چلن
موجودہ من پسند جمہوریت نے عوام کے منتخب پارلیمان اور اسمبلیوں کو دانستہ بے توقیرکیا
عجب چلن چل نکلا ہے ہمارے سماج میں، جس کو دیکھو اپنی بانسری کے سْر تال میں اس قدر مصروف ہے کہ سسکتی تڑپتی حسرتیں توکجا، اپنی سماجی روایتوں کو بھی دریدہ کرنے پر تل چکا ہے ہر بشر، اس پہ وہ خود کو درست بھی قرار دے رہا ہے اور دوم کہ اپنی ضد اور انا پر مجال جو توجہ دے لے یا کسی کی رائے پر چند ساعت غور کرلے۔
ماہرین نفسیات کے خیال میں یہ رویے سماج کی مجموعی شکست وریخت کے ذمے دارکہے جاتے ہیں، اب اگر اہل دانش وسیاست ہی ان سماجی بے ہنگم رویوں کو درست کرنے کی کوئی سبیل نہ نکالنے پر مصر ہوں تو پھر اس سماج میں اخلاقیات کی مکمل تباہی ایک ایسا انجام ہوتا ہے، جو تاریخ میں تو رہ جاتا ہے مگر تاریخ اسے عبرت کے طور پر استعمال کرتی ہے یا اسے بے وقعت گردانتی ہے، یہ سماجی تباہی کے ذمے داروں کے عقل وخرد سے باہرکی بات ہے، اور نہ ہی تباہی کے ذمے داروں کو تاریخ اور تہذیب سے کچھ لینا دینا ہے۔
اہل دانش کی نظر میں سماجی رویوں کی ابتدائی شکل کا متاثرکن پہلو نظامِ حکومت چلانے والوں کے کردار و اصول ہی ٹہرتے ہیں،نظام کی خرابی کا رونا تاریخ کے ہر دور میں دیکھا گیا ہے، لیکن اسی کے ساتھ تاریخ سے سیکھنے اور خود کو درست کرنے کا عمل بھی سماجی رویوں کی بہتری میں ایک اہم کردار کے طور پر جانا گیا ہے، مگر کیا ہمارے سیاسی سماجی اور اخلاقی رویے اس قابل ہیں یا بننے کی جانب جا رہے ہیں کہ جن پر آج یا مستقبل میں فخر کیا جاسکے؟ یہ ایسا دل سوز سوال ہے ہمارے آج کے بے ترتیب سماج کا جس نے سوچنے والوں کے دکھوں کو دگنا کر رکھا ہے، ہر جانب سرمایہ دارانہ منڈی کی مانند ادب،تہذیب،صحافت اور سیاست کو چلانے کا چلن عام کردیا گیا ہے اور اسی کو ہم نئی دنیا کی جدید ٹیکنالوجی سے جوڑ کر خود کو ترقی یافتہ سمجھنے کے دھوکے میں دن بدن تنزلی کی جانب بڑھتے جارہے ہیں اورکسی بھی قسم کی شرمندگی سے بالاتر سماج کی قدروں اور ان کی ساکھ کو خراب کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
جس سماج میں آمرانہ طرز عمل یا سوچ عام فرد میں منتقل ہو جائے یا کردی جائے تو سمجھ لیجیے کہ نظامِ سیاست کی خرمستیاں اپنی گھناؤنی سوچ میں کامیاب ہوچلی ہیں، مذکورہ فرد کی سوچ اور رویے پر ماتم کرنے کے بجائے ہمیں اپنی سیاست کے ان نقائص کو دیکھنا چاہیے جو مجموعی طور سے سماجی بگاڑکی وجہ بنے ہوئے ہیں۔
سماج کو اس بے ترتیب سوچ اورگنجلک ماحول سے نکالنے کی کوشش کرنے والوں کو جب ریاست اور اہل سیاست ''معتوب'' اور ''غدار'' کی سندیں بانٹنے میں جت جائیں تو سمجھ لیجیے کہ سماج کی بہتری کی امید میں بہت کڑی مشکل آن پڑی ہے ،جس کے تدارک کے لیے بہت محنت کے ساتھ اس کا نفسیاتی علاج بھی ضروری ہے،ہماری سیاست کی چال ابتدا ہی سے جبر اور بندوق کی طاقت کی بنیاد پر چلائی گئی اور اس میں بہتری کرنے والے سوشلسٹ دانشور اور سیاست دانوں کو معتوب اور غدارکہہ کر سماج کو سرمائے کی ہوسناکی کا عادی کیا گیا کہ جس کی کوئی سمت نہ تھی اور نہ ہے اور نہ ہوگی،بلکہ عام فرد کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر ہانکا گیا تاکہ ایوانِ اقتدار میں عوام دشمن سازشوں سے عوام کو دوررکھ کر انھیں معاشی اور سیاسی طور سے اپاہج کردیا جائے۔
