کرکٹ کے طوفان نے پاکستان کا رخ کرلیا

پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کا آغاز آج سے ہورہا ہے۔

پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کا آغاز آج سے ہورہا ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:

پاکستان سپرلیگ ایک بار پھر ملک کی رونق کو چار چاند لگانے کیلیے تیار ہے، چھٹے ایڈیشن کا آغاز آج سے ہورہا ہے۔


گذشتہ برس کی طرح اس بار بھی تمام تر میچز پاکستان میں کھیلے جائیں گے تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ملک کے اندر اس لیگ کی سرگرمیوں کو محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں 6 ٹیموں کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑے گی جس کے بعد کرکٹ کا یہ طوفان لاہور کا رخ کرے گا۔

کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ بھی بہت زیادہ احتیاط سے کام لے رہا ہے اور اس حوالے سے ایس او پیز بھی جاری کیے جا چکے ہیں، شائقین کیلیے ماسک لازمی قرار دیا گیا ہے۔ سوشل ڈسٹنس کو یقینی بنانے کیلیے اسٹیڈیم کی گنجائش کے صرف 20 فیصد کراؤڈ کو ہی اجازت دی جا رہی ہے تاہم میچز جب اگلے راؤنڈ میں پہنچیں گے تو یہ تعداد بڑھائے جانے کی امید ہے۔

گذشتہ ایک سال سے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیے جانے والے اس وائرس کی وجہ سے پاکستانی عوام بھی بہت سی مشکلات کا شکار ہیں مگر یہ لیگ ان کے چہروں پر مسکراہٹ لانے میں اہم کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ ایک دہائی تک ملک میں انٹرنیشنل میچزکو ترسنے والے شائقین اپنے ہوم گراؤنڈز پر نہ صرف مقامی اسٹارز بلکہ غیرملکی کھلاڑیوں کے بھرپورکرکٹ ایکشن سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔

ایونٹ میں شریک تمام 6 ٹیمیں اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کو بے تاب ہیں، کوئی اپنی بیٹنگ پر اترا رہی ہے تو کسی کو بولنگ پر ناز ہے، کوئی نامی گرامی غیرملکی کھلاڑیوں سے توقعات باندھے ہوئے ہے تو کوئی اپنے مقامی اسٹارز کے ہی جگمگانے کیلیے پْراعتماد ہے، کسی کے پاس اچھے ہارڈ ہٹرز ہیں تو کسی کووکٹ بچانے کے ساتھ اسکور بورڈ کو متحرک رکھنے والے 'ذہین' بیٹسمینوں کا ساتھ حاصل ہے، کسی کے پاس اچھے فنشر ہیں تو کوئی چند گیندوں میں گیم کو 'آر یا پار' لگانے والے شاہسوار کی حامل ٹیم ہے، کوئی اسکواڈ باصلاحیت اسپنرز کی گھومتی گیندوں سے حریف بیٹنگ لائن پر سکتہ طاری ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے تو کوئی اسپیڈ گنز سے مدمقابل کے بخیے ادھیڑنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔

کراچی کنگز ٹائٹل کے دفاع کیلیے مورچہ بند ہوگی،لاہور قلندرز کا گذشتہ سیزن کے فائنل میں شکست کا غم ابھی تک تازہ ہے، لیگ مرحلے کا ٹاپ پوزیشن پر اختتام کرنے والے ملتان سلطانز سے ایونٹ کے اختتام پر ملنے والی تیسری پوزیشن ہضم نہیں ہورہی، پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز گذشتہ ایونٹ کی اپنی چوتھی اور پانچویں پوزیشن کی خفت مٹانے کیلیے بے چین ہیں جبکہ سب سے زیادہ 2 ایڈیشن جیتنے والی اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم بھی ٹورنامنٹ میں چھٹی پوزیشن پانے کا غم کم کرنا چاہتی ہے۔


اگر ہم اب تک کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو گذشتہ پانچوں ایڈیشنز میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین کامران اکمل اور سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر وہاب ریاض کا تعلق پشاور زلمی سے ہے، کامران نے 56 میچز میں 29 کی اوسط سے 1537 رنز بنائے، جس میں 3 سنچریاں اور 9 ففٹیز شامل ہیں۔

