عبادات کے اَخلاقی پہلو

دین اسلام کی اہم ترین عبادات میں اخلاقیات کی بنیادی حیثیت

اﷲ تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ ان کی تخلیق کا اصل مقصد عبادت (اﷲ کے احکام کو نبی کریم ﷺ کی تشریحات کے مطابق بجالانا) ہے اور عبادت کا اصل مقصد اﷲ کی رضا اور خوش نُودی حاصل کرنا ہے۔

ہم اﷲ کی مخلوق ہیں اگر وہ ذات ہمیں عبادت کا حکم نہ بھی دیتی تب بھی عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی عبادت کرنی چاہیے تھی لیکن اس ذات کا کرم یہ ہے کہ اس نے ہمیں اس کا حکم بھی دے دیا۔

کرم بالائے کرم یہ ہے کہ اس کی یاددہانی اور اس کے بارے نفع و نقصان بتلانے کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کو ہماری طرف مبعوث فرمایا۔

چوں کہ خاتم النبین ﷺ نے اپنے وقت میں اﷲ کے احکام کی علمی اور عملی تبلیغ فرما کر رخصت ہونا ہی تھا لہذا اﷲ نے مزید کرم یہ فرمایا کہ اپنی جانب سے ہمیشہ رہنے والی کتاب قرآن مجید بھی نازل فرما دی اور اس میں اپنی مراد تک رسائی کے لیے پیغمبر ﷺ کو حکم دیا کہ آپ اس کی وضاحت اپنے قول اور عمل (سنت) سے بھی فرما دیں۔

عبادات کے اخلاقی پہلو

جب یہ بات معلوم ہوچکی کہ عبادات کا مقصد اﷲ کو نبیؐ کے طریقے کے مطابق راضی کرنا ہے۔ اب آتے ہیں چند اہم ترین عبادات کے اخلاقی پہلوؤں کی طرف۔ جس سے معلوم ہوگا کہ دین اسلام کی اہم ترین عبادات میں ہمیں جن باتوں کی تعلیم دی گئی ہے وہ کس قدر بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔

نماز کا اخلاقی پہلو

نماز وہ عبادت ہے جسے شریعت میں اہم العبادات کا درجہ حاصل ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر نماز کی ادائی کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے جہاں اﷲ کی رضا حاصل ہوتی ہے وہاں پر انسان کے اخلاق کو بہتر سے بہتر بنانے میں اس کا بنیادی کردار ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ''بے شک نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔'' (سورۃ العنکبوت)

دور حاضر کے مختلف دجال اور کذّابوں نے امت مسلمہ کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے یہ شبہ کیا ہے کہ مسلمانو! تم کہتے ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ نماز بے حیائی سے روک دیتی ہے، جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مسلمان شخص نماز بھی پڑھتا ہے لیکن گناہ بھی کرتا ہے، اگر اس سے یہی نماز مراد ہے جو تم پڑھتے ہو تو پھر اس کو ادا کرنے والا کبھی گناہ نہ کرتا۔ نماز پڑھنے والے کا گناہ میں مبتلا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان جو نماز کے نام پر عبادت کرتے ہیں، یہ وہ نماز نہیں ہے ورنہ اس کو ادا کرنے والا گناہ ہی نہ کرتا۔

اس شبہے کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ نماز، نمازی سے گناہ چھڑوا دے گی بل کہ یہ فرمایا ہے کہ نماز، نمازی کو بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔ جیسے اﷲ تعالیٰ بندوں کو گناہوں سے منع کرتے ہیں۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ گناہ کر ہی نہ سکے کیوں کہ اﷲ نے منع کر دیا ہے بل کہ بندے کو اختیار دیتے ہیں اگر بندہ اپنے اختیار سے گناہ سے رک جاتا ہے تو اﷲ اس پر ثواب دیتے ہیں اور اگر اپنے اختیار سے گناہ کرتا ہے تو اﷲ اس پر عذاب دیتے ہیں۔

جس طرح اﷲ تعالیٰ گناہوں سے منع کرتے ہیں زبردستی چھڑواتے نہیں ہیں، اسی طرح نماز بھی بے حیائی سے منع کرتی ہے، زبردستی چھڑواتی نہیں ہے۔ نماز یہ احساس دلاتی ہے کہ اے انسان! سب کچھ چھوڑ کر جس ذات کے سامنے تُونے ہاتھ باندھ لیے ہیں، رکوع یعنی جھک کر عاجزی کا اظہار کر لیا ہے اور سر سجدے میں رکھ کر اطاعت گزاروں والی شکل بنا لی ہے۔ اس کے باوجود بھی تو بے حیائی اور بُرے کام کرتا ہے! بہت شرم کی بات ہے۔ تجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ نماز، نمازی سے گناہ چھڑا بھی دیتی ہے لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ تمام اس کے تمام آداب کی رعایت کی جائے۔ نماز میں جو کچھ پڑھ رہا ہے اس کو اچھی طرح سمجھے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ نماز سنّت کے مطابق ہو۔ خشوع اور خضوع کو ہر حال میں ملحوظ رکھے۔ ایک وقت آتا ہے کہ یہی نماز بندے سے بے حیائی اور بُرے کام چھڑا دیتی ہے۔