دوسری جانب حکومت کی باگ ڈور ایسے لنگڑے گھوڑے کے سپرد کرنے کا فارمولا ایجاد کیا گیا جو تاحال ایک بھیانک شکل میں سماج کی سیاسی قدروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، یہی وجہ رہی کہ جب چاہا لنگڑے گھوڑے کی لگام کھینچ کر اسے پٹخنی دیدی۔
موجودہ سیاسی کیفیت کو مذکورہ بے ہنگم آمرانہ سوچ میں دیکھا جائے تو چند دنوں میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کی سرگرمیوں کو دیکھا جا سکتا ہے،کس قدر طرفہ تماشہ ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے ''ہائبرڈ جمہوریت'' کو بزور خوف چلانے پر بضد ایک ایسے آمرانہ سماج کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو مستقبل میں ملکی سلامتی و یکجہتی کے لیے نقصان کار اور سماج کو جنگل میں منتقل کرنے کا جواز ہوگا۔
موجودہ من پسند جمہوریت نے عوام کے منتخب پارلیمان اور اسمبلیوں کو دانستہ نہ صرف بے توقیرکیا بلکہ جمہوریت کے بنیادی اداروں کو آئین و قانون سے چلانے سے دور رکھا۔آئین کے مطابق موجودہ سینیٹ کے انتخابات کی بنیادی ذمے داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کے آئین میں دیے گئے، اختیارات کے ساتھ مقرر کردی گئی ہے،مگر موجودہ ''ہائبرڈ جمہوریت'' سینیٹ کے انتخابات کو مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے آئین سے ماورا آرڈیننس کے ذریعے کروانے پر مصر ہے،جب کہ ووٹ کے خفیہ تقدس والے نظریے کو شو آف ہینڈ کے ذریعے بھگتا کرآئین شکنی کی آمرانہ چلن کی یاد تازہ کی جارہی ہے،گو عدالت عظمی کا حتمی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے، مگر پی ڈی ایم کے اپوزیشن ارکان مسلسل غیر آئینی قدم کی نشاندہی میں مصروفِ عمل ہیں مگر ان کی صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے،جس سے حکومت کی شکست اور بوکھلاہٹ واضح طور سامنے نظر آرہی ہے، جمہوری بے توقیری کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔
سننے میں آ رہا ہے کہ مخالفین کے کاغذات الیکشن کی جانچ پڑتال کے موقع پر حکومت مشینری کی اس بددیانتی اور لا قانونیت کا مقصد یہی لیا جا سکتا ہے کہ وہ عوام کی رائے اور ووٹ کے تقدس کو عوام کے ذہنوں میں غیر اہم کروا کر اقتدار پرطاقت اور آمرانہ طرز عمل کو قائم رکھا جائے،جب کہ دوسری جانب عوام کو باورکروایا جائے کہ طاقت اور جبرکی قوتوں کے مقابل قانون اور الیکشن کمیشن کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں بلکہ جو حکومتی سربراہ چاہے گا۔