اسی طرح وہاب ریاض نے 55 میچز میں 18.71 کی اوسط سے 76 وکٹیں لی ہیں۔ دونوں شروع سے ہی زلمی فیملی کا حصہ ہیں، ٹیم کا کنٹرول وہاب ریاض کے ہاتھوں میں ہوگا، پی ایس ایل کے ٹاپ اسکوررز میں چوتھے نمبر پر موجود شعیب ملک بھی اسی ٹیم کا حصہ ہیں، انھوں نے 1127 رنز اسکور کیے تاہم وہ کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کی بھی نمائندگی کرچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹاپ وکٹ ٹیکرز میں 59 شکار کے ساتھ دوسرے نمبر پر موجود حسن علی بھی اسی ٹیم کا حصہ تھے مگر انھیں ریلیز کردیا گیا، انھوں نے حال ہی میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز میں عمدہ کارکردگی سے اپنی بھرپور فارم کا ثبوت دیا ہے۔

ملتان سلطانز نے پروٹیز سے سیریز میں رنز کے انبار لگانے والے ان فارم وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کی فارم کو دیکھتے ہوئے آخری لمحات میں انھیں اپنی ٹیم کا کپتان مقرر کردیا، گذشتہ سیزن میں ٹیم کی باگ ڈور شان مسعود کے ہاتھوں میں تھی۔ ملتان سلطانز کو جہاں رضوان سے اچھی کارکردگی کی توقع ہوگی وہیں پر کرس لین بھی امیدوں کا محور ہوں گے، شاہد آفریدی بھی اسی ٹیم کا حصہ اور وہ حال ہی میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ ان میں بدستور شائقین کو محظوظ کرنے کیلیے دم خم موجود ہے۔

سرفراز احمد پر مسلسل چھٹے برس بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اعتماد برقرار رکھا ہے، سابق قومی کپتان کے پاس بھی پی ایس ایل کی صورت میں اپنی فارم ثابت کرنے کا بہترین موقع ہوگا، ان کی قیادت میں گلیڈی ایٹرز ایک بار ٹائٹل جیت چکے جبکہ 2 مرتبہ رنر اپ رہے،اس بار انھیں اپنے قابل اعتماد ساتھی شین واٹسن کی خدمات حاصل نہیں ہیں مگر کرس گیل، بین کٹنگ، فاف ڈوپلیسی اور ڈیل اسٹین جیسے غیرملکی اسٹارز سے بڑی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔

پی ایس ایل کے آغاز سے چوتھے ایڈیشن تک ابتدائی راؤنڈ تک محدود رہنے والے لاہور قلندرز گذشتہ برس سب کو حیران کرتے ہوئے فائنل تک پہنچے تھے مگر فنشنگ لائن عبور کرنے میں ناکام رہے، ٹیم کی قیادت اس بار بھی سہیل اختر کے ہی پاس ہے، مگرمقامی اسٹار محمد حفیظ جہاں ٹیم کی توقعات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوں گے وہیں پر بین ڈنک بھی ایک بار پھر سے ماحول گرمانے کو موجود ہیں۔ فخر زمان بھی اپنی کھوئی ہوئی فارم کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ قلندرز کو اپنے نوجوان فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی سے بھی بڑی امیدیں ہیں،اسی لیے انھیں نائب کپتان مقرر کیا جا چکا،راشد خان بھی اپنے اسپن کمالات دکھانے کو دستیاب ہوں گے۔

کراچی کنگز نے ٹیم میں پی ایس ایل کے دوسرے کامیاب ترین بیٹسمین اور تینوں فارمیٹ میں قومی ٹیم کی قیادت کرنے والے بابر اعظم کی موجودگی کے باوجود عماد وسیم پر ہی اعتماد برقرار رکھا ہوا ہے، ڈینیئل کرسٹیان، کولن انگرام کی صورت میں غیرملکی اسٹارز بھی ٹیم کا حصہ ہیں، محمد عامر کیلیے یہ ایڈیشن ویسے ہی کافی خاص ہے جہاں وہ ٹیم کی کامیابیوں میں حصہ ڈالنے کو تیار ہیں، وہیں پر اپنے کچھ'دیدہ اور نادیدہ' ناقدین کو کارکردگی سے جواب دینے کا بھی ارادہ رکھتے ہوں گے۔

شاداب خان اسلام آباد یونائیٹڈ کی کپتانی سے ایک بار پھر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کی کوشش کریں گے، انھیں اپنے گہرے دوست حسن علی کا بھی ساتھ حاصل ہے، دونوں دوست اسپن اور پیس اٹیک کی ذمہ داری سنبھالیں گے جبکہ بیٹنگ کے محاذ پر الیکس ہیلز جیسے اوپنرموجود ہیں۔ تمام ٹیمیں بظاہر مضبوط دکھائی دیتی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ 22 مارچ کو ٹرافی کون سا کپتان اپنے ہاتھوں میں تھامے گا۔
Load Next Story