مصر میں بد امنی کا راج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصر کی عبوری حکومت کے حالیہ فیصلوں کے بعد ملک میں جاری بدامنی شدید صورت اختیار کر چکی ہے
مصر کی عبوری حکومت کے حالیہ فیصلوں کے بعد ملک میں جاری بدامنی شدید صورت اختیار کر چکی ہے اور اب واقعی ایسا لگتا ہے کہ مصر کا انقلاب خطرات سے دوچار ہو چکا ہے۔
اب اس بات کی نشان دہی بھی ہو رہی ہے کہ مصر کی عبوری حکومت اور فوجیوں کے فیصلوں کے نتیجے میں برپا ہونے والا مصر کا یہ انقلاب اپنی پہلے والی حالت کی جانب واپس گام زن ہے اور پچیس جنوری 2013 کو آنے والے اس انقلاب کے ثمرات بھی ختم ہو رہے ہیں۔ مصر کی عبوری حکومت، جو محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد قائم کی گئی تھی، اس نے ملک کے سابق آمر حسنی مبارک ، اس کے بیٹوں، احمد شفیق اور حبیب عادلی کو تمام الزامات سے بری کر کے محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے رہ نماؤں کے خلاف مقدمات کا آغاز کردیا ہے۔ قاہرہ کی عدالت نے پہلے حبیب عادلی، جمال اور علائی کو اسٹاک مارکیٹ میں مداخلت کے الزام سے بری قرار دیا اور اس کے بعد احمد شفیق کے ہم راہ ان کے تمام بھائیوں کو مالی بدعنوانی کے الزام سے بھی بری کردیا۔ مصر کی عبوری حکومت نے مظاہروں کا قانون منظور کرلیا ہے، جس کے تحت مظاہروں سے قبل مظاہروں کی جگہ، آغاز اور اختتام کے بارے میں پولیس کو اطلاع دی جانا ضروری ہوگا۔ دوسری جانب اس قانون کی رو سے امن عامہ میں خلل ڈالنے، راستے بند کرنے اورشہریوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ عبوری حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار کرنے کی اس قانونی شق کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرسکتی ہے اور یہ ہی کام وہ اخوان المسلمین کے اراکین کو گرفتار کرنے کے لیے انجام دے رہی ہے۔ مصر کے آئین کے مسودے میں بھی مذہبی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی اور عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے جیسی شقیں شامل کی گئی ہیں۔ آئین کے اس مسودے کے بارے میں چودہ اور پندرہ جنوری 2014 کو ریفرینڈم ہوگا۔ یقیناً یہ آئین بھی حسنی مبارک کے زمانے کے آئین سے زیادہ مختلف نہیں ہو گا۔
محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے رہ نماؤں کے خلاف مقدمات بہت ہی مختصر وقت میں شروع کیے گئے ہیں۔ مصر کی موجودہ حکومت نے اخوان المسلمین کو پہلے کالعدم اور پھر دہشت گرد گروہ قرار دے کر مصر کی سیاست سے اس جماعت کو نکال باہر کرنے کا راستہ ہم وار کر لیا ہے حال آںکہ سنہ دوہزار گیارہ کے اواخر اور سنہ دو ہزار بارہ میں ہونے والے تین انتخابات میں اسی جماعت نے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ ان واقعات سے اس بات کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کہ مصر کے فوجیوں نے عبوری حکومت کے اصل حامیوں کے انقلاب کو ناکام بنانے اور حسنی مبارک کے سیاسی نظام کو واپس لانے کے لیے محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اب مصر کے عوام، خصوصاً طالب علموںاور اخوان المسلمین کے حامی، فوج اور عبوری حکومت کے عزائم کو بھانپتے ہوئے ان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ عبوری حکومت کو برطرف کر کے محمد مرسی کی قانونی حکومت بہ حال کی جائے ۔ دسمبر کے وسط میں جامعۂ الازہر کے طلبہ نے جلوس نکالا، جو مصر کی سیکیوریٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ پر منتج ہوا۔ ملک کی سیکیوریٹی فورسز طلبہ کے ساتھ اپنی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ ہی وجہ کہ اخوان المسلمین کے اراکین کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مصر کی عبوری حکومت اور فوجیوں کے اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف ملک کے شہریوں اور اخوان المسلمین کے حامیوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ مصر کی عبوری حکومت اور فوجیوں کے اشتعال انگیز اقدامات مصر میں بدامنی میں شدت کا باعث بن رہے ہیں۔
