بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

سہالہ یاترا

مصنف: آصف امین، قیمت:850 روپے، صفحات:264

ناشر:الف کتاب پبلی کیشنز، 1-Bوائٹ یاؤس لین2

سندر داس روڈ، لاہور(03218460220)



کتاب کے نام سے تو لگتا ہے شاید یہ کسی پولیس افسر نے اپنی ریٹائرمنٹ پر یادداستیں تحریر فرمائی ہیں ، مگر جب مصنف کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ان کی زندگی کا صرف ایک حصہ ہے، گویا انھوں نے یہاں پڑاؤ کیا اور اس دوران جو بیتا وہ بیان کر دیا گیا۔ مصنف تو بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں،ان کی زندگی کی کہانی صرف پولیس کے گرد نہیں گھومتی بلکہ ڈگریاں حاصل کرتے چلے گئے اور دوسرے شعبوں میں بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ یوں ان کی زندگی ناصرف تجربات سے بھرپور ہے بلکہ ادب سے باادب ہونے کی وجہ سے ان کے محسوسات بھی بہت گہرے ہیں ۔

سہالہ یاترا میں وہ اپنے تجربات قارئین کے ساتھ بانٹ رہے ہیں ۔ ان کا بے تکلفانہ انداز دل کو چھو لیتا ہے۔ گورنر پنجاب چودھری سرور کہتے ہیں'' سہالہ یاترا ، بے شک مصنف کے پولیس آفیسر بننے کے خوشگوار واقعات پر مبنی کتاب ہے لیکن ساتھ ہی پولیس اور عوام کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پر کرنے کی ایک نہایت عمدہ کاوش بھی ہے۔

مصنف نے کمال ہنر مندی سے پولیس افسران کو فرض شناسی اور عوام دوستی کا سبق دیا ہے ۔ محکمہ پولیس جہاں یہ کتاب پڑھ کر اپنے خوشگوار ماضی کو ضرور یاد کریں گے وہیں پر انھیں اپنے نسخے بھی جابجا ملیں گے جو محکمہ کی نیک نامی کے لیے کارگر ثابت ہوں گے۔'' اسی طرح سابق انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام کہتے ہیں '' سہالہ کی تربیت ، وہاں کے ماحول اور پولیس کی ثقافت پر یہ پہلی قلمی کاوش ہے جو یقیناً پولیس کے بارے میں لوگوں کے رویوں کو متاثر کرے گی ۔ آصف نے دل اور دماغ سے پولیس کی اپنی تربیت کے تمام تربیتی ، ثقافتی اور اخلاقی پہلوؤں پر خوبصورت پیرائے میں لکھا ہے ۔

یہ کتاب اردو ادب کا ایک سرمایہ بھی ثابت ہو گی کیونکہ ماضی کے پولیس آفیسر اور حاضر سروس ٹیکس آفیسر کی حساسیت یقیناً پڑھنے اور سمجھنے کے کئی در وا کرے گی۔'' مصنف کے قلم کی داد دینا پڑتی ہے کیونکہ تحریر کی چاشنی اور بذلہ سنجی قاری کو اپنے ساتھ چپکائے رکھتی ہے اور وہ پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ آخر میں رنگین تصاویر دی گئی ہیں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

1947 کا مسلم قتل عام

مصنف: ڈاکٹر سعید ملک، صفحات:449

ناشر:نظریہ پاکستان ٹرسٹ، شاہراہ قائد اعظم، لاہور



برصغیر کو تقسیم ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ، بھارت اس تقسیم کا حصہ ہونے اور تسلیم کرنے کے باوجود ابھی تک دل سے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، اسی لئے ہمارے ہندو ہمسایوں کو بار بار اکھنڈ بھارت کا دورہ پڑتا ہے ، اس کی ایک وجہ وہاں کی سیاست بھی ہو سکتی ہے کیونکہ بھارت کی بہت سی سیاسی جماعتوں نے عوام کا حق رائے دہی اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے ایسا ہی ڈھونگ رچایا ہوا ہے ، جس کے مضر اثرات انتہا پسندی کی صورت میں آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں۔

