے لیے ان ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہانگ کانگ میں وکٹوریہ ہاربر (جس کا موازنہ نیویارک کے ٹائمز اسکوائر سے کیا جا تا ہے)، سنگا پور میں مرینہ بے اور دبئی کا برج خلیفہ بلڈنگ اس حوالے سے پوری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔

چین میں نئے سال کی آمد کو چینی علم اعداد کے مطابق مختلف جانوروں سے منسوب کیا جاتا ہے، جیسے سانپ، کتا، خنزیر، گھوڑا اور خیالی ڈریگن وغیرہ۔

تھائی لینڈ میں سالِ نو کے تہوار کو Congenerکہا جاتا ہے۔ نئے سال کی آمد پر یہاں کے باسی ایک دوسرے پر دل کھول کر پانی پھینکتے ہیں۔ اس کا مقصد نئے سال کی نیک خواہشات کا اظہار کرنا اور گزرے سال کی ناکامیوں اور غلطیوں کو دھونا ہوتا ہے۔

نئے سال کے موقع پر دنیا کے تقریباً سب ہی ممالک خاص الخاص ڈششز تیار کرتے ہیں اور یہ وہ ڈششز ہوتی ہیں جنہیں صرف نیو ایئرپر یہ تیار کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر چین میں انتہائی لمبے لمبے نوڈلز سے ایک خاص ڈش Jiao.zi مختلف ریسٹورنٹس اور گھروں میں تیار کی جاتی ہے اور لوگوں کو خاص طور اس کو کھانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس کے لیے پیسے بھی خرچ نہیں کرنا پڑتے۔ نوڈلز سے بنی یہ ڈش جس دوسری چیز کے اشتراک سے بنائی جاتی ہے۔ وہ آنے والے سال کا سمبل ہوتی ہے جیسے کہ اگر انڈوں کے ساتھ اسے بنایا گیا ہے تو یہ پولٹری اور اس سے متعلقہ کام سے تعلق رکھتی ہے یا اگر نوڈلز کو فش کے ساتھ بنایا گیا ہے تو اسے سفر اور پراپرٹی سے جوڑا جاتا ہے۔ جاپان میں بھی نوڈلز سے ایک خاص ڈش Toshi Koshi Soba بنائی جاتی ہے اور اس کی تیاری کئی روز پہلے ہی سے کی جاتی ہے۔ اس ڈش کو بنانے میں اس بات کا خاص خیال رکھا جا تا ہے کہ نوڈلز ٹوٹنے اور جلنے نہیں چاہییں اگر ایسا ہو جائے تو جاپانی اسے آنے والے سال کی بدقسمتی میں شمار کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک کس منفرد طریقے سے یہ تہوار مناتے ہیں وہ واقعی حیران کن ہے۔



٭جنوبی افریقہ

جنوبی افریقہ کے ایک شہر جے برگ کے رہائشی انوکھے انداز میں نئے سال کی آمد کی خوشیاں مناتے ہیں۔ اس کے لیے وہ تیس سے اکتیس دسمبر تک رات بارہ بجے سے پہلے اپنے گھروں میں رکھی یا استعمال کی جانے والی اشیاء کو بذریعہ کھڑکی گھر سے باہر پھینک دیتے ہیں۔ ان میں ٹی وی سے کر ایل سی ڈی تک سب شامل ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق ایسا کرنے سے پرانے سال کی نحوستیں ختم ہو جاتی ہیں اور اس کا نئے سال کی آمد پر اچھا اثر پڑتا ہے۔



٭کولمبیا

کولمبیا میں جو افراد بیرون ملک سفر یا سیرو سیاحت کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ اس کے لیے نئے سال کی آمد کا انتظار کرتے ہیں اور اکتیس دسمبر کے دن وہ ایک خالی سوٹ کیس کے ساتھ بلاک سے بنے فرش پر لمبی واک کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ان مقصد یہ ہو تا ہے کہ نئے سال کی آمد پر وہ جو سفر کرنے جا رہے ہیں وہ ان کے خوش قسمت ثابت ہو۔



٭جاپان

چین کی طرح جاپان میں بھی نیا سال کسی نہ کسی جانور سے منسوب کیا جاتاہے، جس جانور کے نام آنے والا سال ہوتا ہے جاپانی اسی جانور کا ماسک پہنتے ہیں۔ جاپانی علم اعداد کے مطابق 2014 گھوڑے کا سال ہے۔ اسی مناسبت سے جاپان میں لوگ گھوڑے کا خاص بنایا ہوا ماسک پہنیں گے اور یہ ماسک پہن کر اجتماعی طور پر لوگ اپنے اپنے علاقوں کے مندروں یا گرجا گھروں میں جاکر 108مرتبہ گھنٹیاں بجائیں گے۔ ان گھنٹیوں کی آواز اتنی ہم آہنگ ہو گی کہ آنے والا سال جاپانیوں کے اتنا ہی خوش قسمت ہو گا۔