اب اس بات کی نشان دہی بھی ہو رہی ہے کہ مصر کی عبوری حکومت اور فوجیوں کے فیصلوں کے نتیجے میں برپا ہونے والا مصر کا یہ انقلاب اپنی پہلے والی حالت کی جانب واپس گام زن ہے اور پچیس جنوری 2013 کو آنے والے اس انقلاب کے ثمرات بھی ختم ہو رہے ہیں۔ مصر کی عبوری حکومت، جو محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد قائم کی گئی تھی، اس نے ملک کے سابق آمر حسنی مبارک ، اس کے بیٹوں، احمد شفیق اور حبیب عادلی کو تمام الزامات سے بری کر کے محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے رہ نماؤں کے خلاف مقدمات کا آغاز کردیا ہے۔ قاہرہ کی عدالت نے پہلے حبیب عادلی، جمال اور علائی کو اسٹاک مارکیٹ میں مداخلت کے الزام سے بری قرار دیا اور اس کے بعد احمد شفیق کے ہم راہ ان کے تمام بھائیوں کو مالی بدعنوانی کے الزام سے بھی بری کردیا۔ مصر کی عبوری حکومت نے مظاہروں کا قانون منظور کرلیا ہے، جس کے تحت مظاہروں سے قبل مظاہروں کی جگہ، آغاز اور اختتام کے بارے میں پولیس کو اطلاع دی جانا ضروری ہوگا۔ دوسری جانب اس قانون کی رو سے امن عامہ میں خلل ڈالنے، راستے بند کرنے اورشہریوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ عبوری حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار کرنے کی اس قانونی شق کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرسکتی ہے اور یہ ہی کام وہ اخوان المسلمین کے اراکین کو گرفتار کرنے کے لیے انجام دے رہی ہے۔ مصر کے آئین کے مسودے میں بھی مذہبی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی اور عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے جیسی شقیں شامل کی گئی ہیں۔ آئین کے اس مسودے کے بارے میں چودہ اور پندرہ جنوری 2014 کو ریفرینڈم ہوگا۔ یقیناً یہ آئین بھی حسنی مبارک کے زمانے کے آئین سے زیادہ مختلف نہیں ہو گا۔
محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے رہ نماؤں کے خلاف مقدمات بہت ہی مختصر وقت میں شروع کیے گئے ہیں۔ مصر کی موجودہ حکومت نے اخوان المسلمین کو پہلے کالعدم اور پھر دہشت گرد گروہ قرار دے کر مصر کی سیاست سے اس جماعت کو نکال باہر کرنے کا راستہ ہم وار کر لیا ہے حال آںکہ سنہ دوہزار گیارہ کے اواخر اور سنہ دو ہزار بارہ میں ہونے والے تین انتخابات میں اسی جماعت نے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ ان واقعات سے اس بات کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کہ مصر کے فوجیوں نے عبوری حکومت کے اصل حامیوں کے انقلاب کو ناکام بنانے اور حسنی مبارک کے سیاسی نظام کو واپس لانے کے لیے محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اب مصر کے عوام، خصوصاً طالب علموںاور اخوان المسلمین کے حامی، فوج اور عبوری حکومت کے عزائم کو بھانپتے ہوئے ان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ عبوری حکومت کو برطرف کر کے محمد مرسی کی قانونی حکومت بہ حال کی جائے ۔ دسمبر کے وسط میں جامعۂ الازہر کے طلبہ نے جلوس نکالا، جو مصر کی سیکیوریٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ پر منتج ہوا۔ ملک کی سیکیوریٹی فورسز طلبہ کے ساتھ اپنی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ ہی وجہ کہ اخوان المسلمین کے اراکین کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مصر کی عبوری حکومت اور فوجیوں کے اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف ملک کے شہریوں اور اخوان المسلمین کے حامیوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ مصر کی عبوری حکومت اور فوجیوں کے اشتعال انگیز اقدامات مصر میں بدامنی میں شدت کا باعث بن رہے ہیں۔