دوسرے مذاہب کے افراد جو کہ دل و جان سے ہندوستانی ہیں ہندو انھیں بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، وہ ہندوستان میں صرف ہندو کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ مصنف نے زیر تبصرہ کتاب میں تقسیم ہند کے بعد ہجرت کرنے والے مسلمانوں پر ٹوٹنے والی قیامت صغریٰ کی داستان بیان کی ہے۔ اور بڑے محققانہ انداز میں اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا ؟ مستند حوالہ جات کے ساتھ ہندوؤں او سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو بے نقاب کیا گیا ہے ۔ ورنہ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے دانشور بھی ہیں جو اس میں دونوں طرف کا قصور نکالتے ہیں ۔

سابق صدر مملکت محمد رفیق تارڑ کہتے ہیں '' اس کتاب کا مطالعہ ہماری نئی نسل کو تحریک پاکستان میں دی جانے والی قربانیوں اور مصائب سے آگاہ کرے گا اور ان میں اس عقابی روح کو بیدار کر دے گا جو تحریک پاکستان کا طرہ امتیاز تھی اور وہ نظریہ پاکستان کی مبلغ بن کر پاکستان کو علاقائی ، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے رہائی دلا کر وطن عزیز کی کشتی ساحل مراد تک پہنچائے گی ۔'' مسلمانوں کا جس بے دردی سے قتل عام کیا گیا۔

چشم دید واقعات پڑھنے سے قاری کا دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے، یقین ہی نہیں آتا ہے کہ صدیوں ساتھ رہنے والوں نے یہ مظالم ڈھائے ہوں گے مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ صدیوں ساتھ رہنے کے باوجود ہندوؤں نے مسلمانوں کو کبھی بھی اپنا ہم وطن نہ جانا ، جب مسلمانوں نے الگ وطن حاصل کر لیا تو ان کو ختم کرنے کی سازشیں کرنے لگے ۔ ہر پاکستانی کو اس کا ضرور مطالعی کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

مولانا گلزار احمد مظاہری ( زندگانی۔۔ جیل کہانی)

مصنف: ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، قیمت: 700 روپے، صفحات: 248

ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، والٹن روڈ

لاہور کینٹ، (03000515101)



روحانیت والے کہتے ہیں کہ ہر فرد کے گرد ایک مقناطیسی ہالہ ہوتا ہے جو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرتا اور کشش کا باعث ہوتا ہے، اسی کی وجہ ہر فرد کا حلقہ احباب چھوٹا یا بڑا ہوتا ہے۔ اگر مقناطیسی ہالہ زیادہ کشش رکھتا ہے تو اس سے زیادہ افراد متاثر ہوں گے اور اگر کمزور مقناطیس کی طرح اس کی کشش کم ہے تو اس کا حلقہ احباب بھی مختصر ہو گا ۔


اسی لئے کچھ ستاروں کی مانند چمکتے ہیں تو کچھ ماہتاب کی طرح دمکتے ہیں ۔ مولانا گلزار احمد مظاہری بھی ایسی ہی شخصیت تھے جو ماہتاب کی طرح چمکے اور ایک عالم کو منور کیا ۔ وہ نہ صرف دینی علوم میں گہرائی تک اترے ہوئے تھے بلکہ اسے آگے بیان کرنے میں بھی ید طولٰی رکھتے تھے اور ان کی فن خطابت کا ایک عالم مداح تھا ۔ ممتاز صحافی مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں '' یہ اس قاری کی کہانی ہے ، جو بخاری کے لہجے میں قرآن سنتا اور سناتا تھا، سننے والے اس پر سر دھنتے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سید مودودی کے رنگ میں قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے لگ گیا ۔

