برس کے برس جاتے برس کی آخری شام

اس کا اپنا جادو ہے اور اگر یہ شام ضیا محی الدین کی دید شنید میں گزاری جائے تو یہ جادو اور

rmvsyndlcate@gmail.com

اس کا اپنا جادو ہے اور اگر یہ شام ضیا محی الدین کی دید شنید میں گزاری جائے تو یہ جادو اور چمک اٹھتا ہے۔ سو یوں رنگا رنگ ثقافتی تقریبوں میں ہمارا جانا آنا لازم نہیں رہا مگر ضیا محی الدین کی اس سالانہ تقریب میں ہمارا جانا لازم ٹھہر گیا ہے۔ نمازی کی نماز قضا ہو جائے ہماری یہ نماز قضا نہیں ہوتی۔ اب تک تو نہیں ہوئی ہے۔ آگے کا معاملہ زیست کی شرط پر موقوف ہے۔ ارے ہمارے لیے تو اس کی وہی حیثیت ہے جو کسی بھلے زمانے میں شرفائے لکھنو کے لیے آٹھوں کے میلے کی تھی اور میر غفر غینی بھلا کیسے ناغہ کرتے۔ جو روشن چہرے سال میں کہیں نظر نہ آتے ان کی دید اس میلہ میں ہو جاتی تھی۔

ہاں اور اب کے تو آٹھوں کے اس میلہ کا ایک امتیاز اور بھی تھا۔ مگر اس سے پہلے یہ بھی تو سن لیجیے کہ یہ شام کس حساب سے اپنا امتیاز رکھتی ہے۔ ارے میڈیا کے ہاتھ اردو زبان آدھا تیتر آدھا بٹیر بن چکی ہے اور میڈیا پر موقوف نہیں کچے پکے لکھنے والے بیسٹ سیلر بننے کے شوق میں کس روانی سے لکھتے ہیں کہ صحیح غلط کے قاعدوں کو لب و لہجہ کے آداب کو روندتے چلے جاتے ہیں۔ ادھر ضیا محی الدین کی تقریب کو اردو زبان کے سالانہ غسل کی تقریب سمجھو۔ اچھی نظم اچھی نثر کچھ پرانی کچھ نئی اس کے شائستہ لہجوں کے ساتھ سنو کہ دل باغ باغ ہو جائے۔ شاعری ہو یا نثر ہو اگر پڑھنے والا اس کے لہجہ کو نہ پکڑ پائے اور سنانے والا اس کی نفیس و نازک مقامات کو خاطر میں لائے بغیر رواں نظر آئے تو سمجھ لیجیے کہ اس نظم و نثر کا ذائقہ غتر بود ہو گیا۔ شاعری ہو یا نثر اس کی خواندگی یا جسے انگریزی میں recitation کہتے ہیں اس میں کمال دکھانا یہ بھی تو ایک فن ہے۔ اس فن پر ہمارے یہاں توجہ کم کم رہی ہے۔ میر انیسؔ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی مرثیہ نگاری برحق مگر مرثیہ خواں بھی قیامت کے تھے کہ ادائیگی کے ساتھ بیان کردہ منظر کی تصویر آنکھوں میں پھر جاتی تھی۔ ہمارے زمانے میں ہر پھر کر اس فن کے ذیل میں نظریں ضیا محی الدین پر جا کر ٹھہر جاتی ہیں۔ اور ہاں یہ جو نئی شاعری ہے۔ خاص طور پر نظم آزاد کس طور پڑھا جائے۔ یہی ابھی ہماری سمجھ میں نہیں آیا ہے۔ ضیا محی الدین جب راشد یا فیض یا میرا جی کو سناتے ہیں تب پتہ چلتا ہے کہ نظم آزاد کو یوں پڑھا جاتا ہے اور تب اس کے معنی کھلتے ہیں۔

ہاں تو اس مرتبہ اس شام کا امتیاز یہ تھا کہ وہ ڈاکٹر دائود رہبر کے نام لکھی گئی تھی۔ دائود رہبر گزر گئے ہیں تو اب ہمیں یاد آ رہا ہے کہ انھوں نے اپنی نثر میں کس کس رنگ کے مضمون باندھے ہیں اور کس کس رنگ میں کیا کیا جادو جگایا ہے۔ انھوں نے علمی مضامین سے لے کر مکتوب نگاری تک کیا کیا کچھ لکھا ہے اور کیسا کیسا سماں باندھا ہے۔ علما فضلا کا بات کرنے کا علمی مسائل کو بیان کرنے کا اپنا ڈھنگ چلا آتا ہے۔ بعض بعض کا تو اتنا عالمانہ انداز ہوتا ہے کہ لکھیں موسیٰ پڑھیں عیسیٰ مگر جو عالمانہ مضامین کو سہل بنا کر لکھتے ہیں ان کی نثر بھی ضرورت سے زیادہ ہی ثقہ ہوتی ہے۔ وہ ان کی علمی مجبوری ہوتی ہے۔ خط بھی لکھتے ہیں تو یہ مجبوری قائم رہتی ہے۔ مگر دائود رہبر نے اپنے علمی مضامین میں بھی نثر ایسی لکھی ہے کہ جسے کہتے ہیں کہ نثر کو پانی کر دیا۔

