بھارتاشتہار بازی اہم ہے
اشتہارات کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور اس دور میں جب کہ مختلف نوعیت کے میڈیاز زندگی میں شامل ہیں
KARACHI:
یہ بات ابھی پچھلے برس اکتوبر کی ہے جب بھارت کے ایک مشہور جیولری برانڈڈ کمپنی کی جانب سے زیورات کا ایک اشتہار چلا، اس کا دورانیہ تینتالیس سیکنڈ کا تھا یہ خاصا مہنگا بھی تھا کیونکہ ایک تقریب دکھائی گئی تھی جس میں مرکزی کرداروں کے علاوہ دیگر شرکا نے خوب زبردست کپڑے پہن رکھے تھے۔
میک اپ سے لے کر کھانے پینے کے انتظامات تک شاندار تھے لیکن اس اشتہار کے چلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی اس پر اس قدر اعتراضات اٹھے کہ بے چارے کمپنی کے مالکان نے فوراً اسے بند کرا دیا۔ حالانکہ بظاہر یہ ایک خوشنما اور متاثر کن اشتہار تھا لیکن اس میں جس پیغام کے ذریعے زیورات کی پبلسٹی کی گئی تھی وہ مواد اس بھارتی عوام کو ہرگز نہ بھایا جن کی ذہنی وسعت نہ ہونے کے برابر تھی۔
اس اشتہار کے پس منظر میں ایک ہندو خاتون بیاہ کر مسلمان گھرانے میں آتی ہے خاتون ماں بننے والی ہے جہاں گود بھرائی کی رسم ہے ، خاتون کی مسلمان ساس اسے پیار کرتی ہے تو خاتون کہتی ہے کہ آپ کے یہاں تو یہ رسم نہیں ہوتی، جس پر خاتون کی ساس دُلار سے جواب دیتی ہے کہ بیٹی کو پیار کرنے کی رسم تو ہوتی ہے۔ اس اشتہار کے ذریعے دو مختلف اقدار کو یکجا کرنے اور پیار محبت بڑھانے پر زور دیا گیا تھا لیکن اس کے نشر ہوتے ہی کم ذہن رکھنے والوں نے سوچا کہ یہ لو جہاد کو پروموٹ کرنے کا اشتہار ہے۔
اس ''لو جہاد''کی زد میں ان تمام لوگوں کو تنقید کا نشانہ کافی عرصے سے بنایا جا رہا تھا جن میں خاص کر وہ نامور فلمی ستارے شامل ہیں کہ جن کی بیگمات ہندو گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں مثلاً شاہ رخ خان، سیف علی خان اور عامر خان وغیرہ وغیرہ۔ اس لو جہاد کی تکرار میں اس 43 سیکنڈ کے اشتہار کی آمد نے تہلکہ سا مچا دیا تھا گویا جلتی پر تیل، اسی دوران روشن خیال ہندوؤں کو اپنے پست سوچ رکھنے والے بھائی بندوں سے شکایت بھی تھی کہ یہ لو جہاد نہیں ہے بلکہ دو روایات کے حامل لوگوں کے پیار محبت کی مثال ہے پر اس بات کو رد کردیا گیا جیولری والوں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور بڑی مشکلوں سے معاملہ رفع دفع ہوا، پر تکرار جاری رہی۔
اشتہارات کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور اس دور میں جب کہ مختلف نوعیت کے میڈیاز زندگی میں شامل ہیں اس کی افادیت بھی بڑھ گئی ہے لیکن افسوس کہ اس کی اہمیت اور افادیت کے باوجود اسے جس انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے وہ خاصا پریشان کن بھی ہے۔ آج بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل فونز تھمے ہیں یہاں مختلف انداز کے سوشل میڈیا پرکچھ اس قسم کے لچر اشتہارات بھی نظر آتے ہیں کہ آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں، پر کیا کرسکتے ہیں کہ ہر سائٹ کا اپنا تماشا جاری ہے اور پھر یہ ایک دوسری نوعیت کے معیار ہیں لیکن مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والے اشتہارات بھی اس دوڑ میں کم نہیں ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ انداز و اطوار، زبان اور رویے بھی بار بار اشتہارات کی صورت میں چلتے رہنے کے باعث بچوں کو ازبر ہو جاتے ہیں۔ یوں بات سیدھی ہو یا ٹیڑھی اذہان میں محفوظ ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں اشتہار بازی کے میدان سے منسلک اشخاص بھی خاصے مقبول ہیں ان کے مخصوص انداز میں اردو بولنے کو ہمارے یہاں کے نوجوان کاپی کرتے کرتے ادھیڑ عمری تک چلے آئے ہیں لیکن یہ فیشن ہنوز قائم ہے اسے انگریزی نما اردوکہہ سکتے ہیں گو ویسے تو اسے لکھا اور بولا اردو میں ہی جاتا ہے لیکن تلفظ خاص انگریزی انداز کا ہے۔
اس سلسلے میں ایک لطیفہ نظر سے گزرا جو پڑھنے میں یقینا لطیفہ ہی ہے ویسے یہ سچا جوک ہے۔ ایک صاحب نے اسے زیڈ اے بخاری (بابائے ریڈیو) کو سنایا تھا کہ جب وہ نئے نئے ہندوستان آئے تو اردو زبان سیکھنے کا بہت شوق تھا اور اس بات سے وہ بہت چڑتے تھے کہ لوگ اردو بولتے وقت انگریزی کے الفاظ جا بجا استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ ایسے لوگوں کی تقلید سے بچوں گا اور اردو بولتے وقت انگریزی کے الفاظ کبھی استعمال نہیں کروں گا۔ مگر ایک دن منہ کی کھانی پڑی۔ ایک دن ہوٹل میں کھانا کھا رہے تھے، بیرے نے آکر پوچھا:
''کیوں صاحب کسی اور چیزکی ضرورت تو نہیں؟''
صاحب نے جواب دیا ''ہاں بادنجان فرنگی (ٹماٹر) لاؤ۔''
''بادنجان فرنگی۔۔۔۔!'' وہ بڑبڑایا اورکچھ نہ سمجھا۔ آخر ساتھ کی میز والے بیرے نے اس سے کہا ''ابے! صاحب ٹماٹر مانگ رہا ہے۔'' اور صاحب کی جانب پلٹ کرکہا۔
''صاحب! نیا بیرا ہے، انگریزی نہیں جانتا۔''
بیرے کے اس طرح سلیس اردو کے لفظ بادنجان فرنگی یعنی انگریزی میں ٹماٹر پر ان صاحب نے اپنا سر ہی پکڑ لیا ہوگا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اردو ایک وسیع القلب زبان ہے کہ جس میں اردو، انگریزی ہی کیا بلکہ دنیا بھر کی زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمونے کا ہنر رکھتی ہے۔بات ہو رہی تھی اشتہار بازی کی کہ جس کو اگر اچھی طرح سے برتا جائے تو یہ کمال کا ہنر رکھتی ہے اور ذرا جو چوک ہو جائے تو عوام کے غصے کے ساتھ سرمائے کی بربادی کا بھی احتمال رہتا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد فلموں کی پبلسٹی کے لیے پوسٹرز بنوانے کا اتنا رجحان نہ تھا بلکہ لوگ بھونپو لے کر فلموں کی آمد کے بارے میں لوگوں کو بتایا کرتے تھے یہ بھی سنا ہے کہ فلم ساز باقاعدہ پبلسٹی کے لیے گدھوں کا انتظام کرتے تھے یوں چلتے پھرتے پبلسٹی ہوتی اور لوگ بڑے شوق سے سنتے اور اپنے من پسند فنکاروں کی فلم دیکھنے ضرور جاتے۔
جب کہ آج کل فلموں کی پبلسٹی کے لیے سوشل میڈیا پر بھی نت نئے انداز نظر آتے ہیں اور ان پر خاصی رقم خرچ کی جاتی ہے۔اشتہار بازی پر خرچ کیا جانے والا پیسہ یقیناً صنعت کار کے لیے بہت اہم ہے کہ اس کے باعث ان کا مال اچھا اور خوب فروخت ہوگا لیکن ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اشتہار بازی تو خوب اچھی کی اور جس شے کے لیے سارا میدان سجایا وہ چیز غیر معیاری نکلی اس طرح کی منفی اشتہار بازی کے باعث اکثر صارفین رنگ برنگے اشتہارات پر بھی کم توجہ دیتے ہیں اور متاثر ہوتے تو ماڈلز کے فیشن اور اس کی گفتگو اور اشتہار کے بول پر۔