اسے ہی قانون اور جمہوریت سمجھا جائے،یہ وہ خطرناک اور سماج کو تہس نہس کرنے کا عمل ہے جس کی آڑ میں طاقت کے خدا کسی طور نئی نسل کو سیاسی شعور نہ دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی عوام کی سیاسی بالیدگی میں نئی سوچ لانا چاہتے ہیں۔اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کی کوشش ہے کہ عوام کاٹھ کے الو بنے نو رتن کی طرح بس صرف حکومت کی واہ واہ کرتے رہیں،مگر یہ سب اقتدار کے ''رسیا'' اس امر سے نا واقف ہیں کہ طوفان سے پہلے مکمل خاموشی تباہی اور صرف تباہی لاتی ہے، جس میں طاقت سمیت جاہ و جلال بھی خس و خاشاک ہو جایا کرتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے خیال میں یہ رویے سماج کی مجموعی شکست وریخت کے ذمے دارکہے جاتے ہیں، اب اگر اہل دانش وسیاست ہی ان سماجی بے ہنگم رویوں کو درست کرنے کی کوئی سبیل نہ نکالنے پر مصر ہوں تو پھر اس سماج میں اخلاقیات کی مکمل تباہی ایک ایسا انجام ہوتا ہے، جو تاریخ میں تو رہ جاتا ہے مگر تاریخ اسے عبرت کے طور پر استعمال کرتی ہے یا اسے بے وقعت گردانتی ہے، یہ سماجی تباہی کے ذمے داروں کے عقل وخرد سے باہرکی بات ہے، اور نہ ہی تباہی کے ذمے داروں کو تاریخ اور تہذیب سے کچھ لینا دینا ہے۔
اہل دانش کی نظر میں سماجی رویوں کی ابتدائی شکل کا متاثرکن پہلو نظامِ حکومت چلانے والوں کے کردار و اصول ہی ٹہرتے ہیں،نظام کی خرابی کا رونا تاریخ کے ہر دور میں دیکھا گیا ہے، لیکن اسی کے ساتھ تاریخ سے سیکھنے اور خود کو درست کرنے کا عمل بھی سماجی رویوں کی بہتری میں ایک اہم کردار کے طور پر جانا گیا ہے، مگر کیا ہمارے سیاسی سماجی اور اخلاقی رویے اس قابل ہیں یا بننے کی جانب جا رہے ہیں کہ جن پر آج یا مستقبل میں فخر کیا جاسکے؟ یہ ایسا دل سوز سوال ہے ہمارے آج کے بے ترتیب سماج کا جس نے سوچنے والوں کے دکھوں کو دگنا کر رکھا ہے، ہر جانب سرمایہ دارانہ منڈی کی مانند ادب،تہذیب،صحافت اور سیاست کو چلانے کا چلن عام کردیا گیا ہے اور اسی کو ہم نئی دنیا کی جدید ٹیکنالوجی سے جوڑ کر خود کو ترقی یافتہ سمجھنے کے دھوکے میں دن بدن تنزلی کی جانب بڑھتے جارہے ہیں اورکسی بھی قسم کی شرمندگی سے بالاتر سماج کی قدروں اور ان کی ساکھ کو خراب کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
جس سماج میں آمرانہ طرز عمل یا سوچ عام فرد میں منتقل ہو جائے یا کردی جائے تو سمجھ لیجیے کہ نظامِ سیاست کی خرمستیاں اپنی گھناؤنی سوچ میں کامیاب ہوچلی ہیں، مذکورہ فرد کی سوچ اور رویے پر ماتم کرنے کے بجائے ہمیں اپنی سیاست کے ان نقائص کو دیکھنا چاہیے جو مجموعی طور سے سماجی بگاڑکی وجہ بنے ہوئے ہیں۔
سماج کو اس بے ترتیب سوچ اورگنجلک ماحول سے نکالنے کی کوشش کرنے والوں کو جب ریاست اور اہل سیاست ''معتوب'' اور ''غدار'' کی سندیں بانٹنے میں جت جائیں تو سمجھ لیجیے کہ سماج کی بہتری کی امید میں بہت کڑی مشکل آن پڑی ہے ،جس کے تدارک کے لیے بہت محنت کے ساتھ اس کا نفسیاتی علاج بھی ضروری ہے،ہماری سیاست کی چال ابتدا ہی سے جبر اور بندوق کی طاقت کی بنیاد پر چلائی گئی اور اس میں بہتری کرنے والے سوشلسٹ دانشور اور سیاست دانوں کو معتوب اور غدارکہہ کر سماج کو سرمائے کی ہوسناکی کا عادی کیا گیا کہ جس کی کوئی سمت نہ تھی اور نہ ہے اور نہ ہوگی،بلکہ عام فرد کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر ہانکا گیا تاکہ ایوانِ اقتدار میں عوام دشمن سازشوں سے عوام کو دوررکھ کر انھیں معاشی اور سیاسی طور سے اپاہج کردیا جائے۔
