برطانیہ کی غیر انسانی پالیسی

پاکستان میں برطانیہ کی طرح کمیونٹی کی بنیاد پر بوڑھوں کی نگہداشت کی سہولت نہیں۔

tauceeph@gmail.com

ڈاکٹر عرفان اختر برطانیہ کے علاقہEast Midlands میں پریکٹس کرتے ہیں۔ ان کی والدہ برطانیہ کی تربیت یافتہ بچوں کی ڈاکٹر ہیں۔ انھوں نے برطانیہ میں پریکٹس کی، اپنی ریٹائرمنٹ کے ابتدائی سال پاکستان میں گزارے مگر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل بڑھنے لگے۔

پاکستان میں برطانیہ کی طرح کمیونٹی کی بنیاد پر بوڑھوں کی نگہداشت کی سہولت نہیں۔ ڈاکٹر اخترکی والدہ کو Dimentia کا مرض لاحق ہوگا۔ ڈاکٹر عرفان اس صورتحال میں اس نتیجہ پر پہنچے کہ اپنی والدہ کو برطانیہ بلایا جائے اور وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ وہیں زندگی گزاریں اور والدہ کا برطانیہ میں پرائیوٹ اسپتال میں علاج کرایا جائے۔

ڈاکٹر عرفان اختر مالیاتی طور پرآسودہ ہیں۔ انھوں نے اپنی والدہ کو برطانیہ لانے کے لیے عرض داشت داخل کی مگر ہوم آفس نے یہ درخواست مسترد کردی۔ ڈاکٹر اختر نے ہوم آفس کے اس فیصلہ کو چیلنج کیا، یوں دو سال کی قانونی جنگ ہوئی اور آخرکار ڈاکٹر عرفان اپنی والدہ کو لانے میں کامیاب ہوئے۔ مگر ڈاکٹر عرفان چند خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھیں اس جنگ میں کامیابی حاصل ہوئی۔

بھارتی نژاد چائلڈ سائیکولوجسٹ Nishchint Wariko D.rایک سال قبل ایسی ہی صورتحال سے گزرے۔ وہ برسوں سے برطانیہ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ انھیں 2014ء میں برطانیہ کی نیشنلٹی ملی۔ ڈاکٹر وریکوکو مہینوں کی قانونی جنگ کے بعد والدہ کو برطانیہ بلانے کی اجازت ملی۔ ڈاکٹر وریکو سخت مایوس ہیں۔

وہ سوچ رہے ہیں کہ امریکا یا آسٹریلیا منتقل ہوجائیں جہاں والدین کو بلانے کے بارے میں قوانین خاصے نرم ہیں۔ ڈاکٹر عرفان اختر اپنی عدالتی جنگ کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے عدالت میں اپنی مالیاتی مستحکم حیثیت کا سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا تو معزز جج صاحب نے اس سرٹیفکیٹ کو دیکھ کر کہا کہ اگر مالیاتی حیثیت سے مستحکم ہیں تو پھر اپنی والدہ کے لیے پاکستان میں مکان کیوں نہیں خریدتے۔ ڈاکٹر اخترکا کہنا ہے کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ بوڑھے والدین کو برطانیہ بلانے سے برطانوی شہریوں کے ٹیکس کا حصہ ان پر خرچ ہوگا، یوں برطانیہ کی معیشت پر بوجھ بڑھ جائے گا۔

ڈاکٹر عرفان اختر نے اس صورتحال کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں پریکٹس کرنے والے پاکستانی اور بھارتی بیشتر ڈاکٹر خوشحال ہیں اور یہ برطانوی شہریوں کی خدمت کررہے ہیں۔ وہ برطانیہ کی معیشت پر بوجھ نہیں ہیں۔ ڈاکٹر عرفان اختر اپنی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہEast Midland میں ایک یا دوConsultant Endocrine Surgeon ہیں اور وہ اگر برطانیہ سے چلے گئے تو نقصان برطانوی شہریوں کا ہوگا۔


برطانیہ کے 2012میں نافذ کیے گئے امیگریشن قوانین کے تحت برطانوی شہری اپنے والدین کو برطانیہ بلاسکتے تھے مگر 2016ء میں برطانیہ کے ہوم آفس نے Rules of the Adult Dependent Relatives نافذ کیے۔ ان نئے قواعد و ضوابط کے تحت والدین کو برطانیہ بلانے پر نئی پابندیاں عائد ہوئیں۔ برطانیہ میں 2012میں 2 ہزار سے زائد درخواستیں والدین کو برطانیہ بلانے کے لیے دائر کی جاتی ہیں مگر ان درخواستوں میں کمی ہوئی ہے اور اب مکمل طور پر پاکستانی اور بھارتی نژاد شہریوں کو بوڑھے والدین کو اپنے پاس بلانا مشکل ہوگیا ہے اور 2016 میں ان کی تعداد صرف 162 ہوگئی ہے۔

