کوے اور کلنگ
فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق آیا تو درست ورنہ تنقید کے نشتر چلیں گے
مولانا روم کی حکایت ہے کہ ایک مرتبہ حکیم جالینوس نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ مجھ کو فلاں دوا نکال دو۔ ایک شاگرد نے ان سے پوچھا کہ ''حضرت! یہ دوا تو جنون میں دی جاتی ہے، بھلا یہ دوا کیا آپ کھائیں گے؟'' حکیم صاحب نے کہا کہ ''ہاں! میں کھاؤں گا، میری طرف ایک دیوانہ متوجہ ہوا تھا وہ تھوڑی دیر تک تو مجھے گھورتا رہا پھر مجھے آنکھ ماری اور اس کے بعد میری آستین پھاڑ ڈالی۔
اگر مجھ میں کوئی ہم جنس کی بات نہ پاتا تو وہ میری طرف رخ ہی کیوں کرتا۔'' جب دو شخص آپس میں ملیں تو یقین کرنا چاہیے کہ ان میں کوئی مشترک نسبت ضرور موجود ہے۔ کوئی پرندہ بغیر اپنے ہم جنس غول کے کب اڑتا ہے۔ اس کی تمثیل میں ایک شخص نے بیان کیا کہ ''میں نے ایک بیابان میں کوے اورکلنگ کو بڑے چاؤ سے پاس پاس بیٹھے دیکھا، میں یہ صورت حال دیکھ کر اس فکر میں ڈوب گیا کہ ان میں آخر مشترک تعلق کیا ہوگا۔ اسی حیرت میں جب میں ان کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ دونوں لنگڑے تھے۔''
آپ مولانا روم کی مذکورہ حکایت کو ذہن میں رکھتے ہوئے قومی سیاسی زندگی کے خدوخال کی ترجمان سیاسی جماعتوں کے کردار اور باہمی تعلق کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان جماعتوں میں ایک نہیں کئی قدریں مشترک ہیں۔ انتخابات میں عوام کوکھوکھلے نعروں، بلند و بانگ دعوؤں اور سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرنا سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرکے مفادات کے سمندر میں غوطہ زن ہو جانے تک کئی قدریں مشترک ہیں۔ سرکاری عہدوں، اختیارات اور وسائل سے ذاتی، انفرادی، جماعتی اور سیاسی مفادات کا حصول ہر سیاسی جماعت کا مطمع نظر ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں ومنتخب نمایندوں کا دعویٰ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر عوام کے مسائل ومشکلات کے حل کے تمام وعدے اور دعوے پورے کریں، ملک سے غربت، بے روزگاری، مہنگائی، بھوک، افلاس، بیماری، جہالت اور پسماندگی جیسے بڑے عوامی مسائل حل کرنے کے لیے مختصر و طویل المدتی پالیسیاں، حکمت عملی اور ٹھوس اقدامات اٹھائیں گے۔ عوام امید بھری نظروں سے اپنے منتخب نمایندوں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں، لیکن افسوس کہ عوام کے منتخب نمایندے اقتدارکی راہداریوں میں اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل کی ''چمک'' تلاش کرنے میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ انھیں خود اپنا نشان تک نہیں ملتا، وہ اپنا پتا اور اصل کھو بیٹھتے ہیں۔
دولت رانی کی زلفوں کے اسیر ہوکر اس کے آستانے پر ایسے سجدہ ریز ہوئے کہ عوام سے کیے وعدے، دعوے اور پارٹی منشور، آئین سے وفاداری اور اپنے حلف کی پاسداری کچھ بھی انھیں یاد نہیں رہتا۔ جمہوریت جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ عوام کے ووٹوں سے عوام کے نمایندوں کے ذریعے عوام کی حکومت عوام کے لیے ہوتی ہے، یہ کہیں نظر نہیں آتی بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ عوام کے ووٹوں سے عوام کے نمایندے عوام کی حکومت کو اپنے ضمیر کی تجارت کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کی سب سے روشن مثال سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت سے دی جاسکتی ہے جو آج پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں سب سے زیادہ گرم موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ایوان صدر سے لے کر ایوان عدل تک جس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