آج کل بڑے بڑے اداروں میں ذرا فون ملائیے تو دوسری جانب سے آپ کو انگریزی نما اردو میں پیغامات سننے کو ملتے ہیں کئی بار جی میں آیا بھی کہ شکایت کی جائے لیکن کس سے کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی۔۔۔۔۔مثلاً اگر آپ قیمتی کو کمیتی اور پیغام اردو میں پر بے انتہا انگریزی کے الفاظ یعنی اگر دوسری جانب کوئی ان پڑھ نہ سہی لیکن پڑھا لکھا، گھریلو سیدھی سی خاتون ہو تو اس انگریزی نما اردو کو سن کر ہی بدحواس ہو جائے کہ فرنگی زبان خدا جانے کیا کچھ کہا جا رہا ہے۔
بالکل اسی طرح بڑے اداروں کے پیغام رسانی سے منسلک اشخاص کا حال ہوتا ہے، خوب سمجھتے ہیں اپنے دیسی مزاج کو اور یوں معصوم عوام پر اپنے مطالبات ٹھونس کر اپنی ڈگریوں کو وصول کرلیتے ہیں کہ ان کے خیال میں ان کی مہنگی تعلیم کا یہ بہت بڑا فائدہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اشتہار بازی آج کل کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اسے معاشرے میں اس طرح عام کریں کہ یہ ہمارے اپنے گھر کا اہم ساتھی بن کر ابھرے ایسا ساتھی جو اپنے فکر و عمل سے ماحول میں مسرتیں پھیلائے، ٹوٹے دلوں کو جوڑنے کا سامنا کرے انسانوں سے محبت اور احترام کا درس دیں اپنی تہذیب و اقدار کو ساتھ لے کر چلے کہ ہم ایک باشعور اور متحرک قوم کے باسی ہیں، ہمارا لباس، ہماری زبان، چال چلن اور اطوار ہماری اپنی تہذیب اور ثقافت سے جڑے ہوں، ورنہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول جاتا ہے اسے ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیے، اللہ نے زبان اچھے لفظ بولنے کے لیے دی ہے:
قدرت کو ناپسند ہے سختی زبان میں
پیدا ہوئی نہ اس لیے ہڈی زبان میں
یہ بات ابھی پچھلے برس اکتوبر کی ہے جب بھارت کے ایک مشہور جیولری برانڈڈ کمپنی کی جانب سے زیورات کا ایک اشتہار چلا، اس کا دورانیہ تینتالیس سیکنڈ کا تھا یہ خاصا مہنگا بھی تھا کیونکہ ایک تقریب دکھائی گئی تھی جس میں مرکزی کرداروں کے علاوہ دیگر شرکا نے خوب زبردست کپڑے پہن رکھے تھے۔
میک اپ سے لے کر کھانے پینے کے انتظامات تک شاندار تھے لیکن اس اشتہار کے چلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی اس پر اس قدر اعتراضات اٹھے کہ بے چارے کمپنی کے مالکان نے فوراً اسے بند کرا دیا۔ حالانکہ بظاہر یہ ایک خوشنما اور متاثر کن اشتہار تھا لیکن اس میں جس پیغام کے ذریعے زیورات کی پبلسٹی کی گئی تھی وہ مواد اس بھارتی عوام کو ہرگز نہ بھایا جن کی ذہنی وسعت نہ ہونے کے برابر تھی۔
اس اشتہار کے پس منظر میں ایک ہندو خاتون بیاہ کر مسلمان گھرانے میں آتی ہے خاتون ماں بننے والی ہے جہاں گود بھرائی کی رسم ہے ، خاتون کی مسلمان ساس اسے پیار کرتی ہے تو خاتون کہتی ہے کہ آپ کے یہاں تو یہ رسم نہیں ہوتی، جس پر خاتون کی ساس دُلار سے جواب دیتی ہے کہ بیٹی کو پیار کرنے کی رسم تو ہوتی ہے۔ اس اشتہار کے ذریعے دو مختلف اقدار کو یکجا کرنے اور پیار محبت بڑھانے پر زور دیا گیا تھا لیکن اس کے نشر ہوتے ہی کم ذہن رکھنے والوں نے سوچا کہ یہ لو جہاد کو پروموٹ کرنے کا اشتہار ہے۔