٭ڈنمارک

ڈنمارک میں لوگ خصوصی طور پر نئے سال کی آمد سے قبل اپنے رشتے داروں اور دوست احباب کو دعوت دیتے ہیں۔ اس دعوت میں رنگ ڈانس کیا جاتا ہے اور ڈانس کے اختتام پر خصوصی طور پر منگوائی گئی پلیٹوں اور گلاسوں کو ایک دوسرے پر پھینکا جا تا ہے۔ اس کے علاوہ ڈنمارک کے رہائشی نئے سال کی آمد کا ایک قدیم تہوار بھی مناتے ہیں۔ اس تہوار کے لیے دوست احباب اور رشتے داروں کے علاوہ ملنے جلنے والے منتخب کردہ کسی ایک فیملی کے گھر پر جمع ہوتے ہیں اور اکتیس دسمبر کی رات بارہ بجنے سے پانچ منٹ پہلے یہ تمام افراد کرسیوں پر ایک دوسر ے کا ہاتھ پکڑکر کھڑے ہوتے ہیں اور جیسے ہی گھڑی بارہ کا ہندسہ عبور کرتی ہے، یہ سب افراد ایک ساتھ ہی کرسیوں سے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ ایسا کرنے کا مقصد بدقسمتی کو پیچھے دھکیلنا اور نئے سال کی خوش قسمتی کو خوش آمدید کہنا ہوتا ہے۔




٭اسپین

اسپین میں نئے سال کی آمد سے پہلے یعنی اکتیس دسمبر کی رات بارہ بجنے سے پہلے ایک سیکنڈ میں انگور کے بارہ دانے ایک ساتھ کھانے کا دل چسپ رواج ہے۔ انگور کے بارہ دانے سال کے بارہ مہینوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک سیکنڈ میں جو بھی سب سے پہلے بارہ دانے ختم کر لے تو اس کے خیال میں آنے والا سال اس کے لیے خوش قسمت ثابت ہو گا۔



٭فن لینڈ

فن لینڈ کے رہائشی نئے سال کو اپنے قدیم مذہبی انداز سے مناتے ہیں اور آنے والا سال کیسا ہوگا۔ یہ جاننے کے لیے وہ ایک عجیب طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ایک پگھلے ہوئے ٹن کو سیدھی شیپ میں ایک خاص قسم کے کیمیکل ملے پانی ڈالا جاتا ہے اور فورا باہر نکال کر دیکھا جاتا ہے کہ اس سیدھے ٹن نے کون سی شکل اختیار کی ہے، مثلاً اگر وہ ٹن کسی جانور کی شکل سے مشابہہ ہے تو اس کا مطلب نیا سال دولت کمانے کا سال ہے۔ اسی طرح اگر جہاز یا کشتی کی شکل ہے تو سیروسیاحت اور اگر رنگ یا ہارٹ شیپ کا ٹن ہے تو اس سے مراد افیئر اور شادی لیا جا تا ہے۔



٭پناما

یہاں پر نئے سال کے آنے سے کئی دنوں پہلے ہی ملک کے مشہور ومعروف لوگوں کے مجسمے بناکر شہر کی اہم جگہوں جیسے ہوٹلز، ریسٹورنٹس، اہم عمارتوں اور شاہراہوں پر نصب کیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آنے والا سال ہر ایک شخص کے لیے اسی طرح کام یابی، شہرت اور دولت لے کر آئے جس طرح ان لوگوں کو ملی جن کے مجسمے بنائے گئے ہیں۔



٭فلپائن

فلپائن میں دائرے کی شکل کو خوش قسمتی سے جوڑا جاتا ہے۔ اسی لیے وہاں پر نئے سال کی آمد کے موقع پر اکتیس دسمبر را ت بارہ بجنے سے پہلے بارہ اقسام کے مختلف پھلوں کو قتلوں (یعنی دائرے) کی شکل میں کاٹا جا تا ہے اور نیا سال شروع ہونے سے پہلے تھوڑا تھوڑا ہر پھل کھایا جا تا ہے۔ فلپائنی اس کو اپنے لیے اور آنے والے سال کے لیے خوش بختی تصور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیس اور اکتیس دسمبر کو فلپائنی قوم پولکا ڈاٹ والے کپڑے پہننا بھی اچھا سمجھتی ہے۔



٭بیلاروس

یہاں پر نئے سال کی آمد سے قبل ایک منفرد گیم کھیلا جاتا ہے اور اس کے لیے تیس اور اکتیس دسمبر کے روز خاندان کی غیر شادی شدہ لڑکیوں کو ایک گھر میں جمع کیا جاتا ہے اور ان سب کو ایک قطار میں بٹھا کر ان کے سامنے کے سامنے بہت سارے بھٹے (مکئی کے دانے) پھیلادیے جاتے ہیں، جس کے سامنے بھٹا سب سے پہلے پہنچتا ہے تو یہ سمجھا جا تا ہے کہ اس لڑکی شادی نئے سال کے آغاز میں ہی ہو جائے گی۔

٭وسطی اور جنوبی امریکا

وسطی اور جنوبی امریکا کے علاقوں جیسے برازیل، وینزویلا اور بولوویا وغیرہ میں نئے سال کی آمد پر خاص طور پر تیار کیے گئے نیکر یا شارٹس پہننے کا رواج ہے اس لیے سال شروع ہونے سے کئی دنوں پہلے ہی مارکیٹیں اور شاپنگ سینٹرز پر ان کا ڈھیر نظر آتا ہے۔ یہ شارٹس دو رنگوں لال اور پیلے رنگ سے تیار کیے جاتے ہیں جس میں لال رنگ محبت اور پیلا رنگ دولت کی علامت سمجھا جا تا ہے۔

٭ایسٹونیا

یہاں پر کچھ عرصہ قبل تک نیا سال منانے کا رواج کچھ یوں تھا سال کے پہلے دن خوب کھانا کھایا جاتا تھا، کیوںکہ اس ملک میں میں رائج ایک روایت کے مطابق سال کے پہلے دن جو بھی سات مرتبہ سیر ہو کر کھانا کھائے گا تو سال کے تین سو پینسٹھ دن اس کے لیے دولت، شہرت، کام یابی، خوشی، سکون، شادی اور خوش بختی لے کر آئیں گے۔
Load Next Story