برسر اقتدار جماعت پی ٹی آئی جس کے سربراہ عمران خان ''انصاف'' اور''ریاست مدینہ'' کا نعرہ لگاتے ہیں، کرپشن و بدعنوانی سے پاک نظام کی بات کرتے ہیں اور احتساب ان کی منزل ہے لیکن 2018 کے سینیٹ انتخابات میں خود ان کی اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی نے اپنے ضمیر کی قیمت لگائی۔ اس ضمن میں گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی ویڈیو میں پی ٹی آئی ارکان کو اپنے ضمیرکی قیمت وصول کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے بجا کہ وزیر اعظم نے ان ضمیر فروشوں کو پارٹی سے نکال دیا لیکن ایک چہیتے کو کے پی کے کا وزیر قانون بنا کر اپنے ہی نعرے احتساب کا سر قلم کردیا۔
اب حکمران ''شو آف ہینڈ'' کے ذریعے سینیٹ انتخابات کے خواہاں ہیں اور اس مقصد کے لیے انھوں نے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم بھی پیش کی۔ عدالت عظمیٰ سے بھی رجوع کر رکھا ہے اور مشروط صدارتی آرڈیننس بھی جاری کردیا ہے۔
لیکن کہا جا رہا ہے کہ خود پی ٹی آئی کے ارکان کے وفاداریاں تبدیل کرنے کے خوف کی وجہ سے حکمران ''اوپن ووٹنگ'' کے خواہاں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو، (ن) لیگ کی مریم نواز، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن تواتر کے ساتھ حکمرانوں پر تنقید کر رہے ہیں کہ وہ خود اپنے ارکان اسمبلی سے خوفزدہ ہیں اسی لیے آئینی ترمیم کے بغیر اوپن ووٹنگ کے خواہاں ہیں۔ اگرچہ میثاق جمہوریت میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ دونوں نے سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری ختم کرنے کے لیے آئینی ترمیم پر اتفاق کیا تھا لیکن اب یہ دونوں جماعتیں اس ترمیم کی مخالف ہیں نتیجتاً قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی تجویز ناکام ہوگئی۔ اب طرفہ تماشا دیکھیے کہ امکانی عدالتی فیصلے کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن ہر دو فریق اپنی اپنی عینک سے تبصرے فرماتے ہوئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق آیا تو درست ورنہ تنقید کے نشتر چلیں گے۔ سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ کون سی قدرکس میں مشترک ہے، کون کس کا کیوں ہمنوا ہے اور کوے اورکلنگ کا کردارکس پر صادق آتا ہے؟
اگر مجھ میں کوئی ہم جنس کی بات نہ پاتا تو وہ میری طرف رخ ہی کیوں کرتا۔'' جب دو شخص آپس میں ملیں تو یقین کرنا چاہیے کہ ان میں کوئی مشترک نسبت ضرور موجود ہے۔ کوئی پرندہ بغیر اپنے ہم جنس غول کے کب اڑتا ہے۔ اس کی تمثیل میں ایک شخص نے بیان کیا کہ ''میں نے ایک بیابان میں کوے اورکلنگ کو بڑے چاؤ سے پاس پاس بیٹھے دیکھا، میں یہ صورت حال دیکھ کر اس فکر میں ڈوب گیا کہ ان میں آخر مشترک تعلق کیا ہوگا۔ اسی حیرت میں جب میں ان کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ دونوں لنگڑے تھے۔''
آپ مولانا روم کی مذکورہ حکایت کو ذہن میں رکھتے ہوئے قومی سیاسی زندگی کے خدوخال کی ترجمان سیاسی جماعتوں کے کردار اور باہمی تعلق کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان جماعتوں میں ایک نہیں کئی قدریں مشترک ہیں۔ انتخابات میں عوام کوکھوکھلے نعروں، بلند و بانگ دعوؤں اور سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرنا سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرکے مفادات کے سمندر میں غوطہ زن ہو جانے تک کئی قدریں مشترک ہیں۔ سرکاری عہدوں، اختیارات اور وسائل سے ذاتی، انفرادی، جماعتی اور سیاسی مفادات کا حصول ہر سیاسی جماعت کا مطمع نظر ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں ومنتخب نمایندوں کا دعویٰ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر عوام کے مسائل ومشکلات کے حل کے تمام وعدے اور دعوے پورے کریں، ملک سے غربت، بے روزگاری، مہنگائی، بھوک، افلاس، بیماری، جہالت اور پسماندگی جیسے بڑے عوامی مسائل حل کرنے کے لیے مختصر و طویل المدتی پالیسیاں، حکمت عملی اور ٹھوس اقدامات اٹھائیں گے۔ عوام امید بھری نظروں سے اپنے منتخب نمایندوں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں، لیکن افسوس کہ عوام کے منتخب نمایندے اقتدارکی راہداریوں میں اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل کی ''چمک'' تلاش کرنے میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ انھیں خود اپنا نشان تک نہیں ملتا، وہ اپنا پتا اور اصل کھو بیٹھتے ہیں۔