زکوٰۃ کا اخلاقی پہلو

زکوٰۃ ادا کرنے کا حقیقی اور اصل مقصد تو محض اﷲ کی رضا حاصل کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ اس کا ایک اخلاقی پہلو وہ بھی ہے جس کی طرف قرآن کریم نے ان الفاظ کے ساتھ راہ نمائی کی ہے، مفہوم: ''اے پیغمبر (ﷺ)! آپ لوگوں کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک اور صاف کر دیں۔'' (سورۃ التوبۃ)


قرآن پاک میں جس صفائی اور پاکیزگی کا ذکر ہے اس سے مراد باطنی صفائی یعنی دل سے مال و دولت کی محبّت، حرص، طمع، لالچ، تکبّر اور بڑائی وغیرہ سے پاک کرنا ہے۔ مزید یہ کہ اس سے غریبوں کا احساس، ہم دردی اور مساکین سے محبّت پیدا ہوتی ہے، یہ سب اس عبادت کے اخلاقی پہلو ہیں۔

روزے کا اخلاقی پہلو

دین اسلام کے احکام میں سے ایک حکم یہ ہے کہ مسلمان پورے سال میں سے رمضان المبارک والے مہینے میں فرض روزے رکھے۔ اس کا حقیقی مقصد تو اﷲ کی رضا ہے لیکن اس عبادت کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو قابو میں رکھ کر برائیوں سے دور رہنے کا عادی بنائے۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے رمضان المبارک کے حوالے سے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہوگا مگر ا س روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: (یہ ثواب پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں بل کہ) اگر کوئی بندہ ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ لسّی کا پلادے تو اﷲ تعالیٰ اس پر بھی یہ ثواب مرحمت فرما دیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اﷲ کی رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنّم کی آگ سے آزادی کا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام یا ملازم کے بوجھ کو ہلکا کر دے تو اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں اور آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔''

(بہ حوالہ: صحیح ابن خزیمۃ، باب فضائل شہر رمضان)

اس میں درج ذیل اخلاقی پہلو نکلتے ہیں: صبر، غم خواری، ہم دردی اور نرمی۔ روزے کے ایک اہم اخلاقی پہلو کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا نہیں چھوڑتا تو اﷲ کے ہاں اس کے بھوکا پیاسا رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔'' اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی شخص روزہ رکھے تو اسے چاہیے کہ وہ کوئی بے حیائی کا کام نہ کرے اور نہ ہی کسی سے جھگڑے۔ ہاں اگر کوئی دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے تو یہ اس جھگڑا کرنے والے سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔''

صدقۃ الفطر کا اخلاقی پہلو

صدقۃ الفطر ایک اہم عبادت ہے، جس کو ادا کرنے کا مقصد جہاں روزے میں کوتاہی کا ازالہ ہے وہاں پر اس کا ایک اخلاقی پہلو غریبوں سے ہم دردی کرنا بھی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے روزہ داروں کی فضول و بے مقصد باتوں سے پاکیزگی کے لیے اور غریبوں کے کھانے کے لیے صدقۃ الفطر کو ضروری (واجب) قرار دیا۔

حج کا اخلاقی پہلو

حج جامع العبادات ہے یہ ایک مشقّت والی عبادت ہے جس میں اﷲ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے سب کچھ چھوڑ کر اﷲ کے در پر پڑا رہنا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس میں اخلاقی تربیت کے کئی پہلو ہیں۔ جس کی طرف قرآن کریم نے ان الفاظ سے راہ نمائی فرمائی ہے، مفہوم: ''جو شخص (حج کے) ان مہینوں میں حج کی نیّت کرے تو اسے اس بات کا مکمل خیال رکھنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے شہوانی گناہ، بدعملی اور لڑائی جھگڑے کی کوئی بات سرزد نہ ہو۔'' (سورۃ البقرۃ)

اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے محض اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لیے حج ادا کیا، اس دوران گناہوں سے بچتا رہا، وہ اپنے سابقہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کر لوٹے گا جیسے اس دن گناہوں سے پاک تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا۔''

اﷲ تعالیٰ عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
Load Next Story