اس ''لو جہاد''کی زد میں ان تمام لوگوں کو تنقید کا نشانہ کافی عرصے سے بنایا جا رہا تھا جن میں خاص کر وہ نامور فلمی ستارے شامل ہیں کہ جن کی بیگمات ہندو گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں مثلاً شاہ رخ خان، سیف علی خان اور عامر خان وغیرہ وغیرہ۔ اس لو جہاد کی تکرار میں اس 43 سیکنڈ کے اشتہار کی آمد نے تہلکہ سا مچا دیا تھا گویا جلتی پر تیل، اسی دوران روشن خیال ہندوؤں کو اپنے پست سوچ رکھنے والے بھائی بندوں سے شکایت بھی تھی کہ یہ لو جہاد نہیں ہے بلکہ دو روایات کے حامل لوگوں کے پیار محبت کی مثال ہے پر اس بات کو رد کردیا گیا جیولری والوں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور بڑی مشکلوں سے معاملہ رفع دفع ہوا، پر تکرار جاری رہی۔
اشتہارات کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور اس دور میں جب کہ مختلف نوعیت کے میڈیاز زندگی میں شامل ہیں اس کی افادیت بھی بڑھ گئی ہے لیکن افسوس کہ اس کی اہمیت اور افادیت کے باوجود اسے جس انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے وہ خاصا پریشان کن بھی ہے۔ آج بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل فونز تھمے ہیں یہاں مختلف انداز کے سوشل میڈیا پرکچھ اس قسم کے لچر اشتہارات بھی نظر آتے ہیں کہ آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں، پر کیا کرسکتے ہیں کہ ہر سائٹ کا اپنا تماشا جاری ہے اور پھر یہ ایک دوسری نوعیت کے معیار ہیں لیکن مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والے اشتہارات بھی اس دوڑ میں کم نہیں ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ انداز و اطوار، زبان اور رویے بھی بار بار اشتہارات کی صورت میں چلتے رہنے کے باعث بچوں کو ازبر ہو جاتے ہیں۔ یوں بات سیدھی ہو یا ٹیڑھی اذہان میں محفوظ ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں اشتہار بازی کے میدان سے منسلک اشخاص بھی خاصے مقبول ہیں ان کے مخصوص انداز میں اردو بولنے کو ہمارے یہاں کے نوجوان کاپی کرتے کرتے ادھیڑ عمری تک چلے آئے ہیں لیکن یہ فیشن ہنوز قائم ہے اسے انگریزی نما اردوکہہ سکتے ہیں گو ویسے تو اسے لکھا اور بولا اردو میں ہی جاتا ہے لیکن تلفظ خاص انگریزی انداز کا ہے۔
اس سلسلے میں ایک لطیفہ نظر سے گزرا جو پڑھنے میں یقینا لطیفہ ہی ہے ویسے یہ سچا جوک ہے۔ ایک صاحب نے اسے زیڈ اے بخاری (بابائے ریڈیو) کو سنایا تھا کہ جب وہ نئے نئے ہندوستان آئے تو اردو زبان سیکھنے کا بہت شوق تھا اور اس بات سے وہ بہت چڑتے تھے کہ لوگ اردو بولتے وقت انگریزی کے الفاظ جا بجا استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ ایسے لوگوں کی تقلید سے بچوں گا اور اردو بولتے وقت انگریزی کے الفاظ کبھی استعمال نہیں کروں گا۔ مگر ایک دن منہ کی کھانی پڑی۔ ایک دن ہوٹل میں کھانا کھا رہے تھے، بیرے نے آکر پوچھا:
''کیوں صاحب کسی اور چیزکی ضرورت تو نہیں؟''
صاحب نے جواب دیا ''ہاں بادنجان فرنگی (ٹماٹر) لاؤ۔''
''بادنجان فرنگی۔۔۔۔!'' وہ بڑبڑایا اورکچھ نہ سمجھا۔ آخر ساتھ کی میز والے بیرے نے اس سے کہا ''ابے! صاحب ٹماٹر مانگ رہا ہے۔'' اور صاحب کی جانب پلٹ کرکہا۔
''صاحب! نیا بیرا ہے، انگریزی نہیں جانتا۔''