دولت رانی کی زلفوں کے اسیر ہوکر اس کے آستانے پر ایسے سجدہ ریز ہوئے کہ عوام سے کیے وعدے، دعوے اور پارٹی منشور، آئین سے وفاداری اور اپنے حلف کی پاسداری کچھ بھی انھیں یاد نہیں رہتا۔ جمہوریت جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ عوام کے ووٹوں سے عوام کے نمایندوں کے ذریعے عوام کی حکومت عوام کے لیے ہوتی ہے، یہ کہیں نظر نہیں آتی بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ عوام کے ووٹوں سے عوام کے نمایندے عوام کی حکومت کو اپنے ضمیر کی تجارت کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کی سب سے روشن مثال سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت سے دی جاسکتی ہے جو آج پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں سب سے زیادہ گرم موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ایوان صدر سے لے کر ایوان عدل تک جس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
برسر اقتدار جماعت پی ٹی آئی جس کے سربراہ عمران خان ''انصاف'' اور''ریاست مدینہ'' کا نعرہ لگاتے ہیں، کرپشن و بدعنوانی سے پاک نظام کی بات کرتے ہیں اور احتساب ان کی منزل ہے لیکن 2018 کے سینیٹ انتخابات میں خود ان کی اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی نے اپنے ضمیر کی قیمت لگائی۔ اس ضمن میں گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی ویڈیو میں پی ٹی آئی ارکان کو اپنے ضمیرکی قیمت وصول کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے بجا کہ وزیر اعظم نے ان ضمیر فروشوں کو پارٹی سے نکال دیا لیکن ایک چہیتے کو کے پی کے کا وزیر قانون بنا کر اپنے ہی نعرے احتساب کا سر قلم کردیا۔
اب حکمران ''شو آف ہینڈ'' کے ذریعے سینیٹ انتخابات کے خواہاں ہیں اور اس مقصد کے لیے انھوں نے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم بھی پیش کی۔ عدالت عظمیٰ سے بھی رجوع کر رکھا ہے اور مشروط صدارتی آرڈیننس بھی جاری کردیا ہے۔
لیکن کہا جا رہا ہے کہ خود پی ٹی آئی کے ارکان کے وفاداریاں تبدیل کرنے کے خوف کی وجہ سے حکمران ''اوپن ووٹنگ'' کے خواہاں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو، (ن) لیگ کی مریم نواز، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن تواتر کے ساتھ حکمرانوں پر تنقید کر رہے ہیں کہ وہ خود اپنے ارکان اسمبلی سے خوفزدہ ہیں اسی لیے آئینی ترمیم کے بغیر اوپن ووٹنگ کے خواہاں ہیں۔ اگرچہ میثاق جمہوریت میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ دونوں نے سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری ختم کرنے کے لیے آئینی ترمیم پر اتفاق کیا تھا لیکن اب یہ دونوں جماعتیں اس ترمیم کی مخالف ہیں نتیجتاً قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی تجویز ناکام ہوگئی۔ اب طرفہ تماشا دیکھیے کہ امکانی عدالتی فیصلے کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن ہر دو فریق اپنی اپنی عینک سے تبصرے فرماتے ہوئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق آیا تو درست ورنہ تنقید کے نشتر چلیں گے۔ سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ کون سی قدرکس میں مشترک ہے، کون کس کا کیوں ہمنوا ہے اور کوے اورکلنگ کا کردارکس پر صادق آتا ہے؟