یہ اس خطیب کی کہانی ہے، جو اہل اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگا ، منصب ہاتھ سے دھونا پڑے ، زنداں کے دروازے کھل گئے لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔ یہ اس عالم کی کہانی ہے جو مسلمانوں کے مختلف مسالک اور فقہی مکاتب فکر کے درمیان پل بن گیا تھا ''۔ جماعت اسلامی کے مرکزی و فکری رہنما پروفیسر خورشید احمد کہتے ہیں '' 1964 ء میں جماعت اسلامی پر پابندی کے زمانے میں مجھے کئی ہفتے لاہور جیل میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا ، جہاں میں نے محسوس کیا کہ فقہی امور میں ان کی معلومات نہا یت وقیع ہیں ۔

اس زمانے میں یہ بھی احساس ہوا کہ ان کا صرف نام ہی گلزار نہیں، ان کی طبیعت بھی بڑی باغ و بہار تھی۔ خوش گفتاری ، سلیقے سے بات کہنا ، بہت نرمی اور متانت سے اختلاف رائے سننا ان کی شخصیت کا خاصہ تھا''۔ مظاہری صاحب کی شخصیت کے متعدد پہلو ہیں جن سے نئی نسل رہنمائی حاصل کر سکتی ہے، اس لئے نوجوانوں کو بالخصوص اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلدکتاب کو مظاہری صاحب کے عکس سے مزین کیا گیا ہے۔

وکٹ سے وکٹ تک: پاکستان کرکٹ کی تاریخ



پیٹر ایلن اوبورن کا شمار عالمی سطح پر ممتاز سمجھے جانے والے اُن صحافیوں میں ہوتا ہے جنہیں قابل اعتبار اور معتبر کی سند حاصل ہے۔ طویل عرصہ تک اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے ساتھ بطور سیاسی تجزیہ نگار اور صدر مبصر منسلک رہے۔ سال 2012ء اور 2016ء کے لئے بہترین کالم نگار کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ 2015ء میں ڈیلی ٹیلی گراف سے ناطہ توڑنے کے بعد بی بی سی ریڈیو چینل 4سے منسلک ہو گئے اور سیاسی مبصر کے طور پر شہرت حاصل کی۔

پیٹر اوبورن متنوع موضوعات پر ایک درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ کرکٹ ان کی خاص دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ پاکستان میں کرکٹ کے حوالے سے ان کی دو کتابیں Wounded Tiger اور White on Green کرکٹ کھیلنے والی اقوام میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں جبکہ جنوبی افریقہ میں کرکٹ کے ساتھ منسلک تنازعات کو انہوں نے کرکٹر بیسل ڈی اولیوئر کی سرگزشت کے ذریعے بیان کیا ہے۔ قصہ مختصر اس صحافی کے تعارف کے بہت سے حوالے ہیں جن کا احاطہ ایک کتاب کے تبصرے کے توسط سے ممکن نہیں۔ سردست ہم ان کی کتاب Wounded Tiger:

The history of cricket in Pakistan کے حال ہی میں شائع ہونے والے اُردو ترجمے پر مشتمل کتاب ''وکٹ سے وکٹ تک' پاکستان کرکٹ کی تاریخ'' پر بات کریں گے۔

اس کتاب کا ترجمہ نجم لطیف نے کیا ہے جن کا کرکٹ کے کھیل کے ساتھ تعلق ڈھکا چھپا نہیں۔ انہیں لاہور جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستان کا پہلا کرکٹ میوزیم قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہے جس کے منتظم کی حیثیت سے وہ تاحال خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب کو مرتب کرنے میں پیٹر اوبورن کو ان کا قریبی تعاون حاصل رہا جبکہ پیٹر اور رچرڈ ہیلر کی پاکستانی کرکٹ پر مشترکہ کتاب کے لئے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کرکٹ کے حوالے سے تفصیلی انٹرویو نجم لطیف نے کیا تھا۔ یوں پیٹر اوبورن کی کتاب کو اردو میں منتقل کرنے کے لئے نجم لطیف سے بہتر کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔

پاکستانی عوام کی کرکٹ کے ساتھ وابستگی وارفتگی کی حد کو پہنچی ہوئی ہے۔ لوگ کرکٹ کے لئے جذباتی ہیں۔ کرکٹ سے محبت ہر سطح پر مشترک ہے۔ کوئی طبقاتی تقسیم اس محبت کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔ پاکستان کی ٹیم اہم میچ میں پھنسی ہو تو پاکستان کے گھروں میں بزرگ مُصلحوں پر اور جوان دل تھام کر ٹیلی ویژن کے سامنے ہوتے ہیں۔ کرکٹ بجا طور پر ہر پاکستانی کی دل کی دھڑکن ہے۔

پاکستان کی کرکٹ نے اپنی تاریخ میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ بہت سے تنازعات نے پاکستانیوں کے دل دُکھائے اور شاندار فتوحات نے پاکستانیوں کو سرشار کیا، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس دلکش موضوع پر قلم اٹھانے کی توفیق بھی ایک غیرملکی کو ہوئی اور برطانیہ کے شہری پیٹر اوبورن نے اس موضوع پر شاندار کتاب تخلیق کی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس کتاب پر بالکل درست تبصرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ''کاش یہ کتاب کوئی پاکستانی لکھتا۔''

کتاب کے پورے بیانیے کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ 1947ء میں آزادی سے لے کر 1975ء تک کے دور کی کہانی بیان کرتا ہے۔ دوسرے حصے میں شامل ابواب کو ''خان کا دور'' کے عنوان کے تحت مرتب کیا گیا ہے جو 1976ء سے 1992ء تک کے عہد کی داستان سناتا ہے۔ اس کے بعد ''توسیع کا دور'' کے نام سے تیسرا حصہ ہے جو 1992ء سے 2000ء تک کا احاطہ کرتا ہے جبکہ آخر میں حصہ چہارم ہے جس کو ''تنہائی کا دور'' قرار دیا گیا ہے اور اس کا عرصہ 2001ء سے شروع ہو کر تاحال جاری ہے۔

کتاب میں انتہائی نایاب تصاویر بھی شامل ہیں۔ 653 صفحات پر مشتمل اس مُجلد کتاب کی پیشکش کا معیار شاندار ہے۔ ترجمہ سلیس اور رواں ہے اور درحقیقت ترجمہ محسوس نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کے لئے یہ کتاب بے پناہ دلچسپی اور کشش کا سامان رکھتی ہے جو لوگ انگریزی سمجھنے میںدقت کی بناء پر اردو پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں، یوں سمجھئے کہ اس کتاب کے صفحات ماضی کے وہ جھروکے ہیں جن سے جھانک کر ہم اپنی کرکٹ کو پھلتا پُھولتا اور پروان چڑھتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ کرکٹ سے پیار کرنے والے پاکستانیوں کے لئے یہ کتاب ایک تحفے سے کم نہیں۔ اسے جمہوری پبلی کیشنز 2 ایوان تجارت روڈ لاہور +92-42-36314140 نے شائع کیا ہے۔ قیمت 2400 روپے ہے۔

دی گریٹ لیڈر (جلد سوم)



بلاشبہ قائداعظم محمد علی جناح کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں اپنی قوم کی طرف سے دیو مالائی محبت اور عزت حاصل ہوئی ۔ عوام الناس کے ا جتماعی رویئے بلا وجہ نہیں ہوا کرتے۔ جب وہ کسی شخصیت پر اعتبار کرتے ہیں اور اسے خود اپنی رہنمائی کے لئے منتخب کرتے ہیں تو اس کے پیچھے ٹھوس اور منطقی وجہ ہوتی ہے۔ جس طرح نسل پرستی پر مبنی استحصال کی چکی میں پستے ہوئے جنوبی افریقہ کے سیاہ فام عوام کو نیلسن منڈیلا کے اخلاص اور عزم پر کامل یقین تھا اسی طرح برصغیر کے مسلمانوں کو بھی قائداعظم محمد علی جناح پر کامل بھروسہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے حقوق پر کسی قیمت پر بھی سودے بازی نہیں کریں گے۔

عظیم افریقی حریت پسند لیڈر نیلسن مینڈیلا نے پاکستانی سفارت کار رفعت مہدی سے ملاقات میں کہا تھا''میں نے اپنی جدوجہد آزادی کے لئے قوت محرکہ جناح سے حاصل کی ''۔