بیرے کے اس طرح سلیس اردو کے لفظ بادنجان فرنگی یعنی انگریزی میں ٹماٹر پر ان صاحب نے اپنا سر ہی پکڑ لیا ہوگا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اردو ایک وسیع القلب زبان ہے کہ جس میں اردو، انگریزی ہی کیا بلکہ دنیا بھر کی زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمونے کا ہنر رکھتی ہے۔بات ہو رہی تھی اشتہار بازی کی کہ جس کو اگر اچھی طرح سے برتا جائے تو یہ کمال کا ہنر رکھتی ہے اور ذرا جو چوک ہو جائے تو عوام کے غصے کے ساتھ سرمائے کی بربادی کا بھی احتمال رہتا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد فلموں کی پبلسٹی کے لیے پوسٹرز بنوانے کا اتنا رجحان نہ تھا بلکہ لوگ بھونپو لے کر فلموں کی آمد کے بارے میں لوگوں کو بتایا کرتے تھے یہ بھی سنا ہے کہ فلم ساز باقاعدہ پبلسٹی کے لیے گدھوں کا انتظام کرتے تھے یوں چلتے پھرتے پبلسٹی ہوتی اور لوگ بڑے شوق سے سنتے اور اپنے من پسند فنکاروں کی فلم دیکھنے ضرور جاتے۔
جب کہ آج کل فلموں کی پبلسٹی کے لیے سوشل میڈیا پر بھی نت نئے انداز نظر آتے ہیں اور ان پر خاصی رقم خرچ کی جاتی ہے۔اشتہار بازی پر خرچ کیا جانے والا پیسہ یقیناً صنعت کار کے لیے بہت اہم ہے کہ اس کے باعث ان کا مال اچھا اور خوب فروخت ہوگا لیکن ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اشتہار بازی تو خوب اچھی کی اور جس شے کے لیے سارا میدان سجایا وہ چیز غیر معیاری نکلی اس طرح کی منفی اشتہار بازی کے باعث اکثر صارفین رنگ برنگے اشتہارات پر بھی کم توجہ دیتے ہیں اور متاثر ہوتے تو ماڈلز کے فیشن اور اس کی گفتگو اور اشتہار کے بول پر۔آج کل بڑے بڑے اداروں میں ذرا فون ملائیے تو دوسری جانب سے آپ کو انگریزی نما اردو میں پیغامات سننے کو ملتے ہیں کئی بار جی میں آیا بھی کہ شکایت کی جائے لیکن کس سے کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی۔۔۔۔۔مثلاً اگر آپ قیمتی کو کمیتی اور پیغام اردو میں پر بے انتہا انگریزی کے الفاظ یعنی اگر دوسری جانب کوئی ان پڑھ نہ سہی لیکن پڑھا لکھا، گھریلو سیدھی سی خاتون ہو تو اس انگریزی نما اردو کو سن کر ہی بدحواس ہو جائے کہ فرنگی زبان خدا جانے کیا کچھ کہا جا رہا ہے۔
بالکل اسی طرح بڑے اداروں کے پیغام رسانی سے منسلک اشخاص کا حال ہوتا ہے، خوب سمجھتے ہیں اپنے دیسی مزاج کو اور یوں معصوم عوام پر اپنے مطالبات ٹھونس کر اپنی ڈگریوں کو وصول کرلیتے ہیں کہ ان کے خیال میں ان کی مہنگی تعلیم کا یہ بہت بڑا فائدہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اشتہار بازی آج کل کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اسے معاشرے میں اس طرح عام کریں کہ یہ ہمارے اپنے گھر کا اہم ساتھی بن کر ابھرے ایسا ساتھی جو اپنے فکر و عمل سے ماحول میں مسرتیں پھیلائے، ٹوٹے دلوں کو جوڑنے کا سامنا کرے انسانوں سے محبت اور احترام کا درس دیں اپنی تہذیب و اقدار کو ساتھ لے کر چلے کہ ہم ایک باشعور اور متحرک قوم کے باسی ہیں، ہمارا لباس، ہماری زبان، چال چلن اور اطوار ہماری اپنی تہذیب اور ثقافت سے جڑے ہوں، ورنہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول جاتا ہے اسے ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیے، اللہ نے زبان اچھے لفظ بولنے کے لیے دی ہے:
قدرت کو ناپسند ہے سختی زبان میں
پیدا ہوئی نہ اس لیے ہڈی زبان میں