بیان دائود رہبر کا اور خواندگی ضیا محی الدین کی۔ داد ایسے مل رہی تھی جیسے یہ نثر نہ ہو چمکتے دمکتے شعر ہوں ان پر داد دی جا رہی ہے۔ اور ہاں دائود رہبر دوستوں کو خط بھی تو بہت لکھتے تھے۔ نثر نگاری کا چسکا وہاں بھی نہ چھوٹا۔ مکتوب نگاری کے معاملہ میں تو سب سے پہلے غالبؔ نے اپنا ہنر دکھایا اور بتایا کہ خط ایسے لکھا کرتے ہیں۔ خط کیا لکھتے تھے بس سمجھو کہ دور سے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ پھر اردو میں کتنوں نے اس انداز بیان کو اپنانے کی کوشش کی لیکن نہ ہوا پر نہ ہوا غالبؔ کا انداز نصیب ہر چند کہ یاروں نے زور بہت مارا۔ ہاں لگتا ہے کہ دائود رہبر نے ان خطوط کو گھول کر پی لیا تھا۔ ان کے یہاں واقعی بقول مولانا حالیؔ مراسلہ مکالمہ بنتا نظر آتا ہے۔ ان تحریروں پر تو داد ملنی کوئی عجب بات نہیں۔ مگر انھوں نے تو علمی معاملات بھی اس طرح زیر بحث لائے ہیں کہ علمی بیان نے ان کی نثر میں حل ہو کر باتوں کا رنگ اختیار کر لیا ہے۔ اور ذرا انکساری ملاحظہ فرمائیے۔ اسلامی کلچر' ہندو کلچر' چینی کلچر' مسیحی کلچر' بدھ کلچر سب پر سیر حاصل گفتگو کی اور آخر میں معذرت کر رہے ہیں ''کاش کہ اس تحقیق کی ہمت ہوتی کہ کلچر بنتا کیسے ہے اور بدلتا کیسے ہے اور پھر بگڑتا کیسے ہے اور ہمارے زمانے میں کلچر کی کھچڑی جابجا کیسے پک رہی ہے اور کلچر کے دودھ کیسے پھٹ رہے ہیں''۔

یہ کہتے کہتے بتانا شروع کرتے ہیں کہ ''جھاڑی کو قینچی سے کاٹ چھانٹ کر اس کی صورت بنانا کلچر ہے۔ پھل یا پھول کو پیوندی کرنا' بال تراش کر ترچھی مانگ نکالنا' داڑھی' مونچھ مونڈھ کر اپنی صورت بدلنا' اون اور روئی کو کات کر اس کے دھاگوں سے کپڑا بُننا اور اس کا لباس بنانا' آرام کے لیے تکیے اور گدے بنانا' دودھ سے دہی مکھن اور پنیر بنانا گنے کے رس سے شکر اور شکر سے مٹھائی تیار کرنا' پتھر کو تراش کر صنم کی صورت دینا' مٹی کو پکا کر برتن اور اینٹ بنانا' عمارت کھڑی کرنا' سڑک تیار کرنا' یہ ساری باتیں کلچر ہی تو ہیں''۔

علمی بحث کو علم کی سطح سے اتار کر روز مرہ کی سطح پر لانا اور جانی بوجھی چیزوں کی مثالیں دے کر بات کو سمجھانا' یہ تھا ہنر دائود رہبر کا۔ تو پھر اس ہنر پر داد تو انھیں ملنی ہی تھی۔ لکھنے والے کا ہنر' اور پھر سنانے والے کا اپنا ہنر۔ سونے پر سہاگہ۔

اب سہاگہ بنانے والے نے اپنی تحریر میں جو ہنر دکھایا اس کی بھی سن لیجیے۔ آخر میں حق دوستی اپنی طرف سے کچھ لکھ کر بھی تو ادا کرنا تھا۔ ضیا محی الدین کا سارا زور خواندگی کے فن پر ہے۔ اسی میں انھوں نے امتیاز حاصل کیا ہے مگر پتہ چلا کہ لکھنے کے ہنر میں بھی ہیٹے نہیں ہیں۔


دائود رہبر سے کوئی آج کی دوستی تو نہیں تھی۔ بچپن سے لے کر اب تک کی' یعنی اس وقت سے جب دائود رہبر نئے نئے کالج میں داخل ہوئے تھے اور میں اسکول میں پڑھتا تھا اور ملائی کی برف بیچنے والوں کا ادھار کھاتا تھا۔ جھاڑی تلے بیٹھ کر میں ٹوٹا پھوٹا طبلہ بجاتا اور یہ دیشکار اور پوریادھنا سری کی مشق کرتے تھے''۔

پوریا دھنا سری کی مشق کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ تیزی سے علم و فضل کے مراحل طے کیے۔ ابھی قد نکالا ہی تھا کہ محققوں عالموں کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ حافظ محمود شیرانی' مولوی عبدالحق' سید ہاشمی فرید آبادی' مولوی محمد شفیع وغیرہ تو گھر کی مرغی تھے۔ چٹنی اور مربہ ان کو چوہدری ظفر اللہ خاں اور حفیظ جالندھری ایسی ہستیوں سے ملا''۔

موسیقی کا معاملہ یہ ہے کہ فلسفیانہ اور علمی کتابیں جب بہت لکھ چکے تو ایک کتاب سریلی بانسری لکھی جس میں انھوں نے سو راگوں کی تشریحیں کی ہیں اور ستر مرغوب راگوں کی بندشیں بنائی ہیں۔ خیال بلیا بلاول میں ان کی ایک بندش؎

دان دیا تو دانہ برابر

کیسے سخی ہو جی

اتنا تو دیتے مہاراج

جس میں ہمارا

ایک مہینہ رہتا سکھی
Load Next Story