دوسری جانب حکومت کی باگ ڈور ایسے لنگڑے گھوڑے کے سپرد کرنے کا فارمولا ایجاد کیا گیا جو تاحال ایک بھیانک شکل میں سماج کی سیاسی قدروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، یہی وجہ رہی کہ جب چاہا لنگڑے گھوڑے کی لگام کھینچ کر اسے پٹخنی دیدی۔
موجودہ سیاسی کیفیت کو مذکورہ بے ہنگم آمرانہ سوچ میں دیکھا جائے تو چند دنوں میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کی سرگرمیوں کو دیکھا جا سکتا ہے،کس قدر طرفہ تماشہ ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے ''ہائبرڈ جمہوریت'' کو بزور خوف چلانے پر بضد ایک ایسے آمرانہ سماج کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو مستقبل میں ملکی سلامتی و یکجہتی کے لیے نقصان کار اور سماج کو جنگل میں منتقل کرنے کا جواز ہوگا۔
موجودہ من پسند جمہوریت نے عوام کے منتخب پارلیمان اور اسمبلیوں کو دانستہ نہ صرف بے توقیرکیا بلکہ جمہوریت کے بنیادی اداروں کو آئین و قانون سے چلانے سے دور رکھا۔آئین کے مطابق موجودہ سینیٹ کے انتخابات کی بنیادی ذمے داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کے آئین میں دیے گئے، اختیارات کے ساتھ مقرر کردی گئی ہے،مگر موجودہ ''ہائبرڈ جمہوریت'' سینیٹ کے انتخابات کو مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے آئین سے ماورا آرڈیننس کے ذریعے کروانے پر مصر ہے،جب کہ ووٹ کے خفیہ تقدس والے نظریے کو شو آف ہینڈ کے ذریعے بھگتا کرآئین شکنی کی آمرانہ چلن کی یاد تازہ کی جارہی ہے،گو عدالت عظمی کا حتمی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے، مگر پی ڈی ایم کے اپوزیشن ارکان مسلسل غیر آئینی قدم کی نشاندہی میں مصروفِ عمل ہیں مگر ان کی صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے،جس سے حکومت کی شکست اور بوکھلاہٹ واضح طور سامنے نظر آرہی ہے، جمہوری بے توقیری کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔
سننے میں آ رہا ہے کہ مخالفین کے کاغذات الیکشن کی جانچ پڑتال کے موقع پر حکومت مشینری کی اس بددیانتی اور لا قانونیت کا مقصد یہی لیا جا سکتا ہے کہ وہ عوام کی رائے اور ووٹ کے تقدس کو عوام کے ذہنوں میں غیر اہم کروا کر اقتدار پرطاقت اور آمرانہ طرز عمل کو قائم رکھا جائے،جب کہ دوسری جانب عوام کو باورکروایا جائے کہ طاقت اور جبرکی قوتوں کے مقابل قانون اور الیکشن کمیشن کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں بلکہ جو حکومتی سربراہ چاہے گا۔
اسے ہی قانون اور جمہوریت سمجھا جائے،یہ وہ خطرناک اور سماج کو تہس نہس کرنے کا عمل ہے جس کی آڑ میں طاقت کے خدا کسی طور نئی نسل کو سیاسی شعور نہ دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی عوام کی سیاسی بالیدگی میں نئی سوچ لانا چاہتے ہیں۔اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کی کوشش ہے کہ عوام کاٹھ کے الو بنے نو رتن کی طرح بس صرف حکومت کی واہ واہ کرتے رہیں،مگر یہ سب اقتدار کے ''رسیا'' اس امر سے نا واقف ہیں کہ طوفان سے پہلے مکمل خاموشی تباہی اور صرف تباہی لاتی ہے، جس میں طاقت سمیت جاہ و جلال بھی خس و خاشاک ہو جایا کرتے ہیں۔