1992ء میں جب وہ پاکستان کے دورے پر آ رہے تھے تو انہیں سیدھا اسلام آباد پہنچنا تھا لیکن انہوں نے کہا ''میں اپنے ہیرو کے حضور تعظیم بجا لائے بغیر پاکستان میں کیسے داخل ہو سکتا ہوں''۔ وہ پہلے کراچی اُترے، مزار قائد پر حاضری دی اور پھر دورہ پاکستان کا آغاز کیا۔ آزادی کے راستے پر اپنی اقوام کی راہنمائی کی تاریخ میں یہ ہے ہمارے قائداعظم کا مقام و مرتبہ۔ ایسی شخصیات کی ایک اور اہم نشانی یہ ہوا کرتی ہے کہ جیسے انہیں اپنی قوم کی جانب سے وسیع پیمانے پر محبوبیت حاصل ہوتی ہے وہیں ان کے نظریاتی دشمن ان کی مخالفت میں تمام اخلاقی حدود کو پامال کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔

اسی لئے قائداعظم کو اپنے مسلمان ''بھائیوں'' ہی کی جانب سے کانگریس سے کہیں زیادہ شدید نفرت اورمخالفت بلکہ تشددکا سامنا کرنا پڑا۔ یہ نفرت اس قدر وحشیانہ تھی کہ قائداعظم تقسیم سے پہلے قاتلانہ حملے کا نشانے بنے جبکہ ہندوؤں کے رہنما گاندھی جی محض اس لئے قتل کردیئے گئے کہ وہ برصغیر کے اثاثوں میں پاکستان کا جائز حصہ اسے دینے پر اصرار کر رہے تھے۔ قائداعظم وہ ہستی ہیں کہ بعض ''دانشوروں '' نے تو اپنی زندگی قائداعظم کو ولن ثابت کرنے کی تحقیق کے لئے وقف کر دی لیکن رب تعالیٰ نے قائداعظم کی عزت و ناموس کی حفاظت فرمائی۔

منیر احمد منیر پاکستان کے وہ ممتاز صحافی اور دانشور ہیں جنہوںنے قائداعظم پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات' سوالات اور تہمتوں کا جواب دینے کا محاذ سنبھال رکھا ہے۔ انہوں نے 2011ء میں دی گریٹ لیڈر کے نام سے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا جس کی دوسری جلد 2012 میں شائع ہوئی لیکن اس کے بعد کچھ برس تک وقفہ رہا جس کی وجوہات انہوں نے اس سلسلے کی تیسری جلد کے پیش لفظ میں بیان کر دی ہیں جو اب شائع ہو چکی ہے۔



منیر احمدمنیر کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ انہوں نے بڑی عرق ریزی' انتھک تحقیق و جستجو سے کام لیتے ہوئے قائداعظم کے بارے میں معلومات کی تصدیق و تردید کی خدمت انجام دی ہے۔ قائداعظم کے حوالے سے نایاب و نادر تصاویر اور دستاویزات کی نقول جمع کی ہیں۔

بہت سی بظاہر گمنا م شخصیات کا کھوج لگا کر انہیں متعارف کرایا اور بہت سی ایسی شخصیات کے انٹرویو کئے جو قائداعظم سے متعلق مصدقہ اطلاعات فراہم کر سکتے تھے۔ ان کی مرتب کردہ تیسری جلد میں کرنل (ر) محمدسلیم، میاں محمد صدیق اور ڈاکٹر ضیا السلام کے انٹرویوز کے علاوہ بہت سی نایاب تصاویر شامل ہیں۔ ان کی یہ کتابیں بجا طور پر تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں، جنہیں ہر سچے پاکستانی کے پاس موجود ہونا چاہئے۔

اس مجلد کتاب کی پیشکش کا انداز بہت اچھا ہے، جسے آتش فشاں پبلشرز 78ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور 0333-4332920نے شائع کیا ہے۔ قیمت 700روپے ہے۔
Load Next Story