برطانیہ میں کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستان فزیشن، رائل کالج آف فزیشن اور دیگر تنظیموں کے عہدیداروں نے برطانیہ کی وزیر داخلہ پریٹی پٹیل Priti Patel کو ایک خط تحریرکیا ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ برطانوی شہریوں کے بوڑھے والدین کو برطانیہبلانے پرکئی پابندیوں سے بہت سے سماجی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ان کا مدعا ہے کہ ان پابندیوں سے ایک طرف والدین کی نگہداشت نہیں ہوپارہی ہے اور دوسری طرف برطانیہ میں مقیم پاکستانی بھارتی نژاد شہری اور ان کے اہل خانہ شدید نفسیاتی دباؤکا شکار ہیں۔

ان تنظیموں کے رہنماؤں نے اس مشترکہ خط میں کہا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی ڈاکٹروں نے جنرل پریکٹشنرز اور کنسلٹنٹس کی حیثیت سے کووڈ 19 کی وباء میں زبرست خدمات انجام دی ہیں اور یہ ڈاکٹر اب بھی اس وائرس کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ اس خط میں برطانیہ کی حکومت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ان قواعد کے مستقل نفاذ کی بنیاد پر بوڑھے رشتہ داروں اور بچوں سے مستقل علیحدگی کے خدشات بڑھنے جارہے ہیں۔ ان تنظیموں میں سے ایک تنظیم کے صدر ڈاکٹر سدھوکا کہنا ہے کہ ان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ کئی ڈاکٹروں نے برطانیہ چھوڑنے اور امریکا اور آسٹریلیا میں مستقل آباد ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈاکٹر سدھو اپنے اوپرگزرنے والی روداد یوں سناتے ہیں کہ وہ رات بھر اپنا ٹیلی فون کھلے رکھتے ہیں کہ اچانک والدین کے بارے میں کوئی خبر نہ آجائے اور کبھی کبھار میری رات کے آخری پہر میں اچانک آنکھ کھل جاتی ہے اور میں یہ سوچنے لگتا ہوں کہ یہ Status Quoکب ختم ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ہمارے بچے برطانیہ میں پیدا ہورہے ہیں اور یہیں تعلیم حاصل کررہے ہیں جب کہ کچھ روزگار سے لگ گئے ہیں۔ اب ہم واپسی نہیں چاہتے مگر ہمیں اپنے والدین کو بلانے کا حق ہونا چاہیے۔ اب British Association of physician of Indian origin اور Association of Pakistan Physicians نے اور Pakistan Physicians of North Europe نے ان قواعد و ضوابط کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

برطانیہ میں صحت کے نظام میں پاکستانی اور بھارتی نژاد ڈاکٹروں کا ایک اہم کردار ہے۔ ڈاکٹروں نے کووڈ 19 کی وباء میں اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا ہے اورکئی ڈاکٹر اس جنگ میں اپنی زندگی ہارگئے ہیں۔ یہ ڈاکٹرز اپنی معاشی خوشحالی کی بناء پر برطانیہ کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں مگر پاکستانی ڈاکٹر ، انجنیئر اور پروفیشنل وکلاء، تاجر، اساتذہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امیگریشن قواعد و ضوابط کے تحت ایک غیر انسانی پابندی سے ان پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی اور بھارتی معاشرہ میں والدین کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

بچوں کے لیے والدین کو آخری عمر میں اکیلا چھوڑنا اور ان کی نگہداشت نہ کرنا ابھی تک ایک سماجی جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ برطانیہ کی حکومت کو اس انسانی مسئلہ کی نزاکت کو محسوس کرنا چاہیے۔ پاکستانی اور بھارتی حکومتیں برطانیہ میں مقیم اپنے مخالفین کو سزا دینے یا برطانیہ سے نکلوانے کے لیے کوششیں کرتی ہیں۔ اب دونوں حکومتوں کو اس غیرقانونی اور غیر انسانی پابندی کے خاتمہ کے لیے برطانوی حکومت سے رابطہ کرنا چاہیے۔ برطانیہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کو اس مؤقف کی حمایت کرنی چاہیے۔ والدین کا اولاد کے ساتھ رہنا بنیادی حق ہے۔ برطانیہ کی حکومت کو والدین اور بچوں کو اس حق سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔
Load Next Story